تازہ ترین

علی کی شیر دل بیٹی

تحریر: محمد جان حیدری جب رسول خدا (ص) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے کیا دیکھا […]

شئیر
91 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2049

تحریر: محمد جان حیدری

جب رسول خدا (ص) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے کیا دیکھا کہ رسول خدا (ص) بلند آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔ جناب فاطمہ (س) نے آپ سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا “بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی۔” کتب تاریخی میں شریکۃ الحسین کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ھاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، کاملہ، عاقلہ، عابدہ، زاھدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء۔

عالمہ غیر معلمہ کا بچپن معصومین کی زیرنگرانی رہا۔ آپکی خوش قسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی ماں سیدہ نساءالعالمین حضرت فاطمہ (س) ہیں، وہ فاطمہ جو دختر رسول ہے، جس کی رضا میں خدا راضی اور جسکے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے۔ وہ فاطمہ جو بضعۃ الرسول ہے، جو خاتون جنت ہے، وہ فاطمہ کہ جس کی عبادت پر پروردگار مباہات فرماتا ہے، وہ فاطمہ جس کی چکی جبرئیل علیہ السلام چلاتے ہیں۔ اگر باپ کو دیکھیں تو حیدر کرار جیسا باپ ہے، آپ نے امام علی (ع) جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پائی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کے لئے “اسوہ حسنہ” ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔ لہذٰا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا (ص)، امام علی (ع) اور فاطمہ زہرا (س) جیسی بےمثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کس قدر بہترین اور مقدس ماحول میں ہوئی۔

آپ کی شادی 17 ہجری میں آپ کے چچازاد بھائی عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے، جن کے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔ (البتہ آپکی اولاد کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے) کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بےمثال واقعہ ہے۔ لہذٰا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین (ع) اور ان کے جانثاروں نے ایک مقدس اور اعلٰی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی، لیکن اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام قربانیان ضائع ہو جاتیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، “کربلا در کربلا می ماند گر زینب نبود۔” لٰہذا اگر ہم آج شہدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہا کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔

بلاشبہ اسی وجہ سے انہیں “شریکۃ الحسین” کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کی راہ میں جہاد کیا تو شریکۃ الحسین سلام اللہ علیہا نے اپنے کلام اور اپنے خطبات کے ذریعے اس جہاد کو اس کی اصلی منزل تک پہنچایا۔ کربلا میں سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اس کے مخالفین کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا ہے، لیکن نائبۃ الحسین سلام اللہ علیہا کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہوگیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اس کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے، یزید کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اور حسین آج بھی زندہ ہے۔

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:

آفتاب در مصاف۔ رھبر معظم انقلاب

زینب کبریٰ ولادت سے شھادت تک۔ آیت اللہ کاظم قزوینی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *