تازہ ترین

۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا مبارک دن

ولادت
13 رجب سن تیس عام الفیل کو رسول اکرم (ص) کے چچازاد بھائی داماد اور جانشین حضرت علی (ع) کی خانۂ کعبہ میں ولادت باسعادت ہوئی ۔ آپ کے والد ابو طالب علیہ السّلام اور ماں فاطمہ بنتِ اسد علیھا السلام کو جو خوشی ھونی چاھیے تھی وہ تو ھوئی ھی مگر سب سے زیادہ رسول الله اس بچے کو دیکھ کر خوش ھوئے .

شئیر
50 بازدید
مطالب کا کوڈ: 14

شاید بچّے کے خد وخال سے اسی وقت یہ اندازہ ھوتا تھا کہ یہ آئندہ چل کر رسول کاقوتِ بازواور دستِ راست ثابت ھوگا . آپ کی والدۂ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد اوروالد گرامی کا نام ابوطالب تھا ۔حضرت علی (ع) نے بچپن سے ہی رسول اکرم (ص) کی آغوش میں پرورش پائي ۔سنہ 2 ھ میں دختر رسول (ص) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔شب ہجرت بستر رسول (ص) پر سوکرنبی اکرم کی جان بچائي اور مدینے میں بھی غزوۂ تبوک کےعلاوہ رسول اکرم (ص) کی تمام غزوات میں حضرت علی (ع) شریک تھے اور ہر مرحلے میں آپ (ص) کے یار و مدد گار تھے۔حضرت علی (ع) انتہائي شجاع اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت نرم دل اور لطیف طبیعت کے مالک تھے ۔آپ جس طرح محاذ جنگ پردشمنوں سےمردانہ وارمقابلہ کرتے تھے اسی طرح اسلامی معاشرے میں بھی کسی ناجائز عمل کو برداشت نہیں کرتے تھے ۔آپ اسلامی حق و انصاف کےحقیقی علمبردار تھے ۔آپ اطاعت اور بندگي خدا اس طرح انجام دیتے تھے کہ عبادت کے وقت دنیا کی خبر نہیں رہتی تھی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلالت میں اس طرح کھوجایا کرتے تھے گویا آپ زمین پرنہ ہوں بلکہ عالم ملکوت میں سیرکررہے ہوں ۔حضرت علی (ع) کے یوم ولادت کی مناسبت سے آپ کا ایک زرین قول پیش خدمت ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آؤ کہ اگر مرجاؤ تو تم پرلوگ روئیں اور اگر زندہ رہو تو تمہارے ساتھ نیکی کریں
علی(ع) کے نام و نسب
نام و نسب
حضرت علی (ع) : شیعوں کے پھلے امام
اسم گرامی : علی (ع)
لقب : امیر المومنین
کنیت : ابو الحسن
والد کا نام : عمران ( ابو طالب )
والدہ کا نام : فاطمہ بنت اسد
تاریخ ولادت : ۱۳/ رجب ۳۰ ء عام الفیل
جائے ولادت : مکّہ معظمہ خدا کے گھر میں ( خانہ کعبہ کے اندر )
مدّت امامت : ۳۰ / سال
عمر مبارک : ترسٹہ (۶۳) سال
تاریخ شھادت : ۲۱/ رمضان المبارک ۴۰ھء مسجد کوفہ میں
شھاد ت کا سبب : عبد الرحمن بن ملجم کی زھر آلودہ ضربت کا اثر

روضہٴ اقدس : عراق ( نجف اشرف )
اولاد کی تعداد : ۱۸/ بیٹے ، ۱۸/ بیٹیاں
بیٹوں کے نام : (۱) امام حسن مجتبیٰ (ع) (۲) امام حسین (ع)(۳) محمد حنفیہ (۴) عباس اکبر (۵) عبد اللہ اکبر (۶) جعفر اکبر (۷) عثمان (۸) محمد اصغر (۹) عبد اللہ اصغر (۱۰) عبد اللہ مکنی بابی علی (۱۱) عون (۱۲) یحییٰ (۱۳) محمد اوسط (۱۴) عثمان اصغر (۱۵) عباس اصغر (۱۶) جعفر اصغر(۱۷) عمر اکبر (۱۸) عمر اصغر۔
بیٹیوں کے نام : (۱) زینب کبریٰ (۲) زینب صغریٰ بہ نام ام کلثوم (۳) رملة کبریٰ (۴) ام الحسن (۵) نفیسہ (۶) رقیہ صغریٰ (۷) رملةصغریٰ (۸) رقیہ کبریٰ (۹) میمونہ (۱۰) زینب صغریٰ (۱۱) ام ّ ھانی (۱۲) فاطمة صغریٰ (۱۳) امامہ (۱۴) خدیجہ صغریٰ (۱۵) امّ کلثوم (۱۶) ام ّ سلمہ (۱۷) حمامہ (۱۸) ام کرام ۔
بیویاں : ۱۲
انگوٹھی کے نگینے کا نقش: الملک للّہ الوٰحد القھّار
تربیّت
حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے ھوئی۔ آپ نے انتھائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت اس چھوٹے بھائی کی علمی اور اخلاقی تربیت میں صرف کیا. ذاتی جوھر اور پھر رسول جیسے بلند مربیّ کافیض تربیت، چنانچہ علی دس ھی برس کے سن میں ایسے تھے کہ پیغمبر کے دعوائے رسالت کرنے پر ان کے سب سے پھلے پیرو بلکہ ان کے دعوے کے گواہ قرار پائے .
زمانہ مصائب
پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ ھر ھرذرہ رسول کادشمن نظر آنے لگا . وھی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے آج آپ کو ( معاذ الله) دیوانہ , جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کھنے لگے, راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے , پتھر مارے جاتے اور سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا . اس سخت وقت میں رسول کا ھر مصیبت میں شریک صرف ایک بچّہ تھا , وھی علی جس نے بھائی کاساتہ دینے میں کبھی ھمت نھیں ھاری , برابرمحبت ووفاداری کادم بھرتے رھے , ھر ھربات میں رسول کے سینہ سپر رھے , یھاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب مخالف گروہ نے انتھائی سختی کے ساتہ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر کااور ان کے تمام گھرانے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے , حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے . ابو طالب علیہ السّلام نے حضرت محمد مصطفےٰ سمیت اپنے تمام ساتھیوں کو ایک پھاڑ کے دامن میں قلعہ میں محفوظ کردیا , تین برس تک یہ قید وبند کی زندگی بسر کرنا پڑی . اس میں ھر شب یہ اندیشہ تھا کہ کھیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نھیں رھنے دیتے تھے بلکہ جعفر(ع) کو رسول کے بستر پر اور رسول کو عقیل (ع)کے بستر پر اور پھر رسول کو جعفر(ع)کے بستر پرلٹا دیتے تھے اورپھر رسول کو علی علیہ السّلام کے بستر پر. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کاپتہ لگا کر حملہ کرنا چاھے تو میرا کوئی بھی بیٹا قتل ھوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ھو. اس طرح علی بچپن ھی سے فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دھراتے رھے.
ھجرت
اس کے بعد وہ وقت آیا کہ ابو طالب علیہ السّلام کی وفات ھوگئی جس سے اس جاں نثار چچا کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ھجرت کاارادہ کرلیا جس پر دشمنوں نے ارادہ کیا کہ ایک رات جمع ھو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شھید کرڈالیں , حضرت کو اس کی اطلاع ھوئی تو آپ نے اپنے جاں نثار بھائی علی کو بلا کر اس واقعہ کی اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان کی حفاظت یوں ھوسکتی ھے کہ تم آج کی رات میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ھوجاؤں . کوئی دوسرا ھوتاتو یہ پیغام سنتے ھی اس کا دل دھل جاتا , مگر علی نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ رسول کی جان کی حفاظت ھوگی خدا کاشکر ادا کیا اور بھت خوش ھوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارھا ھے , یھی ھوا کہ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ھوگئے اور علی علیہ السّلام رسول کے بستر پر سوگئے , چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ھوئے مکان کوگھیرے ھوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ھو او رسب کے سب گھر میں گھس کر رسالت ماب کو شھید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتہ بستر پرآرام کرتے رھے اور ذرا بھی اپنی جان کاخیال نہ کیا دشمنوں کو صبح کے وقت معلوم ھوا کہ محمد تو رات ھی چلے گئے تھے.
تیرھویں رجب کی اہمیّت
ماہ رجب ، شعبان اور ماہ رمضان کی تیرھویں شب میں دو رکعت نماز مستحب ہے کہ اس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ یٰسین، سورہ ملک اور سورہ توحید پڑھے چودھویں شب میں چار رکعت نماز دو دو رکعت کر کے اسیطرح پڑھے اور پندرھویں شب میں چھ رکعت نماز دو دو کرکے اسی طرح سے پڑھے امام جعفر صادق -کا ارشاد ہے کہ اس طریقے سے یہ تین نمازیں بجالانے والا ان تینوں مہینوں کی تمام فضیلتیں حاصل کرے گا اور سوائے شرک کے اس کے سبھی گناہ معاف ہو جائینگے ۔
تیرھویں رجب کا دن
یہ ایام بیض کا پہلا دن ہے اس دن اور اسکے بعد کے دو دنوں میں روزہ رکھنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے، اگر کوئی شخص عمل ام داؤد بجالانا چاہتا ہے تو اس کیلئے 13 رجب کا روزہ رکھنا ضروری ہے .
شخصیت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کی نظر میں
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نہج البلاغہ کا اجمالی تعارف
نہج البلاغہ وہ عظیم المرتبت کتاب ھے جس کو دونوں فریق کے علماء معتبر سمجھتے ھیں، یہ مقدس کتاب امام علی علیہ السلام کے پیغامات اور گفتار کا مجموعہ ھے جس کو علامہ بزرگوار شریف رضی علیہ الرحمہ نے تین حصوں میں ترتیب دیا ھے جن کا اجمالی تعارف کچھ یوں ھے:
۱۔ حصہ اول: خطبات
نہج البلاغہ کاسب سے پھلا اور مھم حصہ امام علی علیہ السلام کے خطبات پر مشتمل ھے جن کو امام علیہ السلام نے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ھے، ان خطبوں کی کل تعداد (۲۴۱ ) خطبے ھیں جن میں سب سے طولانی خطبہ ۱۹۲ ھے جو خطبہٴ قاصعہ کے نام سے مشھور ھے اور سب سے چھوٹا خطبہ ۵۹ ھے۔
۲۔ حصہ دوم: خطوط
یہ حصہ امام علیہ السلام کے خطوط پر مشتمل ھے، جو آپ نے اپنے گورنروں اور دوستوں، دشمنوں، قاضیوں اور زکوٰة جمع کرنے والوںکے لئے لکھے ھیں، ان سبب میں طولانی خط ۵۳ ھے جو آپ نے اپنے مخلص صحابی مالک اشتر کو لکھا ھے اور سب سے چھوٹا ۷۹ ھے جو آپ نے فوج کے افسروں کو لکھا تھا۔
۳۔ حصہ سوم: کلمات قصار
نہج البلاغہ کا آخری حصہ ۴۸۰ چھوٹے بڑے حکمت آمیز کلمات پر مشتمل ھے جن کو کلمات قصار کھا جاتا ھے، یعنی مختصر کلمات، ان کو کلمات حکمت اور قصار الحِکم بھی کھا جاتا ھے، یہ حصہ اگرچہ مختصر بیان پر مشتمل ھے لیکن ان کے مضامین بہت بلند پایہ حیثیت رکھتے ھیں جو نہج البلاغہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ھیں۔
مقدمہ
کسی شخصیت کی شناخت اور پہنچان کا سب سے مھم ذریعہ یہ ھے کہ وہ شخصیت اپنی پہچان خود کرائے، چونکہ ھر شخص اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت بہتر پہچانتا ھے، اسی قاعدے کی بنا پر آئیں امام علی علیہ السلام کی شخصیت کو خود اُن کی زبان سے پہچانیں۔
چونکہ ایک طرف سے امام معصوم کی مکمل شناخت عام انسانوں کی قدرت سے باھر ھے اس لئے امام علی علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت کو ان کے بیانات عالیہ سے پہچانیں اور اُن کی سیرت طیبہ کی معرفت حاصل کریں، اور اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔
البتہ یھاں پر ایک اعتراض ذہن میں آسکتا ھے کہ اپنی تعریف اپنے منھ کرنا اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی تعلیمات کے مخالف ھے، آیا امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں جو اپنی مدح و تعریف فرمائی ھے یہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ھم آہنگ نھیں ھے؟
اس مختصر تحریر میں ھم اس اعتراض کا جواب بیان کریں گے تاکہ امام عالی مقام کی ملکوتی شخصیت اظھر من الشمس ھوجائے، انشاء اللہ، خداوندکریم ھماری مدد فرمائے اور اپنی توفیقات سے نوازے۔
پہلا باب
اپنی تعریف کی دلیلیں
اگر کوئی شخص اپنی ایسی تعریف کرے جو خلاف واقع ھو تو وہ قطعاً حرام ھے اور اگر وہ شخص اپنی تعریف کرنے میں سچا ھو اور تعریف حقیقت کے مطابق ھو تو اس کی دو صورتیں ھیں:
ایک مرتبہ ایسی تعریف بیان کرنے کی مصلحت تقاضا نھیں کرتی، اسی صورت میں اگر کوئی شخص اپنی تعریف کرتا ھے تو یہ تعریف قابل مذمت ھے، لیکن اگر تعریف سچی ھو اور مصلحت بھی اس کا تقاضا کرے تو اس صورت میں اپنی تعریف کرنا ضروری ھے۔
اس مذکورہ بیان کی روشنی میں دیکھیں اور غور فرمائیں کہ امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اپنی جو تعریف بیان فرمائی ھے وہ صداقت پر مبنی ھونے کے ساتھ ساتھ مصلحت نے اس کا تقاضا کیا تو امام علیہ السلام نے پہنچان اور شناخت کو لازم سمجھا، ھم ذیل میں چند دلیلوں کے پیش کرتے ھیں تاکہ حقیقت واضح اور روشن ھوجائے۔
۱۔ پہلی دلیل: اتمام حجت
پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ایسے حالات پیش آئے جن کی وجہ سے امام علی علیہ السلام کی شخصیت و مقام کو پس پشت ڈال دیا گیا، خلفاء کے پچیس سالہ دور حکومت میں امام علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت کو ظلمت و تاریکی کے حجاب میں چھپا دیا گیا۔
جب امام علیہ السلام کو ظاھری خلافت ملی اس وقت بھی اُن کو اندرونی جنگوں میں اُلجھا دیا گیا اس زمانہ میں امام علیہ السلام کو جس نسل کاسامنا کرنا پڑا وہ جوان نسل آپ کی شخصیت سے آگاہ نھیں تھی، اس وجہ سے امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ آپ اس نسل جوان کے سامنے اپنا تعارف کرائیں اور اتمام حجت کریں تاکہ یہ جوان نسل اصحاب جمل و صفین کے فتنوں میں گمراہ نہ ھوجائیں، اس لئے امامِ امت ھونے کی بنا پر بھی امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اپنا تعارف کرائیں تاکہ لوگ آپ کی تعلیمات اور سیرت سے فیض حاصل کریں جیسا کہ انبیاء علیھم السلام بھی جب تشریف لاتے تھے تو سب سے پھلے اپنا تعارف کراتے تھے۔
دوسری دلیل: خدا کی نعمتوں پر شکر
امام علی علیہ السلام اپنی شخصیت کا تعارف اُن نعمتوں کے ذریعہ کراتے تھے جو خداوندعالم نے اپنے خصوصی فضل و کرم کی بنیاد پر امام علیہ السلام کو اُن نعمتوں سے مالامال فرمایا، امام علیہ السلام نعمت کی اھمیت اور نعمت دینے والے کی اھمیت کو بیان کرنے کے ساتھ اپنا تعارف یوں کراتے ھیں:
”میں ( علی) وہ ھوں جس نے عرب کے بڑے بڑے بھادروں کے چھکے چھڑا دئے تھے، میں وہ ھوں جس نے شرک کی آنکھیں نکال دیں اور عرش شرک کو لرزہ براندام کردیا، میں اپنے جھاد کے ذریعہ خدا پر کوئی احسان نھیں کرتا اور میں اپنی عبادت پر نازاں نھیں ھوں بلکہ میں اپنے پروردگار کی ان نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرتا ھوں“۔
[1]
تیسری دلیل: حقائق تاریخی بیان کرنا
ھر حادثہ اور واقعہ تاریخ کے صفحات پر رقم ھو جاتا ھے، تاریخ نگار اور تاریخ لکھنے والے اُس کو بعد والی نسلوں کی طرف منتقل کرتے ھیں، ابھی سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ انتقال کیسے انجام پاتا ھے، آیا حقیقت اور مثبت حوادث کو نقل کیا جاتا ھے یا حقائق پر پردہ ڈال کر جھوٹ اور فریب کے ذریعہ؟ جب اسلام جزیرة العرب میں پھیلا تو بہت سی تبدیلیاں اور انقلاب وجود میں آئے ، درحالیکہ امام علی علیہ السلام کا نقش ظھور اسلام میں خاص اھمیت کا حامل تھا۔
لیکن جب پیغمبر اعظم (ص) اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف چل بسے اور جھان اسلام کی ریاست و حکومت میں تبدیلی آئی تو کافی بزرگ شخصیات کا مقام گرا دیا گیا اور بہت سے لوگوں کو مقام جعلی دے دیا گیا حتی کہ اُن کے لئے جھوٹے فضائل کو گڑھا گیا اور امام علی علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں میں گرانے کی سعی لاحاصل کی گئی، اسی وجہ سے جب امام علی علیہ السلام کو ظاھری خلافت ملی تو آپ پر لازم ھوگیا تھا کہ اپنی شناخت بھی کرادیں اورتاریخی حقائق سے پردہ اٹھادیں تاکہ آئندہ آنے والی نسل کے لئے آپ کی شخصیت منارہ نور بن کر مشعل راہ بن جائے۔
چوتھی دلیل: اپنی مظلومیت کا دفاع
جھان اسلام میں سیاسی تغیر و تبدل کی وجہ سے اجتماعی اور ثقافتی یلغار نے جنم لیا جس کا سب سے زیادہ اثر امام علی علیہ السلام کی شخصیت پر پڑا، چونکہ امام علیہ السلام اسلام کی مصلحت کی خاطر گوشہ نشین ھونے پر مجبور ھوگئے تھے، اس پُر آشوب دور میں بھی اپنی مظلومیت کو بیان کرتے رھے۔
خاص طور پر جب خوف زدہ کرنا اپنے عروج پر تھا اس زمانہ میں کچھ لوگ خوف و وحشت کی وجہ سے خاموش ھوگئے اور کچھ لوگ دنیا دار بن بیٹھے، اور اپنی زبانیں بند کرکے خاموشی اختیار کرلی، ایسے حالات میں علی علیہ السلام کی شناخت اور پہچان کرانا کسی کے بس میں نھیں تھا، چونکہ امام علیہ السلام کے مخالفین نے جب حکومت کی باگ ڈور ھاتھ میں لے لی تو برملاٴ اور علی الاعلان امام پر تبراٴ کیا جانے لگا، اور دیگر اصحاب کے فضائل بیان ھونے لگے، ان حالات میں امام علی علیہ السلام کو پہنچان کرانا بہت ضروری تھا، یعنی امام علیہ السلام اس زمانہ میں اپنی مظلومیت کا دفاع کرتے رھے اور لوگوں کو حقیقت حال سے باخبر کرنے کے لئے اپنی شناخت اور پہچان کو ضروری سمجھا۔
مذکورہ چار دلیلوں کی بنا پر کھا جاسکتا ھے بلکہ کہنا ضروری ھے کہ امام علی علیہ السلام نے اپنی جو تعریف فرمائی ھے وہ تعلیمات اسلامی سے ذرا بھی مخالف نھیں ھے، بلکہ اسلامی اقدار کا دفاع ھے۔
دوسرا باب
شخصیت امیر المومنین نہج البلاغہ کی نظر میں
ابھی ھم امام علی علیہ السلام کی شخصیت کو انھیں کی زبانی بیان کرتے ھیں، آپ نے نہج البلاغہ میں جو آپ کے فرامین کا مجموعہ اور مقدس ترین کتاب ھے یہ ایسی با عظمت کتاب ھے جس کو دونوں فریق (سنی و شیعہ) کے علماء مقدس اور محترم سمجھتے ھیں، آپ نے اپنی شخصیت کا کچھ اس انداز میں تعارف کرایا ھے جو اختصار کے ساتھ آپ کے لئے باعث استفادہ ھیں۔
۱۔ عظمت علی (ع) پیغمبر اسلام کی نگاہ میں
(الف) علی (ع)، آغوش رسول(ص) کے پروردہ
امام علی علیہ السلام وہ ذات پُر برکت ھیں جن کو یہ فخر حاصل ھے کہ آپ کی پرورش رسول خدا (ص) کی آغوش میں ھوئی ھے، رسول خدا (ص) کی آغوش میں پرورش پانے والے کامل اور اکمل انسان نہج البلاغہ میں یوں فرماتے ھیں:
” وَقَدْ عَلِمْتُمْ مَوضَعِی مِن رَسُولِ الله بِالقَرَابَة القَرِیْبَةِ وَ المَنْزِلَةِ الخَصِیْصةَ وَضعنی ِفی حِجْرِہِ وَ اٴنَا وَلَدٌ یَضُمَّنِي إلیٰ صَدْرِہِ، وَ یَکْنُفْنِي فِی فَرَاشِہِ ۔۔۔ وَ کَان یَمْضَغُ الشَّی ثُمَّ یُلْقِمُنِیْہِ“۔[2]
”امام علیہ السلام فرماتے ھیں (اے لوگو) تم رسول خدا کے ساتھ میری منزلت کو جانتے ھو،میں آپ کا قریبی رشتہ دار اور آپ کے خواص سے ھوں، رسول اللہ مجھے بچپن میں اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اپنے سینے سے لگایا کرتے تھے، مجھے اپنے ساتھ سلاتے تھے، میرا بدن آپ کے بدن سے مس ھوتا تھا میں آپ کی خوشبو سونگھتا تھا۔
رسول خدا (ص) غذا کو اپنے مبارک دانتوں سے چبا کر میرے منھ میں رکھتے تھے، رسول خدا (ص) میرے کردار میں کسی قسم کا کذب یا خطا نھیں پاتے تھے، میں چھوٹا ھی تھا کہ خدا نے اپنے رسول کے ساتھ ایک فرشتہ کو مقرر فرمایا جو آپ کو دن رات اخلاق و کرامات کی طرف راہنمائی کرتا تھا میں بھی اونٹنی کے بچے کی مانند جو اپنی ماں کے پیچھے رہتا ھے، پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، رسول اللہ (ص) مجھے ھر روز اچھے اخلاق سے ایک نقطہ تعلیم فرماتے اور مجھے اس پر عمل کرنے کا حکم دیتے تھے[3]
اس بیان سے واضح و روشن ھوجاتا ھے کہ امام علیہ السلام کی پرورش خود رسول اللہ نے فرمائی تھی، کیونکہ رسول خدا (ص) امام علیہ السلام کو اپنے مشن کا وراث جانتے تھے، اتنا اہتمام اس لئے فرمایا۔
(ب) علی (ع) آغاز وحی میں پیغمبر کے ساتھ
امام علی علیہ السلام وہ بلند مقام شخصیت ھیں جنھوں نے نور وحی کو اپنی آنکھوں سے مشاھدہ فرمایا اس لئے تو رسول ختمی مرتبت نے فرمایا تھا، اے علی جو میں دیکھتا ھوں وہ آپ بھی دیکھتے ھیں جو میں سنتا ھوں وہ آپ بھی سنتے ھیں۔
امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ھیں:
”وَ لَقَدْ کَانَ یُجَاوُرِ فِي کُلّ سَنَةٍ بِحْرَاءَ فَاٴرَاہُ وَلَا یَراہُ غَیرِي، وَلَمْ یَجْمَعْ بَیْتٌ وَاحِدٌ یَومَئِذٍ فِي إلاسُلَامِ غَیْرَ رَسُولَ الله (ص)، وَ خَدِیْجَةَ وَ اٴنَا ثَالِثُہُمَا“۔[4]
”امام فرماتے ھیں رسول خدا (ص) ھر سال کچھ عرصہ غار حرا میں جایا کرتے تھے، میں ان کو دیکھتا تھا میرے علاوہ کوئی انھیں نھیں دیکھتا تھا، اُس زمانہ میں واحد گھر جس میں رسول خدا (ص)اور جناب خدیجہ اور تیسر ا میں تھا کوئی اور گھر میں نھیں تھا“۔
اس کے بعد فرماتے ھیں:
”اٴرَیٰ نُورَ الْوَحْيِ وَ الرِّسَالَةَ، وَ اٴشُمُّ رِیْحَ النَّبُوَةِ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشِّیْطَانِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ مَا ہَذِہِ الرَّنَّةُ، فَقَالَ (ص) ہٰذَا الشِّیْطَانُ قَدْ اٴیِسْ مِنْ عِبَادَتِہِ، إنَّکَ تَسْمَعُ مَا اٴَسْمَعُ وَ تَریٰ مَا اٴَریٰ إلاَّ اٴنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍ وَ لَکِنَّکَ لَوَزِیرٌ وَ اٴنَّکَ لَعَلیٰ خَیْرٍ“۔[5]
”میں نے نور وحی اور نور رسالت کو دیکھا، رسول خدا (ص) کی دلپذیر خوشبو کو سونگھتا تھا، میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کے رونے کی آواز کو سنا، اور میں نے رسول اکرم (ص) سے پوچھا: یا رسول اللہ یہ کس کے رونے کی آواز ھے تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا: ی ہ شیطان رو رھا ھے چونکہ وہ آج سے اپنی عبادت سے مایوس ھوگیا ھے، اس کے بعد رسول (ص)نے فرمایا: یا علی جو میں سنتا ھوں آپ بھی سنتے ھیں، اور جو میں دیکھتا ھوں ، آپ بھی دیکھتے ھیں مگر آپ نبی نھیں ھیں، بلکہ میرے وزیر اور جانشین ھیں، اور آپ خیر پر ھیں“۔

ھم تمام امت اسلام کو چیلنج کرکے کہہ سکتے ھیں کہ آؤ ، رسول اسلام کے بعد کوئی ایسی شخصیت دکھاؤ جس کے بارے میں خود رسول اکرم (ص) نے فرمایا ھو کہ آپ میرے جانشین اور وزیر ھیں، جو میں سنتا ھوں وہ آپ بھی سنتے ھیں جو میں دیکھتا ھوں وہ آپ بھی دیکھتے ھیں، یہ فخر صرف اور صرف علی بن ابی طالب علیہ السلام کو حاصل ھے، لیکن دنیائے اسلام آج تک پریشان ھے کہ رسول اکرم (ص) کا حقیقی جانشین کون تھا، پس ھم یہ جملہ کہنے پر مجبور ھوجاتے ھیں کہ علی علیہ السلام کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ھیں۔
(ج) علی (ع)سب سے پھلے نماز پڑھنے والے
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ھیں:
”اَللّٰہُمَّ اِنّي اٴوَّلَ مَنْ اٴَنَابَ وَ سَمِعَ وَ اٴجَابَ لَمْ یَسْبِقْنِی إلاَّ رَسول الله بالصَّلاة“۔[6]
”میں وہ سب سے پھلا شخص ھوں جس نے رسول اکرم (ص) کی طرف رجحان پیدا کیا اور اُن کی دعوت کو سنااور قبول کیا، میں سب سے پھلا نماز گزار ھوں، رسول(ص) کے علاوہ کوئی شخص ”مجھ سے پھلا نمازی نھیں ھے“ اور مجھ سے سابق نھیں ھے۔
(د) علی (ع) جانثار رسول(ص)
امام علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۹۷ میں ارشاد فر ماتے ھیں:
”وَ لَقَدْ عَلِمَ المُسْتَحْفِظُونَ مِنْ اٴصْحَابِ مُحَمَّدٍ(ص) اٴَنِّی لَمْ اَرُدُّ عَلیٰ الله وَ لَا عَلیٰ رَسُولِہِ سَاعَةً قَطُّ، وَ لَقَدْ وَاسَیْتُہُ بِنَفْسِي فِي المَوَاطِنِ الَّتِي تَنْکُصُ فِیْہَا الاٴبْطَالُ وَ تَتَاٴخَّرُ فِیْہَا الاٴقْدَامُ، نَجْدَةً اٴکْرَمَنِي الله بِہَا“۔[7]
”اصحاب محمد میں سے صاحبان اسرار جانتے ھیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا و رسول (ص) کی مخالفت نھیں کی، بلکہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مشکل مقامات پر ان کی نصرت کی جھاں بڑے بڑے سورما بھاگ جاتے تھے، اور اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے تھے، خدا نے اس شجاعت و دلیری کے ذریعہ میری لاج رکھی ”اور میں نے پیامبر کا دفاع کیا“۔
قارئین کرام!یہ وہ خصوصیات اور خوبیاں ھیں جو فقط امام عالی مقام کا طرہ امتیاز تھیں کوئی با شعور انسان اس حقیقت کا انکار نھیں کرسکتا، لیکن وہ لوگ جن کے دلوں پر مھریں لگ چکی ھیں وہ کبھی حقیقت کو بیان نھیں کرسکتے اور نہ اس کو ہضم کرسکتے ھیں۔
۲۔ حضرت علی (ع) کی علمی شخصیت
پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ھے کہ ”میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شھر علم تک پہنچنا ھے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ھونا ضروری ھے ایک دفعہ جاتے ھوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ھوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ھیں:
فَاٴسْاٴلُوْنِي قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِي فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ لَاتَسْاٴلُوْنِي عَنْ شَيٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ وَ لَا عَنْ فِیٴةٍ تَہْدِي مِاَئةً وَ تُضِلُّ مِاَئةً إلاَّ اٴَنْبَاتُکُمْ بِنَاعِقَہَا وَ قَائِدَہَا وَ سَائِقِہَا“[8]
”مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان نہ رھوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، ممکن نھیں ھے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ھوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ھدایت کرتا ہ ے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ھے وہ بھی بتا سکتا ھوں، اُن کے ھانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراھوں کے بارے میں مطلع کرسکتاھوں“۔
یہ کلمات امام علی علیہ السلام کے علم کی ایک جھلک ھے، اور شاھد ھے کہ کائنات میں آپ جیسا عالم نہ تھا نہ ھوگا، اور یہ آپ کی اولویت پر واضح دلیل ھے۔
۳۔ حضرت علی اور شھادت طلبی
کبھی آپ نے میدان جنگ سے فرار نہ فرمایا، نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۲۲ میں فرماتے ھیں:
”وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُہُمْ إلیٰ اٴنْ اٴبْرَزَ لِلطَّعَانِ! وَ اٴنْ اٴَصْبِرْ لِلْجَلَادِ، ہَبَلَتْہُمْ الہَبُوْلُ، لَقَدْ کُنْتُ َو مَا اٴَہَدَّدَ بِالْحَرْبِ وَ لَا اٴَرْہَبُ بِالضَّرْبِ، وَ اِنِّي لَعَلیٰ یَقِیْنٍ مِنْ رَبِّي وَ غَیْرَ شُبْہَةٍ مِنْ دِیْنِي“۔[9]
”مجھے تعجب ھے اُن پر جو مجھ سے چاہتے ھیں کہ میں ان کے نیزوں کے سامنے حاضر ھوجاؤں، اور ان کی تلوار کے سامنے صبر کروں، سوگواران کے غم میں روئیں، میں نہ جنگ سے ڈرتا ھوں اور نہ تلوار سے خوف زدہ ھوں، میں خدا پر یقین رکھتا ھوں، اور شک و شبہ میں مبتلا نھیں ھوں“
۔یہ کلمات امام علیہ السلام کے شوق شھادت پر واضح شاھد ھیں۔
۴۔ حضرت علی (ع) کی عدالت
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ھیں:
”وَ الله لَقَدْ رَاٴئتُ عَقِیْلاً وَ قَدْ اٴمْلَقَ حَتیّٰ اَسْتَمَاحَنِي مِن بُرِّکُمْ صَاعاً وَ رَائتُ صِبْیَانَہُ شُعْثَ الشُّعُوْرِ غَبِرَ الاٴلْوَانِ مِنْ فَقْرِہِمْ کَاٴنَّمَا سوِّدَتْ وُجُوْہُہُمْ بِالْعَظْمِ وَ عَاوَدَنِي مُوٴَکِّداً“۔[10]
”خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ میرا بھائی عقیل تنگ دست ھے، اور اُس نے مجھ سے درخواست بھی کی کہ بیت المال سے کچھ وظیفہ بڑھادیں اور میں نے ان کے بچوں کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے اُن کے بال اور رنگ متغیر ھوچکا تھا، عقیل نے بار بار اصرار بھی کیا۔۔۔ تاکہ میں عدالت سے ھاتھ اٹھالوں، لیکن میں نے لوھے کی گرم سلاخ کو عقیل کی طرف بڑھایا، عقیل چونکے، اے بھائی مجھے آگ سے جلانا چاہتے ھو تو میں نے کھا: اے عقیل تم دنیا کی آگ میں جلنا پسند نھیں کرتے لیکن مجھے جہنم کی آگ میں دھکیلنا چاہتے ھو جو زیادہ سخت ھے“۔
اسے عدالت محوری کھا جاتا ھے کہ سگے بھائی کو جو تنگدست بھی ھے بیت المال سے زیادہ دینا گوارہ نھیں کیا جاتا۔
۵۔ حضرت علی (ع) کا زھد و تقویٰ
امام علی علیہ السلام کے زھد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کو خبر دی گئی کہ عثمان بن حنیف جو بصرہ کا گورنر تھا وہ کسی ایسی دعوت میں اور ایسی محفل میں شامل ھوئے ھیں جھاں سب اُمراء شریک تھے، اس میں غریب نہ تھے، تو امام علی علیہ السلام نے اس کے پاس ایک خط لکھا اور متنبہ کرتے ھوئے فرمایا:
”اَلاَ وَ إنَّ لِکُلِّ مَامُوْمٍ اِمَاماً یَقْتَدِي بِہِ۔۔۔ اِلاَّ وَ اِنَّ اِمَامَکُمْ قَدْ اِکْتَفیٰ مِنْ دُنْیَاہُ بِطِمْرَیْہِ وَمِنْ طَعْمِہِ بِقُرْصَیْہِ“۔[11]
”اے حنیف کے بیٹے!“ آگاہ رھو کہ ھر ماموم کے لئے ایک امام ھوتا ھے جس کی وہ پیروی کرتا ھے اور اس کے علم کے نور سے روشنی حاصل کرتا ھے، کیا تمھیں نھیں معلوم آپ کا امام دنیا سے دو پُرانے کپڑے پہن کر اور دو خشک روٹیاں کھا کر گزر بسر کرتا ھے، (اور تم ایسی دعوت میں شریک ھوتے ھو)
۶۔ نیاز مندوں کے ساتھ ھمدردی
امام علی علیہ السلام محتاج اور نیازمند لوگوں کے ساتھ ھمدردی فرماتے تھے، چنانچہ آپ ھی کا فرمان ھے:
”اَ اٴَقْنَعَ مِنْ نَفْسِي بِاٴنْ یُقَالُ ہَذَا اٴمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ وَ لَا اُشَارِکْہُم فِي مَکَارِہِ الدَّہْرِ“۔[12]
”کیا میں اس بات پر اپنے نفس کو قانع کرلوں کہ مجھے امیر المومنین کھا جائے، جبکہ ان کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ شریک نہ ھوں، بلکہ میں مشکلات میں ان کے لئے نمونہ بنوں گا، میں ”علی“ لذیذ غذا کھانے کے لئے پیدا نھیں ھوا ھوں جیسا کہ حیوانات کا پورا ھم و غم چارہ اور گھاس ھوتا ھے۔
امام علی علیہ السلام مقصد خلقت کو درد بانٹنے اور ھمدردی انسانیت کے اندر پیادہ کرتے ھوئے نظر آتے ھیں، یعنی انسان کو عیش و عشرت کے لئے خلق نھیں کیا گیا ھے، بلکہ انسانیت کی ھمدردی کے لئے خلق کیا گیا ھے، یھی تو انسانیت کا امتیاز ھے۔
۷۔ حضرت علی (ع)اور حق محوری
امام علیہ السلام حق پرست، حق جو، حق دوست اور حق گو تھے، جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: ”علی مع الحق، و الحق مع علی“، علی حق کے ساتھ ھیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ھے، امام علیہ السلام کو پورا جھاد حق کے قیام کے لئے تھا، چنانچہ آپ نہج البلاغہ میں فرماتے ھیں:
”وَ الله لَہِیَ اٴحَبُّ إلَیَّ مِنْ إمْرَ تِکُمْ إلاَّ اٴَنْ اٴُقِیْمَ حَقّاً اٴوْ اٴَدْفَعَ بَاطِلاً“۔[13]
”قسم بہ خدا! میرے اس جوتے کی قیمت تم پر حکومت کرنے سے زیادہ ھے مگر یہ کہ اس کے ذریعہ سے حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو مٹا سکوں“۔
اس کے بعد اسی خطبہ میں ارشاد فرماتے ھیں:
”فَلا نْقَبَنَّ الْبَاطِلَ حَتّیٰ یَخْرُجُ الْحَقُّ مِنْ جَنْبِہِ“۔[14]
”میں باطل کو شگافتہ کرنا چاہتا ھوں تاکہ حق کو اس کے پھلو سے نکال لوں“۔
قارئین کرام! ان جملوں کی روشنی میں امام علی علیہ السلام کی حق دوستی اور حق محوری روشن ھوجاتی ھے۔
۸۔ حضرت علی اور وداع پیغمبر(ص)
امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے فدا کار سپاھی اور جانثار ساتھی تھے، اور آخری لمحات تک پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت ِاقدس میں رھے، یھاں تک کہ رسول اکرم (ص) کی رحلت کے وقت وداع کرنے والے بھی آپ ھی تھے، وداع پیغمبر کو نہج البلاغہ میں یوں فرماتے ھیں:
”وَ لَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللهِ (ص) وَ إنَّ رَاسَہُ لَعَلٰی صَدْرِي، وَ لَقَدْ سَاٴَلَتْ نَفْسَہُ فِي کَفِّی فَاٴَمْرَرْتُہَا عَلیٰ وَجْہِي وَ لَقَدْ وَلَّیْتُ غُسْلَہُ وَ الْمَلَائِکَةُ اٴَعْوَانِي، فَضَجَّتِ الدَّارُ وَ الاٴَفْنیةُ مَلاٌ یَہْبِطُ وَ مَلاٌ یَعْرُجُ وَ مَا فَارَقَتْ سَمْعِي ہَیْنَمَةُ مِنْہُمْ یَصَلُّوْنَ عَلَیْہِ“۔[15]
”جب رسول خدا (ص) کی روح قبض ھوئی ان کا سر میرے سینے پر تھا، میرے ھاتھوں پر انھوں نے جان دی، میں نے ھی پیغمبر کو غسل دیا جبکہ ملائکہ میری مدد کررھے تھے، فرشتوں کی رونے کی آواز در و دیوار سے آرھی تھی، ان ملائکہ کا ایک گروہ نازل ھوتا تھا ایک آسمان کی طرف جاتا تھا، اُن کی دھیمی آواز میں سن رھا تھا جس کے ساتھ وہ پیغمبر پر دورد پڑھتے جاتے تھے، یھاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کو سپرد خاک کردیا گیا، لہٰذا رسول اسلام (ص) کی زندگی اور موت کے بارے میں مجھ سے بڑھ کر کوئی شخص آنحضرت (ص) کے قریب نہ تھا“۔
قارئین کرام! پیغمبر اکرم (ص) کی پوری زندگی میں علی علیہ السلام آپ کے محافظ اور جانثار کے طور پر آپ کی حفاظت میں مشغول رھے ھر میدان میں آپ کی آواز پر لبیک کہتے رھے یھاں تک رحلت کے موقع پر جب سب حضرات آپ کا جنازہ چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں چلے گئے لیکن وارث رسول غسل و کفن میں مصروف رھا، ان روشن دلیلوں کے باوجود جو آپ کے وارث رسول ھونے میں شک کرے وہ شخص اپنی قسمت پر گریہ کرے، امام علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں یہ چند معروضات تھیں ، اختصار کو مد نظر رکھتے ھوئے اسی پر اکتفاء کیا جاتا ھے۔
خداوندعالم ھمیں آپ کے پیرو حقیقی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
——————————————————————————–
[1] شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید، ج۲۰، ص ۲۹۶۔
[2] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[3] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[4] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[5] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[6] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱۔
[7] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۷۔
[8] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[9] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۲۔
[10] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۴۔
[11] نہج البلاغہ ، خطبہ ۴۵۔
[12] نہج البلاغہ ، خط نمبر ۴۵۔
[13] نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳۔
[14] نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳۔
[15] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۷۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *