یوم انہدام جنت البقیع، عالم اسلام کے لئے لمحہ فکر
جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام، اُمّہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبور ہیں کہ جنہیں آٹھ شوال 1344ہجری قمری کو آل سعود نے منہدم کر دیا اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے نام پر کیا گيا۔
یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشوروں اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اِن قبور کی تعمیرنو کیلئے ایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیں تا کہ یہ روحانی اور معنوی سرمایہ اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اِس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، حفاظت اورتعمیر نو کے ساتھ یہاں مدفون ہستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کیا جا سکے۔
8/ شوال تاریخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے کہ جب 1344 ہجری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم و مسمارکر دیا تھا۔یہ دن تاریخ اسلام میں ‘یوم الہدم ‘کے نام سے معروف ہے ،یعنی وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اُسے خاک کے ساتھ یکساں کر دیا گیا۔
مؤرخین کے مطابق بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرم (ص) کے بعد اُن کے بہترین صحابہ کرام دفن ہوئے اورجیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یہاں دس ہزار سے زیاد اصحاب رسول مدفون ہیں کہ جن میں اُن کے اہل بیت، اُمّہات المومنین، فرزند ابراہیم، چچا عباس ، پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطّلب، آنحضرت کے نواسے امام حسن علیہ السلام، اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمار شہر مدینہ کے اُن مزاروں میں ہونے لگا کہ جہاں حجاج بیت اللہ الحرام اور رسول اللہ (ص) کے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وہاں نماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیارت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت) ص( نے وہاں کی زیارت کی اور وہاں مدفون افراد پر سلام کیا اور استغفار کی دعا کی۔ تین ناموں کی شہرت رکھنے والے اِس قبرستان ‘بقیع، بقیع الغرقد یا جنت البقیع’ کی تاریخ، قبل از اسلام زمانے سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیں اِس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں لیکن اِس سب کے باوجود جو چیز مسلّم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع، ہجرت کے بعدشہر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا۔ شہر مدینہ کے لوگ وہاں مسلمانوں کی آمد سے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں’بنی حرام’ اور ‘بنی سالم’ میں دفن کیا کرتے تھے۔
جنت البقیع ٤٩٥ ہجری یعنی پانچویں صدی ہجری کے اواخر سے صاحب ِگنبد و بارگاہ تھا۔ حجاز میں شریفِ مکہ کی شکست کے بعد محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں نے مقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کر دیں تو عالم اسلام میں بےچینی پھیل گئی۔ جب وہابیوں کا مکہ اور مدینہ پر قبضہ ہو گیا تو انھوں نے دین کی تجارت شروع کی اور مسلم دنیا کے بڑے علماءجو حج کے لئے آتے، ان کے توحید خالص کی دکان سے استفادہ کرتے اور ان کی فقہ کا سودا مفت اپنے وطن لے جا تے۔ وھابیت اور آل سعود کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام یہ بھی ہے کہ تمام دنیا اور اسلامی ممالک کے خائن اور ایجنٹ مولفین کے قلم کو ریالوں اور ڈالروں کے بدلے خرید لیا جائے۔اسی طرح انہوں نے حج کے موقع کا خاص فائدہ اٹھایا جبکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ عظیم مسلم علماء بھی فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ میں جمع ہوتے ہیں۔ اس موقع پر یہ لوگ ان علماء سے روابط پیدا کر کے ان کو ہر ممکن طریقے سے اپنا ہمنوا بناتے ہیں اور ان کے ذریعے سے اپنا نصاب ساری دنیا میں مشہور کرتے ہیں۔ جب ایک مفتی اپنا عقیدہ تبدیل کرتا ہے تو اس کے ذیلی علماء بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔اسطرح یہ مسلک ساری اسلامی دنیا میں عام ہو گیا ۔ایک مفتی کا عقیدہ تبدیل کر کے اس کے زیر اثر سارے علاقے کے لوگوں کے عقیدے تبدیل کرنا آسان ہو جاتا ہے اور آل سعود نے یہی ٹیکنیک اپنا رکھی ہے۔
آل سعود اسلامی امت کے الٰہی مقدسات کی توہین ان کے عقائد کی تضعیف نیز مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے اس باطل فرقہ کو اسلامی ممالک میں پھیلانے کی مذموم کوشش کر رہی ہے ، اور اس باطل فرقہ کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اسلامی عقائد کی بیخ کنی اور استعماری طاقتوں کے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے ۔
یہ عالم اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ کا ایک مختصر سا ورق ہے کہ جو تاریخی اسناد و دستاویزات کی روشنی میں آل سعود اور فرقہ وہابیت کے سیاہ کارناموں کی ایک زندہ اور حقیقی مثال ہے اور دورِ حاضر کا مسمار قبرستان بقیع آج کے مسلمانوں سے اِس بات کاسوال رہا ہے کہ وہ اِس تاریخی بے حرمتی پر خاموش کیوں ہیں؟
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید