سکولوں میں رزلٹ کا اعلان، فوائد اور نقصانات
ہمارے سکولوں میں سارا سال اساتذہ کی بچوں اور انکی تعلیم پر توجہ ہو یا نہ ہو سال کے آخر میں رزلٹ اعلان کرنے کے لیے والدین کو جمع کیا جاتا ہے اور اس دن کو یوم والدین بھی کہا کرتے ہیں۔ لیکن جب سال میں ایک دفعہ بھی والدین کو بچے کی تعلیم کے بارے میں بریف نہیں کیا ہے تاکہ وہ اپنے بچے کی پراگرس رپورٹ کے مطابق بچے کی تعلیم پر توجہ دے سکے اور اب امتحانات بھی ختم ہونے کے بعد رزلٹ اعلان کرنے کے بہانے والدین کو جمع کیا جاتا ہے۔
اس پروگرام میں بھی اکثر مقررین سکول سٹاف کی خوشآمد میں ہی وقت گزارتے ہیں اور آیندہ کے لیے کویی لائحہ عمل طے نہیں ہوتا۔ تو پھر پروگرام رکھنے کا کیا فایدہ
یوں تو کہا جاتا ہے کہ اسطرح کے پروگرامز سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور بچے شوق سے پڑھتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے کیوںکہ فرض کرتے ہیں کہ ایک بچے کو صرف آدھے نمبر زیادہ ہونے پر فرسٹ پوزیشن دی جاتی ہے تو کیا وہ آدھے نمبر کم والے بچے کی کیا حوصلہ شکنی نہیں ہوئی؟
اس کے علاوہ پیپر مارک کرکے جو اساتذہ نمبر دیتے ہیں کس حد تک وہ نمبر صحیح ہے اور حب و بغض شامل نہیں ہوتا ہے؟
چونکہ ٹیچینگ انبیا علیہم السلام کا پیشہ ہے تو ان شا اللہ ہمارے اساتذہ کرام حب و بغض سے پاک ہیں لیکن تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ ایک یونیورسیٹی میں ایک پیپر کو 6 اساتذہ کی خدمت میں دیا گیا تاکہ اس کو نمبر دیا جایے تو ایک سے 20 نمبر کا اختلاف رہا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نمبر دینے میں شخصی سلیقے کا بھی کردار ہے تو اسطرح سے ایک طالب علم کو ایک نمبر کم ہونے کی وجہ سے اور وہ بھی شاید استاد کے سلیقے کی وجہ سے قابل طالبعلم پہلی پوزیشن حاصل نہ کرسکے تو ایسے پروگرامز سے بچوں کی تشویق کے بجایے انکی شخصیت کشی ہوگی لہذا ہمیں پڑھایی کے دوران بچوں کی تشویق کی جایے تو آخری دن کے بجایے اس وقت کی تشویق ثمربخش ہوگی۔ اور سالانہ رزلٹ کو بالکل بھی اہمیت نہ دیں بلکہ جیسے امتحان ختم ہوا مارک شیٹ بچے کے ساتھ گھر بھیجدیں کیونکہ جس وقت توجہ دینی تھی دیا ہے تو نمبر اچھے ہونگے نہیں تو کم۔
لیکن کم از کم شخصیت کشی تو نہیں ہوگی۔ دنیا کی پیشرفتہ ممالک میں اب ابتدائی کلاسوں میں بچوں کو نمبر دینا بھی ختم کیا ہے سب کو پاس کرتے ہیں لیکن بچے کو اپنے کم نمبر کا احساس نہیں ہونے دیتے اور سب کی تشویق ہوتی ہے تاکہ اگلے سال کے لیے محنت کرسکے
کہا جاتا ہے کہ اڈیسن نہایت نکما بچہ تھا اور سکول سے اس کی پراگرس رپورٹ اس کی ماں کے لیے بھیجی گیی اڈیسن کی ماں کو جب یہ کاغذ ملا تو رپورٹ پڑھ لیا اور اڈیسن کے پوچھنے پر اسے کہا کہ سکول کے ہیڈماسٹر صاحب نے لکھا ہے کہ آپ کا بچہ بہت لایق اور ذہین ہے اور ہمارے سکول کے بچے اس کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے ہیں لذا اسے کسی اور سکول میں داخلہ لیا جایے۔
یوں اڈیسن اسی خوشی میں اپنی تعلیم پر توجہ دی اور دنیا کو بلب جیسی نور کو ایجاد کر کے تاریک دنیا میں نور سے منور کیا اور ایک دن اچانک اس سکول کی پراگرس رپورٹ پر نظر پڑی تو دیکھا کہ لکھا گیا تھا کہ آپ کا بچہ بہت نالایق ہے اور ہمارے سکول کے بچوں کے ساتھ نہیں چل سکتا ہے لہذا مہربانی فرما کر سکول نہ بھیجیں یا کہیں اور داخلہ کروایں۔
اڈیسن کہتا ہے کہ میری ماں کی اس تشویق اور مثبت بات نے مجھے آج وہاں تک پہنچا دیا اگر ماں اس وقت کہتی کہ تم پڑھنے کے لایق نہیں ہو تو نہیں معلوم میں آج کیا کرتا پھر رہا ہوتا۔
آئیں اس واقعے کے تناظر میں دیکھیں کہ ہم کیا کر رہے ہوتے ہیں کیا ہمارے کام کی سایکلوجیسٹ تائید کرتے ہیں یا نہیں
ہمارا اس آب و تاب کے ساتھ رزلٹ اوٹ کرنا کتنے بچوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے؟
پوزیشن ھولڈر صرف تین بچے جبکہ باقی کلاس کے بچوں کا کیا بنے گا؟
اب تو رزلٹ اوٹ ہونے پر بھی ایک کپ انعام کے طور پر دیا جاتا ہے تو ایک ہی گھر کے چند بچے ہوں تو ہر روز اسی معمولی سے انعام پر فخر فروشی اور شخصیت کشی ہوتی رہے گی۔
تحریر مشتاق حسین حکیمی
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید