عراق میں دشمن کا نیا فتنہ/ حسنی صرخی کے حامی 14 افراد ہلاک/ کربلا میں کرفیو نافذ
آج بروز بدھ سحری کے وقت کربلا کی سکیورٹی فورس اور حسنی صرخی کے حامیوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں صرخی کے حامی ۱۴ افراد ہلاک جبکہ ۲۵ شدید زخمی ہوئے ہیں
عراق کی سکیورٹی فورس نے آج بروز بدھ ۲،۷،۲۰۱۴ کو سید محمود حسنی صرخی کے حامیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپ کے بعد کربلائے معلی میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
عراق کی سکیورٹی فورس نے صرخی کے حامی ۳۰ افراد کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ کربلا پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق آج بروز بدھ سحری کے وقت کربلا کی سکیورٹی فورس اور حسنی صرخی کے حامیوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں صرخی کے حامی ۱۴ افراد ہلاک جبکہ ۲۵ شدید زخمی ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورس نے کربلا کے علاقے سیف سعد جہاں حسنی صرخی کا گھر ہے کو محاصرے میں لے لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صرخی کے حامیوں نے عراق کے دوسرے شہروں دیوانیہ اور بصرہ میں بھی آشوب برپا کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ کی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند سالوں سے عراق میں حسنی صرخی اس بات کا دعوا کرتے آ رہے ہیں کہ ان کا امام زمانہ (ع) سے براہ راست رابطہ ہے اور عراق میں صرف وہی مجتہد ہیں ان کے علاوہ کوئی دوسرا مجتہد نہیں ہے، ان کے نزدیک دیگر مراجع عظام کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ عراق کے اہم شہروں کربلا اور نجف اشرف کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے ہیں ان کی نظر میں عراق کی موجودہ حکومت درست نہیں ہے جس کی بنا پر ان کے حامی عراق کے سکیورٹی فورس سے بھڑ پڑتے ہیں۔
سید حسنی صرخی کون ہے؟
سید محمد بن عبد الرضا بن محمد صرخی حسنی عراق کے شیعہ دینی طالب علموں میں سے ایک ہیں جو کاظمین میں پیدا ہوئے اور ان کی عمر۵۰ سال ہے۔
صرخی اس کے باوجود کہ زیادہ علمی سرمایہ نہیں رکھتے خود کو آیت اللہ شہید محمد باقر صدر اور آیت اللہ سید کاظم حائری کے شاگردوں میں سے پہچنواتے ہیں انہوں نے سن ۲۰۰۳ میں اپنی مرجعیت کا اعلان کیا اور اس کے بعد عراق میں کافی دینی اور سیاسی فعالیتیں انجام دینا شروع کیں۔
بعد از آں انہوں ںے خود کو’’ حسنی ہونے‘‘ اور امام زمانہ(ع) سے براہ راست رابطہ رکھنے کے عنوان سے معروف کر دیا اگر چہ انہوں نے خود واضح طور پر امام زمانہ(ع) سے رابطہ رکھنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے لیکن ان کے مرید و موالی اس بات کے دعویدار ہیں۔
انہوں نے اپنی مرجعیت کے اعلان کے بعد جنوبی عراق کے شیعوں میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا شروع کیا اور کثرت سے مرید بنانے میں مشغول ہو گئے ان کے اس کام سے عراق کے مراجع عظام نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ان کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا: ’’سید محمود حسنی صرخی مجتہد نہیں ہیں اور ہم ان پر کوئی اعتماد نہیں کرتے‘‘۔
حسنی صرخی کی افراطی اور انحرافی فعالیتیں
صرخی کے حامی اس کے علاوہ کہ مراجع عظام اور عراقی حکومت کی توہین کرتے رہے ہیں عراق میں دیگر افراطی اور انحرافی قسم کی فعالیتیں بھی انجام دیتے رہے ہیں اسی اثنا امریکی فوجیوں نے ان کے اہل کاروں کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ۲۰۰۴ کے بعد سے وہ مخفی طور پر زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔
۲۰۰۶ میں صرخی کے حامیوں نے بصرہ میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا اور قونصل کی عمارت پر لگے ہوئے ایران کے پرچم کو اتار کر عراق کا پرچم لگا دیا اس کام کی وجہ یہ تھی کہ ایران کے عربی چینل الکوثر سے شیخ علی کورانی نے حسنی صرخی کے امام زمانہ(ع) سے رابطے کو جھٹلایا ہے۔
اسی طرح حسنی صرخی نے صدام کی نابودی کے بعد ۲۰۰۳ میں ’’جند السماء‘‘ کے نام سے ایک لشکر تیار کرنا شروع کیا جس کی رہبری ضیاء عبد الزہراء الکرعاوی کے سپرد کی۔ الکرعاوی نے عراق کے بعض علاقوں سے سادہ لوح افراد کو جمع کر کے ان کا لشکر تیار کیا اور ۲۰۰۶ میں ایام عاشورا میں نجف اشرف کو قبضانے کے لیے نجف اشرف پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کے بعد انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس افراطی گروہ کا مقصد یہ تھا کہ نجف اشرف پر قبضہ کر کے نجف میں موجود مراجع کو قتل کر دیں اور عراق کی رہبری حسنی صرخی کو حاصل ہو جائے۔ اس حملے کے بعد جند السماء کے بعض عناصر کو گرفتار کر لیا گیا۔
اسی سال کربلا کے خطیب جمعہ آیت اللہ سید مرتضی قزوینی پر حرم امام حسین (ع) سے باہر نکلتے ہی حملہ کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئے اور تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ ان پر حملہ کرنے والے صرخی کے حامی عناصر تھے۔
حسنی صرخی نے اس کے بعد عراق میں لوگوں اور مریدوں کو اپنی طرف جذب کرنے کی کوششیں تیز کر دیں یہاں تک کہ انہوں نے عراق کے تمام معروف شہروں بغداد، نجف، کربلا، بصرہ، حلہ، کرکوک، دیوانیہ، ناصریہ، وغیرہ کے علاوہ دمشق میں بھی اپنے دفاتر قائم کر دیے۔
۲۰۱۱ میں ناصریہ کے شمال مشرق میں واقع رفاعی علاقے میں بھی حسنی صرخی کی طرف سے قائم کردہ دفتر کے سامنے ناصریہ کے لوگوں نے دھرنا دیا اور اس دفتر کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
حکومت کی طرف سے جواب نہ ملنے پر دھرنہ دینے والوں نے دفتر پر حملہ کر کے دفتر میں موجود چیزوں اور کتابوں کو باہر پھینک کر آگ لگا دی کہ حسنی صرخی کی کتابیں سماج میں تفرقہ اور نفاق پھیلا رہی ہیں اور ان کا دفتر علاقے کے لیے فتنہ و فساد کا مرکز ہے۔
کربلا پر حملہ
آج جبکہ عراقی حکومت داعش جیسے تکفیری اور لاابالی کتوں سے نمٹنے میں مصروف ہے حسنی صرخی نے بھی موقع پر کربلا کو اپنے قبضہ میں کرنے کی غرض سے حملہ کر دیا آج بروز بدھ سحر کے وقت صرخی نے عناصر نے کربلا پر حملہ کرنے کی کوشش کی کہ کربلا کے سکیورٹی دستوں نے انہیں کربلا میں گھسنے نہیں دیا۔
واضح رہے کہ دشمن ایک طرف سے تکفیری وہابیوں کو پیسہ اور اسلحہ دے کر شیعوں کی جانوں کے پیچھے لگائے ہوئے ہے دوسری طرف سے خود سادہ لوح شیعوں کے درمیاں ایسے عناصر پیدا کر کے جو ان کے مقاصد کو پورا کریں شیعوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کر رہا ہے تاکہ حقیقی اور خالص اسلام کے ماننے والوں کو ختم کرے لیکن خدا دشمنوں کو نابود کرے گا اور دین ناب محمدی کے ماننے والوں کو سرخرو اور سر افراز کرے گا یقینا کامیابی شیعیان حیدرکرار ہے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید