تازہ ترین

فدک اور تاریخی تجزیہ


تحریر: محمد کاظم یزدانی
٭مسئلہ فدک کا تاریخی لحاظ سے تجزیہ
٭آئینہ بحث:
آیا مسئلہ فدک صرف ایک تاریخی واقعہ ہے جو قرنوں سے اب تک دانشمندوں کے ذہن کو الجھائے ہوئے ہے؟
آیا بحث و جستجو فقد اس بات پر منحصر ہے کہ ایک مسلمان سے اس کی ملکیت اور مالکیت کو ناحق سلب کر لیا گیا ہے؟
عقل و خرد، فکو و تفکر کی بلندی و بالندگی اور سرشت انسان کی حق جو آواز ہم کو اس بات کی رغبت دلاتی ہےکہ تاریخی واقعات کو ہر قسم کے تعصب اور پیش داوری سے پرہیز کرتے ہوئے عدل و انصاف کی کسوٹی پر کسا جائے، منصف مزاجی سے کام لیا جائے، عدل و انصاف کہ جو بھی بعینہ حق، صاحب حق کو عطا کرنا ہے، اس کی مراعات کی جائے اور اپنے کو اس کا مطیع قرار دیا جائے۔
اس مقالہ میں مسئلہ فدک کو اہل سنت و اہل تشیع کے معتبر کتب اور تاریخ کے مستند کتابوں کی روشنی میں تاریخی لحاظ سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

شئیر
40 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1476

٭وجہ تسمیہ اور محل وقوع
انسان جب کسی جگہ کو دیکھتا ہے یا اس کے متعلق کسی کتاب میں پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ یہ جگہ کس نام سے موسوم ہے اور کیوں ہے؟ اسی لئے اس مقالے میں سب سے پہلے فدک کی وجہ تسمیہ اور اسکا محل وقوع پیش کیا گیا ہے،
فدک کو فدک اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سر زمین کو فدک بن حام نے آباد کیا تھا۔
قال الزجاجی: سمیت بفدک بن حام و کان اول من نزلھا (۱)
چونکہ سب سے پہلے فدک بن حام اس جگہ آکر ٹھرا اور اس نے اس جگہ کو آباد کیا اس لئے اس کا نام فدک پڑگیا۔
فدک خیبر کے نزدیک ایک خوبصورت بستی جو آب و ہوا کے اعتبار سے سر سبز و شاداب اور قابل دید تھی، اس کی زمین زرخیز تھی، پہاڑون کا سینہ چیر کر پھوٹنے والے چشموں نے اسے کچھ زیادہ ہی حیات بخش بنا دیا تھا، جھرنوں نے پیدا ہونے والی آوازیں کسی خاص راز کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ اسی وجہ سے فدک کی سرسبز و شادابی پورے علاقے میں مشہور تھی،مدینہ سے اسکا فاصلہ ۱۴۰ کلو میٹر تھا اور خیبر سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع تھا، اس وقت یہ حجاز کے علاقوں میں یہودیوں کا مرکز شمار ہوتا تھا۔
فدک قریۃ بالحجاز بینھا و بین مدینۃ یومان و قیل ثلا ثۃ و فیھا عین فوارۃ و نخل کثیرۃ و ھی التی قالت فاطمہ ان رسول اللہ نحلنیھا فقال ابو بکر: ارید بذالک شھودا۔ (۲)
اس عربی متن کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ فدک حجاز میں ایک بستی تھی جو مدینہ سے دو یا تین روز کی مسافت پر واقع تھی،اس میں چشموں کی روانی اور کھجوروں کی فراوانی تھی۔یہ وہی فدک ہے جس کے متعلق جناب فاطمہ زہرا (س) نے ابو بکر سے فرمایا تھا کہ یہ فدک میرے باب کی خاص ملکیت ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں عطا کر دیا تھا اور اس پر ابو بکر نے شہزادی سے گواہ طلب کئے تھے۔
فدک کے حدود
عن ابی الحسن ؑ فی حدیث قال ان اللہ لما فتح علی نبیہ فدک وما والاھالم یوجف علیھا بخیل بخیج ولا رکاب فانزل اللہ علی نبیّہ (وآت زاالقربیٰ حقہ) فلم یدر رسول اللہ ﷺ من ھم؟ فراجع فی ذالک جبرئیل وراجع جبرئیلُ ربہ فاوحی اللہ ان ادفعع فدک الی فاطمہ الی ان قال حدھا علی حد منھا جبل احد وحد منھا عریش مصر وحد منھا سیف البحر وحدہ منھا دومۃ الجندل قیل لہ کل ھذا؟ قال نعم ان ھذا کلہ مما لم یوجف اھلہ علی رسول اللہ ولا رکاب (۳)
مذکورہ حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے اپنے حبیب رسول اللہ ﷺ کو فدک پر فتحیابی عطا کرنے کے بعد حکم دیا کی اس کو اپنے قرابتداروں کو دیدو رسول خدا ﷺ نے دریافت کیا کہ قربتدار کون ہیں؟
حکم ہوا کہ فدک فاطمہؑ کو دیدیا جائے، لہذا رسول نے فدک فاطمہؑ کو عطا کر دیاجس کی حدود اربعہ اس طرح ہیں کہ اس کی ایک حد جبل احد، دوسری حد عریش مصر اور اس کی تیسری و چوتھی حد سیف البحراور دومتہ الجندل ہے، اور یہ سب وہ علاقہ ہے جس پر نہ گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ جنگ و جدال ہوئی۔
٭فدک کی اہمیت:
مالی و اقتصادی اعتبار سے مسلمانوں کے نزدیک فدک کی قدروقیمت و منزلت اس کی درآمد اور اس فدک کی زریعہ لشکر کے اخراجات کو پورا کرنے سے ہوتا ہے۔
فدک کی آمدنی:
باغ فدک کی سالانہ در آمد ۲۴ دینار، اور ایک دوسری روایت کے مطابق ستر دینار تھی۔ (۴)
جناب فاطمہ فدک کی تمام درآمد راہ خدا میں خرچ کر دیا کرتیں اور بنی ہاشم کے فقراء کو دیدیا کرتی تھیں۔
قطب راوندی لکھتے ہیں: پیغمبر اسلام ﷺ نے سرزمین فدک کو سالانہ مبلغ ۲۴۰۰۰ دینار میں اجارہ پر دیا۔ ابو داود کہتے ہیں جس وقت عمر ابن عبد العزیز خلیفہ ہوا تو اس وقت اسکی درآمد ۴۰۰۰۰ دینار تھی۔
قال ابوداؤ دولی عمر ابن عبد العزیز الخلیففہ و غلتہ اربعون الف دینار (۵)
فقو مو ا ارض فدک و نخلھافا خذھا عمرو دفع الیھم قیمۃ النصف الذی لھم وکان مبلغ ذالک خمسین الف درھم (۶)
عمر ابن عبد العزیز نے جب فدک اپنے قبضہ میں لیا اور یہودیوں سے آدھے حصے کی قیمت کا حساب و کتاب کیا گیا تو ان کے آدھے حصے کی قیمت ۵۰۰۰۰ درھم ہوئی۔
اگر کوئی یہ کہے کہ فدک کی درآمد میں مختلف اقوال ہونے کی وجہ سے آمدنی کی صحیح مقدار تاریخ سے واضح نہیں ہے اور ہم مطمئن بور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس کی درآمد کتنی تھی؟
اس بات کا یہ مختصر جواب کافی ہے کہ اسکی مختلف درآمد مختلف زمانوں میں تھی نہ کہ کسی ایک زمانے میں، اور اس طرح کے بہت سے موارد ہیں یہاں تک کہ ہمارے زمانے بھی آئے دن چیزوں کی قیمتیں گھٹتی، بڑھتی رہتی ہیں لیذا مذکورہ اعتراض بلکل بے سود ہے۔
بلکہ متلفت اقوال کی جمع بندی کا ایک فایدہ یہ ہے کہ قارئین فدک کی درآمد کا تخمینہ لگا کر اسکی اہمیت کے قائل ہوں اور یہ کہنے سے پرہیز کریں کہ فدک مالیت کے اعتبار سے معمولی حثییت رکھتا تھا اور جناب فاطمہ(س) نے اس مختصر سے مال پر اتنی پافشاری کیوں کی؟
اولا: تو یہ کہ حق ، حق ہے خواہ اس کی مالیت کے اعتبار سے ارزش کم ہو یا زیادہ صاحب حق شرعی و قانونی لحاظ سے اس کے مطالبہ کا پورا پورا حق حاصل ہے، لہذا یہ کہنا معنی ہی نہیں رکھتا کہ فدک مالی اور اقتصادی اعتبار سے معمولی حیثیت رکھتا تھا، جب کہ ثبوت اس کے بلکل بر خلاف ہیں کیونکہ لشکر کے تمام اخراجات اس کی در آمد پر منحصر تھے! اگر اسکی معمولی حیثیت ہوتی تو غاصبان حکومت کبھی بھی اس بات پر تیار نہ ہوتے کہ فدک کو اپنے قبضے میں لے کر دختر رسول ﷺ کی ناراضگی مول لیں۔
ثانیا: جناب فاطمہ (س) کا مطالبہ اس لئے نہیں تھا کہ آپ مال و دولت حاصل کر لینا چاہتی تھیں بلکہ اس مطالبہ میں ایک بہت گہرا راز یہ پوشیدہ تھا کہ بعد رسول ﷺ امام علی ؑ کی مظلومیت اور غصب خلافت پر خاموشی آپ سے دیکھی نہ گئی لہذا حضرت علیؑ کی اجازت سے فدک کے سلسلہ مہیں قرآن کے زریعہ استدلال کر کے آپ نے اسلامی سیاست کا وہ کارنامہ انجام دیا جس سے خلافت کہ مشینری کا کھیل ختم ہو گیا اور عام لوگوں پر بھی یہ بات آشکارہوگئی کہ موجودہ خلافت، قرآن اور سیرت رسول اکرم ﷺ سے منسلک نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپ نے مسجد میں خطبہ دیا تو مدینہ اور دوسری جگہوں پر ہلچل مچ گئی، لوگ خلیفہ وقت اور اس کے کارندوں کو برا بھلا کہنے لگے۔
فدک کے ذریعہ لشکر کے اخراجات کی تامین
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ لشکر کے اخراجات کم نہیں ہوتے، فدک کی درآمد سے اس کے اخراجات پورا کرنا فدک کی مالی اہمیت کو واضح کرتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ عمر ابن خطاب، اس وقت ابوبکر کر برس پڑے جس وقت انہوں نے جناب فاطمہ (س) کو فدک واپس دینے کے لئے دستاویز لکھ دی تھی اور گھبرائے ہوئے حالت میں کہا: اگر تم فدک فاطمہ کو واپس کر دیتے تو پھر لشکر اور فوج کی اخراجات کہاں سے پورا کروگے؟
فقال مماذا تنفق علی المسلین ا قد حاربتک العرب کما تری ثم اخذ عمر الکتاب فشقہ (۷)
عمر بن خطاب حضرت ابوبکر پر غصہ ہوئے اور کہا کہ اگر فدک فاطمہ (س) کو واپس کر دیتے تو فوج اور دشمن کی دفاع پر کہاں سے خرچ کروگے جبکہ پورا عرب ان سے برسرپیکار ہے؟
ظاہرا یہاں پر لفظ عرب کنایہ کے طور پر استعمال کیا ہے درحقیقت اس سے مراد حضرت علیؑ اور ان کے پیروکار ہیں۔
بالآخر عمر بن خطاب نے، جناب فاطمہ زہرا (س) سے وہ دستاویز جو بابت فدک تحریر کی گئی تھی، لے کر پھاڑ ڈالی، تاریخی نقطہ نظر سے یہ بھی ثابت ہے کہ فدک کی درآمد کوئی معمولی درآمد نہیں تھی بلکہ پورے عرب سے ٹکر لینے کے لئے اسکی درآمد پر انحصار کیا جا رہا تھا اور فقط اتنا ہی نہیں تھا کہ اس درآمد سے گھر کے چند افراد باعزت اور خوشحال طریقہ سے زندگی گزار سکے بلکہ اسکی درآمد اکثر بے سہاروں کا سہارا تھی۔
ارباب حکومت جانتے تھے کہ اگر فدک فاطمہ(س) کے قبضے میں رہا اور وہ اس کو اپنے چاہنے والوں پر خرچ کرتی رہیں تو موجودہ حوکومت کے مخالفین کی طاقت روزبروز بڑھتی رہے گی اور موقع پاکر حکومت سے ٹکر لینے پر تل جائیں گے۔
فدک رسول خداﷺ کی خالص ملکیت:
قرآن مجید میں خداوند متعال کے فصیح و بلیغ کلام کے ذریعے واضح ہے کہ فدک رسول خدا ﷺ کی خاص الخاص ملکیت ہے۔ دیگر مسلمانوں کا حق قرار دے دیں تو اس آیۃ کریمہ کی سراسر مخالفت ہو جائے گی۔ قرآن مجید پارہ نمبر ۲۸ سورہ حشر میں اللہ فرماتا ہے ـ
وما افاءاللہُ علی رسولہ فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسولہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر
ترجمعہ: اشرف علی تھانوی : اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے دلوایا سو تم نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ لیکن اللہ تعالی ( کی عادت ہے) کہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے ( خاص طور پر) مسلط فرما دیتا ہے اور اللہ تعالی کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے۔
قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیہ مبارکہ کی روح سے فدک اور دیگر اموال فئے اللہ نے اپنی قدرت سے اپنے رسول کو دلوائے تھے اور مسلمانوں کو فرما دیا کہ : تم اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ، تاکہ فدک اور دیگر اموال فئے کو عوام کا مال نہ سمجھا جائے اور مسلمان عوام فدک وغیرہ پر اپنا حق جتلانے سے باز رہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ فدک رسول خدا کا ذاتی مملوک تھا۔ اس امر کا مذید ثبوت حسب ذیل کتب اہل سنت و الجماعت میں ذکر ہیں۔
۱۔ صحیح بخاری، کتاب المغازی باب:الخمس اور باب المیراث
۲۔ سیرت ابن ہشام: مطبوعہ مصطفیٰ البابی الحلبی و اولادہ مصر سنہ ۱۳۵۵ جز الثالث ص: ۳۶۸
۳۔ وفاءالوفا باخبار دار المصطفے علامہ نور الدین سمہودی شافعی مطبوعہ مصر ص:۱۵۹ آخری سطر اور ص:۳۵۵ سطر تا ۷۔
۴: فتوع البلدان علامہ بلاذری مطبوعہ لیڈن فرانس رمع فرانسیسی ترجمعہ باب ۵ ، ص۲۹ اور ۳۰
۵: تاریخ طبری مطبوعہ مصر الجزء الثالث ص۹۵۔
۶۔ تاریخ کامل ابن اثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ۸۵ سطر ۳۔
٭ہبہ نامہ فدک:
اگر باب فدک رسول کا ذاتی مال نہ ہوتا اور عوام کا مال ہوتا ہو حضرت رسول خدا فدک حضرت زہراؑ کو ہرگز ہبہ نہ فرماتے لیکن معصوم رسول نے حضرت فاطمہ کو فدک ہبہ فرما دیا تھا اور وثیقہ ہبہ سیدہ فاطمہ ؑ کو دے دیا تھا لہذا ثابت ہوا کہ فدک رسول کا مملوکہ ذاتی تھا۔ ہبہ اور وثیقہ ہبہ کا ثبوت حسب ذیل اہل سنت و الجماعت میں موجود ہیں۔
۱۔ تفسیر در منثور امام جلال الدین سیوطی مطبوعہ مصر، تفسیر سورہ بنی اسرائیل آیہ مبارکہ (و آتی ذالقربہ حقہ) کی تفسیر میں باسناد صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری
۲۔ ثواعق محرقہ امام ابن حجر مکیّ مطبوعہ مصر باب ۱۵، ص۲۱ تا ۲۲
۳۔ شرح مواقف مطبوعہ نولکشور ص۷۳۵
۴: فتاوی عزیزی مطبوعہ مجتبائی دہلی ص۱۴۳
۵۔ روضہ الصفاء مطبوعہ بمبیٔ جلد۲،ص۱۳۵ سطر ۱۹ تا ۲۲
حضرت فاطمہ ؑ فدک پر اپنا حق ثابت کرنے کیئے رسول کا دیا ہوا وثیقہ ہبہ دیکھایا تھا اور حضرت علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ، حضرت ام کلثوم بنت علیؑ اور حضرت ام ایمن نے یہ شہادت دی کہ واقیعی ہبہ کا یہ وثیقہ رسول نے دیا تھا اور باغ فدک ہبہ کیا تھا۔ لیکن ان ہستیوں کی شہادت اور وثیقہ رسول کو رد کر دیا گیا۔
دیکھئے: وفاءالوفاء سمہودی شافعی مطبوعہ مصر الجزء الثانی ب ۶، ص۱۶۱ اور دیگر کتب مندرجہ بالا۔
جس وقت وہالی فدک نے یہ سنا کہ خیبر فتح ہو چکا ہے اور اہل اسلام کا روخ ہماری طرف ہے تو ان لوگوں نے خوف کی وفہ سے مصالحت کر لی۔ لہذا فدک رسول ﷺ کی خالص ملکیت ہوئی چونکہ اس میں مسلمانوں نے گھوڑے نہیں دوڑائے یعنی جنگ نہیں کی، اور مسلمان متفق ہیں کہ ایسے ہی مال کو فئے سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن بعض نے فدک نہ دینے سے متعلق یہ بہانہ تراشی کی کہ مال فئے مال مسلمین ہیں لہذا جناب فاطمہ زہرا ؑ کی تنہا ملکیت نہیں ہیں۔
تفسیر کشاف میں آیت (وما افاءاللہُ علی رسولہ فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسولہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر) کی تفسیر میں بھی اس طرح لکھا ہے: جعل لہ فیئا خالصۃ یعنی فدک رسول ﷺ کی خاص ملکیت ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس بات کو مولوی شبلی تک نے قبول کر کیا کہ فدک جناب رسول اسلام ﷺ کی خالص اور نجی ملکیت ہے۔ چونکہ حضرت عمر کی بات کو ٹالنا ان کے بس کی بات نہ تھی لہذا وہ اپنی کتاب (الفاروق) میں تحریر کرتے ہیں:
عراق اور شام کی فتح کے وقت حضرت عمر ابن الخطاب نے تقریر کی اور اس میں قرآن کی اس آیت ( ما افاءاللہ علی رسولہ من اہل القری فللّٰلہ۔۔۔۔) سے استدلال کر کے یہ واضح کر دیا کہ مفتوحہ جگہیں کسی کی خاص ملکیت نہیں بلکہ یہ مقامات ایک عام وقف کی حیثیت رکھتے ہیں، البتہ یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلی والی آیت جو ہے اس سے فدک وغیرہ آنحضرت ﷺ کی خاص ملکیت ہونا ثابت ہوتا ہے اور خود حضرت عمر اس کی یہی معنی قرار دیتے تھے۔
آیت یہ ہے:
وما افاءاللہُ علی رسولہ فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسولہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر
حضرت عمر نے اس آیت کو پڑھ کر کہا تھا۔
فکانت خالصۃ لرسول اللہ
یعنی فدک صرف رسول اللہ ﷺ سے مخصوص تھا۔ (۸)
اس واقعہ کو صحیح بخاری کے باب الخمس: المغازی، باب المیراث میں مفصل تحریر کیا ہے۔
٭اعطائے فدک:
شیعوں کا یہ دعوی کس حد تک صحیح ہے کہ فدک بطور ہبہ فاطمہؑ کی ملکیت ہے اور اس پر کیا ثبوت ہیں؟
اس سے پہلے کہ ہم اس گفتگو آگے بڑھائیں کہ یہ تحریر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کی رسول کی بیٹی نے فدک کا مطالبہ ہمیشہ ہبہ کے طور پر ہی کیا ہے۔ اس لئے جہاں پر انہوں نے میراث کا مطالبہ کیا ہے تو وہ دوسری جاگیروں سے متعلق ہے۔ جو رسول اسلام ﷺ بطور ارث ان کے لئے چھوڑ گئے تھے، یا پھر استدلالی طور پر اس وقت میراث کی مطالبہ کیا ہے جب آنحضرت ﷺ کے ہبہ نامہ کو ٹھکرا دیا گیا۔
حق فاطمہؑ تین طریقوں سے ثابت
رسول اسلام ﷺ کے بعد مجموعی طور پر تین طریقوں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ فدک فاطمہ کی ملکیت ہے۔ ان تینوں طریقوں کو نقل کرنے اور ان کے ذریعہ فدک ، فاطمہ ؑ کی ملکیت ثابت کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جب ہم پہلے طریقے سے ثابت نہیں کر پائے تو دوسرا طریقہ اپنا لیا بلکہ ان طریقوں کے تحریر و ترسیم کا مقصد یہ ہے کہ ایک ہی نہیں بلکہ تین تین طریقوں سے دعوائے فدک ہوسکتا تھا اور کسی بھی ایک طریقہ سے فدک کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملکیت فاطمہؑ ہے۔
۱۔ ہدیہ و عطیہ پیغمبر اسلام ﷺ
رسول اسلام ﷺ نے فدک جناب فاطمہ زہراؑ کو ہبہ کیا تھا۔ قرآن و سنت سے یہ بات واضح ہے کہ فدک رسول اللہ ﷺ کی خالص ملیکیت تھی اور آپ نے اسے آیت ( وآت ذالقربیٰ حقہ) کے نزول پر فاطمہ زہرا کو عطا کر دیا تھا۔ لہذا طبیعی طور پپ فدک آپ کا حق تھا بطور مثال چند حوالے ملاحظ کریں۔
مثلا: حبی سنی نے تحریر کیا ہے کہ جب فدک چھین لیا گیا تو دختر رسول ﷺ ابو بکر کے پاس گئی اور فرمایا: انّ فدک نحلۃ ابی اعطانیھا حال حیاتہ
فدک میرے باپ کا عطیہ ہے جسے انھوں نے اپنی زندگی میں میرے حوالے کر دیا تھا۔
ابوبکر نے اس حقیقت سے انکار کیا اور گواہ طلب کر ڈالے۔ جناب جؤفاطمہ ؑ نے جس وقت یہ دیکھا کہ خلیفہ مجھ سے آئین اسلام کے بر خلاف گواہ طلب کر دیا ہے تو حضرت علیؑ کو ابو بکر کے پاس لے گئیں جب کے سامنے رسول اسلام ﷺ نے ہبہ نامہ تحریر کیا تھا حضرت امام علیؑ نے گواہی دی کہ فاطمہ زہراؑ صحیح کہتی ہیں کہ یہ ہبہ نامہ خود رسول خدا ﷺ نے تحریر کیا ہے۔ ابوبکر نے کہا: الرجل و امراۃ تستحْینھا ؟
کیا فدک واپس لینے کے لئے صرف ایک مرد اور ایک عورت کو گواہی قابل قبول ہے؟
اسی طرح دوسری جگہ پر نقل ہوا ہے کہ ابوبکر نے کہا: اپنی اس بات کو ثابت کرنے کےلئے گواہ لےکر آؤ انھوں نے ام ایمن کو بطور گواہ پیش کیا۔
ام ایمن نے کہا:
اے ابوبکر میں اس وقت تک گواہی نہیں دونگی جب تک تم جناب رسول اسلام ﷺ کی اس حدیث پر کہ ام ایمن ایک جنتی خاتون ہے۔ اظہار نظر نہ کر دو ابوبکر نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
اس کے بعد ام ایمن نے کہا:
میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا نے رسول ﷺ پر وحی نازل کی فأت ذاالقربیٰ حقہ تو فدک رسول ﷺ نے فاطمہ ؑ کو بخش دیا۔
اس کے بعد امام علیؑ نے بھی اسی طرح کی گواہی دی اور ابو بکر نے فدک جناب فاطمہ زہرا ؑ کو واپس کرنے کے لئے حکم نامہ تحریر کر دیا ابھی آپ ؑ وہاں سے باہر نہیں آئی تھیں کہ عمر بن الخطاب آگئے اور پوچھا کہ یہ تحریرنامہ کیسا ہے ابوبکر نے مکمل حالات سے آگاہ کیا اور کہا:
فدک کو واپس کر دیا ہے چونکہ رسول اکرم ﷺ فدک فاطمہ زہرا ؑ کے حوالہ کر گئے تھے جس پر ام ایمن اور حضرت علیؑ نے گواہی دی ہے عمر آگے بڑھے، تحریر نامہ لیا اور ابو بکر کے سامنے اسکی تحریر پر تھوکا اور پھاڑ دیا۔ ابو بکر نے کچھ نہیں کہا اور فاطمہ زہرا ؑ روتی ہوئی گھر واپس آگئیں۔(۹)
جناب فاطمہ زہرا ؑ نے فرمایا: تو میں میرے خط کو پھاڑ ڈالا خدا تیرے پیٹ کو چیر ڈالے۔(۱۰)
٭اعطائےفدک پر تحریر رسولﷺ:
اہل سنت کی معتبر کتابوں میں تحریر ہے :
کہ جبرئیل فرو آمدہ ،گفت کہ حق تعالی فرمودہ کہ حق خویشان بدہ آن حضرت فرمود:کہ خویشان من کیستند ؟و حق ایشان چیست؟جبرئیل گفت کہ فاطمہ است حوائط فدک را باو دہ آنچہ ازخدا و رسول است در فدک ہمہ باودہ حضرت فاطمہ (س)را برای او رسول است در فدک ہمہ باودہ حضرت فاطمہ را برای او حجت نوشت وآن نوشتہ و ثیقہ بود با و بعد از وفات رسول پیش ابوبکر آوردہ و گفت ؛این کتاب رسول خداﷺاست کہ برای من و حسنین نوشتہ است ۔ (۱۱)
جبرئیل نے رسول خدا ﷺ کی خدمت میں عرض کی :حکم خداوندی ہے کہا آپ ذوی القربی کا حق ان تک پہونچادیں ۔
آنحضرت ﷺنے فرمایا :ذوی القربی سے کون مراد حضرات ہیں اور حق سے کیا مراد ؟
جبرئیل نے عرض کی: ذوی القربی سے مراد فاطمہ زہرا(س) ہیں اور حق سے مراد فدک ہے رسول اکرم ﷺنےجناب فاطمہ زہرا (س) کو بلایا اور فدک دیکرتحریر بھی لکھدی ۔یہ وہی تحریر تھی جسے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ نے ابوبکر کے سامنے پیش کیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ وہی تحریر ہے جس سے نبی ﷺ نے حسنین ؑ اور میرے لئے تحریر کی ہے ۔
کتاب مقصد اقصیٰ میں درج ہےکہ جناب رسول خداﷺ نے حضرت علی ؑ کو فدک کے طرف روانہ کیا اور حضرت علی ؑ سے اہل فدک نے اس بات پر صلح کرلی کہ آپ کو قتل نہ کریں بلکہ ہم فدک کی زمین رسول ﷺ کے قبضہ میں دید یتے ہیں پس جبرئیل امین خدا کی طرف سے نازل ہوئے اور کہا کہ حق تعالی فرماتا ہے :اپنے قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق دے دو جناب رسول خدا ﷺ نےفرمایا: میرے وہ خاص قریبی رشتہ دار کون ہیں اور ان کا حق کیاہے ؟
جبرئیل نے کہا :وہ فاطمہ(س) ہیں پس فدک ان کو دے دو نیزخدا و رسول خدا ﷺ کا فدک میں جو حصہ ہے اور ان کو عطیہ کے طور پر فدک عطا کردیا اور اس پر ایک وثیقہ تحریر کردیا ،یہ وہی وثیقہ تھا جو رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد فاطمہ (س) ابوبکر کے پاس لائیں اور اسے دکھاکر کہا یہ تحریر رسول ﷺ ہے جو میرے اور حسن وحسین ؑ کے حق میں ہے۔ (۱۲)
۲۔ ارث :
فاطمہ رسول ﷺ کی وارث تھیں۔اس لحاظ سے بھی فدک آپ کی ملکیت تھی۔
طبرسی لکھتے ہیں : فاطمہ (س) ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا:
لم تمنعنی میراثی من ربی رسول اللہ؟
واخرجت و کیلیٰ من فدک و قد جعلھاالیّ رسول اللہ با مر اللہ تعالی ۔ (۱۳)
تم نے مجھے کیوں میری میراث سے محروم کردیا اور وکیلوں کو فدک سے بھگادیا در حالاینکہ رسول خداﷺنے حکم خدا سےفدک میرے حوالہ کیا تھا۔
اس عبارت سے بھی یہ بات واضح ہے کہ فاطمہ زہرا(س) نے فدک کا دعوائے ،ہبہ اور عطیہ ہی کے عنوان سے کیا تھا اور ہبہ سے انکار کرنے پر بطور ثبوت میراث سے تعبیر کیا تھا کہ اگر تم ہبہ سے انکار کرتے ہو بطور میراث بھی میرا ہی حق ہے لہذا قائدہ ید ،ہبہ اور میراث جیسے تین اہم طریقون سے ثابت ہے کہ فدک فاطمہ کی ملکیت تھا اور جناب فاطمہ(س) نے باری باری ان طریقون کو اپنایا۔
اگر فاطمہ کا مطالبہ حق و حقیقت پر مبنی تھا تو ابوبکرنے ’’لا نورث ما ترکناصدقۃ‘‘ابوبکر نے کہا !اسول اکرم ﷺنے فرمایا ہے !ہم میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ’’وقف‘‘ہوتا ہے ،حضرات آل محمد تو صرف اس سے اپنے آذوقہ کے مطابق خرچ کرسکتے ہیں۔ (۱۴)
اس حدیث میں ارث نہ چھوڑنے کا مسئلہ تمام انبیائے الہیٰ سے منسوب کیا گیا ہے ااور یہ امر صریح قرآن کے خلاف ہے کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ ’’انبیا ءایک دوسرے کے وارث تھے ۔
’’وورث سلیمان داؤد‘‘ (۱۵)
اور سلیمان اپنے والد داؤد کے وارث ہوئے۔
جناب زکریا ؑنے خداوند عالم سے زریت بعد اور نسل کا سوال کیا ہے تا کہ وہ ان کے وارث بن سکیں چونکہ انھوں نے خود کیا ہے ۔
و انی خفت موالی من ورائی (۱۶) و الموالی ہم بنو عمہ فخاف منھم ان یتصرفو اموالہ و یصرفو ھا فی خلاف المشروع
جناب زکریا ؑ نے خدا سےدعا کی مجھے اولاد صالح عطا فرما،مجھے خوف ہے کہ کہیں میرے مال کے وارث میرے چچا کے لڑکے نہ ہوجائیں اور وہ اس مال کو خلاف شرح استعمال کریں ۔
اسی لئے فخررازی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے :
ان المرد فی اموصعین ھوو راثۃ المال و ھذا قول ابن عباس و الحسن و ضحاک ولم ینقل کون المراد و راثۃ النبوہ الاعن ابی صالح۔۔۔ (۱۷)
’’ارث مطلق سے مراد ارث المال ہے ،ابن عباس ،حسن ،ضحاک نے بھی یہ ہی کہا ہے ۔یہاں تک کہ ابی صالح کے علاوہ کسی نے وارث النبوۃ مراد نہیں لیا۔
پس اگر ابوبکر کے بات صحیح ہے اور رسول اللہ ﷺ نے واقعی فرمایا ہے کہ ’’لانورث ماترکنا صدقۃ ‘‘تو کیا آپ ﷺ نے(معاذاللہ)قرآن کے خلاف بات کی ہے ؟
اگر کوئی شخص عدم معرفت کی بنا پر پیغمبر اکرم ﷺ کو معصوم تسلیم نہ کرے اور یوں تصور کرے کہ آپ ﷺ معمولی امور یا تاریخی مسائل میں اشتباہ اور خطا کا ارتکاب کرسکتے ہیں، تو اس کا تصور ان امور میں ہوتا ہے جن کے سلسلے میں شرعی حکم صادر نہ ہوتا ہو جبکہ یہ کلام جس موضوع پر دلالت کرتا ہے وہ شرعی حکم کا متقاضی ہے۔ تو اس قسم کی خطاء رسول اللہ (ص) سے کیونکر صادر ہوسکتی ہے؟ کیا رسول اکرم (ص) نے خود نہیں فرمایا کہ: “جو بات (حدیث) قرآن کے خلاف ہو (جان لو کہ) وہ میں نے نہیں کہی ہے۔”
اس کے با وجود کہ ابوبکر سے اس حدیث کا صدور یقینی ہے۔ (اور کوئی اس حقیقت کا انکار نہیں کرتا کہ یہ حدیث انھوں نے ہی رسول اکرم ﷺ سے منسوب کرکے استدلال کے طور پر سیدہ سلام اللہ علیہا کو سنائی ہے) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابوبکر نے قرآن مخالف کلام رسول اللہ ﷺ سے منسوب کیا ہے؟
فرض کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ﷺ سے ایسی بات منسوب کی جائی جو حقیقت اور قرآن کے خلاف ہو یا کوئی ایسا کلام ابوبکر سے منسوب کیا جائے جو کلام نبی ﷺ کے خلاف ہو تو ان دو باتوں میں سے کونسی بات بہتر ہے؟
ایک حدیث میں یوں آیا ہے کہ ام ہانی کہتی ہے: جناب فاطمہ نے ابوبکر سے کہا :
جب تم مرؤگے تو تمہارا وارث کون ہوگا ؟
اس نے جواب دیا میری اولاد اور اہل و عیال۔
آپ (س) نے فرمایا تو پھر تم کس طرح رسول اللہ ﷺ کے وارث بن بیٹھے۔
ابوبکر نے کہا:اے دختر رسول ﷺ آپ کے والد نے گھر ،مال ،سونا اور چاندی وراثت میں نہیں چھوڑا۔جناب فاطمہ (س) نے کہا ہمارا وہ حقہ کا جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے وہ سب کہاں گیا ؟
ابوبکر نے کہا:میں نے رسول للہﷺ سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
یہ ایک طعمہ ہے کہ جس کو خدا نے ہم اہلبیت کے لئے مخصوص کیا ہے جب میں مرجاؤں گا تو یہ مسلمانون کے لئے ہوجائیگا۔ (۱۸)
سب سے بڑا اعتراض تو حضرت ابوبکر پر یہ ہوتاہے کہ جب اس حدیث پرپورا پورا اعتماد تھا تو انہوں نے مرتے وقت یہ وصیت کیسے کردی کہ مجھے حجرہ رسول ﷺمیں دفن کیا جائے اور اس سے مطلق اپنی بیٹی حضرت عائشہ سے اجازت لی ۔
اگر مذکور حدیث “لانورث ما ترکنا صدقة” پر اعتماد ہوتا تو ہرگز اپنی بیٹی عائشہ سے اجازت نہ لیتے بلکہ اسی وصیت کو مسلمانون کے درمیان رکھتے اگر تمام مسلمان مل کر اس کی اجازت دے دیتے تب حجرہ رسولﷺ میں دفن ہونے کی وصیت کرتے۔اس لئے کہ حجرہ رسولﷺ عائشہ کی ملکیت نہیں تھا بلکہ علماء اسلام کے قول کے مطابق تمام مسلمانون کا حق تھا ۔ جبکہ عائشہ نے اس کی مالکیت کا دعوی کرکے اپنے والد یعنی ابوبکر کو اس گھر میں دفنایا۔۔۔!!!
اہل سنت کی نگاہ میں جناب فاطمہ (س) کا دعوائے ارث
اہل سنت کی متعدد کتابوں سے واضح اور روشن ہے کہ جناب فاطمہ (س) نے ارث کا دعواکیا اور مد مقابل افراد نے بر خلاف قرآن فیصلہ دے کر آپ(س) کو اس حق سے محروم کردیا ۔
حوالہ جات ،
صحیح بخاری ،کتاب الخمس ،حدیث ۲۸۶۲
صحیح مسلم ،کتاب الجہاد و السیر ،حدیث ۳۳۰۴
طبقات ،ج۲،ص۸۶:محمد ابن جریر طبری ،تایخ الامم والملوک الجز ءالثالث ص۲۲
۳۔ اصل ید :
رسول اکرم ﷺ کے زمانہ حیات میں فدک کا جناب فاطمہ زہرا(س) کے قبضہ میں ہونا مسلّم ہے چونکہ آپ اس کے ذریعہ ہونے والی درآمد کو اپنے ارادہ و اختیار سے خرچ کرتی تھیں اور اپنی طرف سے نمائندوں اور وکیلوں کو اس پر مقرر کرتی تھیں جن کو خلیفہ وقت میں ہٹانے کے بعد فدک کی سرزمین پراپنے کارندے تعینات کرکے غاصیبن فدک کا طلبی کرنا ،رسول اسلام ﷺکی اس حدیث ’’البینۃ علی المدّعی و الیمین علی من انکر‘‘کے سراسر خلاف ہے اس لئے کہ دلیل و برہان اور گواہ اس شخص کو قائم کرنے پڑتے ہیں جو موجودہ قضیہ کے برخلاف ادعاکرے اور جو شخص اس ادعا کو بے بنیاد قرار دے اور اس کا منکر ہوجائے تو اسے صرف قسم کھانی پڑتی ہے اس لحاظ سے جن لوگوں نے یہ ادعا کیا ہے کہ فدک فاطمہ کا حق نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے انہیں چاہئے تھا کہ پہلے دلیل و برہان سے ثابت کرتے اور گواہوں کو پیش کرتے تب فدک جناب فاطمہ سے واپس لیتے نہ یہ کہ خود جناب فاطمہ سے گواہ طلبی کرکے اپنی جہالت کا ثبوت دیتے چونکہ آپ (س) سے گواہ طلبی کرنا مذکورہ حدیث کی سراسر مخالفت ہے۔
٭زمانے کا نشیب و فراز اور فدک
٭تاریخ رد فدک:
عمربن العزیز نے فدک اولاد فاطمہ ؑ کو واپس کیا۔ (۱۹)
ابو عباس سفاح نے فدک اولاد فاطمہؑ کو واپس کیا ۔(۲۰)
مہدی ابن منصور نے فدک اولاد فاطمہ ؑ کو واپس کیا۔
کچھ زمانے تک اموال کا بعض حصہ مروان بن حکم کے قبضہ میں رہا۔(۲۱)
اور ۹۹ ہجری تک فدک پر بنی امیہ اور بنی مردان ہی کا قبضہ رہا، ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب عمر ابن عبد العزیز کی خلافت شروع ہوئی اور اس نے زمانہ خلافت کو مستحکم کر کیا تو سوچھا کہ فدک مال پیغمبر اسلام ﷺ ہے لہذا حق حقدار تک پہنچنا چاہئے۔
جس کے لئے اس نے پہلے تویہ تدبیر سوچی اور اس پر عمل بھی کیا کہ جس مقدار میں اس کو ضرورت ہوتی خود خرچ کرتا اور باقی درآمد کو فقراہ بنی ہاشم میں تقسیم کر دیتا تھا۔
اس نے یہ سب اس لئے کیا ، چونکہ اس کو اس بات کی اطلاع تھی کہ وفات رسولﷺ کے بعد آپ کے لخت جگر فاطمہ زہراؑ ، ابو بکر کے پاس اپنا حق فدک لینے کے لئے گئیں تو اس نے انکار کر دیا تھا یہی سوچتے ہوئے عمر ابن عبد العزیز نے یہ ٹھان لیا کہ میں حق صاحب حق تک پہونچا کے رہوں گا اور اس پر عمل بھی کیا یعنی فدک علی ابن حسین ؑیا حسن ابن حسن بن علی ابن ابی طالبؑ کو واپس کر دیا اور عمر ابن عبد العزیز کی اختام خلافت سنہ ۱۰۱ ہجری تک فدک اولاد علی ؑ اور فاطمہ ؑ کے قبضے میں رہا۔(۲۲)
ایک دوسری روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے: امام محمد باقر ؑ نے بالخصوص فدک ہی سے متعلق عمر بن العزیز بن مروان سے گفتگو کی تو بالخصوص فدک ہی سے متعلق عمر بن عبد الزیز بن مروان سے گفتگو کی تو اس نے فدک اولاد فاطمہؑ کو واپس دیدیا۔(۲۳)
شہید باقر صدر، فدک فی التاریخ میں لکھتے ہیں:
جس وقت عمر ابن عبد العزیز بن مروان بر سر حکوتم آیا تو اس نے فدک فرزندان فاطمہ ؑ کو واپس کر دیا۔
امالی میں ابن حزم سے مروی ہے:
عمر ابن عند العزیز کے دل میں فدک کا خیال آگیا تو انھوں نے حاکم مدینہ ابو بکر کو لکھا کہ ۶ ہزار دینار اور مزید ۴ ہزار دینار کا غلہ مہیاکر کے بنی ہاشم میں اولاد حضرت فاطمہ ؑ کے درمیان تقسیم کر دو اس لئے کہ فدک آنحضرت ﷺ کی ذاتی ملکیت تھا اور بغیر کسی لشکر کشی و جنگ کے حاصل ہوا تھا لہذا آن حضور کے شرعی وارث ہی اس کے حقدار ہیں۔(۲۴)
٭فدک کی واپسی کے سلسلہ میں امام محمد باقر ؑ کی جدوجہد :
ہشام بن معاز سے منقول ہے: وہ کہتے ہیں کی جب عمر بن عبد العزیز ایک دن کے لیئے مدینے آئے، میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا انھوں نے حکم دیا کہ اس بات کی منادی کرائی جائے کہ اگر کسی پر کوئی ظلم ہوا ہو یا کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو وہ سامنے آئے اور اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا چنانچہ اس کا اعلان ہوا اور حضرت امام باقرؑ تشریف لائے ۔
عمر بن عبد العزیز کے غلام مزاحم نے انہیں اطلاع دی کہ حضرت محمد بن علی بن الحسین ؑ تشریف لائے ہیں تو انہیں نے غلام سے کہا کہ ان کو اندر لے آ ؤ امام تشریف لائے تو عمر بن عبد العزیز کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
امام ؑ نے فرمایا : اے عمر بن عبد العزیز کیوں رو رہے ہو؟ تو انہیں نے عرض کہ فرزند رسول ﷺ مجھے ہشام کی فلان فلان باتوں نے رلا دیا ہے۔
امام ؑ نے فرمایا : اے عمر بن عبد العزیز دبیا ایک بازار ہے جس سے لوگ اپنے فائدے کی چیزیں بھی خریدتے ہیں اور نقصان کی بھی اور کتنے وہ لوگ ہیں جنہیں دنیا دھوکہ دیتی ہے وہ نقصان کا سودا خرید لیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی سر پر موت آکھڑی ہوتی ہے تب وہ سمجھتے ہیں کہ کیا ہوا آخر کار دنیا سے ناکام اور لائق ملامت ہو کر چلے جاتے ہیں جبکہ انہوں نے آخرت سے کچھ نہیں پایا اور ان لوگوں کے لئے جمع کیا جنہوں نے مرنے کے بعد ان کی تعریف نہیں کی اور اس خدا کی طرف لوٹ گئے جو ان کا عذر قبول نہیں کرے گا۔
خدا کی قسم ہم ہی وہ ہیں جو لوگوں کے ان نیک اعمال کی طرف نگاہ رکھتے ہیں جو اعمال اچھے اور قابل رشک ہوتے ہیں ہم ان اعمال میں ان لوگوں کی موافقت کرتے ہیں لیکن جو بُرے ہوتے ہیں تو ہم ان سے ڈرتے ہیں اور انجام نہیں دیتے ۔لہذا خدا سے ڈرتےرہو اور دو باتوں کا خیال رکھو ایک تو یہ کہ ان اعمال کی طرف نظر رکھو جن کو تم چاہتے ہو کہ وہ اس وقت تمہارے ساتھ ہوں جب تم خدا کے سامنے پیش کیے جاؤ تو انہیں اپنے جانے سے پہلے بھیج دو اور دوسرے یہ کہ ان اعمال کی طرف نظر رکھو جنہیں تم اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتے جب تم خدا کے پاس جاؤ تو ان اعمال کا بدلہ تلاش کرو اور ایسے سرمائے کی طرف نہ جاؤ جو تم سے پہلے لوگوں پر تباہی و بربادی کے سنگ گراں گرا چکا ہے جبکہ تم یہ خیال کرتے ہو کہ آپ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ اے عمر اللہ سے ڈرو اور دروازےکھلے ر کھو، اور دربانوں کو ہٹا دو ، مظلوم کی مدد کرو اور ظالم کے ظلم سے اس کو بچائے رکھو۔
اسکے بعد امام ؑ نے فرمایا: تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کے پاس ہوں تو اس کا خدا پر کامل ایمان ہے یہ سن کر عمر ابن عبد العزیز گھٹنوں کے بل گر گیا اور کہا کہ اے اہل بیت نبوت ارشاد فرمائے آپ نے فرمایا : جب کوئی شخص کچھ پسند کرے تو ایسا نہ ہو کہ اس کی خوشی اور پسندیدگی اس کو باطل کی طرف کھینچ لے یعنی باطل کے حصول میں اپنی خوشی کو مدنظر نہ رکھے اور جبب وہ غصّہ کی حالت میں ہو تو ایسا نہ ہو کہ وہ غصّہ اس کو راہ راست اور حق سے منحرف کر دے اور جب کسی چیز پر قادر ہو تو وہ چیز نہ لے جس کا وہ مالک نہ ہو امام ؑ کے یہ ارشادات سن کر عمر بن عبد العزیز نے قلم اور دوات منگایا اور لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس تحریر کے ذریعے عمر ابن عبد العزیز نے فدک کو جو ظلم و ناانصافی سے لیا گیا تھا حضرت امام محمد باقر ؑ کو واپس کیا۔ (۲۵)
منا قب ابن شہر اشوب میں معاذ نے اس طرح مروی ہے۔ (۲۶)
اور والی مدینہ ابو بکر بن عمر وبن حزم کو ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ فدک واپس کر دیا جائے۔( ۲۷)
جس کے جواب میں والی مدینہ نے لکھا کہ فرزندان فاطمہؑ آل عثمان و آل فلان و آل فلان نے پراگندہ ہیں اس صورت میں فدک کس کو واپس کیا جائے عمر بن عبد العزیز نے جواب میں لکھا ۔ امابعد:
اگر تم کو ایک گائے کا قربانی کا حکم دیا جائے تو کیا اس کا رنگ بھی معلوم کرو گے کہ کس رنگ کی گائے قربان کی جائے اور بنی اسرائل کی طرح بہانہ تراشی کرو گے اس خط کے ملتے ہی فورن فدک علی ؑ و فاطمہ ؑ کی ذریت کے حوالے کر دو ۔
عمر بن عبد العزیز کے اس کام پر بنی امیہ بہت خشمگین ہوئے اور اس کے اس فعل پر اس کی کافی سرزنش کی انہوں نے کہا کہ تم نے یہ کام انجام دے کر شیخین کی سیرت سے انحراف کیا ہے اور یہ بھی ملتا ہے کہ عمر و ابن قیس کوفی ایک گروہ کے اس کے پاس آیا اور فدک واپس کرنے سے سخت ممانعت کی۔
عمر ابن عبد العزیز نے جواب میں کہا کہ تم نہیں جانتے اور اگر جانتے ہو تو تم نے بھلا دیا ہے۔ لیکن میں نے فراموش نہیں کیا میں صحیح طریقہ سے جانتاب ہوں کہ ابو بکرمحمد بن عمر و بن حزم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے نقل کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فاطمہ میرا ٹکرا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا مجھے غضبناک کیا جس نے اسے خوشنود کیا مجھے خوشنود کیا۔
ان تمام باتوں کو در گزر کرتے ہوئے شیخین کے عہد خلافت میں فدک ایک ہی جگہ ان کے قبضے میں تھا یہاں تک کہ ایک عرصہ کے بات مروان کو عطا کر دیا گیا۔ اور اس نے میرے باپ عبد العزیز کو بخش دیا اور میرے باپ کے بات میرے بھایئوں میں تقسیم ہوگیا میں نے ان سے خواہش کی کہ وہ اپنا اپنا حصہ مجھے فروغ کر دیں، میرے بھایئوں میں سے بعض نے مجھے بخش دیا اور بعض سے میں نے خرید لیا تاکہ مکمل فدک میرے تحت تصرف آجائے جب مکمل فدک میرے قبضہ میں آگیا تو میں نے اسے فرزندان فاطمہ ؑ کو واپس کیا۔
جس وقت عمروبن قیس نے خلیفہ کی یہ بات سنیں تو کہا اگر آپ ہماری کوئی بات بھی ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں تو کم از کم اتنا ضرور کرے کہ زمین آپ کی ملکیت میں رہے اور اس کی درآمد اولاد فاطمہ پر تقسیم کر دیا کریں۔
عمربن عبد العزیز کے بعد فدک یزید ابن عبد الملک کے قبضہ میں چلا گیا اور اس کے بعد سے بنی امیہ کی حکومت ختم ہونے تک فدک بنی مروان کے قبضہ میں رہا۔
فلمّا ولی عمر بن عبد العزیز الخلافۃ کتب الی عاملہ با المدینۃ یا مرہ برد فدک الی ولد فاطمہ فکانت فی ایدیھم ایامہ فلمّا ولی یزید ابن عبد الملک قبضھا۔
جب عمر ابن عبد العزیز خلافت پر قابض ہوا تو اس نے اپنے کارندوں کو مدینہ بھیجا اور حکم دیا کہ فدک اولاد فاطمہ کو واپس کر دیا جائے اس کے بعد کچھ عرصہ تک فدک اولاد فاطمہ کے قبضے میں رہا لیکن جب یزید ابن عبد الملک خلیفہ بنا تو اس نے فدک واپس لے لیا اور خود اس کا مالک بن بیٹھا ۔
یعنی ابن عبد العزیز کے مرنے کے بعد فدک بنی مروان کے قبضے میں چلا گیا اور امویوں کی حکومت کے خاتمہ تک انہی کے قبضے میں رہا ۔
اموی حکومت کا خاتمہ سن ۱۳۲ ہجری میں ہوا اور اسی ہجری میں جب ابو العباس سفاح جو پہلا عباسی خلیفہ تھا، مسند خلافت پر بیٹھا تو اس نے فدک عبد اللہ ابن حسن بن حسن ؑ کے قبضے میں دی دیا۔
لیکن ابو جعفر منصور دوانقی سن ۱۳۶ ہجری میں اولاد فاطمہ ؑ سے ناراض ہوگیا اور فدک کو ان سے واپس لے لیا۔
اس کے بعد اس کے بیٹے مہدی عباس نے سن ۱۵۸ ہجری میں فدک جناب فاطمہ زہرا ؑ کے فرزندوں کو واپس دیدیا لیکن اس کے بیٹے موسیٰ اور ہارون نے سن ۱۷۰ ہجری میں پھر سے واپس لے لیا۔
سن ۲۱۰ ہجری میں جب مامون نے عہد خلافت کو اپنے قبضے میں لے لیا تو تمام فرزندان فاطمہؑ مامون کے پاس آئے اور اس نؤسے کہا کہ فدک ہماری ماں فاطمہ ؑ کی ملکیت تھا مامون نے ۲۰۰ علماء حجاز و عراق جمع کیا اور ان کے سامنے قضیہ فدک پیش کیا ، گفتگو کافی طویل ہو گئی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا اسی کشمکش میں مامون نے ہزار ہا دانشمندوں کو حاضر کیا جنہوں نے آیہ کریمہ (وات ذاالقربی حقہ۔۔۔ کے شان نزول کو نقل کیا اور دوسری بہت سی دلیلیں پیش کیں جس کے بعد مامون اس نتیجہ پر پہنچا کہ فدک جناب فاطمہ ؑ کی ملکیت تھا اور در حقیقت آپ ہی اس کی مالک ہیں ۔( ۲۸)
اس ثبوت کے لئے وہ حکم نامہ کافی ہے جس میں قثم بن جعفر (حاکم مدینہ) کو لکھا کہ رسول اسلام ﷺ نے فدک فاطمہ زہراؑ کو عطا کیا اور یہی ہی نہیں بلکہ زمان پیغمبر ﷺ میں شہرہ آْفاق تھا کہ فدک ملکیت فاطمہ زہراؑ ہے۔ جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے خاندان جناب فاطمہ ؑ میں سے کوئی بھی شخص اس میں اختلاف نہیں کرتا، اور جناب فاطمہ زہراؑ نے اپنے حین حیات اس کا مطالبہ بی کیا اور ان کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جن سے راستگو اپنے دعوائے میں کوئی نہیں ہو سکتا۔
٭مامون کی طرف سے شاہی حکم نامہ
ولما کانت سنۃ عشر و ما تین امر امیر المؤمنین المامون عبد اللہ بن ھا رون الرشید فدفعھا الی ولد فاطمہ و کتب بذلک الی قثم بن جعفر بن جعفر عاملہ علی المدینۃ اما بعد۔
جب سن ۲۱۰ ہجری آئی تو مامون عبد اللہ بن ہارون رشید نے حکم دیا کہ فدک اولاد فاطمہ ؑ کو دیدیا جائے، یہ حکم نامہ اس نے گورنر بن جعفر کو لکھا۔ اما بعد:
فان امیرالمومنین بمکانہ من دین اللہ و خلافۃ رسولہﷺ و القرابۃ نہ اولیٰ من استن سنتہ و نفذ امرہ و سلم لمن منحہ منحہ و تصدق علیہ بصدقۃ منحتہ و صدقتہ و باللہ توفیق امیرالمومنین و عصمتہ و الیہ فی العمل بما یقربہ الیہ رغبۃ وقد کان رسول اللہ ﷺ اعطی فاطمۃ بنت رسول اللہ فدک و تصدق بما علیھا و کان ذلک امرا ظاھرا معروفا لا اختلاف فیہ بین آل رسول و لم تزل تدعی منہ ماہوا اولیٰ بہ من صدق علیہ فراح امیر المومنین ان یردھا الی وراثتھا و یسلیمھا ن تقربا الی اللہ تعالیٰ با قامۃ حقہ و ععد لہ و الی رسول اللہﷺ۔
میں اپنی اس اعتبار سے جو دین الہیٰ میں مجھے حاصل ہے نیز بطور خلیفہ و جانشین اور رسول اللہ ﷺ کا قرابت دار ہونے کے لحاز سے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ رسول خداﷺ کے طریقے پر عمل کروں اور ان کے احکام کو جاری کروں اور رسول خداﷺ نے جو شے یا صدقہ کسی کو عطا کیا ہے واپس دے دوں امیر المومنین کی پرہیزگاری اور توفیقات سب خدا کی طرف سے ہیں اور اس وقت امیر المومنین کی یہ خواہش ہے کہ وہ ایسا کام انجام دے جسے رضائے خداوندی حاصل ہو۔
غور طلب بات یہ ہے کہ رسول ﷺ نے اپنی لخت جگر فاطمہ ؑ کو فدک ہبہ کیا تھا اور فدک انہی کی ملکیت میں تھا اور یہ ایک ایسا صریح واقعہ ہے کہ جس میں رسول ﷺ کے رشتہ داروں میں سے کسی کو اختلاف نہیں ہے امیر المومنین اس امر کو حق سمجھتے ہیں کہ فدک جناب فاطمہ ؑ کے وراثاء کو واپس دیا جائے تاکہ خدا وند تعالی کی صفت عدل و حق کو قائم کر کے اس کا تقرب حاصل کر سکیں۔
بتنفیذ امرہ و صدقتہ فامر باثبات ذلک فی دواوینہ والکتاب بہ الیٰ عمالہ فلان کان ینادی فی کل موسم بعد ان قبض اللہ نبیہُ ان یذکر کل من کان لہ صدقتھا و ھبۃ و عدۃ ذلک فیقبل قولہ و بنفذ عدتہ ان فاطمہ رضی اللہ عنھا لا ولی بان یصدق قولھا فی ما جعل رسول اللہ ﷺ لھا وقد کتب امیر المنین الی المبارک الطبری مولی امیر المومنین یامرہ برد فدک علی ورثۃ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ بحدودھا وجمیع حقوقھا المنسوبۃ الیھا وما فیھا من الرقیق و الغلات و غیر
ذلک و تسلیمھا الیٰ محمد بن یحیٰ بن الحسین بن زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ؑ و محمد بن عبداللہ بنن حسن بن علی بن ابی طالب لتولیۃ امیر المومنین ایا ھما القیام بھا لاھلھا (۲۹)
لہذا امیر المومنین ( مامون) حکم دیتے ہیں :
فدک واپس کرنے کی وضاحت لکھ کر تمام حکام اور عمال کے پاس بھیج دی جائے جب سے رسول ﷺ نے رحلت فرمائی ہے یہ رسم رہی ہے کہ مختلف موقعوں پر ( موسم حج) تمام لوگوں کو دعوت دی جاتی تھی کہ جب کسی کو رسول ﷺ نے صدقہ دیا ہو یا ہبہ کیا ہو وہ آن کر بیان کرے اور اس کے قول کو قبول کر لیا جاتا تھا۔
اس صورت میں جناب فاطمہ (س) زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے قول کو قبول کیا جائے جو ہبہ فدک سے متعلق ہے ،کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بخشا امیر المومنین (مامون ) نے اپنے غلام مبارک طبری کو حکم نامہ لکھا ہے کہ فدک حضرت فاطمہ(س) کے وارثوں کو مع اس کی تمام حدود وحقوق پیدا وار غلامون کے ساتھ واپس دے دیدیاجائے۔
محمد بن یحیٰ بن حسین بن زید بن علی بن حسین بن علیبن ابی طالب ؑاور محمد بن عبد اللہ بن حسن ؑبن علی بن ابی طالب ؑکو امیر المومنین (مامون) ،جناب فاطمہ(س) کی طرف اس زمین کا ذمہ دار اور مالک و وارث مقرر کرتے ہیں ۔
فاعلم ذلک من رای امیر المومنین وما الھمہ اللہ من طاعۃ ووفقہ لہ من التقرب الیہ والی رسولہ ﷺواعلمہ من قبلک وعامل محمد بن یحی ومحمد بن عبداللہ بما کنت تعامل بہ المبارک الطبری وعنھما علی مافیہ عمارتھاو مصلحتھا ووفورغلاتھاانشاءاللہ والسلام وکتب یوم الاربعاءلیلتین خلتامن ذی القعدہ سنۃ عشر و مائتین (۳۰)
پس تم آگاہ ہوجاؤ کہ امیر المومنین کی رائے ہے اور خدا کی طرف سے ان کی ذہن میں یہ آئی ہے تاکہ خدا اوراس کےرسول ﷺکی رضا مندی حاصل کرسکتے تم لوگوں کا فریضہ ہے کہ ہجو تمہارے ماتحت ہیں ان کو بھی اس امر سے ضرور آگاہ کرو ۔
محمد بن یحیٰ اوور محمد بن عبداللہ کے ساتھ بھی وہی رویہ رکھو جو اس سے پہلے امیرالمومنین کےکارکن ’’مبارک طبریٰ ‘‘کے ساتھ رکھتے تھے اور مزرعہ کے سلسلے میں ان دونوں کوایسے ہی مدد پہونچاتے رہو ،جس طرح سے مبارک کو مدد پہونچاتے رہے ہو ۔تاکہ ان زمینوں کی زرخیزی اور پیداوار میں زیادتی ہو اور ان کی منفعت بڑھنے میں مشیت ایزدی کا اجرا ءہو ۔
والسلام
مورخہ :ذی القعدہ ۲۱۰ ؁ھ بروز بدھ
مامون رشید کے زمانے سے معتصم کے زمانے تک فدک بنی ہاشم کے ہاتھوں میں رہا جب ۲۱۸؁ھ سے معتصم کا عہد خلافت شروع ہوا تو اس نے فدک غصب کرلیا اور واثق کے دور خلافت ۲۲۷ ؁ھ تک بنی عباس کے ہاتھوں میں رہا، ۲۳۲؁ھ میں خلافت متوکل عباسی نے رنگ بدلا اور اس نے فدک کو اولاد فاطمہ (س) سے چھین کر اپنے ایک درباری چاپلوس عبداللہ ابن بازیار کو بخش دیا ۔
صاحبان بصیرت
اگر فدک پر جناب فاطمہ (س) کا قبضہ نہیں تھا اور فدک ان کی ملکیت نہیں تھی تو اموی خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز اور سب سے پہلا عباسی خلیفہ ابو العباس اور حافظ قرآن عبداللہ مامون نےفدک اولاد فاطمہ کو واپس کرنے کےلئے دنیا بھر کے علماء اور دانشوروں کو اکٹھا کیوں کیا ؟اور فاطمہ (س) کا حق بجانب ہونا ثابت کرکے فدک واپس کیوں کیا ؟اگر بی بی کا حق نہیں تھا تو علماء اور دانشوروں کا فیصلہ اس کے بر خلاف ہی ہوتا اور ایسا ہوا نہیں ،آخر ایسا کیوں ؟
لہذا یہ تمام تر گفتگو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ فدک پر جناب فاطمہ (س) کا مکمل قبصہ تھا اور مامون خلیفہ عباسی اور دیگر خلفاءنے بھی یوں ہی بغیر کسی تحقیق و جستجو کے فدک واپس نہیں کیا بلکہ جب ہزاروں دانشوروں ،علماءاور فقہايء نے یہ ثابت کردیا کہ فدک فاطمہ کی ملکیت ہے تب کہیں جاکر واپس کیا ہے ۔
قطع کلامی
جناب زہراء ؑ نے ارادہ كرليا كہ اس كے باوجود بھى اپنے مبارزے كو باقى ركھيں، اپنے اس پروگرام كے لئے انہوں نے قطع كلام كرنے كا فيصلہ كرليا اور رسمى طور پر جناب ابوبكر كے متعلق اعلان كر ديا كہ اگر تم ميرا فدك واپس نہيں كروگے تو ميں تم سے جب تك زندہ ہوں گفتگو اور كلام نہيں كروں گي۔ آپ كا جہاں كہيں بھى جناب ابوبكر سے آمنا سامنا ہوجاتا تو اپنا منھ پھير ليتيں اور ان سے كلام نہ كرتى تھيں۔(۳۱) مگر جناب فاطمہؑ ايك عام فرد نہ تھيں كہ اگر انہوں نے اپنے خليفہ سے قطع كلامى كى تو وہ چندان اہميت نہ ركھتى ہو؟ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى عزيز بيٹى رسول خدا(ص) كى حد سے زيادہ محبت كسى پر پوشيدہ نہ تھى ۔ آپ وہ ہے كہ جس كے متعلق پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ فاطمہؑ ميرے جسم كا ٹكڑا ہے ۔ جو اسے اذيت دے اس نے مجھے اذيت دى ہے ۔(۳۲) اور آپ فرماتے ہيں كہ فاطمہ ؑ ان عورتوں ميں سے ہيں كہ جن كے ديدار كے لئے بہشت مشتاق ہے ۔(۳۳)
اور آپ فرماتے تهے که اگر فاطمہؑ غضب کر هے تو خداوند عالم غضب کرتاهے(۳۴)
جى ہاں پيغمبر (ص) اور خدا كى محبوب خاتون نے جناب ابو بكر سے قطع كلامى كا مبارزہ كررہا ہے آپ ان سے بات نہيں كرتيں آہستہ آہستہ لوگوں ميں شائع اور مشہور ہوگيا كہ پيغمبر(ص) كى دختر جناب ابوبكر سے رتھى ہوئي ہے اور ان پر خشمناك ہے _ مدينہ كے باہر بھى لوگ اس موضوع سے باخبر ہوچكے تھے تمام لوگ ايك دوسرے سے سؤال كرتے تھے كہ جنا ب فاطمہؑ كيوں خليفہ كے ساتھ بات نہيں كرتيں ؟ ضرور اس كى وجہ وہى فدك كا زبردستى لے لينا ہوگا _ فاطمہؑ جھوٹ نہيں بولتيں اور اللہ تعالى كى مرضى كے خلاف كسى پر غضبناك نہيں ہوتيں كيونكہ پيغمبر خدا (ص) نے ان كے بارے ميں فرمايا تھا كى اگر فاطمہؑ غضب كرے تو خدا غضب كرتا ہے۔
اس طرح ملت اسلامى كے احساسات روزبروز وسيع سے وسيع تر ہو رہے تھے اور خلافت كے خلاف نفرت ميں اضافہ ہو رہا تھا_ خلافت كے كاركن يہ تو كرسكتے تھے كہ جناب فاطمہؑ كے قطع روابط سے چشم پوشى كرليتے جتنى انہوں نے كوشش كى كہ شايد وہ صلح كراديں ان كے لئے ممكن نہ ہوسكا۔فاطمہؑ اپنے ارادے پر ڈٹى ہوئي تھيں اور اپنے منفى مبارزے كو ترك كرنے پر راضى نہ ہوتى تھيں۔
جب جناب فاطمہؑ بيمار ہوئيں تو جناب ابوبكر نے كئي دفعہ جناب فاطمہؑ سے ملاقات كى خواہش ظاہر كى ليكن اسے رد كرديا گيا، ايك دن جناب ابوبكر نے اس موضوع كو حضرت على ؑ كے سامنے پيش كيا اور آپ سے خواہش كى آپ جناب فاطمہؑ كى عيادت كا وسيلہ فراہم كريں اور آپ سے ملاقات كى اجازت حاصل كريں۔حضرت على عليہ السلام جناب فاطمہؑ كے پاس گئے اور فرمايا اے دختر رسول(ص) جناب عمر اور ابوبكر نے ملاقات كى اجازت چاہى ہے آپ اجازت ديتى ہيں كہ وہ آپ كى خدمت ميں حاضر ہوجائيں، جناب زہرا (ع) حضرت على (ع) كے مشكلات سے آگاہ تھيں آپ نے جواب ديا، گھر آپ كا ہے اور ميں آپ كے اختيار ميں ہوں جس طرح آپ مصلحت ديكھيں عمل كريں يہ فرمايا اور اپنے اوپر چادران لى اور اپنے منھ كو ديوار كى طرف كرديا۔
جناب ابوبكر اور عمر گھر ميں داخل ہوئے اور سلام كيا اور عرض كى اے پيغمبرﷺ كى دختر ہم اپنى غلطى كا اعتراف كرتے ہيں آپ سے خواہش كرتے ہيں كہ آپ ہم سے راضى ہوجائيں آپ نے فرمايا كہ ميں ايك بات تم سے پوچھتى ہوں اس كا مجھے جواب دو، انہوں نے عرض كى فرمايئےآپ نے فرمايا تمہيں خدا كى قسم ديتى ہوں۔ كہ آيا تم نے ميرے باپ سے يہ سنا تھا كہ آپ نے فرمايا كہ فاطمہؑ ميرے جسم كا ٹكڑا ہے جو اسے اذيت دے اس نے مجھے اذيت دى ہے انہوں نے عرض كيا ہاں ہم نے يہ بات آپ كے والدسے سنى ہے اس وقت آپ نے اپنے مبارك ہاتھوں كو آسمان كى طرف اٹھايا اور كہا اے ميرے خدا گواہ رہ كہ ان دو آدميوں نے مجھے اذيت دى ہے ان كى شكايت تيرى ذات اور تيرے پيغمبر(ص) سے كرتى ہوں ميں_ ہرگز راضى نہ ہوں گى يہاں تك كہ اپنے بابا سے جاملوں اور وہ اذيتيں جو انہوں نے مجھے دى ہيں ان سے بيان كروں تا كہ آپ ہمارے درميان فيصلہ كريں جناب ابوبكر جناب زہرا (ع) كى يہ بات سننے كے بعد بہت غمگين اور مضطرب ہوئے ليكن جناب عمر نے كہا اے رسول (ص) كے خليفہ، ايك عورت كى گفتگو سے ناراحت ہو رہے ہو۔ (۳۵)
يہاں پڑھنے والوں كے دلوں ميں يہ بات آسكتى ہے كہ وہ كہيں كہ گرچہ جناب ابوبكر نے جناب فاطمہؑ سے فدك لے كر اچھا كام نہيں كيا تھا ليكن جب وہ پشيمانى اور ندامت كا اظہار كر رہے ہيں تو اب مناسب يہى تھا كہ ان كا عذر قبول كرليا جاتا ليكن اس نكتہ سے غافل نہيں رہتا چاہيئے كہ حضرت فاطمہ ؑ كے مبارزے كى اصلى علت اور وجہ خلافت تھى فدك كا زبردستى لے لينا اس كے ذيل ميں آتا تھا اور خلافت كا غصب كرنا ايسى چيز نہ تھى كہ جسے معاف كيا جاسكتا ہو اور اس سے چشم پوشى كى جاسكتى ہو اور پھر جناب فاطمہؑ جانتى تھيں كہ حضرت ابوبكر يہ سب كچھ اس لئے كہہ رہے ہيں تا كہ اس اقدام سے عوام كو دھوكہ ميں ركھا جاسكے اور وہ اپنے كردار پر نادم اور پشيمان نہ تھے كيونكہ ندامت كا طريقہ عقلا كے لحاظ سے يہ تھا كہ وہ حكم ديتے كہ فدك كو فوراً جناب فاطمہؑ كے حوالےكردو اور اس كے بعد آپ آتے اور معاف كردينے كى خواہش كرتے اور كہتے كہ ہم اپنے اس اقدام پر پشيمان اور نادم ہوچكے ہيں تو اس بات كو صداقت پر محمول كيا جاسكتا تھا۔
٭منابع و مآخذ
۱۔ تاریخ فدک،ص۴۶
۲۔ سید شرف جرجانی ، شرح مواقف، ص۷۳۵؛ روضۃ الصفاء،ص۳۷۷؛ ملامعین کاشفی، معارج النبوۃ، رکن ۴، ص۲۲۱
۳۔شیخ حرعاملی ، وسائل الشیعہ، ج ۹، ص۵۲۵، روایت ۱۲۶۲۹
۴۔ محدث قمی، سفینۃ البحار، ج ۲ ،ص ۳۵۱ ؛ ناسخ التواریخ، حضرت فاطمہ زہراؑ، ص۱۲۱
۵۔ سلیمان بن اشعث سجستانی، سنن ابن داود، کتاب الخراج والامارہ و الفی، حدیث ۲۵۸۰)
۶۔ ابن ابی الحدید معتزلی ، شرح نہج البلاغہ ، ج۴، خطبہ کانت باید ینافدک، ص۱۰۸
۷۔ علی بن برہان الدین، سیرۃ الحلبیہ، ج:۳ ص:۴۸۸
۸۔ مولانا شبلی، الفاروق، ج۲، ص:۲۵۶ تا ۲۵۷
۹۔ سیرت الحلبیۃ، ج۳، ص۳۹۱)
۱۰۔ شیخ طوسی، تلخیص الشافی، ص۴۸؛ احمد علی عسقلانی، لسان المیزان، ج ۱، ص ۲۶۸؛ وفاۃ الصدقہ الزاؑ ، ص۷۸
۱۱۔ روضۃ الصفاءمنقول المطاعن :ص۶۰۳
۱۲۔ محمد بن خواند میر ،تاریخ السیر ،ج۱،جزءسوم ،ص۵۸(غزوہ خیبر)
۱۳۔ تاریخ فدک، ص۱۲۷
۱۴۔ شرح ابن ابی الحدید،ج۱۶۱،ص۱۱۷
ٍ۱۵۔ سورہ نمل آیت ۱۶
۱۶: سورۃ مریم، آیت ۵
۱۷۔ تاریخ فدک ص۲۵۵
۱۸۔ شرح ابن ابی الحدید ،ج۱۶،ص۱۱۸
۱۹: معجم البلدان، حرف فاء؛ وفاءالوفا، ج۲، ص۱۶۰؛ شرح ابن ابی الحدید، ف۱۶، ص۲۶۱
۲۰: اعلام النساء،ج۴،ص۱۲۰
۲۱: سنن بیہقی، ج۶، ص۳۰۱
۲۲: فتوح البلدان ، ص۴۵: شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۴۴
۲۳: بحار الاانوار، ج۴۶، ص۳۲۶
۲۴: بحار الانوار ،اردو، ج۴،۵، ص۱۱۳
۲۵: شیخ صدوق ، الخصال ج۱، ص۵۱
۲۶: المناقب ، ج۳، ص۳۳۷
۲۷: شرح ابن ابی الحدید،ج۴،ص۱۴۴، ردفدک الی ولد فاطمہ و کتب الی والیہ علی المدینہ یا مر بذلک۔)
۲۸: تاریخ فدک ، ص۷۵
۲۹: تاریخ فدک،ص۷۸
۳۰: فتوح البلدان ، ص۴۶؛ وفاء الوفاء، ص ۹۹۱؛ شرح ابن ابی الحدید ، ج ۴،ص۱۱۲؛ احمد برادر ، مالکیت در اسلام ، ج۲، ص۱۳۷
۳۱: كشف الغمہ، ج ،۲ ص ۱۰۳؛ شرح ابن ابى الحديد، ج ۶ ،ص ۴۶
۳۲: صحیح مسلم ،ج۴، ص۱۰۳
۳۳: كشف الغمہ ، ج ۲، ص ۹۲
۳۴: كشف الغمہ ، ج ۲ ،ص ۸۴
۳۵: فاطمہ زہراؑ اسلام کی مثالی خاتون، ص:۲۱۰؛ بحار الانوار، ج ۴۳ ،ص ۱۹۸

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *