یوم القدس : تحریر ابراہیم نوری
یوم القدس کو بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے۔ اسے صرف سر زمین فلسطین اور بیت المقدس سے وابسطہ کرنا درست نہیں ہے۔ یہ تمام ظالموں کے خلاف مظلوم اور پسماندہ لوگوں کے مقابلے کا دن ہے۔ان مظلوموں کا تعلق خواہ کشمیر سے ہو یا یمن سے، بحرین سے ہو یا احصاء سے، امریکہ کے سیاہ […]
یوم القدس کو بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے۔ اسے صرف سر زمین فلسطین اور بیت المقدس سے وابسطہ کرنا درست نہیں ہے۔ یہ تمام ظالموں کے خلاف مظلوم اور پسماندہ لوگوں کے مقابلے کا دن ہے۔ان مظلوموں کا تعلق خواہ کشمیر سے ہو یا یمن سے، بحرین سے ہو یا احصاء سے، امریکہ کے سیاہ فام ہوں یا صومالیہ میں خوراک کی قلت کے شکار لوگ۔ یوم القدس ان سب کا دن ہے۔ یہ شیطانی و استعماری طاقتوں کے خلاف ان سبھی اقوام عالم کے مقابلے کا دن ہے جو امریکہ اور دیگر استعماری طاقتوں کے ظالمانہ چنگل میں گرفتار ہیں۔ اس دن جب کمزور اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو آمدہ کرانا چاہیے تاکہ وہ ظلم و بربریت کی سربراہی کرنے والی بڑی طاقتوں کی ناک رگڑ دیں ۔ یہ وہ دن ہے جب منافق اور موحد گردھوں کے درمیان فرق کیا جا سکے گا۔ انسانیت اور اسلامی تعلیمات سے لگاو رکھنے والے لوگ اس دن کو یوم القدس کے نام سے پکارتے ہیں اور اپنی باتوں پر عمل کرتے ہیں جو انہیں کرنی چاہیے۔ بڑی طاقتوں کی غلامی میں بسر کرنے والے منافقین اپنی اسرائیلی دوستی کی وجہ سے اس اہم دن سے بلکل بے توجہی ہیں اور اپنے ملک کے عام لوگوں کو اس بات کہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ یوم القدس کے موقع پر اسلام یہودیوں اور دیگر ظالموں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کر سکیں۔
اس دن ہم سب کو ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ظالموں اور غاصبوں کے خلاف خاص طور پر بیت المقدس کی فکر تاکہ لبنان اور فلسطین کے مظلوموں کو ظلم سے رہائی دلائی جا سکے۔ اس دن دنیا کے مظلوموں کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ وہ ظالموں کے خلاف خود کھڑے ہوں گے مسلمان معاشرے کو دنیا کے سامنے اپنے جدوجہد کا اظہار کرنا چاہیے کہ ابھی یہ قوم مردہ نہیں ہے اور ظالموں کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے پوری طرح آمادہ ہے۔ یوم القدس کے موقع پر ان لوگوں کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہیے جو امریکہ کی غلامی کی وجہ سے سے قوم کو گمراہی کی طرف لے جانے کہ کوشش کر رہے ہیں۔
آج مسلم معاشروں میں کچھ کم عقل اور سادہ لوح لوگ فقط شہرت اور اپنے آپ کو مفکر ظاہر کرنے کے لئے یوم القدس کے اجتماعات سے متعلق غیر ضروری سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ اپنے مسائل کو چھوڑ کر دوسروں کے مسائل کا کیوں سوچھے؟ اسلامی ریاستوں یوم القدس کے اجتماعات کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔؟ کیا اس سے اسرائیل ختم ہو سکتا ہے۔؟ کیا یوم القدس منانے سے فلسطین آزاد ہو جائے گا۔؟ یا یوم القدس کی ریلیوں میں امریکی و اسرائیلی پرچم جلانے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔؟ تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جان لیں کہ امریکہ و اسرائیل کے خلاف یوم القدس کے مظاہرے دنیائے اسلام کا شو آف پاور ہوتا ہے، جس میں یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ فلسطین کے عوام تنہا نہیں، پورا عالم اسلام ان کی حمایت میں پیش پیش ہے اور انہی اجتماعات کی بدولت ہی آزادی فلسطین کی شمع کو تقویت و جلا ملتی ہے اور انہی تحریکوں اور عملی و مسلسل کوششوں سے نہ صرف اسرائیل کا خاتمہ ممکن ہے، بلکہ ہر اس اسلامی ریاست کا قیام بھی ممکن ہے، جو کبھی ملت اسلامیہ کا حصہ تھی اور اب بھی وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
یوم القدس یوم اسلام ہے اس موقع پر اسلام کے احکام کی فکر کرنی چاہیے اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ تمام اسلامی ملکوں میں اسلامی قوانین کی حکمرانی قائم ہو۔ یوم قدس کے موقع پر ہمیں بڑی طاقتوں کو یہ وارننگ دے دینی چاہیے کہ اب اسلام تمہارے زر خرید غلاموں کے توسط سے تمہارے قبضے میں نہیں رہے گا ۔ یوم القدس حیات اسلام کا دن ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ ہوش میں آجائیں اور اسلام کی طاقت کو پہچان لیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے پاس مادی اور معنوی طاقت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو خدا کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اسلام اور ایمان ان کی حمایت اور پشت پناہی کے لیے کافی ہے جس کی مثال عراق اور شام سے مسلم دشمنوں قوتوں کو رسوا کرنا ہے۔
ان تمام وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کسی بڑی طاقت سے خوف زدہ ہو کر زندگی بسر کریں ۔ ایران کی چھوٹی سی آبادی نے بے شمار دشمنوں کے خلاف پرچم بغاوت بلند کیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ مٹھی بر ایرانی قوم نے بڑی طاقتوں کو شرم ناک شکست سے دوچار کر دیا اب کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ دائیں یا بائیں بازو کی حمایت والے اسلام دشمن امریکی اور امریکی ایجنٹ دوبارہ ایران کو اپنے ظلم کا شکار بنا سکیں۔
یوم القدس کے موقع پر قوموں کو چاہیے کہ وہ خیانت کرنے والی حکومتوں کو وارننگ دے دیں کہ وہ خیانت کاری سے کنارہ کشی اختار کرلیں۔ وہ در حقیقت اسلام اور مسلمانوں کے سچے ساتھی اور ہمدرد ہیں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید