اخلاق اور خود سازی عظیم مجاہدت
پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک سخت جنگ سے واپسی پر فرمایا کہ “یہ جہاد اصغر تھا اور اس کے بعد جہاد اکبر کی باری ہے” جہاد اکبر یعنی نفس سے جہاد۔ جہاد بالنفس کو انسان کی ذاتی حدود تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے۔ شہوت، نفسانی خواہشات، لذت کوشی، آرام طلبی، زیادہ کی خواہش اور بری عادتوں کے خلاف مجاہدت اہم اور جہاد بالنفس ہے۔ یعنی انسان کو اپنے باطن میں موجود شیطان کے خلاف مستقل مجاہدت اور اس کو مغلوب کرنا چاہئے تاکہ وہ انسان کو برے کاموں پر مجبور نہ کر سکے۔
خود سازی کے معنی خود سازی کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی عیب ہے، ہمیں اس کو برطرف کرنا چاہئے۔ نہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسا عیب نہیں ہوتا جس کو محسوس کیا جائے۔ خودسازی کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ان عناصر کی طرف سے ہوشیار رہیں جو عیب پیدا کر دیتے ہیں۔ ہمارے وجود میں انواع و اقسام کے جراثیم داخل ہوتے ہیں اور ہمارے اندر برائیاں اور خرابیاں پیدا کردیتے ہیں۔
خود سازی کی ضرورت خودسازی تمہید اور بنیادی شرط ہے دوسروں کی اصلاح، دنیا کی تعمیر، تبدیلی لانے اور سخت راستے طے کرنے کے لئے۔
انسان کے وجود میں تمام برائیوں کا سرچشمہ بھی موجود ہے، جو اس کا نفس ہے، نفس کا بت اور اس کی خودپسندی تمام بتوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی طرح انسانی وجود میں تمام اچھائیوں اور کمالات کا سرچشمہ بھی موجود ہے۔ اگر انسان کوشش کرے اور خود کو نفس امارہ اور نفسانی خواہشات کے چنگل سے نجات دلا سکے تواچھائیوں کا سرچشمہ اس کے لئے کھل جائے گا۔
نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت نوجوانوں، بچوں اور نونہالوں کی اخلاقی تربیت، واقعی تمام ملکوں اور تمام معاشروں کے لئے بے حد اہم ہے۔ جو معاشرہ اسلامی ہو اور اسلامی احکام و نظریات کی بنیاد پر قائم رہنا چاہتا ہو، لازمی طور پر اس کے سامنے دیگر معاشروں سے بلندتر مجاہدت ہوگی۔ ہر معاشرہ جدوجہد کرتا ہے، کوئی بھی معاشرہ بغیر مجاہدت کے اصلاح کا راستہ نہیں پا سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں اصلاح بغیر جدوجہد کے، بغیر سعی و کوشش کے اور بغیر مخالف قوتوں کے مقابلے میں مجاہدت کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ ہر جگہ ایسے عوامل ہیں جو مختلف ثقافتوں کے مطابق بچوں کو چوری، برائی، کاہلی اور بے راہروی سکھاتے ہیں اور بچے ان سے یہ چیزیں سیکھتے ہیں۔
نوجوانی میں خود سازی اگر مجھ سے کہیں کہ ایک جملے میں بتاؤ کہ نوجوانوں سے کیا چاہتے ہو؟ تو میں کہوں گا کہ تعلیم، پاکیزگی اور کھیل کود۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں میں یہ تین خصوصیات ہونی چاہئیں۔
انسان نوجوانی میں آسانی سے گناہوں سے اجتناب کر سکتا ہے۔ آسانی سے خود کو خدا سے نزدیک کر سکتا ہے۔ نوجوانی کے بعد بھی یہ تمام کام ممکن ہیں لیکن بہت مشکل ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نوجوانی گناہ کرنے کا زمانہ ہے اور بڑھاپا توبہ کرنے کا۔ یہ غلط ہے۔ توبہ کرنے کا زمانہ بھی نوجوانی کا زمانہ ہی ہے۔ دعا کا زمانہ بھی نوجوانی کا زمانہ ہی ہے۔ ہر اہم کام کا زمانہ، نوجوانی کا زمانہ ہے۔
اخلاقی تربیت اور اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اخلاق کے مسئلے اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ ان کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔ حالانکہ یہ مستقبل کی نسل کے تئیں غفلت اور تساہلی ہے۔ اخلاقی تربیت، اخلاقی تعلیم کو مسلط کرنا نہیں ہے۔ اخلاقی تعلیمات کو مسلط کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اسلام نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا ہے اور یہ نہیں چاہا ہے۔ دباؤ اور زور زبردستی سے کام لیکر اخلاقی تعلیمات مسلط کرنے سے لوگ ریاکار، مکار اور منافق ہو جاتے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن تربیت بہت اہم ہے۔ صحیح طریقے سے تربیت کے ذریعے نوجوانوں کو دیندار بنانا چاہئے۔ بنیادی ہدف یہ ہونا چاہئے کہ نوجوان دیندار، دین پر یقین رکھنے والے، اسلامی اخلاق اور ان صفات کے مالک ہوں جو اسلام کی نگاہ میں انسانوں کی پسندیدہ صفات ہیں۔
خود سازی کی روش امیر المومنین حضرت علی ( علیہ السلام) کے اس ارشاد گرامی سے کہ ” من نصب نفسہ اماما فلیبدا بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ” بالکل واضح ہے کہ (اصلاح کی) ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہئے۔ ہمیں خود اپنے اور پہلے توجہ دینا چاہئے۔ خودسازی کا پہلا اور اہم ترین قدم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو، اپنے اخلاق کو اور اپنے کردار کو تنقیدی نگاہ سے دیکھے۔ اپنے عیوب کو دیکھے، ان پر غور کرے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام ہم خود ہی کر سکتے ہیں اور یہ ذمہ داری خود ہمارے کندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی حفاظت کرنا چاہئے، اپنی لغزشوں کو کم کرنا چاہئے اور اس کام میں خدا سے مدد مانگنا چاہئے۔
اپنی بداخلاقیوں اور بری صفات کا پتہ لگائیں۔ یہ مجاہدت کا دشوار حصہ ہے۔ خود پسندی و خود ستائی میں مبتلا نہ ہوں۔ اپنے عیوب کو دیکھیں اور ان کی فہرست اپنے سامنے رکھیں۔ کوشش کریں کہ اس فہرست میں مسلسل کمی آئے۔ اگر حاسد ہیں تو( اپنے اندر) حسد کو ختم کریں، اگر ضدی ہیں تو ضد کو ختم کریں، اگر کاہل اور سست ہیں تو کاہلی اور سستی کو ختم کریں، اگر دوسروں کا برا چاہتے ہیں اور بدخواہ ہیں تو بدخواہی کو دور کریں، اگر اپنے اندر وعدہ خلافی پائی جاتی ہو تو وعدہ خلافی کو دور کریں اور اگر عہد شکنی پائی جاتی ہو تو عہد شکنی اور بے وفائی کو ختم کریں۔ اس سلسلے میں مجاہدت کرنے والوں کی خداوندعالم مدد کرے گا۔ خداوند عالم کمال تک پہنچنے کے لئے جاری مجاہدت میں انسان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا ہے۔ اس مجاہدت کا فائدہ سب سے پہلے خود مجاہدت کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ نفس سے جہاد، نفس کی اصلاح اور راہ خدا میں اپنے باطن کے اندر مجاہدت کا فائدہ، جو جہاد اکبر ہے، خود اس فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کے حالات، سیاسی حالات، بین الاقوامی حالات، اقتصادی حالات، حالات زندگی ( ہرجگہ اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں) مختصر یہ کہ اس طریقے سے عوام کی دنیا و آخرت دونوں سنور جاتی ہے۔
نفس کی پاکیزگی، انہیں مختصر جملوں سے ہو سکتی ہے؛ خدا پر توجہ، خدا سے الفت، ہر اقدام سے پہلے سوچنا، دنیا کے تمام اچھے لوگوں اور خدا کے تمام مخلص بندوں سے محبت اور سب کی بھلائی چاہنا۔
خود سازی کی کوئی انتہا نہیں ہے اسلام اور عالم خلقت کے بارے میں خدائی نظریہ، انسانوں کو یہ سکھاتا ہے کہ راہ کمال میں کہیں رکنا نہیں چاہئے اور کسی بھی منزل پر قناعت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ (کمالات کی سمت پیش قدمی) انسانی فطرت میں شامل ہے اور اس کی سرشت میں یہ بات رکھی گئي ہے۔ اس کو ہر روز پہلے سے زیادہ ترقی اور بلندی حاصل کرنی چاہئے۔ انسان کو چاہئے کہ انفرادی مسائل میں بھی جو انسان اور خدا کے درمیان کے مسائل ہیں، روز بروز زیادہ لطیف، زیادہ بلند، زیادہ پرہیزگار، خدا کے بتائے ہوئے صفات سے زیادہ متصف ہو اور اپنے دامن کو برائیوں، بے راہروی اور گمراہی سے زیادہ پاک رکھے۔
انسان ایک خام مادہ ہے، اگر اس نے اپنے اوپر کام کیا اور اس خام مادے کو برتر شکلوں میں تبدیل کر سکا تو اس نے زندگی میں اپنا لازمی کام انجام دیا اور یہی مقصد حیات ہے۔ مصیبت ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنے اوپر علم و عمل کے لحاظ سے کام نہ کریں اور جس طرح اس دنیا میں آئے ہیں، اسی طرح بلکہ بوسیدگیوں، تباہیوں، خرابیوں اور برائیوں کے ساتھ جو زندگی میں انسان کو لاحق ہوتی ہیں، اس دنیا سے جائیں۔ صاحب ایمان کو مستقل طور پر اپنے اوپر کام کرنا چاہئے۔ جو اپنا خیال رکھے، اپنے آپ پر نظر رکھے، ممنوعہ اور حرام کام نہ کرے اور پوری توجہ کے ساتھ راہ خدا پر چلے وہ کامیاب ہے۔ یہ دائمی خود سازی ہے اور اسلام کا دستورالعمل اسی مستقل خودسازی کے لئے ہے۔ یہ نماز پنجگانہ، پانچ وقت نماز پڑھنا، ذکر خدا، “ایاک نعبد وایاک نستعین” کی تکرار، رکوع کرنا، سجدہ کرنا، خدا کی حمد و ثنا کرنا، اس کی تسبیح و تہلیل کرنا کس لئے ہے؟ اس لئے ہے کہ انسان مستقل طور پر خودسازی کرتا رہے۔
تزکیہ ” قد افلح من تزکی” یعنی جو خود کو پاکیزہ بنائے، اپنے دامن، روح اور دل کو برائیوں سے پاک کرے، وہ فلاح پا گیا۔ فلاح یعنی ہدف زندگی اور مقصد تخلیق تک پہنچنے میں کامیابی۔
انسان کو نجات یہی پاکیزگی دلاتی ہے۔ جو چیز انسان کو مصیبتوں میں مبتلا کرتی ہے وہ برائیوں میں پڑنا ہے، اخلاقی برائیوں میں، ان برائیوں میں جو نفسانی خواہشات اور غصے سے وجود میں آتی ہیں، ان برائیوں میں جو لالچ ، بخل اور دیگر برے اخلاقی صفات سے وجود میں آتی ہیں (گرفتار ہونا ہے)۔ انسانوں اور افراد بشر نے انہیں برے اخلاقی صفات سے دنیا کو سیاہ و تاریک کیا، زمین پر برائیاں پھیلائیں اور خدا کی نعمت کا کفران کیا ہے۔
اگر دنیا ظلم و جور سے پر ہے، اگر سامراجی طاقتیں دنیا والوں پر زیادتی اور ظلم کر رہی ہیں ، اگر بہت سی اقوام اپنی خاموشی سے اپنے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کے اسباب فراہم کرتی ہیں، اگر بہت سی حکومتیں اپنے ہی عوام پر ظلم روا رکھتی ہیں، اگر غربت، جہالت اور بد تہذیبی ہے، اگر خانماں سوز جنگیں ہیں، اگر کیمیائی بم ہیں، اگر ستم و جارحیت، جھوٹ اور فریب ہے، تو یہ سب انسان کے پاکیزہ نہ ہونے اور اس بات کا نتیجہ ہے کہ انسانوں نے اپنا تزکیہ اور خوسازی نہیں کی۔
تزکیہ سے مراد کیا ہے؟ تزکیہ سے مراد لوگوں کو پاکیزہ بنانا، طاہر بنانا اور سنوارنا ہے۔ اس طبیب کی طرح جو اپنے مریض سے صرف یہ نہیں کہتا کہ یہ کام کرو اور یہ کام نہ کرو بلکہ اس کو مخصوص جگہ رکھتا ہے اور جو کچھ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے اس کو دیتا ہے، کھلاتا ہے اور جو اس کے لئے مضر ہوتا ہے اس سے پرہیز کراتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے اپنی نبوت کے تیئیس برسوں کے دوران اور خاص طور پر مدینے کی زندگی اور اسلامی حکومت کے دس برسوں میں اسی اصول اور روش پرعمل کیا ہے۔
تزکیہ کی مشق تمام عبادات اور شرعی فرائض جن کی انجام دہی کا ہمیں اور آپ کو حکم دیا گیا ہے، درحقیقت اسی تزکیہ اور تربیت کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک مشق ہے تاکہ ہم کامل ہو جائیں۔ جس طرح اگر ورزش نہ کی جائے تو آپ کا جسم ضعیف، کمزوراور ناتواں ہو جاتا ہے اور جسم کو خوبصورت، سڈول، توانا، طاقتور اور گوناگوں صلاحیتوں کا مالک بنانا ہو تو ورزش کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح نماز ، روزہ، خدا کی راہ میں خرچ کرنا ( خدا کی خوشنودی کے لئے ضرورتمندوں کی مدد کرنا) جھوٹ نہ بولنا اور انسانوں کی بھلائی چاہنا بھی ایک ورزش ہے۔ ان ورزشوں سے روح خوبصورت، طاقتور اور کامل ہوتی ہے۔ اگر یہ ورزشیں نہ کی جائیں تو ممکن ہے کہ بظاہر ہم بہت اچھے نظر آئیں لیکن باطن میں ہم ناقص، حقیر، کمزور اور ناتواں ہوں گے۔
اخلاق کی اصلاح ایک حدیث میں حضرت امام زین العابدین علیہ الصلوات والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ” ابن آدم لا تزال بخیر ما کان لک واعظ من نفسک” اے اولاد آدم تیرا حال، تیری حالت، تیرے ایام اور تیرا راستہ اس وقت تک اچھا رہے گا جب تک تو خود اپنے نفس کو وعظ و نصیحت کرتا رہے گا۔ کوئی تیرے باطن میں تجھے نصیحت کرے، تیرا دل، تیری عقل، تیرا ضمیر، تیرا ایمان تجھے نصیحت کرے۔ دوسروں کی نصیحت مفید ہے لیکن اس سے زیادہ مفید یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو نصیحت کرے۔ “ما کان لک واعظ من نفسک وما کانت المحاسبۃ من ھمک” جب تک تمہارے اندر نصیحت کرنے والا ہے اور جب تک تم خود اپنا محاسبہ کرتے رہوگے ۔ انسان کا اپنا محاسبہ دوسروں کے محاسبے سے زیادہ دقیق ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ انسان خود سے کچھ چھپا نہیں سکتا۔ “وماکان الخوف لک شعارا والحزن لک دثارا” جب تک خوف خدا تمہارا شعار اور عذاب الہی کا خوف اور احتیاط تمہارا لباس رہے گا، اس وقت تک تم اچھے بنے رہوگے۔ یعنی خدا سے ڈرتے رہو اور عذاب و غضب الہی کو نظر میں رکھو اور خیال رکھو کہ تم سے کوئی ایسی لغزش نہ ہو جو اس بات کا باعث بنے کہ خدا تم سے غضبناک ہو۔ اگر ان چند باتوں کاخیال رکھو گے یعنی خود کو وعظ و نصیحت کرتے رہوگے ، خود اپنا محاسبہ کرتے رہوگے اور عذاب و قہر خدا سے ڈرتے رہوگے اچھائی اور نیکی میں رہوگے۔ تمہاری دنیا بھی اچھی رہے گی اور آخرت بھی اچھی رہے گی۔ تمہارا کردار بھی اچھا رہے گا اور تمہاری زندگی بھی اچھی رہے گی۔ تمہارے اندر بے چینی اور برائی نہیں رہے گی اور زندگی بہت اچھی رہے گی۔
تعلیم پر تزکیہ کا تقدم تعلیم، تزکیہ سے مختلف ہے۔ اگرچہ تعلیم صحیح اور درست ہو تو تزکیہ بھی لاتی ہے لیکن تزکیہ ایک الگ چیز ہے۔
یہ خیال کہ جو بھی میدان علم میں اترا اس کو کمالات، دینداری اور اخلاق کی باتوں کا خیال نہیں رکھنا چاہئے، بالکل غلط اور باہر سے آئی ہوئی فکر ہے جو عیسائی یورپ میں وجود میں آئی تھی اور اسلامی فضا اور اسلامی مفاہیم و تعلیمات کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اگر دانشور صاحب فضیلت اور بااخلاق ہو تو اس سے ہر میدان میں بشریت اور اپنے ملک کی بلندی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ایسا دانشور اہم اہداف کو اپنا مقصد قرار دےگا اور اس کے کام، انسانیت، مساوات اور فضیلت سے ہم آہنگ اور آج کی دنیا کی عجیب و غریب بے سروسامانی کے خلاف ہوں گے۔
آسان اور مشکل روحانی خود سازی آسان اور مشکل دونوں ہے۔ ایک لحاظ سے آسان اور ایک لحاظ سے مشکل ہے۔ آسان ہے اس لئے کہ یہ ایک وسیع وادی کی مانند ہے جس میں ہر طرف سے داخل ہوا جا سکتا ہے اور نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مشکل ہے اس لئے کہ ہر قدم پر شیطان ہیں جو انسان کے اندر وسوسہ پیدا کرتے ہیں، لہذا مزاحمت کرنا چاہئے۔
اخلاقی سلامتی سلامتی اور امن و امان صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی کسی کا بیگ نہ چرائے، یا کسی کی دکان میں ڈاکہ نہ ڈالے یا کسی کے گھر میں چوری نہ کرے۔ ان چیزوں کے علاوہ، اخلاقی سلامتی بھی اہم ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ اخلاقی بد امنی یہ ہے کہ لوگ معاشرے میں، سڑک اور گلی کوچوں میں اپنے اعتقادات، دین اور ایمان کے مطابق آسودہ خاطر ہوکر، بغیر کسی تشویش کے عمل نہ کر سکیں اور ایسے مناظر کا سامنا کریں کہ جن سے ان کے دینی جذبات مجروح ہوں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جب ان کے نوجوان گھر سے باہر نکلیں اور واپس آئیں اور معاشرے کے ماحول سے دوچار ہوں تو ان کے اذہان پر برے اور ناپسندیدہ اخلاقی اثرات مرتب نہ ہوں ۔
http://urdu.khamenei.ir/index.php?option=com_content&task=view&id=940&Itemid=172
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید