ہڑتال والوں سے وعدہ کیا نہ کوئی تاریخ دی، ڈاکٹر اقبال
وزیرقانون و تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا ہے کہ حکومت نے مرکزی انجمن تاجران اورعوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں سے مذاکرات کے دوران کوئی وعدہ کیا ہے نہ کوئی تاریخ دی ہے انجمن تاجران اورعوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوںنے ازخود ہڑتال انیس نومبر تک ملتوی کرنے کی بات کی تو ہم نے صرف یہ […]

وزیرقانون و تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا ہے کہ حکومت نے مرکزی انجمن تاجران اورعوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں سے مذاکرات کے دوران کوئی وعدہ کیا ہے نہ کوئی تاریخ دی ہے انجمن تاجران اورعوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوںنے ازخود ہڑتال انیس نومبر تک ملتوی کرنے کی بات کی تو ہم نے صرف یہ کہا کہ 19نومبر تک ملتوی کرنے کی بجائے 23نومبر تک ملتوی کریں تاکہ اس حوالے سے قانون سازا سمبلی کے اجلاس میں بھی بحث ہوانہوںنے منگل کے روز کاچو امتیازحیدر کے ایک سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے گلگت بلتستان میں شٹرڈائون ہڑتال کے دوران ہم نے تاجر برادری اورعوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں سے مذاکرات کئے اس دوران ان رہنمائوں نے کہاکہ 2012کے ایڈاپٹیشن ایکٹ کو واپس لینے تک ہم ہڑتال کریں گے ہم نے ان رہنمائوں کو صاف صاف بتادیا کہ ہم 2012کے ایڈاپٹیشن ایکٹ کے خاتمے کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں دوسرے دن دوبارہ مذاکرات ہوئے ان مذاکرات میں بھی ہم نے کوئی ضمانت اور تاریخ نہیں دی تاجروں کے نمائندوں نے خود کہا کہ وہ 19نومبر تک ہڑتال ملتوی کررہے ہیں تو ہم نے صرف اتنا کہا کہ جب آپ 19نومبر تک ملتوی کررہے ہیں تو تاریخ تھوڑاسا آگے کردیں تاکہ اس حوالے سے قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میںبھی بات ہوسکے ان مذاکرات میں ہم نے 2012کے ایکٹ کو ختم کرانے کا نہ کوئی وعدہ کیا ہے نہ کوئی بات کی ہے انہوںنے کہا کہ انجمن تاجران اور عوامی ایکشن کمیٹی میں شامل کچھ لوگ نیک نیتی اورخلوص سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ٹیکس کے نام پر سیاست کرنے میں لگے ہوئے ہیں اگر یہ مسئلہ حل ہوا تو یہ لوگ ایک نیا مسئلہ لے کر آئیں گے۔انہوںنے کہا کہ یہ مسائل اس لئے پیدا ہورہے ہیں کہ ہمیں آئینی حقوق حاصل نہیں ہیں آئینی حقوق کا مسئلہ اخبارات میں سرخیاں لگوانے سے حل نہیں ہوگا اگر ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں میں خلوص ہے اور بدنیتی نہیں ہے تو یہ لوگ آئینی حقوق کا ایک نکاتی ایجنڈا لے کر سامنے آئیں سب سے پہلے میں ان کا ساتھ دونگا یہ لوگ آئینی حقوق کیلئے جہاں کہیں بھی دھرنا دیں گے ہم ان کے ساتھ ہونگے۔انہوںنے کہاکہ ٹیکس 2012میں لگا ہے اور 2012میں مسلم لیگ (ن) کی نہیں پی پی کی حکومت تھی ٹیکس مسلم لیگ ن نے نہیں پی پی نے لگایا ہے مگر آج جن لوگوںنے ٹیکس لگایا ہے وہ شور مچارہے ہیں اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری اورنگ زیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ تاجر رہنما ایک مطالبہ پورا ہوتا ہے تو دوسرا مطالبہ سامنے لاتے ہیں انہوںنے کہا کہ انجمن تاجران اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں کا شروع میںصرف ایک مطالبہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے خاتمے تک تھا جب ہم نے ود ہولڈنگ ٹیکس کو ختم کرایا تو ان لوگوںنے 2012کے ایکٹ کے خاتمے کا مطالبہ سامنے رکھ دیا اور اس مطالبے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوںنے 2012کا ایکٹ منظور کرایا انہوںنے کہا کہ گزشتہ دنوں انجمن تاجران کے رہنمائوںسے مذاکرات کے دوران ہم نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہے ان رہنمائوں نے خود کہا کہ وہ 19نومبر تک ہڑتال ملتوی کررہے ہیں تو ہم نے صرف اتنا کہا تھا کہ 23نومبر تک ملتوی کردیں تاکہ ہم اسمبلی اجلاس میں اس حوالے سے بات کرسکیں ہم نے اسمبلی میں ٹیکس کے حوالے سے قرارداد جمع کرادی ہے 22نومبر یا 23نومبر کو اس قرارداد پر تفصیلی بحث ہوگی انہوںنے کہا کہ ٹیکس کا مسئلہ صرف کسی ایک فرد کا نہیں ہم سب کا مسئلہ ہے اور ہم اس مسئلے کو نیک نیتی سے حل کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سے 20نومبر کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے اور علاقے کی صورتحال سے آگاہ کیا ہے وزیر اعظم نے ٹیکسوں کی صورتحال معلوم کرنے کیلئے وزیر قانون کو طلب کیا تھا ٹیکس کے مسئلے پر وزیراعلیٰ کی موجودگی میں بحث ہوگی اس سے قبل وقفہ سوالات کے دوران کاچو امتیاز نے کہاکہ علاقے میں ٹیکسوں کا نفاذ بڑا مسئلہ ہے ٹیکسوں کے خلاف پورے علاقے میں ہڑتال ہوئی تھی اگر مسئلہ حل نہیں ہوا تو مزید ہڑتال کاخطرہ ہے اورہڑتال سے سب سے زیادہ عوام متاثر ہونگے حکومتی ٹیم نے مذاکرات کے دوران23نومبر تک تاریخ دی ہے اس حوالے سے ایوان میں بحث ہونی چاہیے ۔نواز خان ناجی نے کہاکہ گلگت بلتستان میں ٹیکسوں کا نفاذ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے نہیں بلکہ وفاق نے کیا ہے مگر عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کے رہنمائوںنے اراکین اسمبلی پر الزام لگایا ہے کہ اسمبلی نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ٹیکس لگایا ہے اس پر بھی بات ہونی چاہیے ۔
دیدگاهتان را بنویسید