تازہ ترین

از سہ نسبت حضرت زہرا‏ء عزیز

بعض روایات میں چار خواتین کی سیادت کی بات ہوئی ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: “افضل نساء العالمین خدیجة، و فاطمة و مریم و آسیة امرأة فرعون»۔(7) افضل ترین خواتین چار ہیں خدیجہ (ص)، فاطمہ (س)، مریم (س) اور فرعون کی اہلیہ آسیہ۔

از سہ نسبت حضرت زہرا‏ء عزیز

شئیر
38 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1382

 

 

مقدمہ:

اہل سنت کے تفسیری، حدیثی، رجالی اور تاریخی منابع میں سینکڑوں آیات (راقم کی تحقیقات کے مطابق 135 آیات قرآنی) سیدہ کے بارے میں اور سینکڑوں روایات آپ (س) کے فضائل و کمالات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اور یہ سب حضرت ام ابیہا، سیدہ نساء عالمین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے مثل و نظیر دختر کی کا خاصہ ہے۔ ان آیات و روایات کے کے بارے میں بحث و تجزیہ کرنے کے لئے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے مگر ہم یہاں کتاب نہیں لکھ رہے بلکہ اپنے قارئین کی نہایت مختصر فرصتوں کے پیش نظر چند صفحات پر مشتمل ایک مقالے کے ضمن میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امید ہے قارئین کے لئے مفید واقع ہو۔

اس مقالے میں قرآن مجید کی آیات کریمہ اور شیعہ اور سنی منابع و مآخذ میں مروی احادیث و روایات کی رو سے حضرت مریم پر سیدہ فاطمہ (س) کی برتری کے سلسلے میں بحث کی گئی ہے۔ امید ہے کہ ہم بھی روز محشر آپ (س) کی شفاعتِ شاملہ سب بہرہ مند ہوجائیں ۔ ان شاء اللہ

 

کائنات کی سب سے برتر خاتون

 

1. “وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ” (1)

 

اور یاد کرو جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ اللہ نے تمہیں (اپنے خاص اہداف کے لئے) منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک وپاکیزہ بنایاہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے۔

 

سنی علماء نے اس آیت کی ذیل میں چارعورتوں کی فضیلت میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔ یہ روایات ابن عباس، انس، ابی لیلی، ابوہریرہ، عایشہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، جابر بن عبداللّہ ، ابوسعید، حذیفہ، ام سلمہ، ابواسلمی، ابن مسعود، ابن عمر، عمران بن حصین، جابر بن سمرہ، ابی بریدہ اسلمی اور دیگر جیسے اہم راویوں سمیت خود اہل بیت (ع) اور امام علی و حضرت سیدہ فاطمہ (س) اور ان کے فرزندان معصومین سے نقل ہوئی ہیں۔ ہم یہاں ان میں سے بعض روایات نقل کرتے ہیں۔

 

رسول خدا (ص) نے سیدہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: «یا فاطمة ألا ترضین أنْ تکونی سیدة نساء العالمین، و سیدة نساء هذه الامة، و سیدة نساء المؤمنین” (2)

 

اے فاطمہ! کیا آپ خوشنود نہیں ہے کہ آپ جہانوں میں برترین اور افضل ترین خاتون ہوں اور اس امت کی خواتین کی سیدہ اور اور با ایمان خواتین کی سردار ہوں؟”

 

حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے (3) بغوی نے کہا ہے: اس حدیث کی صحت پر اتفاق رائے پایا گیا ہے۔ (4)

 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف مواقع پر مختلف تعبیروں سے دنیا کی تمام خواتین پر سیدہ (ع) کی افضلیت اور برتری پر تأکید فرمائی ہے۔ ایک دفعہ جب سیدہ (س) بیمار ہوئیں تو پغمبر اکرم (ص) نے صحابۂ کرام کو سیدہ (ع) کی بیماری کے بارے میں بتایا اور صحابہ عیادت کی غرض سے آپ (ص) کے ہمراہ سیدہ (ع) کے گھر کی طرف چلے۔ رسول اللہ (ص) نے گھر کے باہر کھڑے ہوکر آواز دی کہ: جان پدر! پردہ کریں، میرے ساتھ بعض اصحاب بھی عیادت کے لئے آرہے ہیں؛ سیدہ عالم کے پاس پردے کے لئے لباس کافی نہ تھا چنانچہ رسول اللہ (ص) نے اپنی عبا دروازے کے پیچھے سے بیٹی کو عطا کردی۔ رسول اللہ (ص) اور صحابہ عیادت کے بعد سیدہ (س) کے گھر سے باہر نکلے۔ وہ سب ایک دوسرے سے سیدہ (س) کی بیماری پر افسوس کا اظہار کررہے تھے اسی اثناء میں رسول اللہ (ص) نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: “اما إنّها سیدة النساء یوم القیامة؛(5) جان لو کہ وہ قیامت کے روز تمام خواتین کی سیدہ ہیں”۔

 

عائشہ ام المؤمنین روایت کرتی ہیں: ایک روز سیدہ فاطمہ (س) رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ (ص) کی چال بالکل رسول کی چال جیسی تھی؛ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: بیٹی! خوش آمدید اور بعدازاں آپ (ص) نے سیدہ کو اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھایا اور سیدہ سے رازداری میں بات کہہ دی سیدہ (س) رونےی لگیں۔ میں نے عرض کیا: رو کیوں رہی ہیں؟ [سیدہ (س) نے جواب نہیں دیا] اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے دوسرا راز بیٹی کو سنایا تو سیدہ (س) مسکرانے لگیں۔

 

میں نے عرض کیا: آج تک میں نے ایسی خوشی نہیں دیکھی جو غم سے اتنی قریب ہو اور پھر میں نے سبب دریافت کیا۔ فاطمہ (س) نے فرمایا: میں اپنے بابا کا راز فاش نہیں کرتی۔ یہ رازداری جاری رہی حتی کہ رسول اللہ (ص) کا وصال ہوا اس کے بعد میں نے سیدہ (س) سے اس روز کا راز پوچھا تو فرمانے لگیں: رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا: جبرائیل (ع) ہر سال قرآن مجید کو ایک بار مجھے پیش کیا کرتے تھے مگر اس سال نے انھوں نے دوبار یہ کام دہرایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ میرا وصال قریب ہے اور آپ میری اہل بیت (ع) میں سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہونگی؛ تو میں رونے لگی اور پھر آپ (ص) نے فرمایا: “أَ ما تَرضِیَنَّ أنْ تکونی سیدة نساء اہل الجنة أو نساء المؤمنین؛ کیا آپ خوشنود نہیں ہوتیں کہ بہشتی خواتین یا با ایمان خواتین کی سیدہ قرار پائیں؟” (6)

 

البتہ بعض دیگر روایات میں ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عنقریب میرا وصال ہوگا تو میں رو پڑی اور جب آپ (ص) نے فرمایا کہ میں سب سے پہلے آپ (ص) سے ملحق ہونگی تو مجھے خوشی ہوئی اور مسکرانے لگی۔

 

بعض روایات میں چار خواتین کی سیادت کی بات ہوئی ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: “افضل نساء العالمین خدیجة، و فاطمة و مریم و آسیة امرأة فرعون»۔(7) افضل ترین خواتین چار ہیں خدیجہ (ص)، فاطمہ (س)، مریم (س) اور فرعون کی اہلیہ آسیہ۔

 

مختلف روایات میں عبارات و تعبیرات مختلف ہیں جیسے ایک روایت میں رسول اللہ (ص) سے مروی ہے کہ: 1- “خیر نساء العالمین أربع مِنْهُنّ فاطمة” دنیا کی بہترین خواتین چار ہیں جن میں ایک فاطمہ (س) ہیں، 2- “أفضل نساء أهل الجنة أربع منهن فاطمة” جنت کی افضل ترین خواتین چار ہیں جن میں سے ایک فاطمہ (س) ہیں، اور 3- “سیدة نساء اهل الجنة أربع منهن فاطمة” جنت والی خواتین کی سیدات چار ہیں جن میں سے ایک فاطمہ (س) ہیں۔ ان سب روایات خاتون آفتاب کا مضمون ایک ہی ہے کہ سیدہ (س) کائنات کی بہترین خاتون ہیں۔ فرمایا: “کَمُلَ مِن الرجال کثیر و لم یکمل مِن النساء إلا مریم بنت عمران و آسیه بنت مزاحم (امرأة فرعون) و خدیجة بنت خویلد و فاطمة بنت محمد؛(8) یعنی مردوں میں سے بہت سے افراد کامل ہوئے تا ہم خواتین میں سے یہ خواتین کامل ہوئیں: “مریم (بنت عمران) آسیہ (بنت مزاحم زوجہ فرعون) ام المؤمنین سیدہ خدیجہ (بنت خویلد) اور فاطمہ (بنت محمد (ص))”۔

 

فاطمہ برتر ہیں یا مریم؟!

 

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے دو اصلی منابع یعنی قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات اور روایات کریمہ میں کس کو افضل گردانا گیا ہے:

 

قرآن مجید کی رو سے سیدہ فاطمہ (س) حضرت مریم (س) سے افضل و برتر

 

اس آیت میں ارشاد ہوا ہے: “وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ * يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ” (آل عمران 42 و 43)

 

اور یاد کرو جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ اللہ نے تمہیں (اپنے خاص اہداف کے لئے) منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے * اے مریم ! اپنے پروردگار کی بارگاہ میں خاضع، فروتن اور اطاعت گزار رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والے کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔

 

ان دو آیات میں دو نکتے قابل غور ہیں:

 

1ـ دنیا کی عورتوں پر حضرت مریم (س) کا اصطفاء اور برگزیدگی:

 

ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں ذہن میں یہ بات آئی کہ مریم (س) حضرت فاطمہ (س) اور غیر فاطمہ (س) سمیت تمام عورتوں سے افضل ہیں کیونکہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ “علی نساء العالمین” کہہ کر انہیں فضیلت عطا کی ہے۔

 

یہ آیت بالکل سورہ بقرہ کی آیت 47 کی مانند ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے: “یا بنی اسرائیل اْذکروا نعمتی التی انعمتُ علیکم و إنّی فضَّلتُکم علی العالمین؛ اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام خلائق سے زیادہ عطاکیا”۔ (10) ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل اپنی زمانی میں دوسروں کی نسبت افضل امت قرار دیئے گئے ہیں اور تمام امتوں اور تمام اعصار اور ازمنہ میں آنے والی صاحب ایمان قوموں سے افضل نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے امت اسلامی سے مخاطب ہوکر فرمایا: «کنتم خیر امة» (11) یعنی تم (مسلمان) بہترین امت ہو۔ سب سے خیر، بہتر، برتر اور افضل امت بنی اسرائیل نہیں بلکہ امت مسلمہ ہے۔ [اور یہ بات بھی اس آیت سمیت متعدد قرآنی آیات ہے سے ثابت ہی] اسی طرح حضرت مریم برگزیدہ خاتون ہیں اپنے زمانے کی عورتوں کی نسبت؛ یہی بات روایات سے بھی ثابت ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس، حسن و ابن جریج نے کہا ہے: “اصطفاءِ مریم سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی نسبت افضل اور برگزیدہ تھیں”۔ (12) ابن انباری نے یہی قول اکثر مفسرین و محدثین سے منسوب کی ہے اور کہا ہے کہ مریم اپنے زمانے کی عورتوں سے برتر اور ان کی نسبت پسندیدہ اور برگزیدہ تھیں۔ (13)

 

اسی طرح کا قول ابن عباس اور سُدَی (14) سمیت دیگر محدثین و مفسرین سے بھی نقل ہوا ہے اور اکثر سنی مفسرین نے یہی قول صحیح اور قابل قبول قرار دیا ہے۔(15)

 

2ـ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا:

 

مریم کو امر ہوا ہے کہ “و ارکعی مع الراکعین” (اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتے رہو) جیسا کہ بنی اسرائیل کو بھی امر ہوا تھا کہ “و اقیموا الصلاة و اتوا الزکوة و ارکعوا مع الراکعین؛(16) اور نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو”۔

 

دو آیتوں میں حضرت مریم اور بنی اسرائیل کو حکم ہوا ہے کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کریں۔ اور ان ہی دو آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم اور بنی اسرائیل سے بہتر و برتر لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ بنی اسرائیل اور حضرت مریم سے کہا گیا ہے کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کریں اور ان کی ہمراہی کریں اور ان کی اقتداء کریں۔ رکوع کرنے والے درحقیقت حضرت مریم اور بنی اسرائیل کے امام و پیشوا ہیں چنانچہ وہ حضرت مریم اور بنی اسرائیل سے افضل ہیں۔

 

اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ خداوند متعال رکوع کرنے والوں کو متعارف کراتا ہے: ارشاد ہوتا ہے: “إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ” ۔(17) تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور خیرات دیتے ہیں جبکہ وہ رکوع کررہے ہوتے ہیں۔

 

یعنی یہ کہ رکوع کرنے والے اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام ہیں بالخصوص ابوالائمہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام۔(18)

 

سیدہ فاطمہ (س) فخر مریم (س) ہیں کیونکہ خداوند متعال نے قرآن کی دو سورتیں ان کی مدح و تعریف و تمجید میں نازل فرمائی ہیں۔ 1. سورہ دہر (یا سورة الانسان) اور 2. سورہ کوثر؛ (20) اور اسی طرح آیت تطہیر (21) خاتون جنت کی عصمت و طہارت پر تأکید کرتی ہے۔ یہ آیت اہل بیت (ع) بالخصوص حضرت فاطمہ (س) کے لئے مخصوص ہے۔ (22) آیت مودت (23) میں سیدہ (س) کی مودت کو تمام مسلمانوں پر تا روز قیامت فرض فرمایا گیا ہے۔ (24) سورہ احزاب (25) میں حکم دیا گیا ہے کہ مؤمنین سیدہ (س) کے وجود مبارک پر پیوستہ درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (26) اسی طرح درجنوں آیتیں (27) سیدہ (س) کی فضیلت و برتری پر دلالت کرتی ہیں۔ اتنے سارے فضائل کا حضرت مریم کے لئے کہا پتہ ملتا ہے؟!

 

سیدہ فاطمہ (س) انسانوں کے لئے اللہ کی حجت ہیں (28) آخرت میں مقام شفاعت کی مالکہ ہیں (29) سیدہ (س) کی مودت 100 مقامات پر انسان کے کام آتی ہے (30) آپ (س) رسول اللہ (ص) کے بدن کا ٹکڑا ہیں (31) اور سیدہ (س) کا غضب اللہ کا غضب اور آپ (س) کی رضا اللہ کی رضا ہے (32) مریم (س) فاطمہ (س) کے ساتھ قابل قیاس ہی نہیں ہیں۔ گو کہ مریم (س) عیسی روح اللہ (ع) کی والدہ ماجدہ اور دنیائے خلقت کی چار عظیم خواتین میں سے ایک ہیں اور ان کا رتبہ بہت بلند ہے اور سنی عالم دین “النسفی” نے کہا ہے کہ مریم (س) کو اس لئے برگزیدہ خاتون قرار دیا گیا ہے کہ انھوں نے حضرت عیسی (ع) کو بغیر باپ کے جنم دیا۔ (33)

 

سنی علماء کی نگاہ میں سیدہ فاطمہ (س) کی برتری

 

1ـ آلوسی مفسر:

 

آلوسی نے سورہ آل عمران کی آیت 42 کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ “اس آیت سے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پر حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی برتری اور فضیلت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ اس آیت میں “نساء العالمین” سے مراد تمام زمانوں اور تمام ادوار کی خواتین مراد ہوں مگر چونکہ کہا گیا ہے کہ اس ایت میں مراد حضرت مریم کے زمانے کی عورتیں ہیں لہذا ثابت ہے کہ مریم (س) سیدہ فاطمہ (س) پر فضیلت نہیں رکھتیں”۔

 

آلوسی لکھتے ہیں: رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا ہے: “اِنّ فاطمة البتول أفضل النساء المتقدمات و المتأخرات؛ فاطمہ بتول (س) تمام گذشتہ اور آئندہ عورتوں سے افضل ہیں”۔

 

آلوسی کے بقول “اس حدیث سے تمام عورتوں پر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ سیدہ (س) رسول اللہ (ص) کی روح و جان ہیں، چنانچہ سیدہ فاطمہ (س) عائشہ ام المؤمنین پر بھی برتری رکھتی ہیں”۔ (34)

 

2ـ السہیلی:

 

السہیلی رسول اللہ (ص) کی معروف حدیث “فاطمة بضعة منی” کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: “میری رائے میں کوئی بھی “بضعةالرسول (ص)” سے افضل و برتر نہیں ہو سکتا”۔ (35)

 

3ـ الزرقانی:

 

الزرقانی لکھتے ہیں: “جو رائے امام المقریزی، قطب الخضیری اور امام السیوطی نے واضح دلیلوں کی روشنی میں منتخب کی ہے یہ ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت مریم (س) سمیت دنیا کی تمام عورتوں سے افضل و برتر ہیں”۔ (36)

 

4ـ السفارینی:

 

السفارینی نے تحریر کیا ہے: “فاطمہ ام المؤمنین خدیجہ (س) سے افضل ہیں، لفظ سیادت کی خاطر اور اسی طرح مریم (س) سے افضل و برتر ہیں”۔ (37)

 

5ـ ابن الجکنی:

 

ابن الجکنی لکھتے ہیں: “صحیح تر قول کے مطابق فاطمہ سلام اللہ علیہا افضل النساء ہیں”۔ (38)

 

6ـ شیخ الرفاعی:

 

الرفاعی لکھتے ہیں: ” اسی قول کے مطابق متقدم اکابرین اور دنیا کے علماء و دانشوروں نے صحیح قرار دیا ہے، فاطمہ تمام خواتین سے افضل ہیں”۔ (39)

 

7ـ ڈاکٹر محمدطاہر القادری:

 

مشہور و معروف سنی عالم دین ڈاکٹر محمد طاہر القادری چار خواتین کی افضلیت سے متعلق احادیث کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: “احادیث میں کسی قسم کا تعارض (تصادم) نہیں ہے کیونکہ دیگر خواتین یعنی: مریم، آسیہ اور خدیجہ (س)، کی افضلیت کا تعلق ان کے اپنے زمانوں سے ہے یعنی وہ اپنے زمانوں کی عورتوں سے بہتر و برتر تھیں لیکن حضرت سیدہ عالمین (س) کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور پورے عالم اور تمام زمانوں پر مشتمل [یعنی جہانشمول اور زمانشمول] ہے” (40)

 

حضرت مریم (س) پر سیدہ فاطمہ (س) کی افضلیت شاعر مشرق جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی نگاہ میں:

 

مریم از یک نسبت عیسی عزیز

 

از سه نسبت حضرت زهرا عزیز

 

مریم عیسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہراء تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں

 

نور چشم «رحمة للعالمین»

 

آن امام اولین و آخرین

 

سیدہ رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نورچشم ہیں؛ جو اولین و آخرینِ عالَم کے امام و رہبر ہیں

 

آن که جان در پیکر گیتی رسید

 

روزگار تازه آیین آفرید

 

وہی جنہوں نے گیتی (کائنات) کے پیکر میں روح پھونک دی؛ اور ایک تازہ دین سے معمور زمانے کی تخلیق فرمائی

 

بانوی آن تاجدار «هل اتی»

 

مرتضی مشکل گشا شیر خدا

 

وہ “ہل اتی” کے تاجدار، مرتضی مشکل گشا، شیرخدا علیہ السلام کی زوجۂ مکرمہ اور بانوئے معظمہ ہیں

 

پادشاہ و کلبہ ای ایوان او

 

یک حسام و یک زرہ سامان او

 

علی علیہ السلام بادشاہ ہیں جن کا ایوان ایک جھونپڑی ہے اور ان کا پورا سامان ایک شمشیر اور ایک زرہ ہے

 

مادر آن مرکز پرگار عشق

 

مادر آن کاروان سالار عشق

 

ماں ہیں ان کے جو عشق کا مرکزی نقطہ اور پرگار عشق ہیں اور وہ کاروان عشق کی سالار

 

آن یکی شمع شبستان حرم

 

حافظ جمعیت خیر الأُمَم

 

وہ دوسرے (امام حسن مجتبی علیہ السلام) شبستان حرم کی شمع اور بہترین امت (امت مسلمہ) کے اجتماع و اتحاد کے حافظ

 

تا نشینند آتش پیکار و کین

 

پشت پا زد بر سر تاج و نگین

 

اس لئے کہ جنگ اور دشمنی کی آگ بجھ جائے آپ (امام حسن) (ع) نے حکومت کو لات مار کر ترک کردیا۔

 

و آن دگر مولای ابرار جهان

 

قوّت بازوی احرار جهان

 

اور وہ دوسرے (امام حسین علیہ السلام)؛ دنیا کے نیک سیرت لوگوں کے مولا؛ اور دنیا کے حریت پسندوں کی قوت بازو

 

در نوای زندگی سوز از حسین

 

اهل حق حریت آموز از حسین

 

زندگی کی نوا میں سوز ہے تو حسین (ع) سے ہے اور اہل حق نے اگر حریت سیکھی ہے تو حسین (ع) سے سیکھی ہے

 

سیرت فرزندها از اُمّهات

 

جوهر صدق و صفا از اُمّهات

 

فرزندوں کی سیرت اور روش زندگی ماؤں سے ورثے میں ملتی ہے؛ صدق و خلوص کا جوہر ماؤں سے ملتا ہے

 

بهر محتاجی دلش آن گونه سوخت

 

با یهودی چادر خود را فروخت

 

ایک محتاج و مسکین کی حالت پر ان کو اس قدر ترس آیا کہ اپنی چادر یہودی کو بیچ ڈالی

 

مزرع تسلیم را حاصل بتول

 

مادران را اسوه کامل بتول(41)

 

تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول سلام اللہ ہیں اور ماؤں کے لئے نمونۂ کاملہ حضرت بتول (س)

 

مریم (س) پر سیدہ فاطمہ (س) کی افضلیت سنی محدثین کی نگاہ میں

 

اس صحیح روایت کی مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:

 

“یا فاطمة أَلا ترضین أنْ تکونی سیدة نساء العالمین و سیدة نساء هذه الامة و سیدة نساء المؤمنین؛ اے فاطمہ (س)! کیا آپ خوشنود نہیں ہونگی کہ دنیا کی خواتین کی سردار قرار پائیں اور اس امت کی خواتین کی سیدہ قرار پائیں اور با ایمان خواتین کی سیدہ قرار پائیں؟” (42)

 

حاکم اور ذہبی دونوں اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ یہ روایت حضرت حوّا ام البشر سے لے کر قیامت تک، دنیا کی تمام عورتوں پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت کی واضح ترین اور گویا ترین دلیل ہے اور اس روایت نے ہر قسم کی نادرست تصورات کا امکان ختم کرکے رکھ دیا ہے۔

 

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدہ (س) سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “ألا ترضین أنّک سیدة نساء العالمین”؛ کیا آپ خوشنود نہیں ہیں آپ عالمین کی خواتین کی سردار ہیں؟”

 

سیدہ (س) نے عرض کیا: مریم (س) کا کیا ہوگا؟

 

فرمایا: “تلک سیدة نساء عالمها”؛(43) وہ اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں۔

 

عبداللہ ابن عباس نے ایک طویل حدیث میں رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: “ابنتی فاطمه فإنّها سیدة نساء العالمین مِن الأوّلین و الآخرین؛(44) میری بیٹی فاطمہ (س)! بے شک اولین سے آخرین تک تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں”۔

 

نیز ایک طولانی حدیث کے ضمن میں پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا: “… چوتھی مرتبہ خدا نے نظر ڈالی اور فاطمہ (س) کو پورے عالم کی خواتین پر پسندیدہ اور افضل قرار دیا۔ (45)

 

ابن عباس پیغمبر خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں: “اربع نسوة سیدات عالمهن۔ مریم بنت عمران، و آسیة بنت مزاحم، و خدیجة بنت خویلد، و فاطمة بنت محمد و افضلهن عالِما فاطمة؛(46) چار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم (زوجہ فرعون)، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد (ص)، اور ان کے درمیان سب سے زیادہ عالِم حضرت فاطمہ (س) ہیں”۔ نیز ابن عباس ہے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: “افضل العالمین مِن النساء الأولین و الآخرین فاطمة؛ (47) اولین اور آخرین کی خواتین میں سب سے افضل خاتون فاطمہ (س) ہیں”۔

 

مریم (س) پر سیدہ فاطمہ (س) کی افضلیت شیعہ روایات کی نگاہ میں

 

شیعہ حدیث و تفسیر کی کتب میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات کی تعداد کثیر ہے جنہیں نقل کرنے کے لئے مستقل کتاب یا کتابیں تألیف کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں صرف بعض روایات پر نظر ڈالتے ہیں:

 

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی(ص) نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں ارشاد فرمایا:

 

«ابنتی فاطمة و إنّها لسیدة نساء العالمین، فقیل یا رسول اللّه ! أ هی سیدة نساء عالمها؟ فقال(ص) ذاک لمریم بنت عمران فأمّا ابنتی فاطمة فهی سیدة نساء العالمین مِن الاولین و الاخرین و انّها لتقوم فی محرابها فیسلّم علیها سبعون ألف ملک مِن الْمقربین و ینادونها بما نادتْ به الملائکةُ مریمَ فیقولون: یا فاطمة، إنّ اللّه اصطفیکِ و طَهّرکِ و اصْطفیکِ علی نساء العالمین؛(48)

 

میری بیٹی فاطمہ (س) عالمین کی خواتین کے سردار ہیں؛ کہا گیا کہ: اے رسول خدا (ص)! کیا سیدہ فاطمہ (س) اپنے زمانے کی خواتین کی سردار ہیں؟ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: مریم بنت عمران اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں لیکن میری بیٹی فاطمہ (س) اولین سے آخرین تک تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں؛ جب فاطمہ (ع) محراب عبادت میں عبادت کے لئے کھڑی ہوتی ہیں ستر ہزار مقرّب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور مریم کی مانند انہیں ندا دیتے ہیں: اے فاطمہ! بلاشبہ اللہ نے تمہیں منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک وپاکیزہ بنایاہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے۔»

 

نیز آپ (ص) نے فرمایا: “میری بیٹی فاطمہ اولین سے آخرین تک تمام خواتین کی سیدہ اور سردار ہیں؛ وہ میرے بدن کا ٹکڑا، میری آنکھوں کا نور اور میرے دل کا پھل ہیں؛ وہ میرے بدن میں میری روح و جان ہیں؛ وہ انسانی حور ہیں جو مجھ سے معرض وجود میں آئی ہیں۔ جب محراب عبادت میں خدا کی بارگاہ میں عبادت کے لئے کھڑی ہوتی ہیں ان کا نور آسمانوں میں مقیم فرشتوں پر چمکتا ہے جس طرح کہ اہل زمین کے لئے آسمان کے فرشتوں کی روشنی چمکتی ہے اور خدائے عزیز و جلیل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: میرے فرشتو! میری خادمہ ، میرے خادموں کی سردار فاطمہ کی طرف دیکھو جو میری بارگاہ میں کھڑی ہیں اور ان کے اعضاء و جوارح میرے خوف سے کانپ رہے ہیں۔ اپنے قلب سے میری عبادت کے لئے آئی ہیں؛ میرے فرشتو! گواہ رہو کہ میں نے ان کے پیروکاروں کو دوزخ کی آگ سے امان عطا کی…”۔ (49)

 

نیز حدیث میں منقول ہے: “إنّ آسیة بنت مزاحم و مریم بنت عمران و خدیجة یمشین أمام فاطمة کالحجاب لها إلی الجنة”؛ (50)

 

نیز حضور (ص) نے فرمایا: “بے شک آسیہ بنت مزاحم، مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد پردے اور حجاب کی مانند فاطمہ (س) کے آگے آگے جنت کی طرف رواں دواں ہونگی”۔

 

ایک روایت میں ائمہ علیہم السلام نے فرمایا: “ما تکاملتْ نبوةُ نبیٍ مِنْ الاْنبیاء حتی أقرٍّ بفضلها و محبتها و هی الصدیقة الکبری و علی معرفتها دارتِ الْقرون الاولی”؛ (51) کسی بھی نبی (ص) کی نبوت مکمل نہیں ہوئی جب تک اس نے سیدہ فاطمہ (س) کی فضیلت و محبت کا اقرار نہیں کیا وہ صدیقہ کبری ہیں اور ابتدائی زمانوں کا دارومدار ان کی معرفت پر تھا۔

 

کیا عظمت ہے سیدہ (س) کی، کہ جب تک انبیاء آپ (س) کی فضیلت کو تسلیم اور محبت کا اقرار نہیں کرتے ان کی نبوت مکمل نہیں ہوتی۔

 

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

 

«و لقد کانت(ع) مفروضة الطاعة علی جمیع مِن خلق اللّه ، مِن الجن و الانس و الطیر و الوحش و الانبیاء و الملائکة؛(52)

 

فاطمہ (ع) کی اطاعت خدا کی تمام مخلوقات ـ خواہ وہ انسان ہوں خواہ جن ہوں یا پرندے اور درندے یا حتی انبیاء اور ملائکہ ہوں ـ پر فرض ہے۔

 

بے شک فاطمہ(ع) عالم امکان میں خدائے سبحان کے اسرار میں سے ایک سِرّ ہیں اور دنیا میں کوئی بھی وجود 11 اماموں کی والدہ جیسا نہیں ہے۔

———

مآخذ:

1 ـ آل عمران، 42۔

2 ـ حاکم نیشابوری، المستدرک، (بیروت: دارالمعرفۃ)، ج3، ص156۔

3 ـ وہی۔

4 ـ شرح السنۃ، (بیروت: دارالفکر، 1998)، ج8، ص122۔

5 ـ ابی نعیم اصبهانی، حلیۃ الاولیاء، (بیروت: دارالکتاب العربی، 1987)، ج2، ص42۔

6 ـ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، (بیروت: دارالجیل)، ج4، ص248 (کتاب بدءالخلق، باب علامات النبوة فی الاسلام)۔

7 ـ جلال الدین سیوطی، الدر المنثور، (بیروت: دارالفکر، 1993، ج2، ص193۔

8 ـ احمد بن حنبل، المسند، (بیروت: دار صادر)، ج2، ص511؛ ابن صباغ مالکی، الفصول المهمۃ، (بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1988)، ص127۔

9 ـ آل عمران، 43 ـ 42۔

10 ـ بقره، 47۔

11 ـ آل عمران، 110۔

12 ـ عبدالرحمن بن جوزی، زادالمسیر، (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، 2001م)، ج1، ص315۔

13 ـ وہی مأخذ

14 ـ جلال الدین سیوطی، الدر المنثور، ج2، ص194؛ اسماعیل بن کثیر دمشقی، تفسیر القران العظیم، (بیروت: دار المعرفۃ 1987)، ج2، ص647۔

15 ـ محمود آلوسی، روح المعانی، (تہران: انتشارات جہان)، ج3، ص138؛ علی خازن، تفسیر الخازن، (بیروت: دار الکتب العلمیۃ)، ج1، ص244؛ حسن بصری، تفسیر الحسن البصری، (قاہرہ: دار الحدیث)، ج1، ص212؛ عتیق بن محمد سورآبادی، تفسیر سورآبادی، (تہران: فرہنگ نشر نو، 1381ش)، ج1، ص281۔

16 ـ بقرہ، 43۔

17 ـ مائدہ، 55۔

18 ـ جلال الدین سیوطی، الدر المنثور، ج3، ص105۔

19 ـ محمود زمخشری، الکشاف، (بیروت: دارالمعرفۃ) ج4، ص167، «شخصیت حضرت زهرا(س) در قرآن از منظر تفاسیر اهل سنت» – محمدیعقوب بشوی ـ بحث سورہ دہر۔

20 ـ تفسیر فخر رازی، (بیروت: دارالفکر، 1985)، ج32، ص124؛ نظام الدین نیشابوری، غرائب القرآن، (بیروت: دار الکتب العلمیه، 1996م)، ج6، ص576؛ ابراهیم بقاعی، نظم الدرر، (بیروت: دارالکتاب العلمیه، 1995م)، ج8، ص549؛ محمد شفیع، معارف القرآن، (کراچی: ادارة المعارف، 1999م)، ج8، ص828۔ «شخصیت حضرت زهرا(س) در قرآن از منظر تفاسیر اهل سنت» – محمدیعقوب بشوی ـ سورہ کوثر کا جائزہ۔

21 ـ احزاب، 33۔

22 ـ محمد بن جریر طبری، جامع البیان، (بیروت: دارالفکر، 988م)، ج12، ص7، «شخصیت حضرت زهرا(س) در قرآن از منظر تفاسیر اهل سنت» – محمدیعقوب بشوی ـ آیۃ التطہیر پر بحث۔

23 ـ شوری، 23۔

24 ـ الدر المنثور، ج7، ص348، «شخصیت حضرت زهرا(س) در قرآن از منظر تفاسیر اهل سنت» – محمدیعقوب بشوی ـ آیت مودت پر بحث۔

25 ـ احزاب، 56۔

26 ـ صحیح البخاری، ج8، ص95، «شخصیت حضرت زهرا(س) در قرآن از منظر تفاسیر اهل سنت» – محمدیعقوب بشوی ـ صلوات پر بحث۔

27 ـ «شخصیت حضرت زهرا(س) در قرآن از منظر تفاسیر اهل سنت» – محمدیعقوب بشوی ـ تمام بحوث میں تلاش کرسکتے ہیں۔

28 ـ ابراهیم جوینی، فرائد السمطین، (بیروت: مؤسسۃ المحمودی للطباعۃ و النشر، 1978)، ج2، ص آخر؛ سلیمان قندوزی، ینابیع الموده، (قم: منشورات مکتبة بصیرتی، 1966م)، ص787؛ موفق بن احمد خوارزمی، مقتل الحسین، (تهران: مکتبة نینوی الحدیثه)، ج1، ص95۔

29 ـ احمد قرمانی، اخبار الدول و آثار الاول، (بیروت: عالم الکتب)، ص88۔

30 ـ موفق بن احمد خوارزمی، وہی مأخذ، ص59۔

31 ـ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص158۔

32 ـ وہی مأخذ ، ص153۔

33 ـ تفسیر عبداللّه نسفی، (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، 1995)، ج1، ص255۔

34 ـ محمود آلوسی، روح المعانی، ج3، ص138۔

35 ـ روض الانف، (مصر: مکتبۃ الکلیات الازهریۃ)، ج1، ص279۔

36 ـ وہی مأخذ ، ص178۔

37 ـ وہی مأخذ ۔

38 ـ وہی مأخذ ۔

39 ـ وہی مأخذ ۔

40 ـ الدرة البیضاء فی مناقب فاطمۃ الزہراء، (لاہور: منہاج القرآن، 2003م)، ص33، کتاب کا حاشیہ۔

41 ـ محمد اقبال، کلیات اشعار اقبال، (لاہور: مطبوعہ نسائی)، ص103۔

42 ـ المستدرک، ج3، ص156۔

43 ـ محمد شوکانی، فتح القدیر، (بیروت: دار المعرفۃ، 1996م)، ج1، ص439۔

44 ـ ابراهیم جوینی، فرائد السمطین، ج2، ص35۔

45 ـ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، ص247، باب 56۔

46 ـ الدر المنثور، ج2، ص194۔

47 ـ المناقب المرتضویۃ، ص113، بحوالۂ غلامرضا کسائی، مناقب الزہراء، (قم: مطبعۃ مہر، 1398ه••• )، ص62۔

48 ـ محمدباقر مجلسی، بحارالانوار، (بیروت: مؤسسة الوفاء، 1983م)، ج43، ص24، ح20۔

49 ـ حسین شیخ الاسلامی، مسند فاطمۃ الزہراء، (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، 1377)، ص72۔

50 ـ وہی مأخذ ۔

51 ـ محمدفاضل مسعودی، الاسرار الفاطمیۃ، (مؤسسۃ الانوار الفاطمیۃ، 2002م)، ص219۔

52 ـ ابی جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری، دلائل الامامۃ، (قم: منشورات الرضی، 1363)، ص28۔

از۔ http://ur.zn.farhangoelm.ir/%D9%85%D8%AB%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C/%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D8%AC%D9%86%D8%AA/1405 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *