تازہ ترین

ہمیں یقین ہے کہ ہمیں مکمل آئینی صوبے کا درجہ دیاجائے گا، حاجی فداناشاد

اسلام آباد(محمداسحاق جلال)سپیکرقانون سازاسمبلی حاجی فداناشاد نے ان خبروں اورافواہوں کی سختی سے تردیدکی ہے جن میں کہاجارہا ہے کہ سکردوروڈ کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی ہے اور روڈکاحلیہ بگاڑدیاگیا ہے۔ انہوں نے کے پی این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سکردوروڈکے ڈیزائن میں کوئی تبدئلی نہیں کی جارہی بلکہ یہ شاہراہ قراقرم کے طرز پربنایاجارہا ہے،نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے چیئرمین نے یقین دلایا ہے کہ روڈکا ڈیزائن تبدیل نہیں کیاجارہا بلکہ اس کی تعمیر شاہراہ قراقرم کے طرزپرہوگی اس لئے ہمیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔این ایچ اے کے چیئرمین کی یقین دہانی کے بعد ہمیں سوفیصد یقین ہے کہ روڈکے ڈیزائن میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

شئیر
50 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1474

انہوں نے کہا کہ روڈکی لاگت سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ روڈکی تعمیر کے لئے پیسے ہم نہیں دے رہے۔ ہمیں روڈکی تعمیر سے غرض ہے ہم کوشش کررہے ہیں کہ روڈبہترین طریقے سے تعمیر ہو۔انہوں نے کہا کہ آئینی حیثیت کے بارے میں توسوفیصد مطمئن ہوں کیونکہ آئینی کمیٹی کے سربراہ مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ گلگت بلتستان کواعلیٰ ایوانوں میں بھرپور نمائندگی دی جارہی ہے اورفاقی حکومت گلگت بلتستان کے عوام کی تواقعات کے مطابق آئینی سیٹ اپ دے گی۔ جب سرتاج عزیز نے یقین دہانی کروائی ہے تو ہمیں مزیدپریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں مکمل آئینی صوبے کا درجہ دیاجائے گا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل تک علاقے کوعبوری آئینی صوبے کا درجہ مل جائے گا۔ ہم آئینی حیثیت کامطالبہ کرنے کاحق اس لئے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ جب1947ء میں پاکستان بناتو ہمارے لوگوں نے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کوخط لکھا اور کہا کہ ہم پاکستان میں شامل ہوناچاہتے ہیں۔ قائداعظم نے ہمارے لوگوں کی جانب سے بھیجاگیا خط منظور کرکے سردارعالم خان کو بھیجاتاہم قائداعظم کوبیماری نے مزیدمہلت نہ دی۔اگرقائداعظم محمد علی جناح زندہ ہوتے تو اب تک گلگت بلتستان پاکستان میں شامل ہوچکا ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ہمارآزادکشمیر کے ساتھ کوئی روابط نہیں۔یہاں1840ء تک مقامی راجائوں کی حکومت رہی اس کے بعد1840ء سے1947ء تک ڈوگروں نے حکومت کی۔1947ء میں ہمارے آباواجداد نے ڈوگروں کو اپنی طاقت کے ذریعے بھگایا اور خطے کوآزادکرایا۔انہوں نے کہا کہ ہماری دونسلیں آئینی حقوق کامطالبہ کرتے ہوئے ختم ہوگئیں ۔پہلی مرتبہ اسمبلی نے آئینی صوبے کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔بعدمیں 23سے زائدسیاسی،مذہبی جماعتوں نے اسمبلی کی قراردادوں کی توثیق کی اورخطے کومکمل آئینی صوبہ بنانے کامطالبہ کیا۔ اسمبلی کی قراردادوں اورآل پارٹیزکے اعلامیے کے بعد آئینی حیثیت کاتعین نہ کرنے کاکوئی جوازنہیں ہے ملک میں28وزرائے اعظم گزرگئے مگر کسی وزیراعظم کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتے مگر وزیراعظم نوازشریف نے تاریخ میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے سینئرسیاستدان اورقانون دان سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی بنائی اور آئینی صوبہ بنانے کے لئے سفارشات تیار کرلی گئیں۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کوآئینی صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔1962ء میں سابق صدر ایوب خان نے5ہزارمربع کلومیٹر کاعلاقہ چین کے حوالے کیا۔5ہزار مربع کلومیٹر کاعلاقہ چین کے حوالے کیے جانے کے باوجود مسئلہ کشمیر کونقصان نہیں پہنچا ہے تو اب اس خطے کومراعات اوراختیارات دینے سے مسئلہ کشمیر کیسے متاثرہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کوآئینی صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ پاکستان کاموقف مضبوط ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پندہ اورنرغوڑوکے عوام کو دریا کوعبور کرنے کے لئے ڈبل گراری کی سہولت فراہم کی جائے گی اور عوام کی مشکلات دورہوجائیںگے۔ دونوں پلوں کی دوبارہ تعمیر کے لئے تخمینہ لگایاجارہا ہے انشاء اللہ جلد نئے پل تعمیر ہوں گے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *