تازہ ترین

آئینی کمیٹی فروری کے آخر تک حتمی رپورٹ پیش کریگی۔وزیر اعلیٰ

وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہاہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حقوق کا مسئلہ بڑا حساس ، پیچیدہ اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اورہم نے آئینی کمیٹی سمیت ہر فورم میں آئینی حقوق کی جنگ لڑی ہے آئینی کمیٹی اپنی سفارشات فروری کے آخر تک فائنل کر کے وزیراعظم کو پیش کریگی حتمی فیصلہ وفاقی […]

شئیر
45 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1359

وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہاہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حقوق کا مسئلہ بڑا حساس ، پیچیدہ اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اورہم نے آئینی کمیٹی سمیت ہر فورم میں آئینی حقوق کی جنگ لڑی ہے آئینی کمیٹی اپنی سفارشات فروری کے آخر تک فائنل کر کے وزیراعظم کو پیش کریگی حتمی فیصلہ وفاقی حکومت نے کرنا ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ باقی صوبوں کے پاس جو اختیارات ہیں وہی اختیارات گلگت بلتستان کو بھی ملیں گے کونسل کے بعض اختیارات اسمبلی کومنتقل ہونگے اور آئینی حقوق کے حوالے سے سٹیٹس کو ضرورختم ہوگا۔انہوں نے ہفتہ کے روز گلگت بلتستان ایڈیٹرز فورم کے ایک نمائندہ وفدسے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ آئینی حقوق کے حوالے سے ہم نے کوئی موقع ضائع نہیں کیا ہے اور ہر فورم پرگلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی جنگ لڑی ہے ہماری تمام ترتوجہ آئینی حقوق اور اقتصادی راہداری منصوبے لگ گئی جس کی وجہ سے عوام کے مسائل اس طرح حل نہیں ہوئے جس طرح حل ہونا چاہیے تھا ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ گلگت بلتستان ایک ناقابل تقسیم اکائی کا نام ہے اورگلگت بلتستان کی تقسیم ناممکن ہے ۔انہوں نے بتایاکہ الیکشن سے قبل ایک پارٹی نے اتحاد کیلئے ہم سے قانون ساز اسمبلی کی دونشستیں مانگی تھیں اوراس سلسلے میں نہ صرف اس پارٹی کی مرکزی اور علاقائی قیادت بلکہ آزادکشمیر کی قیادت نے بھی بات کی تھی مگرہم نے صاف انکار کردیا اورکہاکہ اس پارٹی کی گلگت بلتستان کے کسی بھی حلقے میں ووٹ بنک ہی نہیں ہے تو ہم انہیں دو نشستیں کیوں دیں جس کے بعد اس پارٹی نے مجھے الیکشن میں ہرانے کیلئے میرے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کردیامگر تمام ترکوششوں کے باوجودمجھے ہرانے میں کامیاب نہ ہوسکے جس کے بعداس پارٹی کے ایک عہدیدار نے گزشتہ ماہ ایک بیان جاری کیا جس میں گلگت بلتستان کوتقسیم کرنے کی بات کی جس کے بعد یہ ایک ایشو بن گیا حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کسی کو بھی یہ نہیں کہاہے کہ گلگت بلتستان میں اقتصادی راہداری منصوبے کا کوئی زون نہیں ہے مشاہد حسین نے یہ کہا تھا کہ اب تک کسی بھی صوبے میں کوئی زون فائنل نہیں ہوا ہے مگراس پارٹی کے لوگوں نے مشاہد حسین سید کے بیان کوجان بوجھ کر غلط اندازمیں پیش کیا ہے حقیقت یہی ہے کہ اب تک کسی بھی صوبے میں اقتصادی راہداری منصوبے کا کوئی زون فائنل نہیں ہواہے۔انہوں نے کہا کہ چھے ماہ قبل پلاننگ کمیشن نے گلگت بلتستان میں اقتصادی راہداری منصوبے کیلئے دو جگہوں کی نشاندہی کیلئے لیٹر لکھاتھا وہ لیٹر اب بھی موجود ہے ہم نے ایک جگہ نشاندہی کی ہے جبکہ ایک اور زون کیلئے جگہ کی نشاندہی کرنا باقی ہے ۔انہوں نے بتایاکہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ دیامربھاشا ڈیم اوربونجی ڈیم بھی اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرائیں تاکہ یہ دونوں منصوبے بروقت مکمل ہوسکیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ اگرکسی نے سٹیٹ کے خلاف جرم کیا ہے تو سٹیٹ معاف کرسکتی ہے جیسے کہ صوبے بلوچستان میں سٹیٹ کے خلاف جرم کرنے والے لوگوں کو سٹیٹ نے معاف کردیاہے لیکن اگر کسی واقعے میں کسی کا بھائی قتل ہواہے یا کوئی آفیسرقتل ہوا ہے تویہ سٹیٹ بھی معاف نہیں کرسکتی ہے اورمعاف کرنے کاحق صرف متاثرہ خاندانوں کو حاصل ہے ۔انہوں نے کہاکہ دیامر کے جنگلات میں بیس سے پچیس لوگ چھپے ہیں اس میں سے پانچ لوگ پولیس کومطلوب ہیں باقی لوگ خوف کی وجہ سے ان سے ملے ہوئے ہیں ہم کوشش کررہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے انہیں ہتھیار ڈالنے اور قانون کے حوالے کرنے پرراضی کریں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات فروری کے آخر میں ہونگے اس حوالے سے اگلے چند روز میں وزارت امورکشمیر کی جانب سے گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات کے حوالے سے سمری گلگت بلتستان الیکشن کمیشن کو موصول ہوگی انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ صوبائی کابینہ میں توسیع کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اس حوالے سے ہم مرکزی قیادت سے بھی مشاورت کررہے ہیں اور پارٹی کے اندر بھی مشاورت کررہے ہیں اور ایک ماہ کے اندر اندر کابینہ میں مزید وزیروں اور مشیروں کو شامل کیاجائیگا ،انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے اور ہم اس حوالے سے ایک ایکٹ کی شکل میں پالیسی بنارہے ہیں او اسمبلی کے فروری میں ہونے والے اجلاس میں اس ایکٹ کو منظور کرائینگے جس کے بعد گلگت بلتستان میں ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل تمام رکاؤٹیں دور ہونگی انہوں نے بتایاکہ گزشتہ سال تک گلگت بلتستان میں داخلی سیکورٹی کے نام پر کرایے کی گاڑیاں حاصل کی جاتی تھیں اور ان گاڑیوں کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے ادا کئے جاتے تھے مگر اب ہم نے داخلی سیکورٹی کے نام پر کرایے کی گاڑیاں حاصل کرنے کا سلسلہ مکمل طور پر ختم کردیا ہے اور اب گلگت بلتستان میں داخلی سیکورٹی کے نام پر کرایے کی ایک گاڑی بھی نہیں ہے ،انہوں نے بتایاکہ شاہراہ قراقرم کی سیکورٹی فوج کے سپرد کی جارہی ہے اور دو ڈویژن فوج فروری میں شاہراہ قراقرم کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لیگی اس سے نہ صرف شاہراہ قراقرم کی حفاظت یقینی ہوگی جبکہ اقتصادی راہداری منصوبے کا روٹ بھی محفوظ ہوگا ۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *