تازہ ترین

بن تیمیہ کے اعتراضات کا عقلی و تاریخی تجزیہ

رسول خدا(ص)کی یہ حدیث کہ "فاطمہ(س)کے ناراض ہونے سے خدا ناراض اور فاطمہ(س)کے خوش ہونے سے خدا خوش ہوتا ہے"،یہ ایک مشہور و معروف حدیث ہے جو شیعہ سنی کی اکثر مستند کتابوں میں موجود ہے۔مخالفین نے متن حدیث اور سند حدیث پر اعتراض کرتے ہوۓ اسے ذات باری تعالی پر حضرت زہرا کو مٶثر کہہ کر شان خدا کے خلاف ثابت کرنے کے علاوہ اسے من گھڑت حدیث قرار دینے کی بھی حد الامکان کوششیں کیں ہیں۔ایسے لوگوں میں ابن تیمیہ سرفہرست ہے۔ابن تیمیہ نے سب سے پہلے اپنی کتاب منھاج السنہ میں اس حدیث کے محتوای اور سند پر اعتراضات کیے ہیں۔
شئیر
72 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10562

رسول خدا(ص)کی یہ حدیث کہ “فاطمہ(س)کے ناراض ہونے سے خدا ناراض اور فاطمہ(س)کے خوش ہونے سے خدا خوش ہوتا ہے”،یہ ایک مشہور و معروف حدیث ہے جو شیعہ سنی کی اکثر مستند کتابوں میں موجود ہے۔مخالفین نے متن حدیث اور سند حدیث پر اعتراض کرتے ہوۓ اسے ذات باری تعالی پر حضرت زہرا کو مٶثر کہہ کر شان خدا کے خلاف ثابت کرنے کے علاوہ اسے من گھڑت حدیث قرار دینے کی بھی حد الامکان کوششیں کیں ہیں۔ایسے لوگوں میں ابن تیمیہ سرفہرست ہے۔ابن تیمیہ نے سب سے پہلے اپنی کتاب منھاج السنہ میں اس حدیث کے محتوای اور سند پر اعتراضات کیے ہیں۔
تحریر میں حدیث مبارکہ کو خدا کی ذات پر اثر ”انداز قرار دینے“ اور ”قرآنی احکامات کے برعکس“ قرار دینے کو قرآنی آیات کی روشنی میں رد کرتے ہوۓ اسے قرآنی آیات ہی کے ذریعے قرآنی تعلیمات سے ہم آہنگ اور مستند حدیث ہونے کو حدیث کی قدیمی و مستند کتابوں و مختلف روایات کی روشنی میں اس کے استناد کو ابن تیمیہ سے پہلے کے اہل سنت کی مستند کتابوں سے حوالہ دے کر درست ثابت کیا ہے۔خدا قبول و مقبول فرماۓ اور آخرت میں جناب زہرا س کی شفاعت اور دنیا میں ان کی معرفت و اطاعت نصیب فرماۓ۔

حصہ اول“

”قال رسول الله یافاطمة إنَّ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لَیغضبُ لِغضبکِ ویرضٰی لِرِضاکِ“
حضرت علی علیہ السلام سے مروی یہ حدیث مختلف انداز و الفاظ کے ساتھ اہل تشیع کی معروف حدیث کی کتابوں عیون اخبار الرضا ٕ، أمالی صدوق ، أمالی طوسی کے علاوہ اہل تسنن کی مستند کتابوں صحیح البخاری ، صحیح المسلم اور دیگر معروف کتابوں میں بھی کثرت سے آٸی ہے کہ

”رسول خدا نے فرمایا کہ اے فاطمہ ! خداوند عالم تمہارے غضبناک ہونے پر غضبناک اور خوش ہونے پر خوش ہوتا ہے“{1}

یہی روایت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی اپنے اجداد کی نسبت سے نقل کیا ہے ۔اس سے متعلق ایک روایت یوں تاریخ میں آٸی ہے کہ
ایک مرد جس کا نام سندل تھا امام جعفر صادق علیہ السلام کے خدمت میں آیا اور کہا :
یا ابا عبد اللہ ! یہ جوانان آپ کے نسبت سے ایک عجیب قول نقل کرتے ہیں۔
امام نے پوچھا کیا چیز نقل کرتے ہیں؟
کہا : آپ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے کہا ہے خدا بی بی فاطمہ س کے غضبناک ہونے سے غضبناک اور خوش ہونے سے خوش ہوتا ہے۔
تو امام نے فرمایا :
سندل نے کہا : ہاں یہ روایت نقل کرتا ہوں۔
امام صادق علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ اگر حضرت فاطمہ مٶمنہ ہے تو اس روایت میں کیا تعجب ہے کہ خدا حضرت فاطمہ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے اور خوش ہونے سے خوش ہوتا ہے؟
سندل نے تصدیق کی اور کہا : ”خدا بہتر جانتا ہے کہ رسالت کو کہاں قرار دینا ہے“۔{2

یقیناً حضرت فاطمہ زہرا راز الہی میں سے ہے۔آیہ تطہیر کی رو سے تمام تر کثافت و رزاٸل فکری و خیالی سے پاک و منزہ ہے۔ خدا کے خاص بندوں میں وہ پاکیزگی و طہارت وہ خلوص اور للہ ہیت ہیں کہ وہ رضاۓ الہی اور غضب الہی کا مظہر و آٸینہ دار بنتا ہے۔ اپنے نفس کی تربیت کے ذریعے رضاۓ الہی و غضب الہی کی شناخت پر ملکہ حاصل کر کے اس میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ وہ خوشنودی الہی و رضاۓ الہی کا مظہر آٸینہ دار اور کاشف بن جاتا ہے۔
اس کی تصدیق کے لیے شیعہ سنی کے بعض کتابوں میں ایک حدیث متفقہ طور موجود ہے کہ نوافل کی اہمیت کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا کہ
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ”کوٸی بھی بندہ مجھ سے قریب نہیں ہوسکتا کسی بھی عمل سے مگر یہ کہ اس عمل کو انجام دینا جسے میں نے واجب کیا ہے۔وہ نماز نافلہ پڑھ کر مجھ سے قریب ہوگا یہاں تک کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں۔جب میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاٶں گا کہ جس سے وہ سنے۔اس کی آنکھ بنوں گا تاکہ وہ دیکھیں۔اس کی زبان بنوں گا تاکہ وہ بولیں۔اس کا ہاتھ بنوں گا تاکہ وہ اس سے کام کریں۔جب بھی وہ مجھے پکارے گا میں سنوں گا جواب دونگا۔کچھ بھی مجھ سے چاہیے گا تو میں عطا کرونگا۔{3}

رسول خدا کا یہ فرمان اپنی محتوای سند اور قرآنیات کے مطابق معقول مقبول و صحیح سند حدیث ہے۔مگر وہ افراد جن کے دلوں میں مرض ہے انہوں نے اس پر کٸی اشکالات کیے ہیں۔مثلا ان لوگوں کا یہ کہنا کہ حدیث کا متن ہی قرآنیات کے خلاف ہے۔فلسفہ توحید کے خلاف ہے۔عقلا و شرعا محال ہے چونکہ اس سے حضرت زہرا کی طبیعت کے مطابق خدا کی ذات میں تغیّر پیدا ہونا لازم آتا ہے جوکہ جاٸز اور معقول نہیں۔ دوسری بات اس حدیث کی سند درست نہیں ہے یہ من گھڑت حدیث ہے وغیرہ ۔ تو ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات و مزاج کے مطابق اس حدیث کا مفہوم درست ہے یا نہیں؟ یہ حدیث ذات توحید میں تغیر و تبدل کا باعث ہے یا نہیں؟
متن حدیث قرآنی آیات کے روشنی میں:

کیا قرآن میں ایسی کوٸی مثال ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے کسی مخلوق کی ناراضگی کو اپنی ناراض گی قرار دیا ہو؟
مخلوق سے دشمنی کو اپنی ذات سے دشمنی قرار دیا ہو؟
تو اس کا جواب مثبت میں ہے۔چونکہ دامن قرآن میں اس کی اثبات کے لیے سینکڑوں آیتیں موجود ہیں۔ان میں سے چند یہ ہیں۔
وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَ کَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۫ۖ فَلَا تُشۡمِتۡ بِیَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِیۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ{۱۵۰}۔اور جب موسیٰ نہایت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو کہنے لگے: تم نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تم نے اپنے رب کے حکم سے عجلت کیوں کی؟ اور (یہ کہہ کر) تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ہارون نے کہا: اے ماں جائے! یقینا قوم نے مجھے کمزور بنا دیا تھا اور وہ مجھے قتل کرنے والے تھے لہٰذا آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں۔

اس آیہ مجیدہ میں حضرت موسی نبی کے رنجیدہ ہونے اور غضبناک ہونے کو پہلے واضح کر کے بیان کیا ہے پھر ایک آیہ چھوڑ کر دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ

اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ سَیَنَالُہُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ ذِلَّۃٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُفۡتَرِیۡنَ﴿۱۵۲﴾
۔جنہوں نے گوسالہ کو(معبود)بنایا بیشک ان پر عنقریب ان کے رب کا غضب واقع ہو گا اور دنیاوی زندگی میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور بہتان پردازوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔
حضرت موسی کے غضبناک ہونے کے بعد اللہ کے غضبناک ہوکر عذاب نازل کرنے کے اعلان سے پتہ چلتا ہے کہ گویا حضرت موسی کا غضبناک ہونا ہی اللہ کا غضبناک ہونا ہے۔
یقینا اللہ کے نبی کا یا آٸمہ معصومین علیہم السلام کا غضبناک ہونا اور عام لوگوں کے غضبناک ہونے میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔آٸمہ اور اوصیا اپنی ذاتی مفاد یا دنیاداری کے لیے غضبناک نہیں ہوتے بلکہ ان کا غضبناک ہونا دین اور حق کے لیے ہیں اس لیے اللہ اور رسول نے ان کے غضب کو اپنا غضب قرار دیا ہے۔
قرآن کی نظر میں چند افراد سے دشمنی اللہ سے دشمنی ہے:

دامن قرآن میں ایسی کٸی آیتیں موجود ہیں کہ جس میں اللہ نے ان شخصیتوں سے دشمنی کو اپنی ذات سے دشمنی قرار دیا ہے جیسے سورہ بقرہ میں۔۔
مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ جِبۡرِیۡلَ وَ مِیۡکٰلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۹۸﴾
یعنی جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں، رسولوں اور (خاص کر) جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اللہ(ایسے) کافروں کا دشمن ہے۔

جو مٶمنین کو بےوقوف کہیں اللہ انہیں بےوقوف کہتا ہے
سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں: کیا ہم (بھی ان) بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ یاد رہے! بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں لیکن یہ اس کا (بھی) علم نہیں رکھتے۔

سورہ ‎آل عمران‎ میں ارشاد رب العزت ہے کہ
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳۱﴾
یعنی اے رسول کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیراہل سنت کی نظر میں اہلبیت پر ظلم خدا پر ظلم:

سورہ زخرف
فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۵۵}پس جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا پھر ان سب کو غرق کر دیا۔
ظاہرا اس آیت کا تعلق فرعون اور فرعونیوں سے ہے مگر اہل سنت کی ایک عظیم عالم دین قندوزی حنفی اس آیت کی تفسیر امام محمد باقر ع سے کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ
خدا کی ذات اس چیز سے بلند ہے کہ اسے غصہ دلاٸیں یا اس کی ذات پر کوٸی ظلم کریں لیکن ہمارے غصے اور ہم پر ظلم کو خدا خود پر ظلم قرار دیتا ہے۔{حوالہ ینابیع المودہ ۔باب 62
پس ان جیسے دیگر سینکڑوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اپنے خاص بندوں کے ذکر کو اپنا ذکر ، ان سے محبت کو خود سے محبت ان کے غضب کو اپنا غضب ، ان سے دوستی کو خود سے دوستی ، ان سے دشمنی کو خود سے دشمنی ، ان کے عمل کو اپنا عمل قرار دیتا ہے۔اس لیے مفہوم حدیث بھی قرآنی آیات کے عین مطابق ہے ۔اس سے ذات پروردگار میں تغیّر مراد نہیں بلکہ

حضرت فاطمہ زہرا کے رضاۓ الہی یا غضب الہی کے کاشف ہونے کو ثابت کرتی ہے۔یہ برہان دلیل میں دلیل لمّی کی طرح ہے جس میں علّت کے وجود سے معلول کے وجود یا کیفیت پر دلیل لاتے ہیں۔نہ کہ علّت سے معلول کے تغیر کو ثابت کیا جاتا ہے۔

حصہ دوم“

احادیث کی روشنی میں نقد و انتقاد:

اس حدیث کا سب سے بڑا منکر ابن تیمیہ ہے۔اس کی اہلبیت علیھم السلام سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ اظہر من الشمس ہے۔ ابن تیمیہ کا اپنی کتاب منہاج السنہ میں اس حدیث کے متعلق چند دعوا ہے
1. یہ حدیث جھوٹی ہے
2. پیغمبر سے نقل نہیں ہوٸی ہے بلکہ من گھڑت ہے
3. معروف حدیث کی کتابوں میں نہیں ہے۔ان کے پیروکاروں کا بھی یہی دعوای ہے۔
واضح رہے کہ ابن تیمیہ 661 ہجری میں پیدا ہوا اور 728 ہجری میں انتقال کر گیا تھا۔
اب ہم ثابت کریں گے کہ ابن تیمیہ سے قبل اہل سنت کے عظیم محدثین و مفسرین اور علماۓ کرام نے حدیث کی مستند کتابوں میں اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ ذکر بھی کیا ہے اور انہوں نے قبول بھی کیا ہے۔
کتاب ”الآحاد والمثانی“ ج پنجم میں الشیبانی نے بیان کیا ہے جن کی وفات 287 ہجری میں ہوٸی۔

سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی شامی نے اپنی کتاب ”المعجم الکبیر“ میں بیان کیا ہے۔واضح رہے ان کا انتقال 360 ہجری میں ہوا ہے۔
اسی طرح ابوعبداللہ المعروف ابن البیع نے المستدرک علی الصحیحین میں ذکر کیا ہے یہ 405 ہجری میں انتقال کر گٸے تھے۔
ابی نعیم اصبھانی نےکتاب فضاٸل الخلفا ٕ الاربعہ میں لایا ہے ان کا 430 ہجری میں انتقال ہوا ہے۔

دلیل محکم
اس حدیث کی تمام دلاٸل میں سے ایک محکم دلیل و راوی خود حضرت فاطمہ زہرا س ہے جو روایت ابن قتیبہ آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آخری ایام میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر جب شہزادی فاطمہ کے پاس حضرت علی کو سفارشی قرار دیکر پہنچے اور معافی طلب کیا تب حضرت زہرا نے یہ حدیث پڑھ کر انہیں سنایا پھر اس کے بارے میں ان سے تصدیق بھی لی کہ ہاں ہم نے رسول خدا سے یہ حدیث سنی ہیں۔جب انہوں نے اقرار کیا تو فرمایا کہ میں ہرگز معاف نہیں کرونگی بلکہ بابا رسول خدا کے پاس تمہاری شکایت کرونگی۔

اس روایت کو عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبہ نے تفصیل کے ساتھ اپنی معروف کتاب ”الامامہ والسیاسیہ“ میں ذکر کیا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث آیات و تعلیمات قرآنی کے عین مطابق اور ابن تیمیہ سے قبل محدثین نے اپنی کتابوں میں صحیح اسناد کے ساتھ اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔اور اس حدیث سے حضرت فاطمہ الزہرا ٕ س کا خدا کی ذات پر اثر انداز ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اپنی عبادات و ریاضت اور اطاعت الہی کے سبب رضاۓ الہی و غضب الہی کا کاشف ہونے کو واضح کرتی ہے۔خدا ہمیں معرفت و پیروی اہلبیت علیھم السلام کے ذریعے بہترین بندگی پروردگار و عبادت الہی انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات۔
آیات۔سورہ بقرہ آیت۔98.
سورہ اعراف 150.
سورہ بقرہ۔آیت 13
سورہ آل عمران آیت 21
سورہ زخرف آیت 55

1.عیون اخبار الرضا۔ج 2.امالی صدوق۔امالی طوسی۔دلاٸل الامامہ
2.امالی طوسی۔مجلس 15.حدیث 11.امالی صدوق۔مجلس 61.حدیث 1
3.اصول کافی ج 2

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *