شہادتِ شہزادہ علی اصغر
عاشورا کے دن میں ملک میں جابجا جھولے نکالے جا رہے ہیں۔ شبیہ جھولے کی نکالی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ یاد کرلیں کہ ایک شیر خوار بچہ بھی تھا جس کا جھولا خالی ہوگیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے اِن بچوں پر پانی بند ہوگیا۔ کچھ کوزوں میں پانی […]
عاشورا کے دن میں ملک میں جابجا جھولے نکالے جا رہے ہیں۔ شبیہ جھولے کی نکالی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ یاد کرلیں کہ ایک شیر خوار بچہ بھی تھا جس کا جھولا خالی ہوگیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے اِن بچوں پر پانی بند ہوگیا۔ کچھ کوزوں میں پانی جو تھا، وہ بڑے آدمیوں نے یعنی جوانوں اور بوڑھوں نے ساتویں تاریخ کی شام ہی سے پینا چھوڑ دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ پانی بند ہوگیا ہے۔ جو کچھ پانی ہے، اگر وہ بچوں کیلئے رہ جائے تو اچھا ہے۔ ہم اگر پئیں گے تو یہ ختم ہوجائے گا اور بچے تڑپنے لگیں گے۔چنانچہ بچوں کیلئے کچھ آٹھویں تک ہوگیا تھا، کیوں؟ اس لئے کہ امام حسین کے ساتھ بہت بڑا قافلہ تھا۔لیکن اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ ساتویں تاریخ سے امام حسین اور اُن کے قافلہ پر پانی بند کردیا گیا تھا۔
آپ نے ساتویں کی شام، لوگوں سے کہا کہ بھائیو! چلے جاؤ، دیکھو اب مصیبتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اب پانی بند ہوگیا ہے۔ تم ان تکالیف کو برداشت نہ کرسکو گے۔ تمہارے ساتھ بال بچے ہیں۔ ان کو لے کر نکل جاؤ، کچھ لوگ نکل گئے۔
آٹھویں تاریخ آئی تو رات کو پھر آپ نے جمع کیا اور فرمایا: ہاں! اگر تم جاؤ گے تو یہ لوگ اور خوش ہوجائیں گے کہ تم نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔حضور! شب ِ عاشور بھی کچھ لوگ نکلے ہیں جب امام حسین نے خیمے میں چراغ گل کردیا ہے۔
جنابِ سکینہ سے روایت ہے کہ میں پھوپھی کی گود میں تھی اور میں یہ کہہ رہی تھی کہ پھوپھی جان! میں پیاس سے مر جاؤں گی تو میری پھوپھی جان کبھی اس خیمے میں لے جاتی تھیں، کبھی اُس خیمے میں جاتی تھیں تو اس وقت ہم ایک ایسے خیمے میں تھے کہ جہاں سے پدرِ بزرگوار کی آواز آرہی تھی۔ آپ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ دیکھو! تمہیں یہ خیال ہوگا کہ میرے نانا تم سے ناراض ہوجائیں گے۔ میں نانا سے کہہ دوں گا کہ میں نے خود بھیجا تھا۔ چنانچہ جنابِ سکینہ کہتی ہیں
کہ اس تاریکی میں لوگ خیمے سے نکلنا شروع ہوگئے اور میں نے اپنی پھوپھی سے کہا کہ پھوپھی جان! کیا میرے بابا تنہا رہ جائیں گے تو گویا اس شب تک آپ نے رخصت کیا ہے۔ اس کے بعد پھر بھی عاشور کی شب چوراسی بیبیاں تھیں تو اتنے لوگ ساتھ تھے۔ پانی تو ساتویں محرم سے ختم ہوگیا تھا۔جب نویں تاریخ آئی تو بچے العطش العطش کہتے ہوئے ادھر اُدھر پھر رہے تھے۔ مگر مجھے حیرت ہے کہ میں نے جنابِ سکینہ کے متعلق دیکھا ہے کتابوں میں کہ کبھی کبھی دروازہ پر آکر کہتی تھیں کہ بابا! پیاس نے مار ڈالا ہے۔ کبھی یہ آواز دیتی تھیں، چچا! میں پیاس سے مرجاؤں گی۔مگر میں نے آج تک نہ دیکھا کہ کسی امام کے صحابی کے کسی بچے نے آواز دی ہو۔ دراصل اپنے بچوں کو مائیں چھوڑتی نہ تھیں کہ کسی خیمے پر جائیں یا کسی دروازے پر جائیں،کیوں، اس لئے کہ حسین ان کی آواز سن لیں گے تو انہیں تکلیف ہوگی۔
ساتویں تاریخ جو فوجیں آئیں کچھ اور زیادہ تو انہوں نے یہ کام کیا کہ اپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے ادھر سے اُدھر چلے گئے اور اُدھر سے اِدھر آگئے۔ زمین جو ہلنے لگی تو بیبیوں کے دل دہل گئے۔ اس فکر کی وجہ سے اور اس خوف کی وجہ سے علی اصغر کی والدہ کا دودھ خشک ہوگیا۔ امتحان تھا ناں!امتحان تھا کہ انتہائے مظلومیت بھی دیکھ لو اور انتہائے ظلم بھی دیکھ لو۔
بچہ گہوارہ میں پڑا ہوا ہے۔ ہونٹ خشک ہوچکے ہیں مگر رونے کی آواز نہیں۔ چودہ دن کا تھا جب مدینہ سے روانہ ہوئے ہیں۔آج چھ مہینے کا ہوا ہے۔ پیاس کی شدت سے آنکھوں میں حلقے پڑ چکے ہیں۔ ہونٹ خشک ہیں مگریہ بچہ روتا نہیں۔ کبھی پھوپھی کو دیکھ لیتا ہے، کبھی ماں قریب آتی ہے تو اس کو نگاہ بھر کر دیکھ لیتا ہے۔ بہنیں آتی ہیں تو ان کو دیکھتا ہے یعنی زبان نہیں کہ کہے کہ پیاسا ہوں اور روتا نہیں،اس لئے کہ غالباً خبر ہے اسے کہ سب ہی پیاسے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب جارہے ہیں۔ عورتیں اپنے بیٹوں کو سنوار سنوار کر بھیج رہی ہیں کہ جاؤ! آج قربانی کا دن ہے۔حسین پر قربان ہوجاؤ۔ جنابِ رباب جن کا بچہ ہے یہ جس کا نام ہے علی اصغر ۔ کبھی بچے کی طرف دیکھ کر کچھ سوچتی ہیں اور کبھی گود میں لے کر اِدھر اُدھر ٹہلتی ہیں۔ جنابِ رباب نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جنابِ زینب نے اپنے بچوں کو کس طرح میدان میں بھیجا اور اُن کی لاشیں آئیں۔جنابِ رباب نے یہ بھی دیکھاکہ کس طرح سے قاسم کی لاش خیمے میں آئی۔
یہ سب ہوچکا ہے۔ امام حسین علیہ السلام علی اکبر کی لاش لے آئے ہیں، حتیٰ کہ جنابِ عباس علیہ السلام کی لاش کو دریا کے کنارے چھوڑ آئے ہیں اور اب کوئی نہ رہا۔ جب کوئی نہ رہا تو میدان میں آئے اور فرماتے ہیں : کوفے اور شام کے رہنے والو! اب میرا کوئی نہیں رہا۔ اب میں اتنا زخمی ہوچکا ہوں کہ زندہ نہ رہوں گا۔ ارے تھوڑا سا پانی پلادو۔ اِن لوگوں کے جو جو جوابات تھے، وہ آپ سے کیا عرض کروں! ایک مرتبہ یہ آواز دیتے ہیں اور اِتمامِ حجت کررہے ہیں۔عاشور کے دن یہ آواز آپ نے دو تین مرتبہ دی ہے:
“ھَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا،ھَلْ مِنْ مُغِیْثٍ یُغِیْثُنَا”۔
“کوئی مددگار ہے جو اس وقت میری مدد کو آئے، کوئی فریاد رسی کرنے والا ہے جو اس وقت میری فریاد رسی کرے”۔
یہ آواز جو دی تو ادھر سے تو کسی نے آواز نہ دی، کسی نے لبیک نہ کہا، البتہ خیموں کی طرف سے بیبیوں کے رونے اور شیون و فریاد کی آواز پہنچی۔ آپ اس طرف متوجہ ہوئے۔ جوں جوں خیمے کی جانب بڑھتے جاتے ہیں، بیبیوں کے گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوتی جاتی ہیں۔ آخر جلدی جلدی جنابِ زینب کے خیمے پر پہنچے، آواز دی:بہن! میں ابھی زندہ ہوں۔ ارے تمہارے رونے سے یہ لوگ خوش ہورہے ہیں۔ تمہاری آوازیں بلند نہ ہوں جب تک میں زندہ ہوں۔ جنابِ زینب نے بھائی کی آواز سنی تو ایک مرتبہ دروازے پر آکر کہتی ہیں: بھیا! ذرا اندر تو آئیے۔ کیا قیامت ہوگئی۔ اندر گئے، فرمایا کیا ہے؟ عرض کرتی ہیں: بھیا! نہیں معلوم آپ کی اس فریاد میں کیا اثر تھا کہ علی اصغر نے جھولے میں تڑپنا شروع کردیا اور پھر اس کے بعد اتنا تڑپے کہ جھولے سے گرگئے۔ میں نے گود میں اُٹھایا، قرار نہیں آتا۔ ماں گود میں لیتی ہے تو چپ نہیں ہوتے۔ بہنیں لیتی ہیں تو خاموش نہیں ہوتے۔ یہ حالت دیکھ کر بیبیوں میں کہرام برپا ہوگیا ہے۔
امام حسین نے فرمایا:
ہاں بہن میں سمجھ گیا۔ ان کو تو میں لایا تھا اور سوچ سمجھ کر لایا تھا۔ اچھا تو بہن! میں ایسا کرتا ہوں کہ ان کو لئے جاتا ہوں۔ پانی مانگوں گا۔ جنابِ علی اصغر کی خاموش ماں، کبھی بچے کو دیکھتی ہیں، کبھی حسین کو دیکھتی ہیں۔
امام حسین نے اپنی بہن سے فرمایا:
علی اصغر کو مجھے دے دو، میں لئے جارہا ہوں۔جب حسین کے ہاتھوں پر آئے علی اصغر اور آپ دروازے کی طرف چلے تو ابھی تک مادرِ علی اصغر خاموش کھڑی تھیں۔
جب حسین جانے لگے تو ایک مرتبہ تیزی سے بڑھیں اور سامنے آکر عرض کیا: میرے آقا! ذرا میرے بچے کو مجھے دے دیجئے۔ امام حسین نے ماں کی گود میں دے دیا۔ بیبیاں یہ سمجھیں کہ پیار کرنے کیلئے شاید لے رہی ہیں۔ لیکن کیا کیا جنابِ رباب نے! گود میں لیتے ہی اپنے خیمے کی طرف چلیں۔ اپنے خیمے میں داخل ہوئیں۔ وہاں پہنچ کر صندوق کھولا،اس میں سے علی اصغر کا نیا کرتہ نکالا ۔ جسم پر جو کرتہ تھا،اُسے اتارا، نیا کرتہ پہنایا، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور بالوں میں کنگھی کی۔ آخر میں آستین کچھ اوپر کی طرف اُلٹائے اور فرماتی ہیں: بیٹا! جو خیمے سے گیا، واپس نہیں آیا۔ اب تم جارہے ہو، واپس نہیں آؤ گے۔بیٹا اگر تیر لگ جائے تو رونا نہیں۔ اس کے بعد بچے کو لاکر امام حسین سے عرض کیا:آقا! یہ میرا تحفہ ہے، اس کو قبول کریں۔ یہ میری طرف سے قربانی ہے۔امام حسین آئے میدان میں۔ بچے کیلئے پانی مانگا، کسی نے نہ دیا۔ فرماتے ہیں: بیٹا! تم حسین کے بیٹے ہو، میری روحانیت میں شریک ہو۔ بیٹا! میرے کہنے سے پانی نہیں دیتے۔ بیٹا! ذرا تم ہی مانگ لو۔ اِس بچے نے کیا کیا؟ اپنی سوکھی زبان نکالی اور ہونٹوں کے اوپر پھیرنی شروع کردی۔
حالت یہ ہوئی کہ یزیدی فوج کے لوگ منہ پھیر کر رونے لگے۔ ابن سعد گھبرا گیا اور اُس نے حرملہ سے کہا: حرملہ جلدی کر۔ اُس نے ایک تیر جوڑا۔ تمام کتابوں میں ہے کہ وہ تین بھال کا تھا۔ لوہے کی بھالیں ، ننھا سا گلا، حسین کے بازو سے گلا ملا ہوا ہے۔ اِدھر سے تیر آیا۔ کیا عرض کروں! کیا ہوا؟ ایک مرتبہ بچہ اُچھلااور تیر حسین کے بازو میں پیوست ہوگیا۔ امام حسین علیہ السلام نے تیر جو کھینچا اولاد والو! تیر جو کھینچا تو علی اصغر کا گلا بھی تیر کے ساتھ چلا آیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بیٹا علی اصغر ! ب تمہارے گلے سے تیر کھینچتا ہوں، اس کے بعد علی اصغر کے گلے سے تیر کھینچا۔ علی اصغر مسکرائے۔ مطلب یہ تھا، بابا! اماں کو سلام کہہ دیجئے گا کہ تیرا بیٹا رویا نہیں ہے۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید