تازہ ترین

نبی اکرم(ص) کی حسین بن علی(ع) سے محبت

حضرت رسول خدا (ص) اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

شئیر
48 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2146

 ۱۔جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول کا فرمان ہے :’’من اراد ان ینظرالیٰ سید شباب اھل الجنۃ فلینظرالیٰ الحسین بن علی ‘‘۔’’جوشخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چا ہتا ہے وہ حسین بن علی کے چہرے کو دیکھے‘‘۔

۲۔ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ (ص)امام حسین ؑ کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :’’اللھم انی احِبُّہ فاحبّہ  ‘‘۔’’پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ‘‘۔

۳۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ہم نبی اکرم (ص) کے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین ؑ سکوں سے کھیل رہے ہیں تو آپ نے کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ امام ؑ کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارہے تھے اور کہتے جا رہے تھے، بیٹا ادھر آؤ ادھرآؤیہاں تک کہ آپ نے امام حسین ؑ کو اپنی آغوش میں لے لیاایک ہاتھ ان کی ٹھڈی کے نیچے رکھا اور دوسرے سے سر پکڑ کر ان کے بوسے لئے اور فرمایا:’’حسین منی وانامن حسین،احب اللّٰہ من احب حسینا،حسین سبط من الاسباط ‘‘۔’’حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں خدایاجو حسین ؑ محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین ؑ بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ‘‘

یہ حدیث نبی اکرم (ص) اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان عمیق رابطہ کی عکا سی کرتی ہے، لیکن اس حدیث میں نبی کا یہ فرمان کہ ’’حسین منی ‘‘حسین مجھ سے ہے ‘‘اس سے نبی اور حسین ؑ کے مابین نسبی رابطہ مراد نہیں ہے چونکہ اس میں کو ئی فا ئدہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی گہری اور دقیق بات ہے کہ حسین ؑ نبی کی روح کے حا مل ہیں وہ معاشرۂ انسا نی کی اصلاح اور اس میں مسا وات کے قا ئل ہیں۔لیکن آپ کا یہ فرمان:’’وانا من حسین ‘‘’’اور میں حسین سے ہوں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربا نی دے کر رہتی تاریخ تک اسلام کو زندۂ جا وید کریں گے ، لہٰذا حقیقت میں نبی حسین ؑ سے ہیں کیونکہ امام حسین ؑ نے ہی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رہا ئی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ہلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ہتے تھے ، امام حسین ؑ نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔

۴۔سلمان فارسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ہوا تو امام حسین ؑ آپ کی ران پر بیٹھے ہوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منھ ملتے ہوئے فر ما رہے تھے :’’انت سیدُ بْنُ سَیَّد،انت امام بن امام  ،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَءِمَۃِ،وَاَنْتَ حُجَّۃُ اللّٰہِ وَابْنُ حُجَّتِہِ،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَۃٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُھُمْ قَاءِمُھُمْ ‘‘۔’’آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ہیں جن کا نواں قا ئم ہوگا ‘‘۔ 

۵۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین ؑ کو بٹھا ئے لئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا : ’’نِعم المرکب رکبت یاغلام ،فاجا بہ الرسول :’’ونعم الراکب ھُوَ ‘‘۔’’کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ہوئے ہے، رسول اللہ (ص) نے جواب میں فرمایا:’’یہ سوار بہت اچھا ہے ‘‘۔

۶۔رسول اللہ کا فرمان ہے :’’ھذا(یعنی :الحسین ؑ )امام بن امام ابوائمۃٍ تسعۃٍ ‘‘۔’’یہ یعنی امام حسین ؑ امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں‘‘۔

۷۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکرم (ص) عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زہراؑ کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین ؑ کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ہوگئے اور جناب فاطمہ ؑ سے فر مایا:’’اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَاءَہُ یُوْذِیْنِیْ؟‘‘۔’’کیا تمھیں نہیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہو تی ہے ‘‘۔

یہ وہ بعض احادیث تھیں جو رسول اسلام (ص) نے اپنے بیٹے امام حسین ؑ سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرمائی ہیں یہ شرافت و کرامت کے تمغے ہیں جو آپ ؑ نے اس فرزند کی گردن میں آویزاں کئے جو بنی امیہ کے خبیث افراد کے حملوں سے آپ ؑ کے اقدار کی حفاظت کر نے والا تھا ۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *