تازہ ترین

کامیابی کی چابیاں (4)-مثبت سوچ اپنانا

مثبت سوچ کا انسان کی کامیابی میں کلیدی کردار ہے۔ اگر آپ اپنے ذہن کو مثبت سوچ سے بھر دیں گے تو منفی سوچ آپ کے قریب بھی نہیں آئے گی۔ پیغمبران الٰہی کو بھیجنے کا ایک اہم مقصد بھی لوگوں کے طرز تفکر اور زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنا تھا۔ اسی وجہ سے اسلام نے "حسنِ نیت" کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ "انما الاعمال بالنیات" یعنی انسان کے تمام کاموں کا دار و مدار اس کی نیت پر ہے۔
شئیر
90 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10158

تحریر:ایس ایم شاہ
مثبت سوچ کا انسان کی کامیابی میں کلیدی کردار ہے۔ اگر آپ اپنے ذہن کو مثبت سوچ سے بھر دیں گے تو منفی سوچ آپ کے قریب بھی نہیں آئے گی۔ پیغمبران الٰہی کو بھیجنے کا ایک اہم مقصد بھی لوگوں کے طرز تفکر اور زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنا تھا۔ اسی وجہ سے اسلام نے “حسنِ نیت” کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ “انما الاعمال بالنیات” یعنی انسان کے تمام کاموں کا دار و مدار اس کی نیت پر ہے۔ اسلام نے یہاں اس نفسیاتی عنصر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ انسان کی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کی نبوت و رسالت، بارہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و رہبری اور قیامت پر پختہ عقیدہ رکھنے کے بعد دنیا کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے، تمام غریبوں کی مدد کرنے، تمام یتیموں کو سایہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھانے، تمام تنگ دست مریضوں کا علاج معالجہ کرنے، تمام ناداروں کی امداد رسانی کرنے، تمام بے سہاروں کا سہارا بننے، تمام بے آسراؤں کا آسرا بننے، تمام مظلوموں کا دفاع کرنے، تمام ظالموں سے نمٹتے رہنے، تمام غاصبوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے، عدل و انصاف کو عام کرنے اور ظلم و بربریت سے برسرپیکار رہنے، طبقاتی نظام کا خاتمہ کرنے، امن و امان کو فروغ دینے اور نفرت و دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، سماجی ناانصافیوں کا خاتمہ کرنے اور معاشرتی جرائم کو جڑ سے کاٹنے، عفت و حیا کو پروان چڑھانے اور بے عفتی اور بے حیائی سے نبرد آزما رہنے کا مصمم ارادہ کرے تو گویا اس نے اپنی زندگی کو ہی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔ اس وقت اللّٰہ تعالیٰ “حسنِ نیت” کے باعث ان تمام اچھے کاموں کو انجام دینے کا اجر و ثواب ایسے شخص کو عطا کرتا ہے۔ اگر چہ بعض امور عملی طور پر اس سے انجام نہ پاسکے ہوں۔
مثبت سوچ رکھنے والا کائنات میں رونما ہونے والے سانحات و واقعات کو کبھی شر قرار نہیں دیتا بلکہ ایسے امور کو کائناتی سسٹم کا حصہ اور مشیت الٰہی قرار دیتا ہے۔
بد ترین حالات سے بہترین نتیجہ نکالنے کا نام مثبت فکر ہے۔
جب کسی بھی ایشو میں مثبت پہلو کو تلاش کرنا شروع کیا جائے تو بہت سارے مثبت پہلو سامنے آنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔
معاشرے کے دو ایسے افراد جن کو زندگی کی سہولیات مساوی طور پر حاصل ہیں لیکن ان میں سے ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسرا شخص بے سکونی اور کرب کے عالم میں زندگی کے لمحات گزار رہے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد اپنی ذات سے باہر کی دنیا میں خوشحالی کے اسباب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں جبکہ خوشحالی کے تمام اسباب انسان کے اپنے وجود کے اندر میسر ہیں۔
آج فلسطین کے حالات ملاحظہ کیجئے۔ غاصب اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں پر آٹھ ماہ سے مسلسل بمباری کے ذریعے عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے۔ بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کی کسمپرسی کی یہ حالت دیکھ کر دنیا کے ہر باضمیر انسان کی آنکھیں اشک بار ہیں لیکن اس کے باوجود نہ فقط کسی فلسطینی کے چہرے پر مایوسی کے اثرات نمودار نہیں بلکہ ان کے زخمی چہرے کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے۔ یہ لوگ کھنڈرات کے درمیان میں بھی مسکراہٹیں بانٹ رہے ہیں۔ تمام عزیزوں کو کھونے کے باوجود بھی ان کا دل مطمئن ہے۔ کیونکہ انہیں قلبی ایمان ہے کہ ہمیں عدم سے وجود میں لانے والا اللّٰہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ الٰہی وعدہ ہے کہ سختیوں کے بعد آسانیاں ہیں۔ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں فتح ہمیشہ مظلوم کی ہوتی ہے؛ کیونکہ یہ سنت الٰہی ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اللّٰہ تعالیٰ پر ان کا پختہ ایمان اور مثبت سوچ کے حامل ہونے کے باعث ممکن ہوا ہے۔
یہ ایک کلی قانون ہے کہ انسان جس چیز کو تلاش کرتا ہے درنتیجہ اسی کو پا لیتا ہے۔ انسان کسی دوسرے شخص کو اس وقت خوش رکھ سکتا ہے جب وہ خود خوشحال ہو اور وہ خود اس وقت خوشحال ہو سکتا ہے جب وہ اپنے اندر موجود خداداد صلاحیتوں اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا ہونے والی نعمتوں کا ادراک اور احساس کرے۔ اللّٰہ تعالٰی نے جتنی بھی نعمتوں سے انسان کو نوازا ہے ان نعمتوں کا احساس اسے سکونِ قلب اور اطمینانِ خاطر کے حصول کا سبب بنتا ہے۔ لہذا مثبت سوچ کے حامل انسان کے لیے اصولا ہمیشہ خوشحال رہنا چاہئے۔ کبھی کبھار پریشان حال ہونا خلافِ معمول ہے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہمیشہ کے لیے ہے ایک خاص وقت کے لیے نہیں۔
مثبت سوچ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے حضرت یوسف اور حضرتِ زینب علیہما السلام کا واقعہ کافی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کے ظلم کے شکنجے میں پچیس سال تک پستے رہے، آپ کے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام آپ کے فراق میں گریاں رہ کر ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں، ہر قسم کے مصائب و آلام جھیلنے کے باوجود پچیس سال کے بعد اپنے والد گرامی سے ملنے پر حضرت یوسفعلیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے خلاف حرفِ شکایت بلند کرنے کے بجائے فرمایا کہ اللّٰہ نے زندان کی تاریکی سے نجات دلاکر اور آپ سے وصال کا موقع فراہم کرکے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان میں فساد ایجاد کیا۔
اسی طرح بھائیوں، بیٹوں سب کو قربان کرنے اور اسیری کے سخت ترین لمحات گزارنے کے بعد ابن زیاد کے دربار میں حضرتِ زینب علیہا السلام فرماتی ہیں کہ میں نے میرے خدا سے اچھائی اور خوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ یہ ہے حقیقی معنوں میں مثبت سوچ اپنانا۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا رویہ دنیاوی مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام کے مقابلے میں اس کے زاویہ نگاہ کے مطابق تبدیل ہوتا ہے۔ یوں مثبت سوچ اپنانے کے ذریعے انسان زندگی کے سخت ترین لمحات میں بھی خوبصورت پہلو نکال سکتا ہے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ پر راسخ عقیدہ اور پختہ ایمان رکھنے اور کامل توکل کے سائے میں ہی متحقق ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں مثبت سوچ اپنانے کے ذریعے خوشحال زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لینا چاہئے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *