اقبال اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب (قسط دوم)
اسباب عروج : اب تک ہم نے پانچ ایسے اسباب بیان کئے ہیں جن کی وجہ سے کوئی قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے ،اس کی ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اب ہم وہ اسباب ذکر کریں گے جن سے کوئی قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے خلاصہ کے طور پرپانچ […]
اسباب عروج :
اب تک ہم نے پانچ ایسے اسباب بیان کئے ہیں جن کی وجہ سے کوئی قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے ،اس کی ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اب ہم وہ اسباب ذکر کریں گے جن سے کوئی قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے خلاصہ کے طور پرپانچ اسباب کا ذکر کر کے اپنے مقالے کو سمیٹیں گے ۔ زوال کے اسباب کو اپنے سے رفع کرنے کی کوشش کے ساتھ عروج اور ترقی کے اسباب کو اپنانے کی کوشش خود سے کرنا چاہئے ۔کوئی جب تک خود سے کوشش نہیں کرے گا تبدیلی کا آنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ بھی ایک سنت الٰہی(۲۱) ہے کہ:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا (۲۲)
لہٰذا ترقی کی راہوں پر چلنے کے لئے اور زوال کی مشکلات سے نجات پانے کے لئے ضروری ہے کہ آنے والے اسباب سے خود کو مانوس کرے اور ان اسباب کو اپنے اندر پیدا کرے۔
۱۔آزادی:
انسان، محکوم ومظلوم اور غلام اس وقت بنتا ہے جب اسے اپنی کوئی طاقت نظر نہ آئے لیکن یہی قومیں جو محکومی وغلامی کی زندگی گزاررہی ہوتی ہیں جب آزادی کی قدر کو جان لیتی ہیں، کوئی ان کو لمبی نیند سے جگا کر آزادی کا درس دیتا ہے تو آزادی کا درس دینے والوں کی باتوں سے :
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سو و رنگ و بو
ضربتِ پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بتِ سنگین دل و آئینہ رو(۲۳)
لیکن اقبال آزادی کی ایک ایسی قسم کی بات کر تا ہے جو ہمارے ذہن میں موجود آزادی کے مفہوم سے بالاتر ہے اقبال کی نگاہ میں آزادی ایک مقدس شیء ہے وہ آزادی کو جسم اورفکر تک محدود نہیں کرتا ان کی نظر میں اصل آزادی یہ ہے کہ:
ہر کہ پیمان با ہو الموجود بست
گردنش از بند ہر معبود رست(۲۴)
‘‘یعنی جو شخص بھی خداوند کریم کی بندگی کا عہد وپیمان کرے اس کی گردن ہر قسم کے ناخداؤں کی قید وبند سے آزاد ہے ’’
لیکن آج کاماحول کچھ ایسا ہوا ہے کہ آزادی کے نام پر غلامی کر دی جاتی ہے اور آزادی کے نام پر جو شخص جس غلامی کو بھی اختیار کر نا چاہے تو کر لیتا ہے یعنی آج غلامی قبول کرنے کی مکمل آزادی ہے :
ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے
حریت افکار کی نعمت ہے خداداد
چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدۂ پارس
چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد
قرآن کو بازیچہ تاویل بناکر
چاہے تو خود ایک تازہ شریعت کرے ایجاد
ہے مملکت ہند میں ایک طرفہ تماشا
اسلام ہے محبوس مسلمان ہے آزاد (۲۵)
اب سوال یہ رہا کہ آزادی حاصل کس طرح کیا جائے ؟ آزادی گھر میں بیٹھے تو حاصل نہیں ہوگی، سوئی قوم کبھی آزادی نہیں پاسکتی آزادی غلامی کے نشے میں مست قوم بھی نہیں پاسکتی بلکہ آزادی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس فارمولے پر عمل کیاجائے :
نکل کر خانقاہوں سے اداکر رسم شبیری ؑ
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
تیرے دین وادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری (۲۶)
۲۔فکرخودی اور غیرت وحمیت :
آزادی عروج کا ایک سبب ہوناتو معلوم ہوالیکن خودآزادی کس چیز میں مضمر ہے؟
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے (۲۷)
اور اسی :
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ (۲۸)
فلسفہ خودی:
جو خودی انسان کو غلامی سے نجات،عمر جاوداں کا سراغ اورزندگی کا دیا عطا کرے وہ خودی کیا ہے؟
یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے
خودی کیاہے؟ تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے؟ رازدرونِ حیات
خودی کیا ہے؟ بیداری کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے ایک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں تابناک
من و تو میں پیدا من و تو سے پاک
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کے موجوں کے سہتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں
سفر اس کا انجام وآغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے(۲۹)
اب جو کوئی اس عظیم نعمت کو سیم وزر کے عوض بیچ ڈالے تو اس کی تقدیر میں غلامی ، فقیری ،زوال اور پستی کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے ۔اسی لئے نصیحت یہی ہے کہ :
خودی کو نہ دے سیم وزر کے عوض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض(۳۰)
جو اپنی خودی کا خیال رکھتا ہو کسی حد تک غیرت وحمیت کا مالک ہو وہ کبھی بھی غلامی کو قبول نہیں کرے گا اس کی مٹی کبھی پلید نہیں ہوگی اور کبھی زوال کا شکار نہیں ہوگا کیونکہ :
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند (۳۱)
۳۔اتحاد واتفاق:
شیرازہ بکھرے ہوئے اقوام وملل کبھی کامیابی سے ہمکنا رنہیں ہوسکتیں کیونکہ اتحاد ایسی چیز ہے جس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ جو قوم متحد ہوگی وہی کامیاب ہوسکتی ہے آج زوال پذیر اقوام خصوصاً مسلم امہ جو زبوں حالی کا شکا رہے مختلف نسلی، قومی، علاقائی اور لسانی اختلافات کا شکار اور وحدت وہمبستگی سے دور ہے اور ہر کوئی اپنی نسل ،اپنی قوم ،اپنا علاقہ اور اپنی زبان والوں کی بات کرتا ہے جبکہ یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ :
آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں (۳۲)
آخر لوگ اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے ؟کیوں یہ تاریخ سے عبرت نہیں لیتے ؟کیوں ہمیشہ آپس میں دست وگریبان رہتے ہیں ؟کاش کوئی اس حقیقت کو درک کر لیتا ،لیکن اکثریت اس حقیقت سے نابلد ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ:
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھے یہ بیچارے دو رکعت کا امام(۳۳)
آج اگر کوئی قوم یا ملت عروج حاصل کرنا چاہے ،ترقی کرنا چاہے اور دنیا میں زندہ قوم کی طرح باقی رہنا چاہے تو اسے یہ جان لینا چاہئے کہ:
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی(۳۴)
آج کے زمانے میں زوال پذیر اقوام خصوصاً مسلمانوں کو یہی پیغام ہے کہ اپنی بقا اور نجات چاہتے ہو تو:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر (۳۵)
۴۔رجوع بہ آئین ِ الٰہی:
اقبال کسی قوم کی بقا اور وجود کے لئے خصوصاًمسلمان قوم وملت کی بقا کے لئے مذہب کو ایک ضروری عنصر سمجھتا ہے۔مذہب ہی سے لوگوں میں اتحاد برقرار رہ سکتا ہے اور اتحاد سے کوئی جمعیت اور معاشرہ قائم رہ سکتا ہے۔لہٰذااس قوم سے یہی نصیحت ہے کہ:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
دامنِ دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی(۳۶)
یہ وہ ملت تھی جس نے باطل کو صفحہ دہر سے مٹادیا تھا نوع انسان کو غلامی سے چھڑایا تھا خدا کے گھر کو جبینوں سے بسایا تھا اور خدا کے آئین کو سینے سے لگایا تھا تو خدا نے بھی وہ عظیم نعمتیں دی اور یہ قوم دنیا میں بہت کم مدت اور کم وسائل کے ساتھ بہت ساری کامیابیوں سے ہمکنار ہو گئی ۔لیکن اب یہی قوم زوال اور پستی کی مشکلات وسختیاں جھیل رہی ہے اور ان سختیوں سے تنگ آکر اقبال اسی قوم کی زبان میں خدا سے شکوہ کرتا ہے تو خدا اسے اس کی ضمیر کی زبان سے یوں جواب دیتا ہے :
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں(۳۷)
خدا کا آئین قرآن اور سیرتِ نبوی ہے جس کی طرف دوبارہ رجوع کیا جائے تو یقینا کامیابی دوبارہ نصیب ہوسکتی ہے کیونکہ اسلاف کی کامیابی اور ہماری ناکامی اسی بات میں مضمر ہے کہ:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر(۳۸)
اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ :
ماسوا اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلمان ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں(۳۹)
۵۔امید آئندہ:
کوئی قوم ناامید نگاہوں سے اگر کامیابی کے راستے تکتے رہے تو کبھی اسے کامیابی نہیں مل سکتی اور نہ ہی امید لگاکر بیٹھ جانے سے کوئی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے کیونکہ کامیابی کا جوہر عمل ہے اسی لئے اگر اپنے ماسلف آباء واجداد کو دیکھے تو جان سکتے ہیں کہ:
ہر مسلمان رگِ باطل کے لئے نشتر تھا
اس کی آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا (۴۰)
آج ہماری حالت دیکھ کر کوئی یہی کہہ سکتا ہے کہ:
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو (۴۱)
اسی لئے جن کی امید جوان ہو اور جن کی نگاہ آسمانوں میں ہو اور آئندہ کی سوچ اور فکر کرتا ہو تو ایسے ہی لوگ اس بات کے لائق ہیں کہ ان سے یوں اظہارِ عقیدت کی جائے:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند(۴۲)
ترقی کی منزلیں طے کرنا ،دنیامیں دوسری بڑی بڑی ملتوں کے مقابلے میں اپنے وجود کوثابت کرنا،امن ورفاہ کی زندگی گزارنا، آزادی کی عظیم نعمتوں سے مستفید ہونا،ظلم وستم کی بساط لپیٹ کر عدالت کی کرسی لگانا کسی قوم کو کب نصیب ہوسکتا ہے؟
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم وعرفان ہے
امیدِ مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں(۴۳)
حاشیے:
۲۱۔قرآن مجید سورہ رعد آیت ۱۱۔
۲۲۔کلیات اقبال اردو
۲۳۔کلیات اقبال اردوص؍۵۸۶۔
۲۴۔کلیات اقبال فارسی ص؍۳۹۱۔
۲۵۔کلیات اقبال اردو ص؍۴۵۷۔
۲۶۔ایضاًص ۵۸۷۔
۲۷۔ایضاًص ۵۳۹۔
۲۸۔ایضاًص ۳۵۸۔
۲۹۔ایضاًص ۳۶۸۔
۳۰۔ایضاًص ۳۹۸۔
۳۱۔ایضاًص ۵۸۸۔
۳۲۔ایضاًص ۱۷۶۔
۳۳۔ایضاًص ۴۲۶۔
۳۴۔ایضاًص ۲۴۴۔
۳۵۔ایضاًص ۲۴۰۔
۳۶۔ایضاًص ۲۲۵۔
۳۷۔ایضاًص ۱۸۶۔
۳۸۔ایضاًص ۱۸۸۔
۳۹۔ایضاًص ۱۹۱۔
۴۰۔ایضاًص ۱۸۷۔
۴۱۔ایضاًص ۱۸۶۔
۴۲۔ایضاًص ۳۹۳۔
۴۳۔ایضاًص ۳۶۲۔
دیدگاهتان را بنویسید