نیپال نامہ, محمد حسین
نیپال میں گزرے تین ہفتوں کے بارے میں پہلے یہی سوچا تھا کہ کم از کم پانچ آرٹیکل تو لکھ ہی لوں، ان مضامین کے لیے عنوانات بھی سوچ لیے تھے کہ (۱) نیپال کا مختصر تعارف، (۲)کھٹمنڈو شہر (۳) بدھ مت مذہب کا مختصر تعارف (۴) تبت پر کیا بیت رہا ہے، (۵) تبت اور بلتستان کے مشترکہ تہذیبی باقیات (۶) جنوبی ایشیا کے چند بڑے تنازعات ۔ لیکن یہاں امریکہ آنے کے بعد نہ صرف دن رات میں اور رات دن میں بدل گئی بلکہ مسلسل مصروفیات کے باعث ان عنوانات پر لکھنا بہت مشکل معلوم ہو رہا ہے۔ میں اس ڈر کے مارے کہ کہیں نیپال کے تجربے پر ایک مختصر تحریر بھی لکھنے سے رہ نہ جائے ، اس لیے اسی مختصر مگر جامع تحریر کے لیے لیپ ٹاپ اٹھا یا ہے۔
میں اکیس جنوری 2017 کو بذریعے عمان ایئر براستہ مسقط اسلام آباد سے کٹھمنڈو پہنچا، نیپال کی طرف سفر کا بنیادی مقصد جنوبی ایشائی ممالک میں نسلی، لسانی، سیاسی اور مذہبی تنازعات کا تجزیہ اور حل کے مختلف اور ممکنہ اسالیب کے جائزہ کے لیے سکول آف انٹرنیشنل ٹریننگ کی جانب سے منعقدہ سالانہ پروگرام میں شرکت کرنا تھا۔ دو ہفتوں پر مبنی اس خصوصی پروگرام میں پاکستان سے شرکت کے لیے میرے علاوہ کوئی اور نہیں تھا ۔ جبکہ اس میں نیپال، تبت، سری لنکا، انڈیا، بنگلہ دیش، میانمر، افغانساتان اور منگولیا سے اس شعبے میں سرگرم رہنے والے مندوبین شریک ہوئے جبکہ امریکہ سے مطالعات تنازعات کے استاذ پروفیسر ڈاکٹر بروس ڈیٹن، جاپان سے تعلق رکھنے والے اور دنیا کے بڑے بڑے تنازعات پر تحقیقاتی مطالعہ رکھنے اور ان تنازعات میں مصالحانہ کاوشوں میں سرگرم رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر ٹاٹسوشی آرائی، انڈیا میں صنفی تنازعات پر کام کرنے والی دانشور اور ٹرینر ادتی راو نے تربیت کار کے فرائض جبکہ سکول آف انٹرنیشنل ٹریننگ کے تحت منعقدہ پروگرام کے مینیجر مارک کلارک اور ان کے رفیق کار اتیش پانٹ نے معاونت کار کے فرائض انجام دیے۔
اس پروگرام کا بنیادی فائدہ جہاں تنازعات کے تجزیے اور تنازعات کے معیشت، سیاست، مذہب، ثقافت، نظام اور نفسیاتی و معاشرتی عوامل سے تعلق کو مزید سمجھنے اور موضوع پر دیگر استعداد کار میں اضافہ کی صورت میں ہوا وہیں جنوبی ایشیا میں جاری سیاسی، لسانی، نسلی و مذہبی تنازعات کے بارے میں گہری اور وسیع معلومات اور متنوع تناظرات سے آگاہی کی صورت میں بھی ہوا۔
نیپال میں موجودگی کے دوران یہاں کی ثقافت، تاریخ، ترقی اور چہل پہل کے مشاہدہ کرنے اور لوگوں سے ملنے اور مختلف تاریخی اور مذہبی مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ یہاں کشمیری جامع مسجد کے علاوہ بدھسٹ کے بودھا ناتھ، ساومبو ٹیمپل اور ہندو ازم کے نیپال میں سب سے بڑا مندر اور مرکز پسو پتی مندر، وشنو مندر سمیت قدیم ترین مذہبی مقامات کا بھی دورہ کیا۔ بدھسٹ کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک بودھاناتھ خصوصی دلچسپی کا باعث رہا، یہ کئی صدی پرانا سٹوپا یونیسکو کے تحت دنیا کے آثار قدیمہ میں شامل ہے۔ مذکورہ عمارت سے پیوستہ ہر چیز کے علامتی مفاہیم بتائے گئے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے سٹوپا میں شمار ہوتا ہے جہاں روزانہ ہزاروں اور سالانہ لاکھوں بدھسٹ اس کی زیارت اور طواف کے لیے آتے ہیں، لوگ ہاتھوں میں تسبیح لیے منتر پڑھتے ہوئے حسب توفیق (طاق عدد یعنی تین ، پانچ، سات، نو وغیرہ)طواف کرتے ہیں۔ آسانی کے ساتھ تسبیح کو زیادہ تعداد میں پڑھی جانے اور زیادہ سے زیادہ برکت سمیٹنے کے غرض سے ان منتروں کو کاغذ پر لکھ کر اس کی سینکڑوں اور ہزاروں کاپیاں بنا کر اسے لوہے کی گول پہیہ نما بیرل کے اندرونی حصہ میں اسے لپیٹا گیا ہے اور اس بیرل کو بیرنگ کے ذریعے تیزی سے گھمایا جا سکتا ہے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ باہر سے اس بیرل کو گھڑی کے طرز پر گھمانے سے ہزاروں بار ان منتروں کا ورد ہو جاتا ہے۔ مذکورہ سٹوپا کے گنبد کے بالائی حصے پر دو آنکھوں کے نشان کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ ایک آنکھ حکمت جبکہ دوسری رحمت کی نشانی ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے ایک بدھسٹ رہنما جناب نگما شرپہ صاحب نے بتایا کہ وہ حکمت جس میں انسانیت کے لیے رحمت شامل نہ ہو وہ تباہی کا باعث بھی بن سکتی ہے، جیسے ایٹم بم اور دیگر تباہی کے آلات اور وسائل وغیرہ، یہاں چاروں طرف پانچ رنگوں پر مبنی دعائیے جھنڈے لگے ہوئے ہیں پر سنسکرت ، تبت اور دیگر زبانوں میں بدھ مذہب کے دعائیہ کلمات لکھے گئے ہیں۔ ہوا میں لہراتے ہوئے ان جھنڈوں پر کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ہوا ان جھنڈوں سے چھو کر ہر طرف برکت کا باعث بنتی ہے۔ ایک سائیڈ پر سجدے کے لیے خصوصی جگہ بنائی گئی ہے جہاں لوگ آتے ہیں پہلے بودھاناتھ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر رکوع کی مانن جھک جاتے ہیں پھر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور آخر میں پیٹ کے بل ہاتھوں کو سر کے آگے جوڑ کے دعا کرتے ہیں۔ اس کے آس پاس میں بہت سے بدھسٹ موناسٹریز یعنی بدھست دینی مدارس قائم ہیں۔
اس دوران تبت کے لوگوں سے ملنے کا تجربہ بھی بہت دلچسپ رہا۔ صدیوں بعد بلتستان میں رہنے والا تبتی بلتی جب تبت اور نیپال میں رہنے والے ہم نسل تبتی لوگوں سے ملا اور زبان، ثقافت، رویوں اور طرز زندگی میں غیر معمولی یکسانیت پائی تو اس کی خوش گوار حیرت کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ بکھرے ہوئے تبتی نسلی گروہ اب چائنہ کے زیر انتظام تبت، پاکستان کے زیر انتظام بلتستان، بھوٹان، نیپال میں سلسہ ہمالیہ کی وادی ڈول پو اور وادی شرپہ میں اور انڈیا کے لداخ ، سکم اور ارونچل پردیش میں رہ رہے ہیں، نیپال کے تبتی دوستوں نے ہمیں دو دفعہ اپنے گھروں میں عشائیے پر دعوت دی جبکہ انہوں نے مجھے اپنے تجربات و تاثرات کے اظہار کے لیے اداروں میں دعوت دی خاص طور پر ڈولپو ہاؤس میں طلبہ و طالبات سے گفتگو کافی مفید رہی
جبکہ تبت سے تعلق رکھنے والے بھکشو جناب سنگے صاحب سے بھی ملا۔ انہوں نے بدھسٹ فلاسفی اور تعلیمات کے بارے میں تیرہ سالہ کورس مکمل کیا ہوا ہے ۔ ان سے تقریباً ایک گھنٹہ بدھ مت اور اسلام کےبارے میں باہم تبادلہ خیال ہوا۔
نیپال کے لوگ پاکستان کے بارے میں عموما مثبت رائے کا اظہار کرتے پائے گئے۔ لوگ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور کرکٹ سے وابستہ کھلاڑیوں اور شہروں کا تذکرہ بہت کرتے ہیں، ایک شخص نے ایبٹ آباد کا نام لیا تو میں نے پوچھا کہ ایبٹ آباد میں کبھی آپ گئے ہیں یا کوئی آپ کا دوست ہے وہاں پر، اس نے جواب دیا نہیں بلکہ جب القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن کو جب مارا گیا تھا اس وقت اس شہر کا نام بہت میڈیا میں آنے لگا اس لیے یہ نام یاد ہے۔
جبکہ اسلام کے بارے میں بات کرتے ہوئے تھوڑا سا ججھک محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے ان کو باور کرایا کہ وہ ہر طرح کے سوالات ہم سے پوچھ سکتے ہیں۔ اپنی معلومات اور خیالات کے مطابق ہر سوال کے ہم نے کافی حد تک اطمینان بخش جوابات دیے لیکن ہر جگہ ایک سوال ایسا رہا جس کا جواب دینا بھی مشکل تھا اور ان کو مطمئن کرنا بھی۔ وہ سوال تھا کہ شیعہ سنی کیا ہیں اور ان کے آپس میں اتنی سخت اور پُرتشدد لڑائیاں اور قتل و غارت کیوں ہے۔ جب میں نے یہ بتایا کہ یہ دونوں ایک ہی دین ’’اسلام‘‘ ایک ہی خدا ’’اللہ‘، ایک ہی کتاب ’’قرآن‘‘ اور ایک ہی نبی ’’پیغمبر محمد ‘‘ کو مانتے ہیں اور ان میں عقائد، مذہبی قوانین اور عبادات کے لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہیں ۔ ان باتوں کی تفصیلات سے جب انہیں آگاہ کیا تو ان کے سوالات کی شدت میں مزید اضافہ ہوا کہ پھر تقریبا ہر مسلم ملک اور معاشرے میں ان کے درمیان تناو کیوں ہے؟
ان کا سوال اس استدلال سے بھی مزین تھا کہ دنیا میں اس وقت بھی مختلف مذاہب رہتے ہیں اور ان کے داخلی اختلافات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن ان میں وہ قتل و غارت کا سلسلہ نہیں ہے جو مسلمانوں میں نظر آتا ہے.
اسلام کے بارے میں جاننے کے خواہش مند ان غیر مسلموں کے سامنے میری بے بسی دیکھنے کے لائق تھی۔ کرتا تو کیا کرتا وہی ملکوں کی خارجہ پالیسیوں، مقامی وعلاقائی سیاست، معاشی مفادات ، تعصبات، اور شناخت کے بحران کو ذمہ دار ٹھہرا کر امت مسلمہ کو لاکھوں مسلمانوں کے قتل سے بری الذمہ اور ان لوگوں سے اپنی جان چھڑانے کی کاوش نا تمام ہی کر سکتا تھا جو کیا۔ مختلف مذاہب سے وابستہ ان لوگوں میں سے اکثر ایسے تھے جن کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ اسلام کے بارے میں وہ کسی مسلمان سے کچھ جان سکیں۔
بہت کچھ کہنے کو ہے مگر اور بھی غم ہے زمانے میں محبت کے سوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید