ہابيت اور سرداب کا افسانہ 2
وہابيت اور سرداب کا افسانہ 1
حالانکہ بہتر تو يہ ہے کہ اس حقيقت کو جاننے کے لئے باقر شريف قرشي (رح) کي کتاب “حياة الإمام المهدي” (صفحه 15 کے بعد) سے رجوع کريں نيز علامہ صدرالدين (رح) نے اپني کتاب “المهدي” ميں نيز “علامه اميني (رح) نے الغدير، جلد 3، صفحه 308 پر ان شبہات کا جواب ديا ہے-
نيز علامہ اربلي (رح) نے “كشف الغمة، جلد 3، صفحه 283” ميں اس شبہہے کا جواب ديا ہے- يہاں ان جوابات کا خلاصہ پيش کيا جارہا ہے:
اولاً: سرداب مقدسہ شيعيان آل رسول (ص) کے لئے مقدس ہے کيونکہ امام ہادي(ع)، امام عسکري(ع) اور حضرت ولي عصر (عج) کا مسکن رہا ہے اور ان کا مقام عبادت ہے-
ثانياً: يہ کہ امام زمانہ (عج) سرداب ميں غائب ہوئے اس کي تائيد کسي شيعہ عالم نے نہيں کي ہے-
بزرگ شيعہ عالم دين مرحوم محدث نوري (رح) لکھتے ہيں:
“ہم نے جہاں بھي رجوع کيا اور تحقيق کي ليکن ہميں ان ميں سے کوئي بات بھي نہ ملي جن کا وہابيوں نے ہم پر الزام لگايا ہے بلکہ احاديث ميں سرداب کا ذکر تک نہيں ہے”- (5)
ثالثاً: ہماري تحقيق کے مطابق سرداب کا افسانہ درحقيقت اہل سنت کے منابع ميں ہے اور وہابيوں نے يہ افسانہ ان ہي منابع سے اٹھايا ہے اور اس کو اپني يلغار کي دستاويز قرار ديا ہے؛ بعبارت ديگر انھوں نے خود ہي يہ افسانہ جعل کيا ہے اور پھر اس کو شيعہ کے خلاف ہتھيار کے طور پر استعمال کيا ہے:
ابن خلدون نے اپني کتاب کے ديباچے ميں صفحہ 352 پر سرداب کا افسانہ چھيڑا ہے؛
ابن خلّکان نے يہي عبارت وفيات الاعيان کي ج 1 ص 372 پر نقل کي ہے-
شيعہ کتب ميں سے شيخ الکوراني العاملي کي کتاب “معجم احاديث المہدي، ص 364 پر ـ جس ميں انھوں نے پچاس سے زائد شيعہ اور سني محدثين کي حديثيں نقل کي ہيں ـ ثابت کرتے ہيں کہ امام زمانہ (عج) کي غيبت کا مقام نہ سامرا اور سرداب ہے اور نہ کربلا بلکہ وہ مکہ ميں رکن يماني اور مقام ابراہيم (ع) کے درميان غائب ہوئے ہيں-
اہل سنت کے اکابرين نے متعدد احاديث نقل کي ہے کہ امام مہدي (عج) کے ظہور و قيام کا مقام مکہ مکرمہ اور مسجد الحرام ميں رکن و مقام کے درميان ہوگا- (6)
…………………………..
5- حياة الإمام المهدي، ص119- علامہ اربلي (رح) نے كشف الغمة، جلد 3، صفحه 283 پر اور علامه اميني (ره) نے الغدير، جلد 3، صفحه 308 پر يہي عبارت تحرير کي ہے-
6- احمد بن حنبل، المسند ج 6، ص 316، سنن ابي داۆد ج 4، ص 107- إبن أبي شيبه، المصنف، ج 15، ص 45- ابن حجر ہيثمي نے بھي يہي حديثيں نقل کي ہيں الصواعق المحرقة، ص 165، باب 11، فصل اول-
پاسخ هاي استاد حسيني قزويني.
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید