تازہ ترین

واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ / مکہ اور منی کے واقعات کے اسباب کی ایک تحلیل

اس سال حج میں جو سلسل وار واقعات  پیش آئے ہیں اور خاص کر منی کا واقعہ ،یہ واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے امریکہ اور آل سعود ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں امریکہ اور سعودیہ کی اس ڈبلینگ میں سے محمد بن […]

شئیر
29 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1104

اس سال حج میں جو سلسل وار واقعات  پیش آئے ہیں اور خاص کر منی کا واقعہ ،یہ واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے امریکہ اور آل سعود ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں امریکہ اور سعودیہ کی اس ڈبلینگ میں سے محمد بن نایف اور محمد بن سلمان میں سے آخر کار ایک کو موجودہ بادشاہ کا جانشین بننا ہے اور دوسرے کو نالایق اور بے کار ہونے کی وجہ سے طاقت سے کنارہ کش ہونا ہے ۔
مقدمہ ؛
اس سال حج میں سلسلہ وار واقعات کے رونما ہونے کے بعد ان واقعات کے دو اسباب بتائے جارہے ہیں ۔
۱ ۔ فرضیہء قصور اور کوتاہی ۔
۲ ۔ فرضیہ تقصیر و تعمد ۔
جو لوگ فرضیہء قصور اور کوتاہی کے معتقد ہیں وہ ان واقعات کی وجہ سعودی حکام کی تدبیر میں کوتاہی ، نظم برقرار کرنے میں نا اہلی ، تجربے کی کمی ، اور یمن کی جنگ اور بحرین میں مداخلت کی وجہ سے آل سعود کی توجہ حج کے مسئلے پر نہ ہونا بتاتے ہیں ۔پہلے فرض کے مقابلے میں دوسرا فرض پیش کیا جا رہا ہے کہ جس میں مکہ اور منی منی کے حوادث کی وجہ سعودی حکام کی سوچی سمجھی سازش کو بتایا گیا ہے ۔ اس دوران کچھ لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ لوگ دوسرے فرض کے بجائے پہلے فرض کو تسلیم کر لیں اس لیے کہ پہلے فرض کے لوگوں پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔یہ لوگ فرضیہء تقصیر و تعمد کے برملا ہو نے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مضر مانتے ہیں اسی لیے وہ اس کوشش میں ہیں کہ اس فرض کو نظر انداز کیا جائے اور فرضہیء قصور و کوتاہی کو برملا کیا جائے ۔
سیاسی عمل اور مذکورہ بالا گروہ کے مقاصد پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فرضیہء تقصیر و تعمد کے سامنے آنے کے عواقب و نتائج مندرجہ ذیل ہوں گے جن سے اس گروہ کے مقاصد کمزور اور خلل پذیر ہو جائیں گے ۔
* معاشرے کی فضا اور عام جذبات کا انتخابات کے حق میں نہ ہونا ۔
*  معاشرے کا مشترکہ جامع پلان ( برجام) کی خوبی اور پانچ جمع ایک کے سمجھوتے کو رد کر دینا ۔
* معاشرے کا سیاسی اور ثقافتی دو قطبی فضا سے باہر آجانا ،
اس مقالے کے لکھنے والے نے دوسرے فرضیے پر اعتقاد رکھتے ہوئے تقصیر اور تعمد کو مکہ اور منی کے واقعات کے رونما ہونے کا سبب قرار دیا ہے ،اس بنا پر کوشش کی جائے گی کہ اس مقالے میں ایک منطقی اور مستند بحث کے ذریعے اور درج ذیل دو محوروں پر انحصار کرتے ہوئے مذکورہ بالا دو فرضیوں کے بارے میں بحث کی جائے ۔
اول ؛ مشاہدات اور زمینی حقائق کی بنیاد پر فرضیہء قصور و کوتاہی کی تردید ۔
دوم ؛ مکہ اور منی کے واقعات میں فرضیہء تقصیر و تعمد کو ثابت کرنے کے لیے صحیح اور برہانی دلایل پیش کیا جانا ۔
امید ہے کہ یہ مقالہ حریم دوست کے زائروں کی ان پاک اور نورانی ارواح کے قرض کی ادائگی کا ایک ذریعہ بن سکے کہ زندگی کے پاک ترین لمحات میں مظلومانہ اپنی جان دی اور امت کو اپنے غم میں عزادار بنا دیا ۔
فرضیہء قصور و کوتاہی کی تردید کے دلایل ؛
۱ ۔ آل سعود کا یہ جھوٹا دعوی کہ مسجد الحرام میں جو کرین گری تھی وہ آندھی کے چلنے سے گری تھی ، اس لیے کہ کرین ہوا کے رخ کے مخالف سمت میں گری تھی ۔
۲ ۔ کرین کا اس کے تعادل کے وزن کے خلاف سمت میں گرنا ۔
۳ ۔ مسجد الحرام میں حادثے کے بعد امداد رسانی مں جان بوجھ کر کوتاہی کیا جا نا ۔
۴  رمی جمرات کی طرف جانے والے راستوں کو بغیر کسی پیشگی اطلاؑ کے غیر متوقع پور پر بند کر دینا ۔
۵ ۔ ایشیاء اور افریقہ کے حاجیوں کے راستے میں خلل ایجاد کرنا (عربی اور سعودی حاجیوں کا راستہ معمول کے مطابق کھلا تھا ) ۔
۶ ۔ رمی جمرات کی طرف جانے والے ایک راستے کو بند کرنے کی دلیل نہ بتانا ۔
۷ ۔ حاجیوں کو لے جانے والی ٹرین کی حرکت میں غیر متوقع طور پر خلل ایجاد کیا جانا اور ٹرین کا دیر تک کھڑے رہنا  کہ جس کی وجہ سے حاجیوں کے راستے میں بھاری بھیڑ جمع ہو گئی۔
اس سلسلے میں سعودی عرب کے ایک انتہائی تیز و طرار نامہ نگار مجتہد نے تصریح کی ہے کہ رات میں ٹرین چار گھنٹے لیٹ تھی  جس کی وجہ سے حاجی اسٹیشن پر انتظار کرتے رہے ۔۔۔جب ٹرین پہنچی تو اس کے باوجود کہ ٹرین کے دبے بھر چکے تھے اور دروازے بند تھے مگر پھر بھی ٹرین نہیں چلی ،مجتہد نے زور دے کر کہا کہ ٹرین کھڑی تھی اور اس کے دروازے بند تھے اور ایک گھنٹے تک اس کے دروازے نہیں کھلے ،دروازوں کے بند ہونے کی وجہ سے مسافروں کو گھٹن کا احساس ہوا  جس کی وجہ سے کچھ مسافر بے ہوش ہو گئے ۔

۸ ۔ بھیڑ کو کنٹرول کرنے والے مرکز کی طرف سے بھاری بھیڑ کے جمع ہوجانے کی خبر دینے کے باوجود اس پر دھیان نہ دینا  ۔
مجتہد کہتا ہے : حج کو منعقد کروانے والے سعودی حکام نے حادثے کے رونا ہونے سے دو گھنٹے پہلے  بھیڑ پر نظر رکھنے والے کیمروں کے ذریعے بھیڑ کو دیکھا تھا اور سیکیوریٹی فورسز کو ضروری نوٹس بھیج دیے تھے  لیکن سیکیوریٹی فورسز ان پر کوئی دھیان نہیں دیا ۔
۹ ۔حج کے ان عظیم اعمال کا انتظام کرنے کے لیے ناواقف اور کمزور لوگوں کو تعینات کیا جانا ۔
۱۰ ۔ حاجیوں کو بھیڑ سے بھرے ہوئے راستوں کی لے جانا ۔
۱۱ ۔ داخل ہونے کے راستوں کو کھلا رکھنا اور خارج ہونے کے راستوں کو بند کیا جانا ۔
۱۲ ۔ بند کیے راستے سے حاجیوں کو اسی طرف موڑنا کہ جس طرف سے وہ آ رہے تھے ۔
۱۳ ۔ امدادی تیم خاص کر ڈاکٹروں کی ٹیم کا کئی گھنٹے دیر سے پہنچنا ۔
۱۴ ۔ ان صدمہ دیدہ افراد کو ہوش میں لانے کی کوشش نہ کرنا کہ جو بھیڑ کے دباو اور گرمی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے ۔
۱۵ ۔ دوسرے ملکوں خاص کر جمہوریء اسلامی کے ڈاکٹروں کو ٹیم کو امداد کے لیے جانے سے روکنا ۔
۱۶ ۔ جہان ی واقعہ رونما ہوا تھا اس علاقے کو محاصرے لیا جانا  اور لوگوں کو وہاں سے نکلنے اور امداد رسانوں کو وہاں آنے سے روکنا۔
۱۷ ۔  زخمیوں کو منتقل کرنے پر توجہ نہ دینا ۔
۱۸ ۔ زخمیوں اور جان گنوا دینے والوں کی شناخت کے لیے ان کے متعلقہ ممالک کے ساتھ تعاون نہ کرنا ۔
۱۹ ۔ سعودی عرب کا اس سے زیادہ تعداد کے ساتھ حج کے اعمال منعقد کروانے کا تجربہ ،اور منی میں اس سے کم تعداد کے باوجود حوادث کا تجربہ۔
۲۰ ۔ مسجد الحرام میں کرین گرنے کے باوجود منی میں حادثے سے بچنے کے لیے حفاظتی انتظامات نہ کیے جانا ۔
یقینا جب حاجی واپس آئیں گے اور وہ آنکھوں دیکھی سنائیں گے تو مزید علل و اسباب کا پتہ چلے گا  اور کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہے گی کہ قصور و کوتاہی کا فرضیہ بد انتظامی اور تدبیر امور میں کمزوری  اور تجربے میں ناپختگی  کی بنا پر  ایک غلط فرضیہ ہے ۔
مکہ اور منی کے حوادث کے رونما ہونے میں تقصیر و تعمد کے فرضیے کے اثبات کے دلایل ، ؛
انجام شدہ تحقیقات کی بنیاد پر کہ جو مشاہدات اور واقعیات سے مربوط ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مکہ اور منی کے حوادث کی تین اہم دلیلیں ہیں ۔
۱ ۔ واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ ۔
 ۔ ایران سے خوف اور ایران کے خلاف جنگ کی فضا قائم کرنا ۔
۳ ۔ شیعوں سے خوف زدہ کرنا اور مذہبی جنگ شروع کرنا ۔
فرضیہء تقصیر و تعمد کے اثبات میں مستقبل میں ممکن ہے کچھ دوسرے دلایل بھی پیش کیے جا سکیں کہ جو ابھی گمان کی حد تک ہیں اور ان کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے :
واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ ؛
علاقے میں مذہبی کشیدگی اور نیابتی جنگ کہ جو امریکہ صہیونی حکومت اور بعض یورپ کے ملکوں کی جانب سے سعودی عرب کی عقیدتی حمایت کے ساتھ خطے میں  شروع کی گئی ہے، اس جنگ کا منصوبہ بنانے والوں اور اس کو عملی جامہ پہنانے والوں کے مقاصد کے بر خلاف یہ جنگ درج ذیل نتائج پر منتہی ہوئی ہے ؛
* علاقے میں جمہوری اسلامی کے اقتدار اعتبار اور اسٹراٹیجیک نفوذ میں اضافہ ۔
 * علاقائی تنازعات میں روس کی بھر پور مداخلت ۔
 * علاقے میں امریکی پالیسیوں کے سلسلے میں یورپی ملکوں می شکوک و شبہات پیدا ہو نا ۔
* امریکہ کے علاقائی حلیفوں جیسے سعودی عربیہ اور ترکی کا خود ساختہ نیابتی جنگوں کے گرداب میں گرفتار ہو نا ۔
* علاقے میں اسلامی مزاحمت کی حدود اور ثقافت میں پھیلاو ۔
* مغربی ،عربی اور عبری ملکوں کے اقدامات کے سلسلے میں علاقے کی رائے عامہ میں شدید نفرت کا وجود میں آ نا۔
مذکورہ چیزوں نے علاقے میں اسٹراٹیجیک تعادل کو بدلنے کے علاوہ  علاقے میں نئے امنیتی اقدامات کے کیے جانے کا باعث بنی ہیں ،ان میں سے بعض اقدامات نے ایران ، اسلامی مزاحمتی محاذ اور روس کو دہشت گردی کے ساتھ مقابلے کا ایک قطب بنادیا ہے اور اس کے مقابلے میں امریکہ ،کچھ یورپی ملکوں صہیونی حکومت اور علاقے میں امریکہ کے ساتھیوں کو دہشت گردی کے حامی قطب میں قرار دے دیا ہے ۔
اس بنا پر امریکہ میں جو حکمران پارٹی ہے  وہ مذکورہ بالا صورت حال کو قابو میں کرنے کے لیے جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ کار آمد تعاون کرنے کے لیے خود کو مجبور پاتی ہے ۔قصر ابیض کے موجودہ حکام کا یہ عقیدہ ہے کہ شام ،عراق اور یمن کی فائل پر تیزی کے ساتھ عمل ہونا چایئے،ورنہ امریک کے آنے والے الیکشن میں ڈیمو کریٹس کو جمہوری خواہوں کے مقابلے میں بھاری شکست کا سامنا ہو گا ۔اس سلسلے میں او با ما اور اس کی پارٹی خود پر لازم سمجھتی ہے کہ سعودی عرب کی حاکمیت کو بدلا جائے ۔ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ حکومت کے کاروبار کو دوسری نسل کے شاہزادوں تک منتقل کیا جائے  جس کے لیے انہوں نے دوسری نسل کے سب سے بڑے شاہزادے محمد بن نایف کا انتخاب کیا ہے جو اس وقت سعودی عرب کا ولی عہد ہے۔ اس کے مقابلے میں جموری خواہ اور صہیونی حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ محمد بن سلمان فرزند ملک سلمان کو بادشاہت کی مسند پر بٹھایا جائے ۔
جمہوری خواہوں کے ساتھ محمد بن سلمان کے رابطے کا آغاز ہتھیاروں کی تجارت سے ہوا تھا جو اب ایک اسٹاٹیجیک تعاون تک پہنچ چکا ہے ۔اس نے اسی حمایت کی پشتپناہی کے سہارے طاقت کے زینوں کو  تیزی کے ساتھ طے کیا ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے باپ کے اقتدار تک پہنچنے کے بعد ،محمد بن نایف کے ساتھ ایک موقتی اتحاد کر کے غیر سدیری پارٹی یعنی متعب ابن عبد اللہ وغیرہ کو اقتدار سے الگ کیا ۔اس نے سعودی عرب کے وزیر جنگ ہونے کے ناطے اس بہانے سے کہ مقرن بن عبد العزیز نے یمن کے خلاف جنگ کی مخالفت کی ہے اس کو ولی عہدی کے منصب سے بر طرف کرنے کے مقدمات فراہم کر دیے اور خود نئے ولی عہد محمد بن نایف کا جانشین بن گیا ۔اس منصب نے اس کو موقعہ دیا کہ اس نے اقتصاد اور ترقی کے امور کی ریاست کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا اور عملی طور پر تیل کی کمپنی آرامکو کو بھہ ہتھیا لیا ۔
محمد بن سلمان کی طاقت حاصل کرنے کی رفتار میں اتنی تیزی آئی کہ سعودی عرب کے امور کی خبر رکھنے والوں اور آلم سعود کے اندر کے تعلقات سے باخبر افراد نے اعلان کیا کہ ملک سلمان مستقبل قریب میں حکومت سے کنارہ کش ہو جائے گا اور اپنے بیٹے کو اپنے جانشین کے طور پر پیش کرے گا ۔ لیکن محمد بن سلمان کو قدرت کے کسب کرنے کے اپنے راستے میں آکری قدموں پر محمد بن نایف اور آل سعود کے بعض شاہزادوں کی مخالفت کا سامنا ہے کہ جنہوں نے یمن کے خلاف جنگ کے سلسلے میں بھی اس کے موقف کی مخالفت کی تھی ۔اس بناپر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سال کے حج میں رونما ہونے والے سلسلہ وار واقعات واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ کی عکاسی کرتے ہیں کہ جس نے امریکہ کی دو پارٹیوں اور آل سعود کی دو پارٹیوں کو ایک دوسرے کے مقابل میں لا کھڑا کر دیا ہے ۔ امریکی سعودی ڈبلینگ میں محمد بن نایف اور محمد بن سلمان میں سے ایک کوموجودہ بادشاہ کا جانشین بننا ہے اور دوسرے کو ایک ناکارہ پرزے کی طرح پھینک دیا جانا ہے ۔
امریکی سعودی ڈبلینگ میں کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا واشنگٹن کی حکمران پارٹی یعنی ڈیموکریٹس اور ریاض میں سلمانے مخالفین اس کوشش میں ہیں کہ کہ اس سال کے حج کے سلسلہ وار واقعات کو دلیل بنا کر بادشاہ کو نالایق ثابت کرنے کے ساتھ ہی آل سعود کے اندر حاکمیت میں تبدیلی کی رفتار میں تیزی لائیں تا کہ محمد بن نایف تخت  سلطنت پر براجمان ہو سکے۔ اس سلسلے میں روزنامہ غارڈین نے پردہ اٹھایا ہے کہ سعودیہ کے ایک اعلی رتبہ شاہزادہ نے ملک سلمان کے حکومت سے الگ کیےجانے کے منصوبے کی بات بتائی ہےامریکہ میں ڈیمو کریٹس  کی سعودی عرب میں محمد بن نایف کے ساتھ مل کر اس منظر نامے کو آگے بڑھانے کی کوششوں کے شواہد در ذیل ہیں :
* سعودی شاہزادوں کے ایک خط کا انتشار کہ ملک کو سلمان اور محمد بن سلمان کے ہاتھوں سے نجات دلائی جائے ۔
* محمد اور سمان کی طف منسوب ویڈیو کا ریلیز ہونا اور اس کی اور اس کے ساتھیوں کی منی میں موجودگی کو رمی جمرات کا راستہ بند کیے جانے کی وجہ بتانا کہ جس کی بنا پر منی میں حادثہ رونما ہوا ۔
* محمد بن نایف کی جانب سے حقیقت تک پہنچنے کے لیے کمیٹی کی تشکیل ۔
امریکی سعودی ڈبلینگ کے دوسری جانب امریکہ کے جمہوری خواہ ،صہیونیسٹ اور ،محمد بن سلمان ہیں کہ جن کی کوشش ہے کہ حج میں رونما ہونے والے سلسلہ وار حوادث کو دلیل بنا کر ،سیاسی اور امنیتی امور اور حج کے سلسلے میں محمد بن نایف کی نالایقی کو ظاہر کرتے ہوئے اس کو بر طرف کرنے کے مقدمات فراہم کریں ۔مکہ اور منی میں رونما ہونے والے حوادث  کے بعد  اور طاقت کی جنگ کے چھڑنے کے بعدسے  سعودیوں نے لگاتار جو اقدامات کیے ہیں ان کے بارے میں غورو فکر کرنے سے ان واقعات کے رونما ہونے کے اسباب پہلے سے زیادہ روشن ہو جاتے ہیں :
* مسجد الحرام کی توسیع کے پروجیکٹ کو بن لادن کمپنی سے کہ جو سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی ہے  ، لے کر بادشاہ کے حکم سے اسے محمد بن سلمان کی کمپنی نسما کو دینا ۔
* بادشاہ کے حکم سے بن لادن کمپنی کے تمام سرمائے کونسما کمپنی کو دینا ۔
*محمد بن نایف کے نظریات  کے بر خلاف بادشاہ کا یہ حکم کہ حج کے منصوبوں میں نظر ثانی کی جائے اور امور حج کے اداروں کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں انکے بارے میں تحقیق کی جا ئے ۔
* بادشاہ کے حکم سے بندر بن حجاز کو بر طرف کیا جا نا کہ جو سعودی عرب کے وزیر حج   اور محمد بن نایف کے قربی ہیں ۔
* امن عامہ کے مدیر  جنرل عثمان الحرج ، اور تین دوسرے فوجیوں کا بر طرف کیا جا نا ۔
*دربار کے افسر تحقیقات اور محمد بن نایف کے قریبی سعید الجبری کی برطرفی ۔
*بادشاہ کا سیکیوریٹی فوج کی حمایت کرنا  اور حج کے امور کی دیکھ بھال کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنانا ۔
*ایران سے خوف زدہ کرنا اور ایرانکے خلاف جنگ چھیڑنا ۔
*منی میں حاجیوں کے قتل عام کو جمہوریء اسلامیء ایران کیطرف نسبت دینا ایہران سے خوف زدہ کرنے کی خاطر ہے اور ی کام سعودی عرب سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے کیا ہے ۔
* کویتی روزنامے القبس نے ایرانی حاجیوں کے حکام کی رہنمائی کو نظر انداز کرنے  کو منی میں اس حادثے کی وجہ بتایا ہے  ۔
* سی این این عربی نے ایک رپورٹ میں ایرانی حجاج کو منی  میں حادثے کا ذمہ  دار بتایا ہے ۔
*  روزنامہ الشرق الاوسط نے بھی لکھا ہے کہ ۳۰۰ ایرانی حاجیوں کے مخالف سمت میں حرکت کو جو دیکھی گئی ہے بھیڑ اور حادثے کی اصلی وجہ بتایا ہے۔
*ٹویٹر کی جس کی مالکیت اب سعودی عرب کے پاس ہے اس نے ایک ساتھ دو عنوان قائم کیے ہیں : ایران تقتل الحجاج ،ایران حاجیوں کا قاتل ہے ،اور ایرانی دہشت گردی ، ۔
اس منظر میں ایران ہراسی الگ نوعیت کی تھی ایک تو مخاطبین کے اندر ادراک اور نظریے کی تبدیلی پیدا کی جائے اور ان کے اندر ایران سے جنگ کے خیالات کو بٹھایا جائے ۔ایران سے خوف زدہ کرنے اور ایران کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے والا اہم ترین گروہ علاقے میں سلفی اور تکفیری گروہ ہے ۔ اس گروہ کی تعلیمات میں ایران کو عثمانی خلافت ی تضعیف اور اس کے پاش پاش ہونے کا اصلی سبب قرار دیا گیا ہے ۔اس بنا پر سلفی تکفیری گروہوں کے اندر یہ خیال زیادہ زور پکڑے گا کہ سعودی  عرب اور عثمانی خلاف ایک ہی ہیں اور ایران ان کے خلاف ہے ۔اس لیے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس منظر نامے میں تکفیری سلفی گروہ جمہوریء اسلامیء ایران کے خلاف نیابتی جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ ایران سے خوف زدہ کرنے اور اس کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے کا تکفیری سلفی گروہوں کا منصوبہ صرف عربی ایشیائی اور افریقی ملکوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس دائرے میں وہ ایک اور منظر کو تشکیل دے  رہے ہیں کہ جس کا مقسد امریکی حکام اور عوام اور یورپی ملکوں کو بھی اس میں شامل کرنا ہے ۔
منی میں حاجیوں کے قتل عام کے سلسلے میں آل سعود کا ایران کو نشانہ بنانے کا مقصد اس کو ایک نئے منظر نامے کے ساتھ جوڑنا ہے کہ جس تعلق سعودی عرب میں ظہران کے ٹاوروں میں ہونے والے دھماکوں سے ہے ۔یہ واقعہ سال ۱۹۹۶ میں ۱۹ امریکی فوجیوں کے مارے جانے کا باعث بنا تھا ۔ اس سلسلے میں ایسا دکھائی دیتا ہے  کہ بیروت میں احمد المغسل کا اغوا کیا جانا کہ جس کے ساتھ چند ایرانی  حاجی بھی لاپتہ ہو گئے تھے ایران سے خوف زدہ کرنے اور ایران کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے منطر نامے کا نیا سین ہے                   
احمد المغسل حزب اللہ حجاز کے پانچ مشکوک افراد میں سے ایک ہے کہ ایف بی آئی نے جس کی گرفتاری کے پچاس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہے ۔
اس بنا پر جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے  کہ منی کے حادثے کو ایرانی حاجیوں کے سر منڈھنا آل سعود  اور سعودی  عرب  کے ٹکڑوں پر پلنے والے ذرائع ابلاغ کا ایک انفعالی اقدام تھا اس کے برخلاف ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایران ہراسی اور ایران ستیزی ، اس منظر نامے کا دوسرا پردہ ہے کہ جس کا ایک سرا منی میں حاجیوں کا قتل عام تھا اور دوسرا سرا مستقبل کے حوادث میں نمایاں ہو گا ۔
شیعہ ہراسی اور مذہبی جنگ کا آغاز ؛
آل سعود نے منی میں جنایت کا ارتکاب کر کے کوشش کی ہے کہ سلفی تکفیریوں کے لیے شیعہ ہراسی اور شیعوں کے خطرے کو زیادہ نمایاں کرے ۔اس سلسلے میں شیخ عبد العزیز آل شیخ کا کہنا ہے : بعض حاجی مقدس مقامات پر جان بوجھ کر مرنا چاہتے ہیں اس لیے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ ان مقامات پر زندگی اجر کا باعث ہے ۔
سعودی حکام کے منی کے حادثے کو شیعوں کی طرف نسبت دینے کے پیچھے درج ذیل مقاصد ہو سکتے ہیں ؛
*بحرین میں مداخلت اور یمن کی جنگ کا جواز فراہم کرنا ۔
* شیعہ ستیزی کی سوچ جو تکفیریوں کے اندر راسخ ہو چکی ہے اس کو فریق مخالف سے انتقام لینے کی خاطر شیعوں کے مذہبی مراسم کی طرف منتقل کرنا۔
* مصر اور نائجیریا میں سلفی تکفیریوں کی نقل و حرکت میں تیزی لانا ، (اس واقعے میں نائجیریاء کے ۵۵۰ حاجی اور مصر کے ۳۰۰ حاجی مارے گئے ہیں )
اسی طرح مذہبی جنگ چھیڑنے کے بارے میں  ایک امریکی نظریہ پرداز جوزف نای نے حال ہی میں کہا ہے : یورپ میں مذہبی جنگ کیتھولیک اور پروٹیسٹوں کے مابین تقریبا ڈیڑھ صدی تک چلتی رہی اور ۱۶۴۸ میں وستفالیا کے معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی ۔اگر ہم یہ یاد کر لینں تو برا نہیں ہے کہ اس زمانے میں بھی چند فرقوں اور مذاہب پر مشتمل اتحادیے موجود تھے کہ جو مذہبی مسائل کے علاوہ دوسرے مسائل پر متحد ہوئے تھے ۔آج ہمیں مشرق وسطی میں بھی اس طرح کی ترکیبات کا منتظر رنا چاہیے ۔جوزف نای آگے چل کر کہتا ہے ؛ یورپ میں مذہبی جنگیں اس وقت ختم ہوئیں کہ جب جرمنی تیس سال سے زیادہ کے عرصے میں اپنی آدھی سے زیادہ آبادی سے ہاتھ دھو چکا تھا ان واقعات اور باتوں پر غور کرنے سے مذہبی جنگ کے درج ذیل ظاہری اور باطنی مقاصد نمایاں ہوتے ہیں ؛
* لمبے مذہبی فتنے برپا کر کے مسلمانوں کی آبادی کو نابود کرنا ۔
* اسلامی ملکوں کے مادی سرمائے کی تباہی ۔
* اسلامی ممالک کی فوجوں کو ہلاک کرنا یا کمزور کر دینا ۔
*اور آخر کار اسلامی ملکوں کے ٹکڑے کرنا ۔
آخری نکتہ ؛
مکہ اور منی کے تلخ واقعات میں ایک بار پھر استکبار اور اس کے چیلے چانٹوں نے اپنا ناپاک اور پلید ہاتھ دکھا دیا ،امریکیوں نے اس حالت میں کہ ان کے وزیر خارجہ کا ایک ہاتھ ہمارے وزیر خارجہ کے ہاتھ میں تھا ،ان کے دوسرے مخفی ہاتھ نے اس ملت کے پیاروں کو مظلومیت کی حالت میں قتل کر دیا ۔ایسے حالات میں اور بین الاقوامی دستور کے مطابق حق یہ تھا کہ ہمارے ملک کے حکام اس ہولناک جنایت پر اعتراض اور اور ہمارے ملک کے داغدار عوام کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے دورے کو ملتوی کر کے اپنے ملک واپس آجاتے ،لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ نہ صرف یہ اہم قدم نہیں اٹھایا گیا  بلکہ اس سے بھی بد تر یہ ہوا کہ عزت و کرامت کی پالیسی کے بجائے ہمیں التماس و ندامت کی پالیسی دیکھنے کو ملی کہ جو ایران اسلامی کی غیور اور نیک ملت کی شان کے خلاف تھی ۔
ترجمہ و تالیف ؛ سید مختار حسین جعفری

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *