تازہ ترین

دور جہالت میں نوید اسلام

 دور جہالت میں نوید اسلام

عرب جو اپنے آپ کو دین حضرت ابراہیم ؑ کا پیرو کہتے تھے ان کے حالات بھی دوسری قوموں کی طرح کچھ اچھے نہ تھے، ماسواء چند نفر کے تمام وحدانیت کو چھوڑ کر شرک و بت پرستی میں مشغول تھے۔
وہ گھر جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے توحید کی شمع روشن کرنے اور وحدانیت کا اعلان کرنے کیلئے تعمیر کیا تھا وہاں 360 بت سجا رکھا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے خدا بناتے تھے اور اسکی پوجا کرتے تھے۔ قتل وغارت گری، شراب نوشی، بے حیائی اور بے شرمی ان کے رگوں میں بس چکی تھی اور ان کا پیشہ بن چکا تھا۔ عشق و محبت کی داستانیں رواج بن چکے تھے۔

شئیر
55 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1515

بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا، عورتوں پر ظلم کرنا کوئی عیب شمار نہیں کیاجاتا تھا، معمولی سی باتوں جنگ چھڑ جاتی تھی جو پشتوں در پشت چلی جاتی تھی۔اس دور میں نور حق کی کوئی کرن نظر نہ آتی تھی، انسانی و اخلاقی اقدار بھی بھلادی گئیں تھیں، خود پرستی و ہوس پرستی سے نظام درہم برہم ہوچکا تھا، جہالت کے پردوں میں انسانیت دب چکا تھا صرف عرب ہی نہیں پوری دنیا ظلمت کدہ بن چکی تھی۔ ایسے رسوم ان میں شائع ہوچکا تھا کہ خود عرب ان سے بیزار تھے نہ چاہتے ہوئے بھی پیروی کرتے تھے، چونکہ غیرب معاشرہ کا مسئلہ تھا اور اس چیز نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا اور معاشرے کے ہاتھوں مجبور تھے۔ عجب حال تھا عرب معاشرے کا جب آمنہ کے لال نے شمع ہدایت لے کر آیا۔ اسلام نے ان کے ان تمام غیر اخلاقی کاموں کو روکا جن سے انسانیت مجروح ہورہے تھے اور قتل وغارت ، ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ ایسا دور تھاکہ شیطان انسان کے دلوں پر غالب آچکا تھا اور شیطان کے اشارے پر ہی چلتے تھے اور یہ لوگ اندھیرے میں ڈھوبے ہوئے تھے اور جاہلیت کا تمدن “حمیت” اور جاہلانہ غیض و غضب کی دعوت دیتا ہے لیکن اسلام کا تہذیب و تمدن ، قرار و آرام اور ضبط نفس کی طرف بلاتا ہے۔ ایسے زمانے میں خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت کیلئے ایک ایسا نبی بھیجا جو خلق عظیم کے عظیم درجے پر فائز تھے اور اپنی صادقیت و امانتداری کو اس معاشرے میں منوایا۔ انہوں نے معلم انسانیت بن کر اس دور میں انسانوں کی تربیت شروع کی، ہر طرح کی مشکلات کے باوجود دین اسلام کو فروع دیا، ان تمام رسوم کو ختم کیا جس سے خدا نے منع کیا اور ہر اس کام کا اجراءکیا جو خدا چاہتا تھا اور یہی دین ہے جس نے انسانوں کو آزاد زندگی بسر کرنے کا درس دیا، اچھے اور برے کی تمیز سکھائی، اخلاق و بردباری سکھائی اور انسانوں کو بہترین زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا۔
عرب معاشرہ قبل از اسلام
قرآن مجید میں بھی بہت سے مقامات پر انہی ادوار کے ذکر ملتا ہے۔ خداوند عالم فرماتے ہیں کہ
وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا [1]
اور خبردار جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا نے نکاح (جماع) کیا ہے ان سے نکاح نہ کرنا مگر وہ جو اب تک ہوچکا ہے۔ یہ کھلی ہوئی برائی اور پروردگار کا غضب اور بدترین راستہ ہے۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تفسیر نمونہ میں لکھتے ہیں کہ : زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا اور اپنے پیچھے بیوی ،بچے چھوڑ جاتا تو اگر وہ بیوی انکی سگی ماں نہ ہوتی تو وہ بیٹے اسے مال کی طرح اپنی میراث بنالیتے اور اس طرح وہ یہ حق سمجھتے کہ اپنی سوتیلی ماں سے خود شاری کریں یا اسکی کسی اور سے شادی کردیں۔ ظہور اسلام کے بعد ایک مسلمان کے بارے میں یہ حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ ابو قیس نامی ایک انصاری فوت ہوگیا اسکے بیٹے نے اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرنا چاہی تو اس عورت نے کہا میں تجھے اپنا بیٹا سمجھتی ہوں اسلئے یہ کام مناسب نہیں ۔ اس کے باوجود حضرت رسول اللہ ؐ سے اپنی شرعی ذمہ داری پوچھ لیتی ہوں۔ اسکے بعد اس عورت نے یہ بات رسول اکرم ؐ کی خدمت میں عرض کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت نے زمانہ جاہلیت کے ایک نہایت مکروہ اور ناپسندیدہ فعل پر خط بطلان کھینچ دیا۔[2]

وراثت:
زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ وہ (مشرک) صرف مردوں کو وارث سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو شخص مسلح ہو کر لڑنے اور اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے کبھی کبھی ڈاکہ ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا اسے ترکہ نہیں مل سکتا۔ اسی وجہ سے وہ عورتوں اور بچوں کو میراث سے محروم کردیتے تھے اور میت کا مال بہت دور کے مردوں میں بانٹ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک انصار جس کا نام اوس بن ثابت تھا فوت ہوگیا اور اپنے بعد چھوٹی چھوٹ بچیاں اور بچے چھوڑ گیا اس کے چچا زاد بھائی جن کے نام خالد اور ارفطہ تھے وہ آئے انہوں نے اس کا مال آپس میں بانٹ لیا اور اس کی بیوی اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کو کچھ بھی نہ دیا تو اس کی بیوی نے حضرت رسول اکرم ؐ کی خدمت اقدس میں شکایت کی اس وقت اس سلسلے میں اسلام میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس موقع پر یہ آیت نال ہوئی:
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [3]
مردوں کیلئے اس میں سے جو کچھ ان کے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جائیں حصہ ہے اور عورتوں کیلئے بھی جو ان کے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جائیں حصہ ہے۔ چاہے وہ مال کم ہو کہ زیادہ یہ حصہ مقرر اور لازمی ہے۔
چنانچہ حضرت رسول اکرم ؐ نے ان دنوں کو بلایا کہ وہ اس مال میں بالکل چھینا جھیپٹی نہ کریں اور اسے پہلے طبقے کے پس ماندگان یعنی اولاد اور اس کی بیوی کے سپرد کردیں۔[4]

مراسم حج:
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
کوئی گناہ اور حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے فضل سے (ایام حج میں اقتصادی منافع سے) فائدہ اٹھاو (کیونکہ حج کا ایک فلسفہ اسلامی اقتصادی معاشرہ کی بنیاد رکھنا ھی ہے) اور جب میدان عرفات سے کوچ کرو تو مشعر الحرام کے پاس خدا کو یاد کرو اسے اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم لوگ گمراہ تھے۔[5]
زمانہ جاہلیت میں مراسم حج بجالانے کے موقع پر معاملہ، تجارت، مسافروں کو لے جانا اور سامان لانا ، لے جانا حرام اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان فطری طور پر منتظر تھے کہ انہیں معلوم ہو کہ زمانہ جاہلیت والے احکام جوں کے توں باقی رہیں گے یا اسلام ان کے بے وقعت ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ اس آیت میں ان دنوں معاملہ یا تجارت کے گناہ ہونے کو غلط قرار دے دیا اور بتایا ہے کہ موسم حج میں کسی قسم کا معاملہ یا تجارت کرنے میں کوئی مانع اور حرج نہیں[6]۔
ایک اور مقام پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:
فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
جب تم پوے کر چکو حج کے ارکان تو اللہ کو یاد کرو جس طرح اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر الٰہی کرو اور کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب دے دیں ہمیں دنیا میں ہی (سب کچھ) نہیں ہے اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ۔[7]
امام ابن ابی حاتم ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ حج کے موسم میں ٹھہرتے تھے تو ایک شخص نے ان میں سے کہتا ہے کہ میرا باپ کھانا کھلاتا تھا، بوچھ اٹھاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ سوائے اپنے آباو و اجداد کے تذکروں کے اور کچھ نہیں ہوتا تھا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی[8]۔
دور جاہلیت میں لوگ جب حج سے فارغ ہوتے تو جنگ و جدال، سخن پردازی اور فخر و مباہات شروع کرتے تھے اور اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن میں خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِـيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِى الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْـرٍ يَّعْلَمْهُ اللّـٰهُ ۗ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْـرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ۚ وَاتَّقُوْنِ يَآ اُولِى الْاَلْبَابِ
حج چند مقررہ مہینوں میں ہوتا ہے اور جو شخص بھی اس زمانے میں اپنے اور حج لازم کرلے اسے عورتوں سے مباشرت گناہ اور جھگڑے کی اجازت نہیں ہے اور تم جو بھی خیر کروگے خدا اسے جانتا ہے اپنے لئے زاد راہ فراہم کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے صاحبان عقل ہم سے ڈرو۔[9]
ایک گروہ جب مناسک حج سے فارغ ہوجاتے تو ۱۳ ذی الحجہ کی شب محصب میں جمع ہوجاتے تھے اور مفاخرہ شروع ہوجاتے تھے اس موقع پر شعر و شاعری اور دوسرے قبیلہ جو اس کے دشمن ہو اس کی برائی شروع ہوجاتے تھے اور اپنے قبیلہ کے افتخارات بیان کرتے تھے۔[10]
حج کے موقع پر ایک قبیح فعل ان کا یہ تھا کہ ایک قبیلہ (جس کا نام حلہ بتایا جاتا ہے) ایسا تھا کہ اگر اس میں سے کوئی پہلی بار حج کررہا ہو تو وہ ننگے طواف کرتے تھے۔ اس طرح کہ وہ عورت جو ننگے طواف کرتی تھی وہ اپنے ایک ہاتھ آگے اور ایک ہاتھ پیچھے رکھی ہوئی ہوتی تھی اور کہ رہی ہوتی تھی
الیوم یبدو بعضہ او کلہ وما بدا منہ فال املہ
آج کچھ آشکار ہے اس میں سے اور وہ کہ جو آشکار ہے حلال اور اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
اسی طرح بنی عامر اور کچھ دوسرے قبیلہ بھی تھے جو ننگے طواف کرتے تھے اور مرد دن کو اور عورتیں رات کو ننگے طواف کرتے تھے[11]۔

زمانہ جاہلیت میں نکاح کے طریقے:
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح سے ہوتا تھا۔ ان میں سے ایک نکاح کا طریقہ تو یہی تھا جو اب لوگوں میں جاری ہے یعنی ایک شخص دوسرے شخص کے پاس پیغام نکاح دیتا اور وہ اپنی بیٹی، بہن یا جو بھی ہو اس مہر مقرر کرتا ہے اور پھر نکاح کردیتا ہے ۔
دوسرے نکاح کا طریقہ یہ تھا کہ عورت جب حیض سے فارغ ہوجاتی تو مرد اس سے کہتا کہ فلاں شخص کو بلا کر بھیج اور اس سے جماع کروا۔ اس کے بعد اس کا شوہر اس سے الگ رہتا اور اس سے جماع نہ کرتا یہاں تک کہ اس شخص کا حمل ظاہر ہوجاتا جس سے اس نے جماع کروایا تھا پس جب معلوم ہوجاتا کہ وہ حاملہ ہوگئی ہے تو اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے جماع کرتا اور یہ طریقہ اس لئے جاری رکھا تھا تاکہ اچھی نسل کے بچے حاصل کیے جائیں اس نکاح کو نکاح استضاع کہا جاتا تھا اور نکاح کا تیسراطریقہ یہ تھا کہ آٹھ دس آدمی ایک عورت کے پاس آیا جایا کرتے اور سب اس کے ساتھ جماع کرے جب وہ حاملہ ہو جایا کرتی اور بچہ پیدا ہوجاتا چند روز کے بعد وہ سب کو بلا بھیجتی اور سب جمع ہوتے اور کوئی شخص آنے سے انکار نہیں کرسکتا تھا جب سب آجاتے تو وہ ان سے کہتی کہ تم سب اپنا حال جانتے ہو اور اب میرے بچہ پیدا ہوچکا ہے اور یہ بچہ تم میں سے فلاں شخص کا ہے وہ ان میں سے جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ بچہ اسی کا قرار پاتا۔ اور چوتھی قسم کا نکاح یہ تھا کہ بہت سے آدمی ایک عورت کے پاس جاتے یعنی اس سے جماع کرتے اور وہ کسی کو بھی جماع سے نہ روکتی ایسی عورتیں بغایا یعنی طوائف کہلاتی تھیں ان کے گھروں کے دروازوے پر جھنڈے لگے رہتے تھے یہ اس بات کی علامت تھی کہ جو چاہے ان کے پاس بغرض جماع آسکتا ہے پس جب وہ حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے آشنا اس کے پاس جمع ہوتے اور قیافہ شناس کو بلاتے پھر وہ جس کا بچہ کہہ دیتے وہ اسی کا قرار پاتا اور کوئی اس سے انکا نہیں کر سکتاتھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ؐ کو رسول بناکر بھیجا تو آپ ؐ کے ذریعہ دور جاہلیت کے نکاحوں کے تمام طریقوں کو باطل قرار دیا سوائے اس طریقہ نکاح کے جو آج کل اہل اسلام میں رائج ہے۔[12]

زمانہ جاہلیت میں پردے کا نظام:
زمانہ جاہلیت میں پردہ اور حجاب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ یہودو نصاریٰ ، یونانی، ایرانی اور ہندی معاشرے کے افراد اپنی اپنی تہذیبوں اور تقاضوں کے علم بردار تھے۔ ان کے یہاں مذہب، پردے یا حجاب کا کوئی تصور یا قانون نہیں تھا لیکن بعد از اسلام جوں جوں مسلمانوں کے تمدن و معاشرت کی بنیاد بڑھتی گئی، حتی کہ شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کے شرم و حیاءاور لفظ ننگ و ناموس کی پوری پوری حد بندی کردی۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہے کہ مسلمان عورتیں اس آیت کے نزول سے قبل بھی چادر اوڑھا کرتی تھیں، لیکن کسی اور طریقہ پر آیت کریمہ میں چادر اوڑھنے کا ڈھنگ بتا کر اسے شرعی پردہ قرار دیا، بلکہ انہیں چادر اوڑھنا لازمی قراردے دیا۔[13]
زمانہ جاہلیت میں پردے کا بھی کوئی خاص نظام نہیں تھا اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [14]
اس آیت میں جاہلیت اولیٰ سے ظاہرا مراد جو پیغمبر ؐ کے زمانہ سے پہلے تھی اور جیسا کہ تواریخ میں آیا ہے کہ اس زمانے میں عورتیں ٹھیک طرح پردہ نہیں کرتی تھیں۔ دوپٹے کا ایک حصہ اپنی پشت پر اس طرح ڈال لیتی تھیں جس سے ان کا گلا، سینہ اور گردن کا ایک حصہ دکھائی دیتے تھے۔ قرآن پیغمبر ؐکی ازواج کو اس قسم کے اعمال سے روکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک عام حکم ہے اور آیات کا ازدواج پیغمبر ؐ کو مخاطب کرنا زیادہ تاکید کے لئے ہے۔ بہر حال یہ تعبیر نشاندھی کرتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں پردے کا کوئی خاص نظام نہیں تھا۔[15]
زمانہ جاہلیت کے وسوسے:
ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِنْكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ۔۔۔۔۔ [16]
واقعہ احد کے بعد والی رات بہت دردناک اور اضطراب انگیز تھی۔ مسلمان سمجھتے تھے کہ قریش کے فاتح سپاہی دوبارہ مدینہ کی طرف پلٹ آئیں گے اور مسلمانوں کے باقی ماندہ مقابلہ کی طاقت ختم کردیں گے اور شاید کسی طور پر بت پرستوں کے واپس آنے کی خبر بھی انہیں آپہنچی تھی اور یہ مسلم تھا کہ اگر وہ پلٹ آتے تو جنگ کا خطرناک ترین مرحلہ پیش آتا۔ اس دوران مجاہدین اور فرار کرنے والوں میں سے پشیمان افراد جنہوں نے توبہ کرلی تھی اب پروردگار کے لطف و کرم پر اعتماد رکھتے تھے اور آئندہ کے لئے پیغمبر اکرم ؐ کے وعدوں پر مطمئن تھے۔
اس حالت میں وحشت میں وہ آرام کی نیند سوگئے تھے جبکہ جنگی لباس میں ملبوس اور ہتھیاروں سے لیس تھے لیکن منافق، ضعف الایمان اور بزدل گروہ ساری رات فکر و پریشانی میں مبتلا رہا اور بادل نخواستہ حقیقی مومنین کی پہرہ داری کرتا رہا۔ درج بالا آیت رات کی اس کیفیت کی تشریح کرتے ہوئے کہتی ہے کہ پھر احد کے دن ان تمام غم و اندوہ کے بعد تم پر امن و امان اور راحت و آرام نازل کیا اور یہ وہی ہلکی پھلکی نیند تھی جو تم میں سے ایک گروہ کو آئی۔ لیکن ایک ایسا گروہ بھی تھا کہ جسے صرف اپنی جان کی فکر تھی وہ لوگ سوائے اپنی جانیں بچانے کے اور کوئی چیز نہیں سوچتے تھے۔ اس لئے وہ راحت و آرام سے محروم ہوگئے تھے۔
یہ ایمان کا ایک اہم ترین ثمرہ ہے کہ مرد مومن اس دنیا میں بھی راحب و آرام سے رہتا ہے جبکہ بے ایمان یا منافق اور کمزور ایمان والے افراد کبھی بھی اس کا ذائقہ نہیں چکھتے۔ بعد اذاں قرآن منافقین اور کمزور ایمان والے افراد کی گفتگو اور طرز فکر کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “یظنون بااللہ غیر الحق ظن الجاہلیۃ ” وہ خدا کے بارے میں زمانہ جاہلیت کا غلط اور ناحق گمان رکھتے اور اپنی گفتگو میں کہتے شاید پیغمبر کے وعدہ غلط ہوں۔

ربا:
ربا اور سود اس قدر رائج تھا کہ تقریبا تمام ہی لوگ اس رسم کو جائز سمجھ کر انجام دیتے تھے اور سرمایہ دار اس سے خوب استفادہ کرتے تھے اگر مد مقابل سرمایہ داروں کو اصل رقم مع سود واپس نہیں کر پاتا تھاتو سرمایہ دار اس کو، اس کی جائداد و مکان حتی بیوی بچوں کو غلام بنالیا کرتے تھے۔[17]
اولاد کو بتوں پر قربان کرنا:
گذشتہ چند آیات میں زمانہ جاہلیت کے عربوں کی فضول احکام اور قبیح اور شرمناک رسموں سے متعلق گفتگو تھی منجملہ ان کے اپنی اولاد کو بتوں کی قربانی کے طور پر قتل کرنا، اپنے قبیلہ اور خاندان کی حیثیت و عزت کو محفوظ رکھنے کے نام پر اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا اور اسی طرح کچھ حلال نعمتوں کے حرام کر لینا تھا، اس آیت میں بڑی سختی کے ساتھ ان تمام اعمال و احکام کو جرم قرار دیتے ہوئے ساتھ مختلف تعبیروں کے ساتھ جو مختصر جملوں میں ہے لییکن وہ بہت ہی رسا اور جاذب توجہ ہے، ان کی وضع و کیفیت کو واضح و روشن کیاگیا ۔
پہلے فرمایا : وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنی اولاد کو حماقت ، بیوقوفی اورجہالت کی بنا پر قتل کیا ہے، انہوں نے نقصان اور خسارہ اٹھایا ہے وہ انسانی اور اخلاقی نظر سے بھی اور احساس کی نظر سے بھی اور اجتماعی و معاشرتی لحاظ سے بھی خسارہ اور نقصان میں گرفتار ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ اور سب سے بڑ کر انہوں نے دوسرے جہاں میں روحانی نقصان اٹھایا ہے۔”
قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ ۚ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ [18]۔
اسجملے میںان کا یہ عمل اولاد ایک قسم کا خسارہہ اور نقصان اور اس کے بعد حماقت ، کم عقلی اور بعد میں جاہلانہ کام کے طور پر متعارف ہوا ہے ان تینوں تعبیرات میں سے ہر ایک تنہا ان کے عمل کی برائی کے تعارف کے لئے کافی ہے، کونسی عقل اجازت دیتی ہے کہ انسان اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قتل کردے اور کیا یہ حماقت اور بے وقوفی کی انتہا نہیں ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر شرم نہ کریں بلکہ اس پر ایک قسم کا فخر کرے اور اسے عبادت شمار کرے، کونسا علم و دانش اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ انسان ایسا عمل ایک سنت کے طور پر یا اپنے معاشرے میں ایک قانون کے طور پر قبول کرے۔

ظہار:
زمانہ جاہلیت میں مرد اپنی روب جمانے کیلئے ظہار کرتے تھے اس طرح کہ اپنی بیوی کو اپنے ماں یا بہن سے تشبیہ دیتے تھے اور وہ لڑکی اس مرد پر حرام ہو جاتا تھا اور یہ کام دین اسلام میں حرام ہے اور اس پر کفارہ بھی ہے[19]۔

عہد زرین:
زمانہ جاہلیت ادبیات کے لحاظ سے ایک عہد زرین تھا۔ وہی پا برہنہ اور نیم وحشی بادہ نشین بدو تمام تر اقتصادی و معاشرتی محرومیوں کے باوجود ادبی ذوق اور سخن سے سرشار تھے، یہاں تک کہ آج بھی ان کے اشعار ان کے سنہری زمانے کی یاد دلاتے تھے۔ ان کے بہترین اور قیمتی اشعار ادبیات عرب کا سرمایہ ہیں اور حقیقی عربی ادب کے متلاشیوں کے لئے ایک گراں بہا ذخیرہ ہیں۔ یہ بات اس وقت کے عربوں کے تفوق ادبی اور ذوق سخن پروری کی بہترین دلیل ہے۔
عربوں کے زمانہ جاہلیت میں ایک سالانہ میلا لگتا تھا جو بازار عکاظ کے نام سے مشہور تھا یہ ایک ادبی اجتماع کے ساتھ ساتھ سیاسی و دعالتی کانفرنس بھی تھی۔ اسی بازار میں بڑے بڑے اقتصادی سودے بھی ہوتے تھے، شعراء اورسخنواران اپنی اپنی تخلیقات اس کانفرنس میں پیش کرتے ان میں سے بہترین کا انتخاب ہوتا جسے شعر سال کا انتخاب ہوتا۔ ان میں سے سات یا دس قصیدے سبعہ یا عشر معلقہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس عظیم الشان ادبی مقابلے میں کامیابی شاعر اور ان کے قبیلے کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز تصور کی جاتی تھی۔
ایسے زمانے میں قرآن نے اپنی مثل لانے کی دعوت انہی لوگوں کو دی اور سب نے اظہار عجز کیا اور اس کے سامنے سرجھکائے[20]۔
رسول اکرم ایک نعمت الٰہی:
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ “یقیناً اللہ نے محمد ﷺ کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور تنزیل کا امانتدار بنا کر اس وقت بھیجا جب گم گروہ عرب بد ترین دین کے مالک اور بد ترین علاقہ کے رہنے والے تھے، ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بودباش رکھتے تھے، گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تکلفی رکھتے تھے۔ بت ان کے درمیان نصب تھے اور گناہ انہیں گیرے ہوئے تھے”[21]۔
ابن کثیر آیت كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ [22]
کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : یہاں اللہ اپنی بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی مبعوث فرمایا جو اللہ کی روشن اور نورانی کتاب کی آیتیں ہماری سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی سرارتوں اور جاہلیت کی کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے اور کتاب و حکمت یعنی قرآن اور حدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے پس آپ کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جھل چھایا ہوا تھا، جنہیں صدیوں سے تایکی نے گھیر رکھاتھا، جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تک بھی نہیں پڑتاتھا، دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے، وہ علم میں گہرے اور تکلیف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے، دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بچائے، خود رسول ؐ کی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہے۔[23]
حضرت علی ؑ ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :
پروردگار عالم نے حضرت محمد ؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت کرائیں۔ اس قرآن کے ذریعہ جسے اس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں اور اس کے منکر ہو تو اقرار کر لیں[24]۔
نوید اسلام:
جب عرب معاشرہ جاہلیت سے برے ہوئے تھے ایسے میں حکم الٰہی ہوا اے نبی فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ [25]
حضورؐ کے علایہ اللہ کے حکم کی اطاعت اور شرک و بت پرستی کی مذمت، قتل و غارت کی مذمت اور دوسرے جاہلانہ رسم و رواج کی مخالفت سے کچھ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے یہ بات مشرکین کو راس نہ آئی وہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے، ظلم و ستم کرنے لگے، نادار مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑا اور آپ ؐ مدینہ تشریف لے گئے اور باقاعدہ اسلامی ریاست کا آغاز کیا۔
پیامبر اسلامؐ نے علم و دانش کے سلسلہ میں اور اخلاق و عمل کے بارے میں انسان کی تربیت کی تاکہ وہ ان دونوں پروں کے ذریعے آسمان سعادت کی بلندی پر پرواز کریں اور خدائی راستہ کو اختیار کرکے اس کے مقام قرب کو حاصل کریں۔
آپ ؐ کا پر نور چہرہ چودہویں کی چاند کی مانند درخشان تھے۔ آپ ؐ خلق عظیم کے مالک تھے، آپ ؐ رحمت اللعالمین اور حلم و علم و کرم و سخاوت و عفت و شجاعت اور باقی صفات میں کمال تھے۔ آپ ؐ انسانیت کے لئے ایک بہت بڑی نعمت تھی، اسی بات کی طرف اشار کرتے ہوئے مولا علی ؑ فرماتے ہیں کہ :
“اس امت پر خدا کی نعمتوں کی طرف دیکھو! اس زمانے میں جب اپنے رسول کو ان کی طرف بھیجا تو اپنے دین کا انہیں مطیع بنادیا اور اسکی دعوت کے ساتھ انہیں متحد کیا۔ دیکھو ! اس عظیم نعمت نے اپنے کرامت کے پروبال کس طرح پھیلادیے اور اپنے نعمنتوں کی نہریں ان کی طرف جاری کیں اور دین حق نے اپنی تمام برکتوں کے ساتھ انہیں گھیر لیا وہ اس کی نعمتوں کے درمیان غرق ہیں اور خوش و خرم زندگی میں شادمان ہیں”۔
اور انہی باتوں کو ادامہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
یہ بعثت اس وقت ہوئی جب لوگ ایسے فنتوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی۔ اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار۔ مشکلات سے نکلنے کا راستہ تنگ و تاریک ہوگئے تھے۔ ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام۔ رحمان کی معصیت ہورہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا، دین کے ستون گر گئے تھے اور آثار نا قابل شناخت ہوگئے تھے۔ راستے مٹ چکے تھے اور شاہرائیں بے نشان ہوگئی تھیں۔ لوگ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستہ پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموں پر وارد ہو رہے تھے۔ انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اس کے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے رونددیا تھا اور سموں سے کچل دیاتھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے۔ پروردگار عالم نے انہیں اس گھر (مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بد ترین ہمسائے۔ جن کے نین بیداری تھی اور جن کا سرمہ آنسو، سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی اور جاہل محترم تھا۔[26]
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے، اسلام دین محبت ہے، دین امن ہے، دین اطاعت ہے اور دین فطرت ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسولؐ کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی۔ اس دین کے ذریعے محبت کے طلبگار انسان کے دل و دماغ کومسخر کر کے انہیں طغیان و بغاوت اور برائیوں سے روک کر بندگی اور حق و صداقت کی طرف لے جاسکتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں اسلام کو بہت ہی بد معفری کی ہے، مسلمانوں کے اختلافات نے دین کو اتنا بیچارہ کر دیا کہ جو باہر سے آنا چاہتے ہیں ، مسلمان ہونا چاہتے ہیں وہ بھی سوچتا ہے کہ کس طرف جاؤں؟
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ “الحکم حکمان، حکم اللہ و حکم الجاہلیہ فمن اخطاحکم اللہ حکم بحکم الجاہلیہ” حکم صرف دو طرح کے ہیں اللہ کا حکم یا جاہلیت کا حکم اور جو خدا کا حکم چھوڑدے اس نے جاہلیت کا حکم اختیار کیا۔
اس سے واضح ہو تا ہے کہ آسمانی احکام کے حامل ہونے کے باوجود آج کے مسلمان دوسری اقوام و ملل کے جعلی قوانین کے جو پیچھے پڑے ہوئے ہیں در حقیقت جاہلیت کے راستے پر گامزن ہیں۔ اسلام وہ دین ہے جس میں ہر چیز کے احکام موجود ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان قوانین کو اپنے طرز زندگی میں شامل کریں۔

منابع:
1. نہج البلاغہ، ترجمہ علامہ ذیشان ، چ، محفوظ بک ایجنسی ۱۹۹۹ء
2. تفسیر نمونہ ،ترجمہ علامہ سید صفدر حسین نجفی ، چ، مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور ۱۴۱۷ھ
3. تفسیر در منثور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز پاک ۲۰۰۶ء
4. تفسیر ابن کثیر، مکتبہ قدسیہ پاک، ۲۰۰۶ء
5. عرب کھن در آستانہ بعثت، موسستہ انتشارات امیر کبیر ، ۱۳۸۴ھ،ق
6. ترجمہ قرآن، علامہ ذیشان

حوالہ جات
[1] سورہ نساء ۲۲
[2] تفسیر نمونہ ج۳، ص ۲۳۶
[3] سورہ مائندہ ۵۰
[4] تفسیر نمونہ ج۳، ص ۲۰۴ (سورہ مائدہ)
[5] سورہ بقرہ ۱۹۸
[6] تفسیر نمونہ ج۲، ص ۳۹
[7] سورہ بقرہ ۲۰۰
[8] تفسیر در منثور ص ۲۰۰
[9] سورہ بقرہ ۱۹۷
[10] عرب کھن در آستانہ بعثت ۳۱۳، ارزوقی ج۲، ص ۲۲۱
[11] عرب کھن در آستانہ بعثت ص ۳۰۵
[12] ابوداود ج۲، ح ۵۰۲
[13] تفسیر خرائن و العرفان
[14] سورہ احزاب ۳۳
[15] تفسیر نمونہ ج۹، ص ۶۲۲
[16] سورہ آل عمران ۱۵۴
[17] اسلام و جاہلیت ۶۹۲
[18] سورہ انعام ۱۴۰
[19] ترجمہ من لا یحضر الفقیہ ج۵، ص ۲۲۳، باب ظہار
[20] تفسیر نمونہ ج۱، ص ۸۳
[21] نہج البلاغہ خطبہ ۲۶، ص ۹۹
[22] سورہ بقرہ ۱۵۱
[23] تفسیر ابن کثیر پارہ ۲۰، ص ۲۳۹
[24] نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷، ص ۲۷۱
[25] سورہ حجر ۹۴
[26] نہج البلاغہ خطبہ ۲، ص ۳۷

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *