اے گنبد خضراء!
تحریر: ایس ایم شاہ
ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمانان عالم پورے سال میں بالعموم اور ایام حج میں بالخصوص مدینہ منورہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں بہت ساری تاریخی مساجد اور مقامات کے علاوہ پیغمبر اکرم ؐ کے والد گرامی، آپ کی والدہ ماجدہ، ائمہ کرام، زوجات النبی اور اصحاب کرام کے مقابر بھی ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچتے ہی گنبد خضریٰ کو دیکھ کر دل کو چین اور ذہن کو سکون ملتا ہے۔ بہت ساری امیدیں دل میں لئے، اپنے کئے کی توبہ کرنے کی غرض سے غسل کرکے اجلے ملبوس میں اور خوشبو سے معطر ہوکر اپنے محبوب کی ضریح سے اپنے گناہ گار بدن کو مس کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ مسجد نبوی کی تعمیر بھی جدید طریقے سے بہت دلکش انداز بھی کی گئی ہے۔ صحن حرم میں ٹائلوں کی چمک سے ایسے لگتا ہے کہ گویا سورج یہاں سے طلوع کر رہا ہو۔ جاپانی انجر پنوں کے ذریعے لگائی گئی خوبصورت طرز کی چھتریوں کا طلوع آفتاب کے ساتھ ہی کھل جانا اور غروب آفتاب کے ساتھ سمیٹ جانا بھی بہت ہی دلکش ہے۔ حرم پاک کے چاروں طرف آپ کو حرم میں داخل ہونے کے لئے گیٹ ملیں گے۔ صاف ستھرے باتھ رومز بھی فراہم ہیں۔ اکثر حاجی ہوٹلوں سے ہی باوضو ہوکر جاتے ہیں۔ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری جگہوں پر دس ہزار نمازوں سے بہتر ہے، جبکہ مسجد الحرام میں پڑھی جانی والی نماز ایک لاکھ نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔(1)
نوے فیصد سے بھی زیادہ مسلمان آج بھی رسول اللہ کو ویسے ہی اپنے لئے شفیع سمجھتے ہیں، جیسے آپ اپنی حیات میں تھے۔ آپ کو مسجد نبوی کے اندرونی دروازے پر پہنچتے ہی ایک چمکدار اور خوبصورت دروازے پر باب جبریل لکھا دکھائی دے گا۔ ساتھ ہی ہر دروازے پر آپ کو کوئی پولیس یا سفید کپڑے پر سرخ دانے دار شال مخصوص انداز میں، ایک کالا عربی حلقہ بند سروں پر رکھے لمبے لمبے جبّے پہنے مولوی حضرات دکھائی دیں گے۔ جونہی آپ اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے اس در کا بوسہ لینے کی غرض سے آگے بڑھیں گے، تب یہی افراد آپ کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آئیں گے، ساتھ ہی یہ بھی کہیں گے کہ یہ بدعت ہے، شرک ہے، اس سے اجتناب کرو۔ جب آپ مسجد کے اندر داخل ہوجائیں گے تو رحمت عالم کی قبر اطہر کے سامنے پہنچ جائیں گے، آپ یہی حال وہاں بھی نظارہ کریں گے۔ ضریح مبارک کے کناروں اور وسط میں آپ انہی افراد کے ساتھ پھر روبرو ہوں گے۔ لوگوں کی قبر رسول تک رسائی کو روکنے کے لئے آپ ہر طرف گرل کا بھی مشاہدہ کریں گے، جو تقریباً ضریح کے ارد گرد اڑھائی فٹ تک کے فاصلے پر لگی ہوئی ہے۔ آپ جب رسول کی وساطت سے دعا کے لئے ہاتھ بلند کریں گے تو وہ آپ کو اشارہ کریں گے کہ دعا صرف خدا سے مانگو! رسول کی وساطت سے مانگنا شرک ہے۔*
جب آپ اپنی عقیدت سے ضریح کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کریں گے تو وہ آپ کے ساتھ سختی سے نمٹنا شروع کر دیں گے کہ یہ کام مت کرو، یہ بھی شرک اور بدعت ہے، اس وقت مجھ جیسے ایک عام مسلمان کے دل پر یہ بات گزرتی ہے کہ ہم روزانہ دسیوں بار اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں، مشرک نہیں ہوتے، بزرگوں کا ہاتھ چومتے ہیں، مشرک نہیں بنتے، اپنے عزیزوں سے دعا کی التماس کرتے ہیں، دین سے خارج نہیں ہو جاتے، خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والوں کو قرآن بھی زندہ قرار دیتا ہے۔ “اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں، قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔”(2) تو کیا میرا رسول ہماری ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہو جانے کے بعد ایک عام شہید سے بھی کمتر ہو جاتا ہے کہ اسے ہم نعوذ باللہ مردہ کہہ دیں۔ خود قرآن کہتا ہے کہ “اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لئے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔”(3)*
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں میں خواب میں تو اس منظر کا مشاہدہ نہیں کر رہا۔ نہ آپ کو دعا مانگنے دیں گے۔ اگر عشق رسولؐ میں آپ آنسو بہانا شروع کریں تو وہ دوبارہ آپ پر برس پڑیں گے، دوبارہ شرک کے نعرے بلند کریں گے۔ نہ آپ کو جی بھر کے رونا نصیب ہوگا، نہ وصال کے لمحوں میں اپنے محبوب سے لو لگانے کی مہلت دیں گے۔ آپ اگر ان سے معمولی بحث کرنے لگ جائیں تو جونہی وہ لاجواب ہوجائیں گے، فوراً پولیس بلاکر آپ کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ یہ میں کسی کی دشمنی میں، کسی خاص مکتب فکر کی کتاب سے نقل نہیں کر رہا، بلکہ اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہوں، جس کے لاکھوں مسلمان گواہ ہیں۔ آپ اس وقت سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ بالفرض آج یہ پاکیزہ مسجد کسی غیر مسلم ملک میں بھی ہوتی، تب بھی ہمارے ساتھ ایسی سختی نہ بھرتی جاتی، جو آج کل آل سعود کے کارندے اور وہابی مکتب فکر کے تنگ نظر مولوی ہمارے ساتھ برت رہے ہیں۔ ضریح کے سامنے “ریاض الجنّہ” بھی ہے۔ یہ
درحقیقت وہی محراب عبادت ہے، جہاں حضور نماز کی امامت کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کو درس دیا کرتےتھے۔ اسی جگہ نماز پڑھنے کی اسلامی روایات میں کافی تاکید ہوئی ہے۔ یہاں ہمیشہ نمازیوں کا رش رہتا ہے۔*
گنبد خضری سے چند قدم کے فاصلے پر ہی ” بقیع قبرستان ” ہے ۔ جب آپ باب جبریل سے باہر نکلیں گے تو سامنے ہی بقیع قبرستان دکھائی دے گی۔ مسجد نبوی اور بقیع کے درمیان ایک چھوٹی سی سڑک ہے۔ بقیع ہی وہ پہلی قبرستان ہے جسے صدر اسلام میں پیغمبر اکرم(ص) کے حکم پر مدینہ منورہ میں بنائی گئی۔ یہاں ازواج مطہرات، اصحاب کرام، پیغمبر اکرمؐ کے چچا جناب عباس، حضرت فاطمہ بنت اسد والدہ ماجدہ حضرت علیؑ، حضرت عباسؑ کی مادر گرامی حضرت ام البنین اور چار ائمہ؛ امام حسن مجتبیؑ، امام زین العابدینؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق ؑاور بعض تواریخ کے مطابق حضرت عثمان بن عفان بھی یہاں مدفون ہیں۔مدینے کی طرف ہجرت کے بعد بقیع مسلمانوں کی واحد قبرستان تھی۔ مدینے کے لوگ اسلام سے پہلے اپنے مُردوں کو “بنی حرام “اور” بنی سالم”میں اور کبھی اپنے گھروں میں ہی دفناتے تھے۔ سب سے پہلی شخصیت جو رسول مقبولؐ کے حکم سے یہاں دفن ہوئیں وہ عثمان بن مظنون ؓہیں۔ جو حضرت رسول خدا اور حضرت علیؑ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔
حاکم وقت آل سعود کے حکم پر 8 شوال1344ہجری کو یہاں موجود تمام تاریخی نقوش کو مسمار کیا گیا۔یہ دن اب بھی “یوم الھدم” یعنی ویرانی کا دن کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر پوری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ اگر دنیا کے کونے کونے سے مسلمان صدائے احتجاج بلند نہ کرتے تو وہ گنبد خضری اور ضریح مقدس کو بھی نہ چھوڑتے۔ اس دل چیرنے والے واقعے میں رحمت عالم کی والد گرامی حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب، آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ، آپ کے چچا حضرت عباس ، شیعوں کے چار ائمہ اورحضرت امام صادقؑ کے فرزند جناب اسماعیل جن کے پیروکاروں کو آج بھی اسماعیلیہ کہا جاتا ہے کی قبروں پر بنائی گئی عمارت کو بھی ملیامیٹ کردیا گیا۔ رسول کی بیٹی حضرت فاطمہؑ مصداق کوثر ہیں، جسے رسول اللہ ؐ اپنی امت کے پاس امانت چھوڑ کرگئے،جس کے بارے میں رسول مقبول ؐ کی معتبر روایات کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، خدا اس پر راضی ہے جس پر فاطمہ راضی ہو اور خدا اس سے ناراض ہے جس سے فاطمہ ناراض ہو۔ ان کی قبر اطہر تو پہلے سے ہی نامشخص رہی جو اب چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی اپنی مظلومیت کا منظر پیش کر رہی ہے۔شیعہ سنی متفقہ روایات سے واضح ہے کہ رسولؐ کی یہ لاڈلی بیٹی دنیا سے جاتے وقت مسلمانوں سے ناراض ہوکر چلی گئیں۔ یعنی دنیا میں بھی آپ مظلومہ رہیں اور شہادت کے بعد آج بھی آپ مظلومہ ہیں۔ اسی کیفیت کو شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے یوں قلمبند کیا ہے:
اس بات کی گواہ ہے تُربت بتولؑ کی
ناراض کلمہ گو سے ہے بیٹی رسولؐ کی
اقبالؔ جس سے راضی نہیں بنت ِمصطفی ؐ
اس کلمہ گو نے ساری عبادت فضول کی
بعض تواریخ کے مطابق سیدہ طاہرہ کی قبر اقدس بھی اسی قبرستان میں ہے۔اس قبرستان کا گیٹ صرف دو گھنٹے کے لیے صبح سات سے نو بجے تک کھلتا ہے۔ اس وقت حاجیوں کاجم غفیر وہاں دکھائی دیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہاں ہر باعظمت ہستی کی قبر کے سامنے کسی شخص کو بٹھایا جاتا جو حاجیوں کو صاحب قبر کا تعارف کرے لیکن وہاں کی حالت تو ناقابل شنید ہے۔ جونہی آپ گیٹ کراس کرکے اندر کی طرف جائیں گے تو آپ کو وہاں مختلف زبانوں کے ماہر دکھائیں گے۔آپ ان سے جس کے بارے میں بھی سوال کریں گے ان سب کا ایک ہی جواب ہوگا” ھنا عشرۃ آلاف اصحاب” یہاں دس ہزار صحابی رسول مدفون ہیں ۔ ان کے بارے میں ہمیں کوئی خبر نہیں۔ ہر حاجی حیرت کی نگاہ سے ان کی طرف دیکھتا رہ جاتاہے۔ آپ کو شرک و بدعت کی بوچھاڑ یہاں بھی دکھائی دیں گے۔رونے والا بھی مشرک، زیارت نامہ پڑھنے والا بھی مشرک، دعا مانگنے والا بھی مشرک، قبروں پر فاتحہ پڑھنے والا بھی مشرک، وہاں آیات قرآنی کی تلاوت کرنے والا بھی مشرک۔ غرض آپ کو ہر طرف مشرک ہی مشرک دکھائی دیں گے۔ آپ کے ہاتھ میں کتاب ہو تو وہ بھی چھین لیں گے۔ رونے لگیں تو سیاہ پوست پولیس اور مولوی حضرات آپ کی طرف بڑھیں گے اور دھکے دینا شروع کریں گے۔ پورے مدینے میں آپ جہاں بھی جائیں کسی جگہ آپ کو تعارف کرنے والا نہیں ملے گا۔ نہ وہ کسی مسجد کا تعارف کریں گے اور نہ ہی کسی تاریخی مقامات کا۔ شیعوں کے چار ائمہ اور پیغمبر اکرمؐ کے چچا کے تو قبروں کے پاس بھی جانے نہیں دیتے۔ ہر حاجی پندرہ بیس میٹر کے فاصلے سے اپنا ہدیہ سلام بھیج رہے ہوتے ہیں۔یہی واقعہ روزانہ تکرار ہوتا رہتا ہے۔ خصوصا ایام حج میں اس میں مزید شدت آجاتی ہے۔ آل سعود کے خوف سے نہ کوئی لکھاری ان پر قلم فرسائی کرتا ہے اور نہ ہی اسے میڈیا کوریج دیا جاتا ہے۔اگر یہی صورتحال جاری رہی تو مسلمانوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ صحافی حضرات سے میری گزارش ہے کہ تمام مسلمانوں کے اس درد دل کو پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اجاگر کریں تاکہ نام نہاد خادمین حرمین شریفین اپنے ان پست حرکات کو بدلنے پر مجبور ہوجائے اور تمام
مسلمان اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دل کھول ان مقامات مقدسات سےاپنی عقیدت کا اظہار کرسکیں۔یہ درحقیقت میں نے اپنے مشاہدات پر مشتمل حج کا سفر نامہ پیش کیا ہے۔آج بھی جب میں تصورات کی دنیا میں مدینہ منورہ کی سیر کرتا ہوں تب یہ سارے دردناک مناظر میرے وجود کو چیرنے لگتے ہیں اور میرا وجود زخموں سے چور چور ہوجاتا ہے، یوں میں تنہائی کے عالم میں خون کے آنسو روتا رہتا ہوں ۔
حوالہ جات:
1۔ www.ibrahimamini.com
2۔ نساء/64
3۔ آل عمران/169
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید