مگر جب وطن عزیز پاکستان کی موجودہ صورتحال پر نظر کرتے ہیں تو ہر طرف سے ہمیں مایوسی کا منہ دیکهنا پڑهتے ہیں -وطن کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتهوں میں ہے جنہیں نہ وطن کی فکر ہے اور نہ ہی اس کے مکینوں کی- انہیں نہ پاکستانی جوانوں کے مستقبل کی سوچ ہے اور نہ ہی ملک کی ترقی کی- ہاں جس چیز کی فکر ان کے ہمیشہ دامنگیر رہتی ہے وہ اپنے مفادات کی فکر ہے- اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی سوچ میں تو وہ صبح شام غرق رہتے ہیں مگر قومی مفادات کے لئے منصوبہ بندی کرکے پاکستانی قوم کو رفاہ اور آسائش سے بهرپور زندگی فراہم کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے-

 وطن عزیز میں مفاد پرست افراد برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے قوم کا حال اور مستقبل تاریک ہوتے جارہے ہیں- ملک کی ثروت اور دولت چند خاندان کی عیاشی میں صرف ہورہی ہے مگر بے چارے عوام روزبروز بڑهتی مہنگائی کی وجہ سے پریشان دکهائی دیتے ہیں- حقوق کی تقسیم کی بات کی جائے تو پاکستان میں علاقائی, رنگ اور زبان کی تعصبات کی بنیاد پر حقوق تقسیم ہوتی ہیں- جب حقوق کی بات آئی تو مجهے پاکستان کو اپنی جانوں سے ذیادہ عزیز رکهنے والے گلگت بلتستان کے وہ لوگ یاد آئے جنہیں انصاف اور برابری کی بنیاد پر حقوق ملنا تو درکنار, پاکستانی حکمران گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار دینے سے بهی انکاری ہیں- ابهی تک حقیقی معنوں میں وہ اس بات پر یقین نہیں رکهتے ہیں کہ خطہ گلگت بلتستان پاکستان کا ایک اہم خطہ ہے, اگر چہ وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ جب بهی پاکستان پر کڑا وقت آیا گلگت بلتستان کے جوانوں نے ساتهہ دیا -کرگل جنگ میں بے شمار جوانوں نے اپنے لہو پاکستان کی حفاظت کی راہ میں پیش کیا – بلتستان کے غیور لوگوں نے کرگل محاذ پر پاکستان کے اصلی دشمن بهارت کے غنڈوں سے لڑنے والی پاک فوج کی ہر طرح سے مدد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چهوڑی- یہ بات جو لکهنے جارہا ہوں کوئی سنی سنائی بات نہیں اور نہ ہی یہ کسی کتاب میں لکهی ہوئی کہانی نقل کر رہاہوں بلکہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے اور اپنی آنکهوں سے دیکها ہوا حال ہے- جس وقت کرگل جنگ عروج پر تهی بندہ اپنے گاؤں کهرمنگ کندرک میں تها- ہندوستان کی طرف سے ہرروز گولے داغے جاتے تهے- ٹهیک چار بجے گولہ باری شروع ہوتی- وقفہ وقفے میں گولے چلتے- کهبی تو پانچ چهے گولے ہر دو تین منٹ کے بعد ہمارے گاؤں کے پہاڑوں پر لگتے اور ہمارے گاؤں سمیت کرگل محاز ایریاز کے باشندوں نے پہاڑوں کے نیچے اپنی مدد آپ کے تحت غاریں بناکر گولہ باری شروع ہونے سے پہلے یعنی چار بجے سے پہلے ان غاروں میں اپنے بال بچوں کو لے کر پہنچ جاتے- یہی غاریں لوگوں کی واحد پناگاہ ہوتی تهیں- چنانچہ ہمارے گاؤں کے کچهہ جوان غار کے دروازے پر بیٹهکر پہاڑوں سمیت اونچے مقامات پر لگنے والے اور کهیتوں و گاؤں پر گرنے والے گولے گنتے رہتے- آٹهہ سے لیکر دس گولے ہمارے گاؤں کے اطراف میں آگرنا روز کا معمول تها- اس سے ہمارے کرگل محاز ایریاز کے لوگوں کی فصلیں تباہ ہوئیں، مویشیوں اور درختوں کو شدید نقصان پہنچا- ہمارے شہر سکردو سے متصل سڑکیں اور راستے کئی ہفتے بند رہے جس کے سبب اشیاء خورد ونوش کی ترسیل کا سلسلہ بالکل منقطع رہنے کی وجہ سے عوام کو بڑی پریشانیاں ہوئیں- اس کے علاوہ بہت ساری مشکلات سے ہمارے کرگل محاز ایریاز کے لوگوں کو سامنا کرنا پڑے اور انتہائی بے سروسامانی میں عوام نے رات دن گزارے- لیکن راقم نے اپنی آنکهوں سے دیکها اتنے سارے مسائل اور مشکلات میں گرفتار رہنے کے باوجود لوگوں کے محاز پر جنگ میں مصروف پاک فوج سے محبت اور ہمدردی کا عالم یہ تها کہ گهروں میں کچهہ نہ ہونے کے باجود ہر گاؤں سے لوگوں نے بحسب استطاعت کهانے پینے کی چیزیں جمع کیا، چندے جمع کئے- ہر گاؤں سے ایک ذمہ دار شخص کو معین کیا گیا اور جمع شدہ کهانے پینے کے اشیاء کو اس کے حوالے کرکے محاز پر پاک فوج کے لئے ارسال کیا گیا، جن میں قابل ذکر چیزیں یہ تهیں آٹا گهی، اخروٹ، خشک خوبانی، بادام اور دوسری چیزیں-

 اور یقین کیجئے یہ چیزیں لینے کے لئے جو ذمہ دار افراد گهروں میں جاتے ہر کوئی خوشی اور مسکراہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو چیز اپنے پاس ہوتی اسے ذمہ دار افراد کو دیتے اور ساتهہ ہی پاکستان کی فوج کی کامیابی وسلامتی اور استحکام پاکستان کے لئے دعائیہ جملے اپنی زبان پر جاری کرتے، اسی سے اندازہ کریں کہ گلگت بلتستان والے پاکستان سے کس قدر محبت کرتے ہیں، یہ تو بطور نمونہ لکها ہے اسی طرح جو فداکاریاں اور قربانیاں پاکستان کی سلامتی اور اس کی محافظت کی راہ میں گلگت بلتستان کے غیور جوانوں نے پیش کی ہیں وہ بہت ذیادہ ہیں- گلگت بلتسان کے تقریبا تمام مساجد امام بارگاہوں اور مختلف مذہبی وغیر مذہبی پروگراموں میں لوگ استحکام پاکستان کے لئے ضرور دعا کرتے ہیں, گلگت بلتستان پاکستان کے لئے قدرتی دفاعی حصار بھی ہے۔ قدرتی حسن و خوبصورتی کے علاوہ دنیا کے بیش قیمت معدنی دولت کے ذخائر سے یہ علاقہ مالا مال ہے۔ مگر ہماری حکومت نے شروع سے اب تک گلگت بلتستان کو نظر کرتی آرہی ہے، الیکشن کے دوران گلگت بلتستان کے عوام سے ہمارے حکمران بالواسطہ یا اپنے نمک خواروں کی وساطت سے طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں، ترقی کے خواب دکهاتے ہیں مگر بعد میں وہ ان کو نہ صرف بهول جاتے ہیں بلکہ یہ ماننے کے لئے بهی وہ ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے ہیں کہ گلگت بلتستان والے بهی پاکستانی شہری ہیں، اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوسکتی ہے – 

 گلگت بلتستان والے اپنے وطن عزیز پاکستان کو بہت چاہتے ہیں ان کی زبان پر ایک ہی شعار ہے کہ ہمیں بهی اپنے وطن سے پیار ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کی تعیین میں مزید تاخیر نہ کریں- گلگت بلتستان کو بهی قومی دہارے میں شامل کرکے دوسرے صوبوں کی طرح اسے بهی حقوق دینے میں لیت ولعل سے کام نہ لیں- گلگت بلتستان کے عوام کو صرف وعدوں سے خوش رکهنے کی سوچ سے بالاتر ہوکر اس کی ترقی کے لئے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے