محسن ملت۔۔۔۔۔۔۔ دیدہ بینائے قوم و ملت
مسلمانان پاک و ہند کو 1857 کی جنگ آزادی نے جہاں اقتصادی بد حالی اور خانماں بربادی سے دو چار کیا وہیں اس وقت کےانسانی معاشرے میں راسخ اسلامی اقدار کو بھی ملیا میٹ کر کےرکھ دیا بالخصوص ملتِ تشیع کی وہ ہیبت و جلالت جس کا اندازہ 1784 میں لکھنؤ میں تعمیر شدہ بڑے امام باڑے کی پُر شکوہ عمارت اور اسکی بے پناہ وسعت سے آج بھی لگایا جا سکتا ہے اسے اور اس جیسے لا تعداد مذہبی مراکز کو انگریزوں کے غیظ و غضب کا بطورِ خاص نشانہ بننا پڑا جسکا بنیادی سبب شیعوں کے اس وقت کے مرکز لکھنؤ سے نواب واجد علی شاہ کی بیگم محمدی خانم المعروف بیگم حضرت محل کی جانب سے انگریزوں کے خلاف زبردست مسلح مزاحمت تھی جسے با لآخر انگریز کمانڈر سرکولن کیمپل نے کچل تو دیا لیکن اسکے بعد شیعہ مراکز ، دینی مدارس ، نادر ونایاب کُتب سے اٹی لائبریریوں اور امام بارگاہوں کی تباہی کو باقاعدہ ایک منصوبہ سازی کے ساتھ روبہ عمل لایا گیا یہاں تک کہ شیعہ مراکز کے ذرائع آمدن کو یکسر مسدود کر کے ان کے نام لگائی گئی جائیدادوں کو بحقِ سرکار ضبط کیا گیا اور علماء کے ذرائع آمدن کو بھی یکسر ختم کر دیا گیا اس طرح دینی مدارس کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ۔ دوسرے مرحلے میں انگریزوں نے عربی اور فارسی زبانیں جو کہ ا س وقت اسلامی تعلیمات تک رسائی کا بہترین ذریعہ تھیں انکی اثر پذیری کو ختم کرنے کے لئے نصاب ِ تعلیم میں ان زبانوں کی جگہ انگریزی کو نمایا ں مقام دینا شروع کیا “دیکھو اللہ کے کھیل ۔پڑھو فارسی بیچو تیل” جیسے محاروں سے مسلمانوں کی اس وقت کی محبوب زبانوں کی نا قدری اور مفلسی کی صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد تیسرے مرحلے پر دینی تعلیم کو مزید غیر مؤثر کرنے کے لئے اسکی جگہ دنیاوی تعلیم کو حصول ِ روزگار کے لئے لازمی قرار دے دیا۔اور یوں انگریزی زبان اور اسکے ذریعے تعلیمی اداروں میں مغربی ثقافت پروان چڑھنا شروع ہوگئی ۔اور پھر دینی اور دنیاوی تعلیم کو دو الگ الگ اصناف میں بانٹ کردینی و دنیاوی تعلیم کی اصطلاح کو زبانِ زدِ عام کردیا پس دینی و دنیاوی تعلیم کے درمیان ایک ایسی حدِ فاصل قائم ہوگئی کہ جس کے سبب دینی مدارس میں درس و تدریس ، اسلامی اقدار کی گہما گہمی اور معاشرتی رویوں میں علماء دین کی گرفت کمزور پڑتی گئی یہاں تک کہ دنیاوی تعلیم کے مراکز آباد ہو گئے اوردینی مدارس میں خاک اڑنے لگی ۔
وطنِ عزیز پاکستان کے قیام کے بعد بھی مغربی ثقافت زدہ تعلیمی اداروں کو حد درجہ اہمیت اور حصولِ روزگار کے لئے ان کے فارغ التحصیل طلباء کو فوقیت دی جاتی رہی جبکہ دینی ادارے ہر لحاظ سے محرومی کا شکار رہے۔ ایسے میں دنیاوی تعلیم کی اہمیت سے با خبر دور حاضر کی اہم شخصیت محسن ملت حضرت آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی طاب ثراہ کے یہ جملے سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں کہ ” علماء اور دینی مدارس کو دیوار سے لگا کر اور انھیں بے وسائل کر کے آج اربابِ حل و عقد ہمیں کہتے ہیں کہ دینی مدرسوں میں دنیاوی تعلیم رائج کرو ۔ مجھے دنیاوی تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن میں ان سے فقط اتنا پوچھتا ہوں کہ آپ نے جن دنیاوی تعلیمی اداروں پر خزانے کے منہ کھولے ہوئے ہیں وہا ں آخر دینی تعلیم کو راسخ کیوں نہیں کرتے”محسنِ ملت کے اس تاریخ ساز جملے سے یہ عیاں ہوا کہ وہ دنیاوی تعلیم کو بھی اہم تو گردانتے تھے البتہ انکے اس کاٹ دار جملے کا نشانہ انگریز دور کی تعمیر کردہ وہ فصیل تھی جو دنیاوی و دینی تعلیم کے درمیان حد فاصل کے طور پر روز بروز بلند سے بلند تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے میں انھوں نے ایک جانب تو افرادِ قوم کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنےتعلیمی مراکز میں طلباء کو دینی اقدار سے ہم آہنگ دنیاوی تعلیم کا مضبوط اور وسیع لائحہ عمل دیا اور دوسری جانب اپنی زیر سر پرستی قائم دینی مدارس میں دنیاوی تعلیم کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی اس طرح گویا آپ نے دینی و دنیاوی ہر دو اعتبار سے جوانانِ قوم و ملت کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے عمر بھر جہدِ مسلسل کی گویا آپ نے صدیوں پر محیط ایک یک طرفہ نظامِ تعلیم کو توازن بخشنے ا ور دینی و دنیاوی تعلیم کے درمیان حائل فصیل کو گرانے کے لئے جدو جہد کی ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ دینی تعلیم انسانوں کو مقصدِ زندگی سکھاتی ہے لہذا جدید تعلیم کا زیور مقصدِ زندگی سے آشنا ء انسان ہی کو زیب دیتا ہے وگرنہ مقصدِ خلقتِ بشری سے عاری انسان سائنس میں بھی اگر ترقی کرتا ہے تو پھر وہ ایٹم بم جیسی مہلک شےایجاد کر کے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے معاشرے کے دفاتر اور اداروں میں کرپشن کی اصل وجہ وہاں کے افسران اور عملے کا دین اور دینی تقاضوں سے بے بہرہ ہونا اور اسلامی روشِ حیات سے رو گردانی ہے لہذا دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم ہی مستقبل کے لئے صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے آپ نے اپنے اس نظریے کے تئیں معاشرتی رویوں پر کُڑھنے کی بجائے خود اپنے اداروں سے اس مہم کا آغاز کیا پس آج محسنِ ملت کی بابت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ بقول شاعر ؛
شکوہ تِیرہ شبی سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
چنانچہ آج اسوہ ایجوکیشن سسٹم میں موجود کم وبیش 25 ہزار طلباء و طالبات ، 50 ہزار سے زائد فارغ التحصیل بشمول 3051 میڈیکل ، 332 آرمی ،169 سی ایس پی،108 ایم فل پی ایچ ڈی،158 انٹرپنیور ، 434 آئی ٹی ایکسپرٹس ، سینکڑوں انجینیرز و ایجوکیشنسٹس شامل ہیں ۔ جبکہ دور افتادہ و پسماندہ علاقوں میں بیسیوں سکولز ، 14 انٹر کالجز، 2 ٹیکنکل کالجز ، 2 پیرا میڈیکل کالجز۔ کشمیر، مانسہرہ، گلگت میں دارالمودۃ ایجوکیشن سسٹم کے تحت تعلیمی ادارے ، کوثر کالج فار ویمن معہ بین الاقوامی معیار کا حامل بہترین ہاسٹل ، 480 کنال رقبے پر محیط دینی و عصری تعلیم کے حسین امتزاج کی حامل مکتبِ اہلبیتؑ کی کیمبرج یونیورسٹی سے الحاق شدہ پہلی یونیورسٹی آپ کے عزم بالجزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں اسی طرح دینی و دنیاوی تعلیم کے حسین امتزاج کے حامل 34 مدارس اہلبیت ؑ کے ساتھ ساتھ بر صغیر کی مایہ ناز دینی درس گاہ جامعہ الکوثر ہے کہ جس میں اعلیٰ ترین دینی مدارج تعلیم یعنی درس خارج کے ساتھ ساتھ اب تک سینکڑوں طلاب بی ایس ، 17 پی ایچ ڈیز ، 100 سے زائد ایم فِل کر چکے ہیں جبکہ 300 سے زائد خطباء سینکڑوں فارغ التحصیل فاضلان درس خارج نیز مدارس حفاظ القرآن، دار المودت حفظ القرآن اسکلولز ، بنت الہدیٰ حفاظ القرآن ماڈل سکول اینڈ کالج ( برائے طالبات) اور اسکردو، چنیوٹ، ناروال، ملتان اور اسلام آباد میں زیرِ تعمیر مدارس حفاظ القرآن محسن ملت کی درد مندی اور مستقبل شناسی کا بین ثبوت ہیں۔
محسن ملت کی جملہ شعبہ ہائے زندگی میں جوقابل قدر خدمات ہیں ان سب کا احاطہ ان مختصر صفحات میں کرنا ممکن نہیں کہ سماجی خدمات کے ذیل میں صحت کے منصوبےواٹر پراجیکٹس، گھروں کی تعمیر ، تعمیرِ مساجد، تعمیر یتیم خانہ ، تبلیغی خدمات میں اصلاحِ منبر و تحفظ ِ عزاداری مہم ، جدید ذرائع تبلیغ ،عمومی آگاہی مہم، مجالس و محافل کا انعقاد ، الکوثر تھاٹس کے زیرِ اہتمام نشر و اشاعت کا مستقل سلسلہ ملی خدمات میں مختلف دینی تنظیموں کی سرپرستی، مریضوں کی مالی امداد طلباء کے لئے سکالر شپ پروگرام/ تعلیمی وضائف کا اجراء اور وحدت امت کے لئے علمائے اسلام کانفرنسز کا مسلسل انعقاد قابل ِ ذکر ہیں۔
فی الوقت محسن ِ ملت کی خدمات کا مختصر احوال انہی چند صفحات تک محدود ہے کہ انکے کما حقہ تذکرہ کے لئے کئی ضخیم کتب درکار ہیں۔
اپنے بندوں کے لئے خالق کا ہے اہتمام وہ نہیں مرتے کبھی زندہ ہوں جن کے نیک کام
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید