تازہ ترین

دعا؛ اﷲ کی نعمتِ عُظمٰی، مومن کا ہتھیار

تحریر: سید حامد علی شاہ رضوی قم ایران

قرآنِ مجید میں اﷲ ربُ العزّت اپنے بندوں کو متوجہ کرتے ہوئے اس امر کا یقین دلاتا ہے کہ ’’جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں‘‘ (سورہ البقرۃ 186)

’’اور تمہارا رب کہتا ہے مجھ کو پکارو تاکہ پہنچوں تمہاری پکار کو‘‘ (سورۃ مومن 60)

دعا اﷲ کی عظیم نعمت اور اپنے بندوں پر احسان ہے، جو عبد کو معبود سے مربوط کردیتی ہے۔ دعا مایوسی میں امید کی کرن ہے۔ جب امید کے تمام دریچے بند ہو جاتے ہیں تو دعا ہی مایوسی کے اندھیروں میں چراغ اور انسان ایک ایسی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے، جس سے روح کو تازگی اور سکون ملتا ہے۔ زمانے کے بے رحم تھپیڑوں میں تحفظ کا احساس اور ظلم و جبر سے ٹکرانے کا حوصلہ ملتا ہے۔ دعا ہی وہ آستانہ ہے، جس میں اﷲ کے اولیاء کو نہ کسی زبردست کا خوف ہوتا ہے اور نہ انہیں کوئی حزن و ملال۔ خداوندِ عالم نے قرآن مجید میں دعا کے کچھ راہ نما اصول بھی سکھادیے۔

شئیر
26 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1529

 

دعا مانگو گڑگڑا کر اور خاموشی سے، دعا مانگو اﷲ سے ڈرتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے (سورہ الاعراف)

گویا دعا اﷲ سے راز و نیاز کا ذریعہ ہے۔ ہادی برحق رسول خدا ؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا عاجزترین شخص وہ ہے جو دعا سے عاجز ہو۔ باب مدینۃالعلم امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالبؓ کا فرمان ہے کہ ’’خدائے عزوجل کے نزدیک اہل زمین کے تمام اعمال میں محبوب ترین دعا ہے‘‘۔

دعا کے جو راہ نما اصول قرآن اور مشاہیرِ اسلام نے بتائے اس کی عملی تفسیر دیکھنی ہو تو صحیفۂ کاملہ جو صحیفۂ سجادیہ کے نام سے بھی مشہور ہے، میں نظر آئے گی، جو خانوادہ اہل بیتؓ کے عظیم فرد اور نواسہ رسول الثقلین حضرت امام حسینؓ کے فرزند حضرت امام علی ابن الحسینؓ المعروف امام زین العابدینؓ کی بتائی ہوئی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔

جب کوئی چھوٹا کسی بڑے سے درخواست کرتا ہے تو اسے اپنے جذبات، کیفیت اور مدعا کے ساتھ بزرگ کی شان کے اظہار کے لیے الفاظ کی تلاش ہوتی ہے۔ اﷲ سے مانگنے کا انداز اور درس امام زین العابدینؓ کی دعاؤں اور مناجات کے مجموعہ ’’صحیفۂ سجادیہ‘‘ سے ملتا ہے۔ اس عظیم کتاب میں مذکور دعائیں حُسنِ بلاغت، کمالِ فصاحت کا شاہ کار ہیں۔ صحیفۂ سجادیہ ایسی مناجات اور راز و نیاز پر مشتمل ہے، جو ایک انسان اپنی زندگی کی مشکلات کے بحران میں اپنے خدا سے تنہائی میں بیان کرتا ہے۔

ان دعاؤں اور مناجات سے پروردگار کی عظمت و قدرت کے سامنے انسان کی عاجزی و ناتوانی کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ عجز و انکساری پر مشتمل الفاظ و عبارات اﷲ سے طلب حاجت کا ذریعہ ہی نہیں، انسان کی روحانی تربیت کا بھی وسیلہ ہیں۔ امام زین العابدینؓ ان ہستیوں میں شامل ہیں، جنہیں عبادت گزاروں کی زینت کہا گیا۔ آپؓ کی تعلیم کردہ دعائیں گناہ گار انسانوں کے لیے درسِ ہدایت کا بہترین اور موثرترین ذریعہ ہیں۔ یہ دعائیں فکرِِ انسان کو پرواز کا طریقہ سکھاتی اور عقلِِ انسانی کو شعور و ادراک کی دولت عطا کرتی ہے۔ یہ دعائیں بندگانِ خدا کے لیے ہدایت ہیں، جن کو سمجھنے والا دانائے راز، عارف اور صاحبِ بصیرت بن جاتا ہے۔

صحیفۂ سجادیہ بارگاہ الہی میں مناجات کا مجموعہ ہونے کے ساتھ اسلامی علوم و معارف کا بیش بہا خزانہ ہے۔ اگر صحیفۂ کاملہ سجادیہ کی دعاؤں کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ ان میں اسرار الٰہی پوشیدہ ہیں۔ حضرت امام سجادؓ نے دعا اور مناجات کے ضمن میں بہت ہی مختصر الفاظ میں زندگی کے عظیم حقائق کو بیان کیا ہے۔ آپؓ نے دعا و مناجات کے انداز میں ایسے بہت سے مسائل کو بیان کیا ہے، جو انسان کی زندگی میں بنیادی کردار رکھتے ہیں، اور جو انسانی سماج اور زندگی کے لیے بہترین درس ہیں۔ اس بنا پر صحیفۂ کاملہ کی دعائیں منارِنور اور معارف کا ایک بے کراں سمندر ہیں۔

دیکھیے امامؓ، دشمن کے مکر و فریب سے بچنے کی دعا میں کس منفرد انداز میں ایک گناہ گار کو عاجزی و انکساری کے ساتھ منعمِ حقیقی کے سامنے مناجات پیش کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں کہ

’’اے میرے معبود، ایک گنہ گار تیری ہی طرف بھاگ کر آتا ہے اور ایک التجا کرنے والا جو اپنے حظ و نصیب کو ضایع کرچکا ہو، تیرے ہی دامن میں پناہ لیتا ہے۔ اے اﷲ جو تیرے سایہ حمایت میں پناہ لے گا وہ شکست خوردہ نہیں ہوگا اور جو تیرے انتقام کی پناہ گاہ محکم میں پناہ گزیں ہوگا و ہ ہراساں نہیں ہوگا۔ چناںچہ تو نے اپنی قدرت سے ان کی شدت و شرانگیزی سے مجھے محفوظ کردیا۔

اور کتنے ہی مصیبتوں کے ابر ( جو میرے افق زندگی پر چھائے ہوئے ) تھے تو نے چھانٹ دیے اور کتنی ہی رحمت کی نہریں بہادیں اور کتنے ہی صحت و عافیت کے جامے پہنادیے اور کتنی ہی آلام و حوادث کی آنکھیں (جو میری طرف اٹھی ہوئی تھیں) تو نے بے نور کر دیں اور کتنے ہی غموں کے تاریک پردے (میرے دل پر سے) اٹھا دیے اور کتنے ہی اچھے گمانوں کو تو نے سچ کر دیا اور کتنی ہی تہی دستیوں کا تو نے چارہ کیا اور کتنی ہی ٹھوکروں کو تو نے سنبھالا اور کتنی ہی ناداریوں کو تو نے (ثروت سے) بدل دیا۔

بارالہا! یہ سب تیری طرف سے انعام و احسان ہے اور میں ان تمام واقعات کے باوجود تیری معصیتوں میں ہمہ تن منہمک رہا۔ (لیکن) میری بداعمالیوں نے تجھے اپنے احسانات کی تکمیل سے روکا نہیں اور نہ تیرا فضل و احسان مجھے ان کاموں سے جو تیری ناراضی کا باعث ہیں، باز رکھ سکا اور جو کچھ تو کرے اس کی بابت تجھ سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔

تیری ذات کی قسم! جب بھی تجھ سے مانگا گیا تو نے عطا کیا اور جب نہ مانگا گیا تو تُونے ازخود دیا۔ اور جب تیرے فضل و کرم کے لیے جھولی پھیلائی گئی تو تُونے بخل سے کام نہیں لیا۔ اے میرے مولا و آقا! تُونے کبھی احسان و بخشش اور تفضل و انعام سے دریغ نہیں کیا۔ اور میں تیرے محرمات میں پھاندتا، تیرے حدود و احکام سے متجاوز ہوتا اور تیری تہدید و سرزنش سے ہمیشہ غفلت کرتا رہا۔ اے میرے معبود! تیرے ہی لیے حمد ستائش ہے، جو ایسا صاحبِ اقتدار ہے جو مغلوب نہیں ہوسکتا۔ اور ایسا بردبار ہے، جو جلدی نہیں کرتا۔ یہ اس شخص کا موقف ہے جس نے تیری نعمتوں کی فراوانی کا اعتراف کیا ہے اور ان نعمتوں کے مقابلے میں کوتاہی کی ہے اور اپنے خلاف اپنی زیاں کاری کی گواہی دی ہے۔

اے میرے معبود! میں محمدؐ کی منزلتِ بلند پایہ اور علیؓ کے مرتبۂ روشن و درخشاں کے واسطے سے تجھ سے تقرّب کا خواست گار ہوں اور ان کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوں تا کہ مجھے ان چیزوں کی برائی سے پناہ دے، جن سے پناہ طلب کی جاتی ہے اس لیے کہ یہ تیری تونگری و وسعت کے مقابلے میں دشوار اور تیری قدرت کے آگے کوئی مشکل کام نہیں ہے اور تُو ہر چیز پر قادر ہے لہٰذا تُو اپنی رحمت اور دائمی توفیق سے مجھے بہرہ مند فرما کہ جسے زینہ قرار دے کر تیری رضامندی کی سطح پر بلند ہوسکوں اور اس کے ذریعے تیرے عذاب سے محفوظ رہوں۔ اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے‘‘۔

اﷲ سے پناہ کی دعا امام زین العابدینؓ نے یوں تعلیم فرمائی کہ ’’بارِالہا! اگر تُو چاہے کہ ہمیں معاف کر دے تو یہ تیرے فضل کے سبب سے ہے اور اگر تُو چاہے کہ ہمیں سزا دے تو یہ تیرے عدل کی رُو سے ہے۔ تُو اپنے شیوۂ احسان کے پیشِ نظر ہمیں پوری معافی دے اور ہمارے گناہوں سے درگزر کرکے اپنے عذاب سے بچالے۔

اس لیے کہ تیرے عدل کی تاب نہیں ہے۔ اورتیرے عفو کے بغیر ہم میں سے کسی ایک کی بھی نجات نہیں ہوسکتی۔ اے بے نیازوں کے بے نیاز! ہاں تو پھر ہم سب تیرے بندے ہیں جو تیرے حضور کھڑے ہیں اور میں سب محتاجوں سے بڑھ کر تیرا محتاج ہوں۔ لہٰذا اپنے بھرے خزانے سے ہمارے فقر و احتیاج کو بھردے، اور اپنے دروازے سے رد کرکے ہماری امیدوں کو قطع نہ کر۔ ورنہ جو تجھ سے خوش حالی کا طالب تھا وہ تیرے ہاں سے حرماں نصیب ہوگا اور جو تیرے فضل سے بخش و عطا کا خواست گار تھا، وہ تیرے در سے محروم رہے گا۔ تو اب ہم تجھے چھوڑ کر کس کے پاس جائیں اور تیرا در چھوڑ کر کدھر کا رخ کریں، تو اب اپنی بارگاہ میں ہماری تضرع و زاری پر رحم فرما اور جب کہ ہم نے اپنے کو تیرے آگے (خاکِ مذلت پر) ڈال دیا ہے تو ہمیں (فکر و غم سے) نجات دے‘‘۔

مختصر یہ کہ صحیفۂ سجادیہ کی دعائیں تاریک دلوں میں اجالے بکھیرتی اور زنگ آلود ضمیر میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ آج اسلام اور اہلِ اسلام جو ایک خوف ناک سازش اور بحران در بحران سے دوچار اور سرفرازی کے طلب گار ہیں کو دعاؤں کا سہارا لینا ہوگا کیوںکہ جب راہ بر، راہ زن بن جائیں، خوف کے بادل چھا رہے ہوں اصلاح کی تدبیریں کارگر نہ ہو رہی ہوں، مایوسیوں کا دور دورہ ہو تو ہمیں دعاؤں سے مدد لینی چاہیے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *