قیام امام حسین کے اغراض و مقاصد
تحریر: سید ارشد حسین موسویقیام امام حسین ایک ایسا مکتب ہے جس کا ہم مختلف پہلووٴں سے جائزہ لے سکتے ہیںجیسے دلاوری، فداکاری، ایثار، شہامت۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس کے دقیق مطالعے سے انسان اپنی قدرت اور توانائی کے مطابق ایک اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس […]
تحریر: سید ارشد حسین موسوی
قیام امام حسین ایک ایسا مکتب ہے جس کا ہم مختلف پہلووٴں سے جائزہ لے سکتے ہیںجیسے دلاوری، فداکاری، ایثار، شہامت۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس کے دقیق مطالعے سے انسان اپنی قدرت اور توانائی کے مطابق ایک اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے بارے میں دانشوروں نے متعدد تفسیریں اور نظریے قائم کئے ہیں جو کہ ایک عجیب چیز نہیں ہے کیونکہ یہ تحریک ایسی شخصیات سے مربوط ہیں جو تاریخ میں عالی ترین مقامات پر فائز تھے۔
اس مختصر سے مضمون میں ہم امام حسین کے قیام کے اسباب بیان کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ امام حسین کی اہم بحثوں میں سے ایک بحث اس کے علل واسباب کی تحقےق و جستجوکرنا ہے، ہر محقق اورجستجو کرنے والا اپنے آپ سے سوال کرتا ہے۔ امام کے اس قیام اور تحریک کا کیا سبب تھا؟معاشرے میں کونسی تبدیلی لانا مقصود تھی؟فلسفے کی اصطلاح میں امام کے اس عظیم انقلاب کی علل غائی (اصلی مقاصد) کیا تھیں؟
امام حسین کے اس قیام کی کچھ خصوصیات ہیں جو فقط اسی قیام سے مخصوص ہیں (حتی اُن خصوصیات کو تاریخ کے دوسرے انقلابوں میں یہاں تک کہ کسی پیغمبر یا وصی کے لائے ہوئے انقلاب میں بھی نہیں پاسکتے) ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام جو عقل کل، معصوم تھے، اور دور اندیشی کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے انھوں نے کیوں اس عمل کو انجام دیا؟
امام کے قیام کے سلسلے میں مختلف نظریے بیان کئے گئے ہیں، جن پر ایک سرسری نظر، قیام کے اسباب کو واضح کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے․
1. قبیلے کے اختلاف اور اموی خاندان سے دشمنی
بعض موٴرّخوں اور شرق شناس مغربی اسکالروں کے نزدیک انقلابِ حسینی کی وجہ بنی ہاشم اور بنی اُمیّہ کے اختلافات تھے۔ دونوں قبیلے یہ چاہتے تھے کہ مکّہ کی سرداری اور خانہٴ خدا کی زعامت انہیں حاصل ہو۔ اسلام آنے کے بعد یہ اقتدار بنی ہاشم کو ملا اوربنی اُمیّہ کو شکست نصیب ہوئی۔ بنی امیّہ اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح یہ امتیاز اور یہ کرسی انہیں ملے جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر ایک ایسا موقعہ آیا کہ معاویہ خلافت کی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس طرح یہ لوگ جیت گئے اور بنی ہاشم کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔
ان لوگوں کے بقول امیرالموٴمنین علی اور امام حسن کی معاویہ کے ساتھ جنگ بھی قبائلی اختلافات کی بنا پر ہوئی اور امام حسین کی یزید کے ساتھ جنگ بھی اسی کا نتیجہ تھا۔ علم سماجیات کے لحاظ سے ممکن ہے یہ قول اور یہ تجزیہ صحیح ہوکیونکہ اس زمانے میں، قبائلی نظام تھااورقبیلوں کے سردار وشیوخ معاشرے کے حاکم ہوا کرتے تھے اور جب دین اسلام آیا جو کہ برادری وبرابری کا دین تھاتب بھی قبیلوں کے سردار اور شیخ جو چاہتے تھے اُن کے قبیلے والے وہی کام انجام دیتے ․
لیکن یہ تفسیر غلط اور غیر قابل قبول ہے کیونکہ قیام حسینی میں عنصر ایمان پایا جاتا ہے اور یہ نظریہ عنصرایمان سے عاری ہے اور اس تفسیر کا نتیجہ پیغمبر کی نبوّت اور ائمّہ کی ولایت پہ عدم ایمان اور خاص طور پہ اہل بیت کے عقائد اور حقّانیت کے ساتھ ناسازگار ہے۔ اگر یہ تفسیر صحیح ہوتی تو امام حسین کو اپنے قبیلے اور علاقے کے لحاظ سے حجاز میں ہی یہ انقلاب برپا کرنا چاہیے تھا نہ کہ وطن سے دور، عالمِ غربت میں کہ جہاں نہ قبیلہ اپنا تھا، اور نہ ہی سرزمین اپنی تھی، اُن کے اکثر اصحاب و انصارغیرہاشمی اور غیر حجازی تھے اس کے علاوہ یہ قیام عقیدے اور IDEOLOGY کی بنیاد پر تھا جیسا کہ امام حسین فرماتے ہیں ”انّما خرجت لطلب اصلاح امّة جدّی“ میں نے فقط اپنے جد کی امت کی اصلاح کیلئے خروج (قیام)کیا۔
2. شخصی مفادات کیلئے
دوسرانظریہ جو قیام حسین کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے وہ امام کے ذاتی اغراض اور نفسیات ہیں کیونکہ امام جوانمردی، بہادری اور دلاوری میں اپنے والد کے وارث تھے لہٰذا کسی بھی صورت میں کہیں پر بھی ظلم وستم کو برداشت نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا ان ذاتی خصوصیات کی بناء پر انھوں نے یزید کے خلاف قیام کیا ۔ جس طرح حضرت علی نے ایک لمحہ کیلئے بھی معاویہ کو برداشت نہیں کیااور مصلحت کو درمیان میں آنے نہیں دیا، اسی طرح امام حسین نے بھی یزید کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا۔
اگر دیکھا جائے تو یہ نظریہ بھی غلط ناقابل قبول اور امامیہ کے عقائد کے خلاف ہے۔ امامیہ معتقد ہیں کہ آئمّہ کے کردار میں کسی قسم کا فرق نہیں، سب کا فعل وعمل ایک جیسا ہے۔ اُن میں جسمی اعتبار سے فرق ہوسکتا ہے لیکن، اجتماعی اور دینی لحاظ سے ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے یہ سب کے سب نورِ واحد ہیں۔ تاریخ بھی اس نظریہ کو ردّ کرتی ہے۔ معاویہ کے زمانے میں امام حسین، امام حسن کے ساتھ دس سال تک رہے اور کسی قسم کا کوئی قدم نہیں اُٹھایا، لوگوں نے بغاوت کی دعوت دی، عراق بلایا تاکہ معاویہ کی حکومت کا تختہ الٹا جاسکے پھر بھی قبول نہیں کیا اور امام حسن کے بعد بھی اُن کے راستے پر چلتے رہے۔ دونوں امام اس زمانے میں صلح کو ہی مناسب جانتے تھے اس لئے اسی پر قائم رہے۔
ان دو غلط نظریوں اور تفسیروں کے مقابلے میں کچھ نظریات اےسے ہیں جو قابلِ قبول بھی ہیں اور عقائد امامیہ سے منافات بھی نہیں رکھتے۔ البتہ ہوسکتا ہے یہ نظر درست ہولیکن امام کے قیام کی اصلی علت اورمقصد نہ ہو
یہاں پر تین طرح کے مختلف نظریات ہیں جو شیعہ عقیدے کے مطابق ہیں
3. قضائے الہی
اس نظریے اور تفسیر میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ امام کا قیام علمِ غیب کی بنیاد پرتھاچونکہ امام عالمِ غیب سے مرتبط ہے لہٰذا خدائے منّان کی طرف سے ان پر واجب ہوگیا کہ قیام کریں اور انقلاب لائیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ امام حسین نے فرمایا کہ پیغمبرنے ان سے فرمایا”خدا چاہتا ہے تجھے اپنی راہ میں شہید دیکھے اور اس نے تمھارے مقدر میں لکھا ہے کہ سرزمین کربلا پر شہید کئے جاوٴ“ 1
تجزیہ وتحلیل
یہ تفسیر اور یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہے اور اس کے صحیح نہ ہونے کی چند دلیلیں ہیں:
الف) اوصیائے الٰہی کا کردار بشریت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، یہ صحیح ہے کہ امام منبع غیب سے متّصل ہے لیکن اگر عالم غیب کی بنا پر وہ ہر کام انجام دیں تو پھر ان کا قول وعمل عام انسان کیلئے دشوار ہوجائے گااور وہ بھی ایک عام آدمی کو رفتار وکردار کے لحاظ سے نہیں بدل سکتے، اس کے علاوہ امر غیب ہر انسان کیلئے قابل فہم نہیں اور اگر یہ مسئلہ امر غیب سے مربوط ہوتا تو امام حسین لوگوں کومدد کیلئے نہ بلاتے اور نہ ہی کسی کا انتظار کرتے۔
ب) امام اس قیام کو سب پر واجب سمجھتے تھے: امام حسین کے تمام خطبے، کلام اور فرمائشات جس میں انھوں نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کی اور انہیں اپنے قیام سے آگاہ کیا؛ اس نظریہ کے ساتھ سازگار نہیں ۔
4. اسلامی حکومت کا قیام
انقلاب حسینی کے سلسلہ میں پیش کیا جانے والا ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ قیام بشری تقاضوں کے مطابق تھا اور اس میں اجتماعی اور سیاسی اسباب ومقاصد پوشےدہ تھے، یعنی امام کا مقصد خلافت کاحصول اور حکومت اسلامی کو تشکیل دینا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق امام حسین نے باقاعدہ پروگرام کے تحت اپنا حق حاصل کرنے کیلئے قیام کیا، امام اپنا حق حاصل کرنے عراق گئے جہاں ان کے چاہنے والوں کی اکثریت تھی جو ان کے ساتھ رہ کر باطل کی نابودی کیلئے ہر طرح کی قربانی کیلئے تیار تھے ؛اس نظریے کی دلیلیںحسب ذیل ہیں:
۱۔ امام نے حضرت مسلم کواپنے سفیر کے عنوان سے بیعت اور حالات سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے بھیجا۔ 2
۲۔ خود امام کے وہ خطبے جن میں انھوں نے خلافت کواپنا حق قرار دیا ہے 3
تجزیہ وتحلیل
یہ نظریہ، شواہدکے مطابق صحیح ہے لیکن امام نے صرف اسی مقصد کیلئے قیام کیا ہو، چند دلیلوں کی بنا پرصحیح نہیں ہے ۔
۱۔ ان شواہد کے ذریعہ ہم امر رسالت دینی کو بھی ثابت کرسکتے ہیں جیسا کہ وہ فرماتے ہیں: ”حق اُس کے حقدار اور اہل کو ملے“ (وہی مدرک) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام صرف حکومت چاہتے تھے اور انہیں پتہ نہیں تھاکہ شہید کردئے جائیں گے بلکہ امام امّتِ اسلامی کو صحیح راہ پر لے جانا چاہتے تھے۔
۲۔ امر سیاست امام کے دوسرے مقاصد جو ان کی فرمائشات میں واضح اور روشن ہیں سے مطابقت نہیں رکھتا (مثلاً․․․”شاء اللہ اٴن یراک قتیلاً“ (ماٴخذ قبلی)) اس کے علاوہ اگر امام صرف سیاست اور حکومت کو حاصل کرنا چاہتے تھے تو اپنے قافلے میں عورتوں اور بچوں کو لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟اور جب حضرت کواپنے سفیر مسلم کی شہادت اور اہل کوفہ کی بے وفائی کی خبر ملی تو وہیں سے واپس آسکتے تھے، پھر عراق جانے کی کیا ضرورت تھی؟
5. شرعی فریضہ
قیام امام حسین کے اسباب کے ذیل میں یہ نظریہ شہید صدر نے پیش فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سقیفہ سے اٹھنے والے طوفان نے اسلام و اسلامی معاشرے کو انحطاط وپستی کے گڑھے میں لا پھینکا ․․․اسلام پر جان نچھاور کرنے والے خود خواہی وجاہ طلبی کی بھول بھلےوں میں بھٹک گئے، یہاں تک کہ اہل بےت علیہم السلام کا حق غصب کیا گیا․․․پیغمبر اسلام صلّ اللهعلیہ وآلہ وسلّم کی سنت کو پامال کیا گیا․․․ لیکن لوگ اپنے حال میں مست رہے، اقرباء پروری و زراندوزی کو اسلام قراردیا گیا، خلفاء کی غلطےوں کو ” خطاء اجتہادی“ کی پوشاک پنہاکر محفل اسلام میں جگہ دے دی گئی ․․․امیر المؤنین علیہ السلام اور معاویہ کی جنگ کو قبائلی اختلافات کا شاخسانہ قرار دیا گیا ․․․، غرض مسلمان ایک اےسی خوابےدہ قوم کا روپ دھار چکے تھے جو ذلّت و خواری کی چادر اوڑھے سورہی ہو․․․
امام حسین علیہ السلام نے خواب غفلت میں غرق مسلمانوں کو بےدار کرنے کے لئے قیام کیا اور امام کی اس تحریک کی کامیابی کے آثار قیام کے فوراً بعد ہی رونما ہونے شروع ہو گئے اور وہ افراد جو ذلت و خواری کا طوق اپنے گلے میں ڈالے خاموش بےٹھے تھے، اٹھ کھڑے ہوئے اور قیام توابین کا آغاز کیا․․․․
اس نظریہ کی روشنی میں قیام امام حسینعلیہ السلام کسی ایک زمانے سے مربوط نہیں بلکہ جب بھی یہ صورت حال پیش آئے گی کربلا ایک نمونہ عمل کے طورپر ابھر کر سامنے آئے گی․․․
1. امالی صدوق، ص۲۱۷
2. مقتل ابی مخنف، ص۱۱۹
3. تاریخ الاٴمم والملوک، ج۴، ص۲۶۶؛ ارشاد مفیدج۲، ص۳۹
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید