ہماری عوام، حکمران اور حالیہ دہشتگردانہ واقعات
تحریر: ایس ایم شاہ 20 کروڑ کی آبادی پر مشتمل مملکت خداداد پاکستان کے ہر باسی کا یہ دعویٰ ہے کہ میں محب وطن اور اس ملک کے لئے تن من دھن کی قربانی دینے کے لئے آمادہ ہوں۔ یہ ایک نیچرل بات ہے کہ مختلف افراد مختلف جگہوں پر آباد ہیں۔ کوئی شہر میں […]

تحریر: ایس ایم شاہ
20 کروڑ کی آبادی پر مشتمل مملکت خداداد پاکستان کے ہر باسی کا یہ دعویٰ ہے کہ میں محب وطن اور اس ملک کے لئے تن من دھن کی قربانی دینے کے لئے آمادہ ہوں۔ یہ ایک نیچرل بات ہے کہ مختلف افراد مختلف جگہوں پر آباد ہیں۔ کوئی شہر میں رہتا ہے تو کوئی دیہات میں۔ کوئی میدانی علاقے میں آباد ہے تو کوئی پہاڑی علاقے میں زندگی گزار رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر مختلف اسلامی فرقے بھی آباد ہیں۔ کوئی شیعہ ہے تو کوئی سنی ہے۔ سنیوں میں بھی کوئی شافعی ہے کوئی مالکی تو کوئی حنفی وغیرہ۔ لیکن سب میں دو چیزیں مشترک ہیں، ایک مسلمان ہونا اور دوسرا پاکستانی ہونا۔ ہم عوام تو ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ زندگی گزارتے ہیں، مشترک لین دین کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ ہم نے مختلف ممالک دیکھے ہیں، لیکن جتنی انسانی ہمدردی ہم نے اپنے ملک میں دیکھی، ایسی ہمدردی کی مثال نہیں کہیں نہیں پائی۔ جب کبھی کہیں کوئی ٹریفک حادثہ ہوتا ہے تو بعض ملکوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ تماشائی بنے ان زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، تاکہ پولیس آکر ان کو اٹھا لے جائے، جبکہ ہمارے ملک کے کسی بھی حصے میں خدانخواستہ اگر ایسا حادثہ رونما ہو تو جو بھی موقع پر پہنچتا ہے، فوراً ان زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچاتا ہے۔ وہاں پر کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ زخمی مسلمان ہے یا کافر۔ پنجابی ہے یا پٹھان وغیرہ۔ وہاں ان کے ساتھ انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
لیکن ہماری بدقسمتی سے اکثر ہمارا واسطہ کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ رہا ہے۔ جو تمام تر ملکی مفادات میں اتحاد و اتفاق کی تلقین کرنے کی بجائے عوام میں لسانی اور مسلکی تفریق ایجاد کرتے ہیں۔ اپنے صوبے والوں اور اپنے ہم مسلک افراد کو سب کچھ اور باقیوں کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ جس سے لوگوں میں احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں ایسے حکمران درحقیقت پاکستان کے مفاد میں کام نہیں بلکہ بیرونی ایجنڈے کو فالو کر رہے ہوتے ہیں۔ موجودہ حکمران اس حوالے سے سب سے آگے ہیں۔ جب سے موجودہ حکمران بر سراقتدار آئے ہیں، اس کے بعد سے دن بدن مذہبی تنگ نظری اور شدت پسندی میں اضافہ اور طبقانی نظام میں استحکام آتا جا رہا ہے۔ بڑے شد و مد سے غریبوں کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ احساس محرومی میں اضافہ اور پرامید زندگی خواب بنتی جا رہی ہے۔ دہشتگروں کے ٹھکانے روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت ماہ صیام کے مبارک مہینے میں ملک کے مختلف شہروں میں سینکڑوں پاکستان شہریوں اور باعمل مسلمانوں کا خون میں لت پت ہونا ہے۔ جمعۃ الوداع جیسے باعظمت دن میں پارا چنار سکیورٹی زون میں ہی دو زور دار دھماکے ہوئے۔ جہاں تک سخت تلاشی کے بغیر کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ سو سے زائد روزے دار شہید جبکہ سینکڑوں بے گناہ مسلمان خاک و خون میں لت پت ہوگئے۔ اس وقت ہمارے وزیراعظم صاحب سعودی عرب اور لندن کے دورے پر تھے۔ اتنے میں اگلے روز آئل ٹ جامعہ روحانیت بلتستانینکر کا واقعہ پیش آیا، جس میں جائے حادثہ سے تیل جمع کرنے کے آرزومند افراد میں سے 140 سے زائد افراد جان سے گئے اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ اسی طرح کوئٹہ اور کراچی میں بھی پولیس اہلکاروں پر دہشتگردانہ حملے ہوئے۔ اتنے میں وزیر اعظم واپس لوٹے۔
پارا چنار والوں نے بھی مہذب پاکستانی شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہزاروں افراد نے پرامن دھرنا دینا شروع کیا۔ نہ انہوں نے کسی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ جب تک وزیراعظم یا آرمی چیف نہ آئے تو کسی اور کے ساتھ ہم مذاکرات کے لئے تیار ہی نہیں۔ اتنے میں ایف سی کے کرنل اجمل کے حکم پر بے گناہ شہریوں پر دوبارہ فائر کھولے گئے، بہت سارے افراد جان کی بازی ہار گئے۔ عوام کا پہلا مطالبہ ہی یہی تھا کہ کرنل عمر اور کرنل اجمل جیسے بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو فوری برطرف کرکے سکیورٹی مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کی جائے، کیونکہ ان کے ہاتھوں یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ متعدد بار یہ دونوں بہت سارے بے گناہوں کی زندگیاں چھین چکے ہیں اور عوام کو جذبات میں لاکر بغاوت کے لئے ابھار رہے ہیں، لیکن وہاں کے شہری سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے دھوکے میں نہیں آرہے۔ ایسی کالی بھیڑیں بیرونی ایجنٹ تو ہوسکتے ہیں سکیورٹی سربراہ قرار نہیں پاسکتے۔ ادھر سے وزیراعظم سیدھا بہاولپور چلے گئے۔ مریضوں کی عیادت کی۔ مفت علاج کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی دس دس لاکھ امداد کا اعلان کیا۔ جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لئے بیس بیس لاکھ امداد کا اعلان کیا۔
اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن مقام تعجب یہ ہے کہ چند روز گزر جانے کے باوجود نہ وزیراعظم نے پارا چنار کا رخ کیا، نہ ان سے کوئی ہمدردی کا اظہار کیا اور نہ ہی کسی امداد کا اعلان کیا۔ لگتا ہے وزیراعظم پورے ملک کے لئے نہیں بلکہ جو کچھ ہے صرف پنجاب کے لئے ہے۔ آرمی سپہ سالار کا آج وہاں کا دورہ کرنا قابل تحسین ہے۔ پاک فوج ہم سب کی امیدوں کا مرکز ہے، اس لئے جناب باجوہ صاحب سے ہم خصوصی ریکویسٹ کرتے ہیں کہ سب سے پہلے پاک فوج کے پاکیزہ نام کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں کو اپنے عہدے سے فوری برطرف کرکے عوامی خدمت اور ملکی وقار کے لئے کام کرنے کے جذبات سے سرشار افراد کو فی الفور وہاں معین کیا جائے اور وہاں کے لوگوں کے تمام مطالبات حل کئے جائیں، کیونکہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ پاک افغان بارڈر کے قریب ہونے کے باعث یہ ایریا پاکستان کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ویسے بھی ہمارے حکمرانوں کی غلط خارجہ پالیسیوں کے باعث افغانستان اس وقت انڈیا کے گود میں پناہ لے چکا ہے۔ ایسے میں ملک میں داخلی خلفشار کا ایجاد کرنا کسی صورت ملکی منفعت میں نہیں۔ ورنہ وہاں کے عوام میں ناامیدی کی لہر پھوٹنے کی صورت میں یہ صورتحال ملک کے اندر بحرانی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔ جس کی کسی صورت مملکت خداداد متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں اور ملک میں مزید بحرانی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید