معاشرے میں عورت کا کردار اور حقوق
پہلا باب: معاشرے میں عورت کا کردار
انسانی معاشرے میں عورت کا کردار
عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوا کھ عورتوں کا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم زمانے سے ہی معاشروں میں مفکرین کی سطح پر اسی طرح مخلتف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں اس پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔
عورت کے سلسلے میں منطقی نقطہ نظر
عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کھ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟
صنف نسواں پر تاریخی ظلم
پوری تاریخ میں مختلف معاشروں میں عورتوں کے طبقے پر ظلم ہوا ہے۔ یہ انسان کی جہالت کا نتیجہ ہے۔ جاہل انسان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے سر پر کوئی سوار نہیں ہے اور کوئی طاقت اس کی نگرانی نہیں کر رہی ہے، خواہ یہ نظارت انسان کے اندر سے ہو جس کا اتفاق بہت کم ہی ہوتا ہے یعنی قوی جذبہ ایمانی، اور خواہ باہر سے ہو یعنی قانون، اگر قانون کی تلوار سر پر لٹکتی نہ رہے تو اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ طاقتور، کمزور کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو اس کی شان و شوکت حاصل ہونا چاہئے، عورت ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بہت ہی بری چیز ہے۔ خواہ وہ زیادتی ہو جو عورت پر کی جاتی ہے اور اسے زیادتی کہا بھی جاتا ہے اور خواہ وہ زیادتی ہو کھ جسے سرے سے زیادتی سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ فی الواقع وہ ظلم ہے، زیادتی ہے۔ مثلا یہی بننا سنورنا، واہیات میک اپ اور اسے استعمال کی چیز بنا دینا۔ یہ عورت پر بہت بڑا ظلم اور سراسر زیادتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عورت کے حق میں سب سے بڑی نا انصافی ہے کیونکہ یہ چیز اسے ارتقاء اور کمال کے تمام اہداف اور امنگوں سے غافل اور منحرف کرکے انتہائی بے وقعت اور گھٹیا چیزوں میں مشغول کر دیتی ہے۔
دنیا میں عورت کا مسئلہ
انسان نے اپنے تمام تر دعوؤں کے باجود، اپنی تمام تر پر خلوص اور ہمدردانہ مساعی کے باوجود، عورت کے سلسلے میں انجام دئے جانے والے علمی و ثقافتی کاموں کے باوجود ہنوز دونوں صنفوں بالخصوص صنف نازک کے بارے میں کوئی صحیح راستہ منتخب اور طے کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔
دوسرے لفظوں میں، زیادہ روی، کجروی اور غلط نتائج نکالنے اور پھر اسی بنا پر زیادتی، نا انصافی، ذہنی امراض، خاندان سے متعلق مسائل، دونوں صنفوں کے روابط اور میل ملاپ سے متعلق مشکلات آج بھی انسانی معاشرے میں لا ینحل باقی ہیں۔ یعنی جس انسان نے مادی شعبوں میں، فلکیات کے میدان میں، سمندروں کی گہرائیوں میں اتر کر بے شمار دریافتیں کیں اور جو نفسیات کی مو شگافی اور سماجی و معاشی امور میں باریک بینی کا دم بھرتا ہے، اور حقیقت میں بھی بہت سے میدانوں میں اس نے ترقی کی ہے، اس (عورت کے) مسئلے میں ناکام رہا ہے۔
عورت کے سماجی وقار میں حجاب کا کردار
مکتب اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب اور حد بندی قائم کی گئی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی دنیا مردوں کی دنیا سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ نہیں عورتیں اور مرد معاشرے میں اور کام کی جگہوں پر ایک ساتھ ہوتے ہیں ہر جگہ ان کو ایک دوسرے سے کام پڑتے ہیں۔ سماجی مسائل کو مل جل کر حل کرتے ہیں، جنگ جیسے مسئلے کو بھی باہمی تعاون و شراکت کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں اور ایسا انہوں نے کیا بھی ہے، کنبے کو مل جل کر چلاتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرتے ہیں لیکن گھر اور خاندان کے باہر اس حد بندی اور حجاب کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ اسلامی طرز زندگی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہی فحاشی پھیلے گی جس میں آج مغرب مبتلا ہے۔ اگر اس نکتے کا خیال نہ رکھا جائے تو عورت اقدار کی سمت اپنی پیش قدمی کو جو آج ایران میں نظر آ رہی ہے، جاری نہیں رکھ سکے گی۔
حجاب کا مطلب عورت کو سب سے الگ تھلگ کر دینا نہیں ہے۔ اگر حجاب کے سلسلے میں کسی کا یہ نظریہ اور تصور ہے تو یہ سراسر غلط نظریہ ہے۔ حجاب تو در حقیقت معاشرے میں مرد اور عورت کو ضرورت سے زیادہ اختلاط سے روکنا ہے۔ ضرورت سے زیادہ قربت معاشرے، مرد اور عورت دونوں بالخصوص عورت کے لئے تباہ کن نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ حجاب کو ملحوظ رکھنے سے عورت کو اپنے اعلی روحانی مقام پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے اور وہ سر راہ موجود نازک موڑ پر لغزش سے محفوظ رہتی ہے۔
عورتوں کے دفاع کے سلسلے میں کیا جانے والا ہر اقدام بنیادی طور پر عورت کی عفت و پاکیزگی کی حفاظت پر مرکوز ہونا چاہئے۔ عورت کی عفت و پاکیزگی فی الواقع دوسروں کی نظر میں حتی خود شہوانی خواہشات میں غرق انسانوں کی نظر میں عورت کا احترام اور وقار قائم کرتی ہے۔ اسلام عورت کی عفت و پاکدامنی پر خاص تاکید کرتا ہے۔ البتہ مردوں کی پاکدامنی بھی ضروری چیز ہے۔ عفت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں ہے، مردوں میں بھی پاکدامنی ہونی چاہئے۔
جہاں عورتوں کو حجاب سے محروم کر دیا جاتا ہے، جہاں عورت کو عریانیت اور برہنگی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے وہاں سب سے پہلے تو خود عورت کی سلامتی اور اس کا تحفظ اور دوسرے مرحلے میں مردوں اور نوجوانوں کی سلامتی خطرات کی زد پر آ جاتی ہے۔ معاشرے اور ماحول کو محفوظ اور صحتمند رکھنے کے لئے اور ایسی فضا قائم کرنے کے لئے اسلام نے حجاب کا اہتمام کیا ہے جس میں عورت بھی معاشرے میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکے اور مرد بھی اپنے فرائض سے عہدہ بر آ ہو سکے۔
عورتوں کی ذمہ داریاں اور کردار
اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ” من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم” ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
عورتوں کی سماجی سرگرمیوں کی بنیاد
کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، جب غور و فکر، عقل و خرد، تشخیص و توجہ، مصلحت اندیشی و بار آوری اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوار ہو۔ عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے انجام دئے جانے والے ہر عمل میں اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہئے یعنی ہر حرکت دانشمندانہ سوچ پر مبنی ہو اور حقائق، عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان و رغبت سے آگاہی، عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے واقفیت، مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے، غیروں سے مرعوب ہوکر اور اندھی تقلید کی بنیاد پر انجام نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر یہ حرکت غیروں سے مرعوب ہوکر، اندھے فیصلے اور اندھی تقلید کی بنیاد پر آنکھیں بند کرکے انجام دی گئی تو یقینا ضرررساں ثابت ہوگی۔
قومی ترقی میں عورتوں کا کردار
اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ دین مقدس اسلام کی اعلی تعلیمات پر اتکاء کرتے ہوئے اپنے حقوق کا بخوبی دفاع کر سکیں، اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی فعالیتوں کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔
حصول علم لازمی اور واجب
عورتیں اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھنا لکھنا نہیں چاہئے۔ یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ لڑکیوں کو چاہئے کہ اپنے لئے مفید ثابت ہونے والے موضوعات میں جن سے انہیں دلچسپی اور لگاؤ ہے تعلیمی سرگرمیاں انجام دیں۔ معاشرے کو لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تعلیم یافتہ لڑکوں کی ضرورت ہے۔ البتہ تعلیمی ماحول صحتمند ہونا چاہئے۔ تعلیم کے لئے مرد اور عورت کی معاشرت سے متعلق اخلاقی اقدار سے دوری ضروری نہیں ہے بلکہ ان اقدار کی مکمل پابندی کے ساتھ تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا جا سکتا ہے۔
انتہائی اہم اور بنیانی کاموں میں ایک، عورتوں کو کتابوں کے مطالعے کا عادی بنانا ہے۔ ایک ایسی جدت عمل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر عورتیں گھروں کے اندر کتابوں کے مطالعے کی عادی ہو جائیں۔ انسانی معرفتوں کی کتابیں ذہنوں کو بہتر ادراک، بہتر فکر، بہتر جدت عمل کے لئے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں خود کو پہنچانے کے لئے آمادہ اور تیار کرتی ہیں۔
علم و دانش تو بے حد عزیز چیز ہے اور میں تو اس کا قائل ہوں کہ اسلامی معاشرے میں عورتیں تمام موضوعات پر عبور حاصل کریں۔ بعض خواتین خیال کرتی ہیں کہ اگر کوئی خاتون، عورتوں سے متعلق موضوع کا علم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے عورتوں کی خاص بیماریوں کا علم حاصل کرنا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ طب کے مختلف شعبوں جیسے نیورولوجی اور کارڈیولوجی وغیرہ کے سلسلے میں کام کریں۔ یہ شرعی اور سماجی فریضہ ہے۔
عورتیں گھر سے باہر کام کر سکتی ہیں
اسلام عورت کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ اگر گھر کے باہر کام عورت کے بنیادی فریضے یعنی بچوں کی تربیت اور کنبے کی نگہداشت سے متصادم نہیں ہو رہا ہے تو شائد یہ ضروری بھی ہو۔ کوئی بھی ملک گوناگوں شعبوں میں عورتوں کی افرادی طاقت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
بعض لوگ انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے گھر، شوہر اور بچوں کا خیال رکھ پانا مشکل ہو جاتا ہے لہذا سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کر لینی چاہئے جبکہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ گھر، شوہر اور بچوں کی وجہ سے سماجی سرگرمیوں کا موقع نہیں مل پاتا لہذا شوہر اور بچوں سے ناتہ توڑ لینا چاہئے۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ کسی ایک کو بھی دوسرے کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہئے۔
البتہ گھر سے باہر کام، عورتوں کا اولیں اور بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام عورتوں کے کام کرنے اور فرائض کی انجام دہی کا مخالف نہیں ہے، سوائے کچھ کاموں کے کہ جن میں سے کچھ کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اتفاق رائے ہے اور کچھ کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم عورت کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس روزگار ہے یا نہیں۔ عورت کا بنیادی ترین مسئلہ اور فریضہ وہ ہے جسے آج بد قسمتی سے مغرب میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ ہے تحفظ کا احساس، سلامتی کا احساس اور صلاحیتوں کے نشو نما پانے کے امکانات کی فراہمی کا احساس اور معاشرے میں، خاندان میں، شوہر کے گھر میں یا والدین کے گھر میں اس کا ظلم و زیادتی سے محفوظ رہنا۔ جو لوگ عورتوں کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں انہیں ان پہلوؤں پر کام کرنا چاہئے۔
دوسرا باب: خاندان میں عورت کا کردار
عورتوں کی اسلامی تربیت
اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گي۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوشبخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔
انتہائی اہم چیزوں میں ایک، گھر کے اندر کے فرائض یعنی شوہر اور بچوں سے برتاؤ کی نوعیت کے تعلق سے عورتوں کو صحیح طریقوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جو بہت اچھی ہیں، ان میں صبر و تحمل، حلم و بردباری، درگزر اور رواداری کا جذبہ اور اچھا اخلاق پایا جاتا ہے لیکن وہ بچوں اور شوہر کے سلسلے میں اپنا رویہ درست نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اور روش با قاعدہ ایک علم ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی تجربات کے ساتھ روز بروز بہتر ہوئی ہیں اور آج اچھی صورت حال میں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہیں جن کے پاس بڑے گرانقدر تجربات ہیں۔ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے جس سے یہ عورتیں گھر کے اندر رہتے ہوئے ان روشوں اور طریقوں سے آگاہ ہو سکیں اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔
خاوند کے انتخاب کا حق
عورت ایک بیوی اور شریکہ حیات کی حیثیت سے مختلف مراحل پر اسلام کی خاص توجہ کا مرکز بنی نظر آتی ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ شریک حیات کے انتخاب کا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت اپنے شوہر کے انتخاب میں آزاد ہے اور کوئی بھی شخص شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں عورت پر کوئی بات جبرا مسلط نہیں کر سکتا۔ یعنی حتی عورت کے بھائی اور والد بھی، دور کے رشتہ داروں کی تو بات ہی الگ ہے، اگر اسے مجبور کرنا چاہیں کہ تمہیں لا محالہ فلاں شخص سے ہی شادی کرنی ہے تو انہیں اس کا حق نہیں ہے اور وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ البتہ ماضی میں اسلامی معاشرے میں بھی کچھ غلط اور جاہلانہ رواج تھا۔ تاہم جاہل مسلمان جو کچھ کرتے ہیں اسے اسلام سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ یہ تو جاہلانہ عادات و اطوار ہیں۔ جاہل مسلمان جاہلانہ عادات و اطوار کی بنیاد پر کچھ کام ایسے کر جاتے ہیں جن کا اسلام اور اس کے نورانی احکامات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
شادی سے متعلق دو جاہلانہ رسمیں
اگر کوئی شخص کسی لڑکی کو مجبور کرتا ہے کہ تمہیں اپنے چچازاد بھائی سے شادی کرنی ہے تو اس نے غلط کام کیا ہے۔ اگر کوئی چچازاد بھائی اپنی چچازاد بہن کے سلسلے میں اپنے لئے یہ اختیار اور حق محفوظ سمجھتا ہے کہ اسے کسی اور سے شادی کرنے سے روک دے اور یہ کہے کہ چونکہ تم نے مجھ سے شادی نہیں کی لہذا میں تمہیں شادی کی اجازت نہیں دوں گا، تو اس لڑکے اور اس کی مدد کرنے والے ہر شخص سے فعل حرام سرزد ہوا ہے۔ یہ شریعت کی کھلی مخالفت ہے اور فقہائے اسلام کے درمیان اس سلسلے میں مکمل اتفاق رائے ہے۔
اگر کسی قبیلے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، کسی دوسرے قبیلے سے اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے، فرض کیجئے کہ دونوں کے درمیان تنازعہ اور جنگ و خونریزی کا سلسلہ چل رہا ہے، اس اختلاف کو حل کرنے اور تنازعے کو ختم کرنے کی غرض سے ایک قبیلے کی لڑکی کی شادی دوسرے قبیلے میں کر دے اور اس لڑکی سے اس کی رضامندی حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہ کرے تو اس نے شریعت کے خلاف عمل کیا ہے۔ ہاں اگر لڑکی سے رضامندی حاصل کر لی گئی ہے تو پھر کوئی اشکال نہیں ہے۔ کوئی لڑکی ہے جو خود بھی مائل ہے اور اس کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس کی شادی دوسرے قبیلے کے کسی لڑکے سے کر دی جائے اور اس شادی کے نتیجے میں اختلاف اور تنازعہ بھی ختم ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی لڑکی کو اس کے لئے مجبور کیا جائے تو یہ عمل خلاف شریعت اور اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہے۔
آشیانے کا چین و سکون
انسان کو جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ان میں ایک سکون و چین ہے۔ انسان کی خوشبختی اس میں مضمر ہے کہ ذہنی تلاطم اور اضطراب سے محفوظ و مطمئن رہے۔ انسان کو یہ نعمت کنبے اور خاندان سے ملتی ہے، عورت کو بھی اور مرد کو بھی۔
یہ آیہ کریمہ مرد و زن کے سلسلے میں بنیادی طور پر خاندان کے تناظر میں کہتی ہے کہ ” و من آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا” یعنی قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم انسانوں کے لئے، خود تمہاری جنس سے، تمہارا جوڑا پیدا کیا ہے۔ تم مردوں کے لئے عورتوں کو اور تم عورتوں کے لئے مردوں کو۔ تم خود “من انفسکم” ایک دوسرے سے ہو، الگ الگ جنس سے نہیں ہو۔ الگ الگ درجے کے نہیں ہو۔ سب کی حقیقت و ماہیت ایک ہے۔ سب ایک ہی حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب کا جوہر اور سب کی حقیقت ایک ہے۔ البتہ بعض خصوصیات کے لحاظ سے کچھ فرق ضرور ہے چنانچہ ان کے فرائض بھی الگ الگ ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ” لتسکنوا الیھا” یعنی انسانوں میں دو صنفیں ایک عظیم ہدف کے لئے قرار دی گئی ہیں۔ وہ ہدف ہے سکون و طمانیت۔ عورتیں (اور مرد) گھر کے اندر اپنی اپنی مخالف صنف کے ساتھ، مرد عورت کے ساتھ اور عورت مرد کی معیت میں طمانیت حاصل کرے۔ گھر میں داخل ہونے پر داخلی فضا پر محیط سکون و چین، مہربان، محبتی اور امانتدار عورت پر نظر پڑنا مرد کے لئے باعث سکون و طمانیت ہوتا ہے۔ عورت کے لئے بھی ایسے مرد اور ایسے سہارے کا وجود، جو اس سے محبت کرے اور اس کے لئے کسی مستحکم قلعے کی مانند ہو، خوشبختی کی علامت اور اس کے لئے باعث سکون و اطمینان اور موجب خوشـبختی و سعادت ہے۔ خاندان دونوں کو یہ نعمت عطا کرتا ہے۔ مرد کو قلبی سکون کے لئے گھر کی فضا میں بیوی کی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کو سکون و چین کے لئے گھر میں مرد کی احتیاج ہوتی ہے۔ “لتسکنوا الیھا” دونوں کو سکون و چین کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
خاندان میں عورت کی اہمیت
خاندان کی تشکیل تو در حقیقت عورت ہی کرتی اور وہی اسے چلاتی ہے۔ کنبے کی تشکیل کا بنیادی عنصر عورت ہے، مرد نہیں۔ مرد کے بغیر ممکن ہے کہ کوئی کنبہ موجود ہو۔ کوئی خاندان ایسا ہے جس میں مرد موجود نہیں ہے، دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو گھر کی عورت اگر سمجھدار اور سلیقے مند ہے تو خاندان کو (بکھرنے سے) بچائے رکھے گی لیکن اگر خاندان میں عورت نہ ہو تو مرد خاندان کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، معلوم ہوا کنبے اور خاندان کی حفاظت عورت کرتی ہے۔
یہ جو اسلام خاندان کے اندر عورت کے کردار کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت نے خاندان کے فریضے کو سنبھال لیا اور اس میں دلچسپی دکھائی، بچوں کی تربیت و پرورش کو اہمیت دی، اپنے بچوں کا خیال رکھا، انہیں دودھ پلایا، انہیں اپنی آغوش میں پالا، ان کے لئے ثقافتی آذوقہ فراہم کیا یعنی قرآنی حکایتیں، قصے، احکام اور رہنما واقعات سنائے اور فرصت کے وقت میں جسمانی ضرورت کی غذا کی مانند ان چیزوں کا ذائقہ بھی چکھایا تو اس معاشرے کی انسانی نسلیں با شعور اور قابل افتخار ہوں گی۔ یہ عورت کا فن ہے اور یہ تعلیم حاصل کرنے، تعلیم دینے، گھر سے باہر کام کرنے اور سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہونے اور ایسے دیگر امور کی راہ میں حائل بھی نہیں ہے۔
تمام سماجی منصوبوں اور پروگراموں میں خاندان اور کنبے کو معیار اور اساس بنانا چاہئے۔ ماں کا مسئلہ، بیوی کا مسئلہ، گھر اور خاندان کا مسئلہ بہت ہی اہم اور حیاتی نوعیت کا ہے۔ یعنی اگر کوئی عورت بہت بڑی ماہر ڈاکٹر بن جائے یا کسی اور شعبے میں مہارت حاصل کر لے لیکن گھر کے فرائض سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تو یہ اس کے لئے ایک نقص اور کمی ہے۔ گھر کی مالکہ کا وجود ضروری ہے، بلکہ محور یہی ہے۔ بلا تشبیہ عورت شہد کی رانی مکھی کا درجہ رکھتی ہے۔
عورتوں کا فطری اثر و نفوذ
کچھ استثنائات سے قطع نظر عموما شوہروں پر بیویوں کا خاص اثر و نفوذ ہوتا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر پر حاوی ہے تب کہا جائے کہ اسے بڑا اثر و نفوذ حاصل ہے، نہیں۔ بات خداداد فطری اثر و نفوذ کی ہو رہی ہے۔ میں اپنے اندازے کے مطابق عورت کو مرد سے زیادہ مضبوط اور قوی سمجھتا ہوں، یہ میرا یقین ہے۔ ایک طویل مقابلے میں، اگر مقابلہ لمبا کھنچے، سرانجام فتح عورت کی ہوگی۔ یعنی عورت آخرکار ان روشوں اور خصائص کے ذریعے جو اللہ تعالی نے اس کے مزاج اور اس کی فطرت میں ودیعت کر دئے ہیں، مرد پر غلبہ حاصل کر لے گی۔ یہ قدرت کی ایک پر کشش حقیقت اور خلقت کا ایک حسین راز ہے۔ میدان عمل میں موجودگی کے سلسلے میں اپنی پچاس فیصدی کی شراکت کے علاوہ عورتیں دوسرے پچاس فیصدی میں بھی جو مردوں سے متعلق ہے موثر ثابت ہوتی ہیں (یعنی اپنے ساتھ مردوں کو بھی میدان عمل میں لانے میں موثر کردار ادا کرتی ہیں)۔
مرد اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے بیوی بچے گھر میں رہیں اور وہ خود باہر کی ذمہ داری سنبھالے۔ مثلا ہم لوگ جو ایک زمانے میں دفاعی جنگ لڑ رہے تھے، یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ اپنی عورتوں کو میدان جنگ میں لے جائیں۔ ہم یہی کہتے تھے کہ” آپ لوگ یہیں رہیں، ہم خود جاکر یہ محاذ سنبھالیں گے” لیکن جب عورت میدان جنگ میں جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھی ساتھ لے جاتی ہے اور اسے آگے بھیجتی ہے۔ ایک ایسی ہستی کا نام ہے عورت۔ یہ شخصیت، یہ ذاتی اثر و نفوذ، میدان جنگ میں یہ درخشاں کارکردگی، ماضی و حال اور مستقبل میں جد و جہد کے لئے ہمیشہ قائم و دائم رہنا چاہئے۔
مہر و محبت کا گہوارا
خاندان کے تناظر میں مرد اور عورت کی پاکیزہ فطرت ایسی ہے جو دونوں کے درمیان ایک خاص وابستگی اور لگاؤ پیدا کر دیتی ہے، عشق و الفت کا رابطہ برقرار کر دیتی ہے “مودۃ و رحمۃ”۔
مرد اور عورت کا صحیح اور منطقی رابطہ عشق و الفت کا رابطہ ہے، دوستی و محبت کا رابطہ ہے، مہربانی اور ہمدردی کا رابطہ ہے، وہ ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کے گرویدہ رہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر نثار ہوں۔
خاندان تو وہ مرکز ہے جہاں الفتوں اور جذبات کو پروان چڑھنا چاہئے، بچوں کو مامتا اور شفقت ملنی چاہئے۔ خاص مردانہ مزاج کے باعث زوجہ کے سلسلے میں مرد کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ بعض چیزوں کے سلسلے میں اس کا دل بہت جلدی ٹوٹ جاتا ہے اور ایسے موقع پر اس کے زخموں کا مرہم صرف اور صرف زوجہ کی نوازش اور محبت ہوتی ہے، ایسے میں ماں کی شفقت بھی کافی نہیں ہوتی۔ ایک جوان مرد کے لئے زوجہ وہ کام کرتی ہے جو ماں ایک چھوٹے بچے کے لئے انجام دیتی ہے۔ ظریف اور لطیف مزاج رکھنے والی خواتین اس حقیقت سے آگاہ بھی ہیں۔ اگر گھر میں اس مرکزی نقطے یعنی گھر کی مالکہ کے تعلق سے یہ جذبات و احساسات نہ ہوں تو اس کنبے کا کچھ مفہوم نہ ہوگا وہ روح سے خالی جسم کی مانند ہوگا۔
فرائض کی تقسیم
مرد اور عورت دونوں کے مزاج کی کچھ الگ الگ خصوصیات ہیں۔ گھر کے اندر عورت سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ مردوں کے انداز میں کام کرے، اسی طرح کوئی مرد سے عورتوں کے برتاؤ اور اسلوب کی توقع نہ رکھے۔ دونوں کے مزاج اور فطرت کے الگ الگ تقاضے ہیں اور انسان، معاشرے، مرد اور عورت کے سماجی نظام کی مصلحت اسی میں ہے کہ گھروں کے اندر مرد اور عورت کے مزاج اور ان کے فطری تقاضوں کا مکمل طور پر لحاظ کیا جائے۔ اگر اس کا خیال رکھا گيا تو دونوں کی خوشبختی و کامیابی کی راہ ہموار ہوگی۔ کسی کو بھی دوسرے کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کرنے کا حق نہیں ہے۔ بعض مردوں کی سوچ یہ ہے کہ عورت کو ان کے سارے کام انجام دینے ہیں۔ ویسے گھر کے اندر جہاں میاں بیوی کے درمیان گہرا محبت و الفت کا رشتہ ہے، دونوں ایک دوسرے کے کام بڑے شوق اور رغبت سے انجام دیتے ہیں۔ لیکن رغبت اور دلچسپی سے کوئی کام انجام دینا اور بات ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے یا اپنے انداز سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ عورت ایک خادمہ کی طرح مرد کی خدمت کرے اور اسے اپنا فرض سمجھے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
گھر کا فریضہ اولیں ترجیح
بعض عورتیں بڑی مصروف ہیں، گھر کے باہر رہتی ہیں، آپریشن کرتی ہیں، اپنے مریضوں کو بھی دیکھتی ہیں، کسی علمی تحقیق میں بھی مصروف ہیں، کوئی پروجیکٹ تیار کر رہی ہیں، کسی یونیورسٹی میں لیکچر بھی دے رہی ہیں، یہ ساری سرگرمیاں اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن گھر کے فرائض بھی نظر انداز نہیں کئے جانے چاہئے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ گھر کے کاموں کی کیفیت کو مقدار پر ترجیح دی جائے، یعنی اس کی مقدار کو کچھ کم کر دیا جائے۔ عورت کی چوبیس گھنٹہ گھر میں موجودگی کی بات الگ ہے۔ اگر ان چوبیس گھنٹوں میں سے کـچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں لیکن (گھر کے اندر فرائض کی انجام دہی کی ) کیفیت اعلی درجے کی ہے تو یہ ایک الگ صورت حال ہوگی۔ اگر آپ نے دیکھا کہ آپ کے اس (باہر کے) کام سے اس مسئلے ( یعنی گھر کے فرائض) پر منفی اثر پڑ رہا ہے تو آپ کو اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا۔ یہ بہت اہم اور بنیادی چیز ہے، سوائے کچھ ہنگامی صورتوں کے۔ تمام کاموں میں کچھ ایسی ہنگامی صورتیں ہوتی ہیں جو قاعدے اور ضابطے سے مستثنی رکھی جاتی ہیں۔ عورتوں کا سب سے بڑا کام بچوں کی تربیت اور اہم میدانوں میں اترنے اور اعلی مدارج پر فائز ہونے کے لئے شوہروں کی ہمت بندھانا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
بچوں کی تربیت، ایک اہم فریضہ
گھر اور کنبے کے اندر عورتوں کی ایک بڑی ذمہ داری بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ جو عورتیں گھر کے باہر کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے ماں بننے سے گریز کرتی ہیں وہ در حقیقت انسانی فطرت اور اپنے نسوانی مزاج کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔ جو خواتین اپنے بچوں، ان کی تربیت، انہیں دودھ پلانے اور انہیں اپنی مہر آگیں آغوش میں لینے اور پرورش کرکے انہیں پروان چڑھانے جیسے کاموں کو بعض ایسے امور کی وجہ سے ترک کر دیتی ہیں جن کی انجام دہی کا انحصار ان کی ذات پر نہیں ہے، وہ بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔ بچوں کی پرورش کی بہترین روش یہ ہے کہ ان کی پرورش ماں کی آغوش میں اس کی مہر و الفت اور مامتا کی چھاؤں میں ہو۔ جو خواتین اپنے بچوں کو اس خداداد نعمت سے محروم کر دیتی ہیں، ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ ان کا یہ عمل ان کے بچوں کے لئے بھی نقصان دہ ہے، خود ان کے اپنے لئے بھی ضرر رساں ہے اور معاشرے کے لئے زیاں بار ثابت ہوتا ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عورت کا ایک اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ بچوں کو اپنے جذبات کی گرمی سے، اپنی صحیح تربیت سے اور اپنی پوری توجہ اور دلجمعی کے ذریعے ایسا بنائيں کہ یہ بچہ جب بڑا ہو تو ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے ایک صحتمند انسان ہو، احساس کمتری سے دوچار نہ ہو، نفسیاتی پیچیدگیوں میں گرفتار نہ ہو، اس ذلت و بد بختی اور بے شمار مصیبتوں سے محفوظ رہے جن سے مغرب میں یورپ اور امریکا کی نوجوان نسلیں دوچار ہیں۔
مغربی ممالک میں خواتین چونکہ گھر اور پچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتیں اس لئے ان مغربی معاشروں کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ یورپی اور امریکی ممالک میں دسیوں لاکھ بد عنوان اور گمراہ نوخیز لڑکیاں اور لڑکے، اس مادہ پرست ثقافت، ان فلک بوس محلوں، ان ایٹمی چھاونیوں، سو منزلہ سے بھی زیادہ اونچی، آسمانوں سے سرگوشیاں کرتی عمارتوں میں دس سال بارہ سال کے سن سے بد عنوانیوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں، چور بن چکے ہوتے ہیں، قاتل بن چکے ہوتے ہیں، اسمگلر بن چکے ہیں، نشہ کی لت میں پڑے ہوئے ہیں، سگریٹ پیتے ہیں، حشیش استعمال کرتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ مغربی عورت نے خاندان اور کنبے کی اہمیت و ارزش کو نہیں پہچانا، اس کی قدر نہیں کی۔
گل اور باغباں کی داستان
اسلام کے نقطہ نگاہ سے مرد کا فریضہ ہے کہ گھر میں عورت کا خیال بالکل ایسے رکھے جیسے نازک پھول کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ” المرآۃ ریحانۃ” عورت ایک پھول ہے۔ اس (ہدایت) کا تعلق سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر میدانوں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق گھر کے اندر کے ماحول سے ہے۔ ” المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ” پیغمبر اکرم نے اپنے اس خطاب سے اس غلط نظرئے اور نا درست طرز فکر پر خط بطلان کھینچ دیا جس کے مطابق عورت کو گھر کے اندر تمام کاموں کی انجام دہی کا پابند تصور کیا جاتا تھا۔ عورت پھول ہے جس کا بہت خیال رکھا جانا چاہئے۔ پھول کے ساتھ زور زبردستی کیجئے تو وہ ایک لحظے میں بکھر کر رہ جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے پھول کی نزاکت کو سمجھا اور اس کے ساتھ نزاکت آمیز سلوک کیا تو وہ باعث زینت ہوگا، اپنا اثر دکھائے گا، اپنے محاسن ظاہر اور نمایاں کرے گا۔ جسمانی اور جذباتی نزاکتوں والی اس مخلوق کو اس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عورت میں اس زنانہ نزاکت کو محفوظ رکھا گیا ہے جس کے زیر اثر اس کے تمام جذبات، خصوصیات اور خواہشات ہوتی ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا گيا ہے کہ وہ عورت ہوتے ہوئے بھی مردوں کے انداز میں سوچے، مردوں کی مانند کام کرے، اپنی خواہشات مردوں کے مطابق بنائے۔ یعنی عورت کے نسوانی انداز کو، جو اس کی ایک فطری اور قدرتی چیز ہے اور جو اس کے تمام جذبات اور سرگرمیوں کا محور بھی ہے، اسلامی طرز فکر میں ملحوظ رکھا گیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ علم کا میدان، روحانیت و معنویت کا میدان، تقوا و پرہیزگاری کا میدان اور سیاسی سرگرمیوں کا میدان اس کے لئے کھلا رکھا گیا ہے۔ یہی نہیں اسے ترغیب دلائی گئی ہے حصول علم کی ، اسی طرح گوناگوں سیاسی و سماجی میدانوں میں اترنے کی۔
گھر کے اندر مرد کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اسے جاہلانہ انداز میں اپنی طاقت کے استعمال، زیادہ روی، تحکمانہ روئے اور جبر و اکراہ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ ہے اسلامی نقطہ نگاہ۔ ” و لیست بقھرمانۃ” یہاں فارسی والا قہرمان( چیمپین) مراد نہیں ہے، یہ عربی اصطلاح ہے جو در حقیقت فارسی سے لی گئی ہے۔ عربی میں قہرمان کے معنی ہیں کاموں کی انجام دہی پر مامور سینئر نوکر۔ یعنی مرد گھر میں عورت کو کاموں کی انجام دہی پر مامور نہ سمجھے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ مرد مالک ہے اور گھر کے کام، بچوں کی نگہداشت وغیرہ کو اس نے ایک سینئر نوکر کے سپرد کر دیا ہے اور وہ سینئر نوکر اس کی بیوی ہے لہذا وہ اس کے ساتھ تحکمانہ برتاؤ کر سکتا ہے۔
گھروں میں عورتوں پر مظالم
اس وقت عالمی سطح پر عورتیں لا متناہی اور لا ینحل مسائل سے دوچار ہیں۔ اس وقت دنیا میں عورتیں دو میدانوں میں شدید رنج و الم برداشت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے خاندان اور دوسرا میدان ہے سماج اور معاشرہ۔ یہ چیز یورپ اور امریکا میں اسی طرح ان ممالک میں ہے جنہوں نے انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے۔ کہیں بہت زیادہ شدت نظر آتی ہے تو کہیں یہ شدت کچھ کم ہے۔ گھر کے اندر عورت مظلوم ہے۔ یعنی شوہر گھر کے اندر واقعا بیویوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس ماحول میں گھر کے اندر عورتوں پر مردوں کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مرد، عورت کو اپنی شریکہ حیات نہیں سمجھتا۔ اپنے تمام جذبات و احساسات کو عورت پر نثار نہیں کرتا۔ یہ مرد گھر کے باہر غیر اخلاقی حرکتوں، عیاشیوں اور شہوانی مشغلوں میں مصروف ہیں جبکہ گھر کے اندر ایک سرد مہری اور بے رخی کا انداز ہے جو کبھی کبھی بد اخلاقی اور زور زبردستی کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ سب سے اہم بات مرد اور عورت کا باہمی تعاون اور تال میل ہوتا ہے۔ انسان اپنی بیٹی کو معلوم نہیں کیسی کیسی زحمتیں گوارا کرکے پیار محبت سے بڑا کرتا ہے۔ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی جو ماں باپ کے گھر میں ہنوز بچی ہی شمار کی جاتی ہے، اس کے بعد شوہر کے گھر جاتی ہے جہاں اس سے یکبارگی یہ توقع ہو جاتی ہے کہ ہر بات سمجھے، ہر کام انجام دے اور ہر ہنر سے واقف ہو۔ اس سے ذرا سی غلطی ہوئی نہیں کہ چڑھائی کر دی جاتی ہے! یہ نہیں ہونا چاہئے۔
مرد نے اگر گھر میں مالکانہ اور تحکمانہ رویہ اپنایا، عورت کو خادمہ کی حیثیت سے دیکھا تو یہ اس کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہے، جو بد قسمتی سے بہت سے مردوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ گھر کے باہر بھی یہی صورت حال ہے۔ اگر عورت کو تعلیم حاصل کرنے، کوئی کام انجام دینے اور بعض مواقع پر پیسے کمانے کے لئے محفوظ ماحول میسر نہ ہو تو یہ ظلم ہے، نا انصافی ہے۔ عورت کو اگر علم و معرفت حاصل کرنے کا موقع نہ دیا جائے تو اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ عورت مختلف کاموں اور گوناگوں ذمہ داریوں کے باعث تہذیب اخلاق، اپنے دین اور اپنے علم و معرفت کی جانب توجہ نہ دے سکے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر عورت کو اس کی ذاتی اور نجی ملکیت اور اثاثے کے آزادانہ اور حسب منشاء استعمال کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر شادی کے وقت عورت کے سر کسی مرد کو مڑھ دیا جائے یعنی خاوند کے انتخاب میں خود اس کا اپنا کوئی کردار نہ ہو اور اس کی خواہش اور مرضی کا خیال نہ رکھا گيا ہو تو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔ عورت جب (شوہر کے) گھر میں زندگی بسر کر رہی ہے اس وقت اسی طرح شوہر سے جدا ہو جانے کی صورت میں اگر بچوں کو پیار کرنے اور مامتا کے جذبے کی تسکین کا موقع نہ پائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر عورت میں استعداد اور صلاحیت ہے مثلا علمی صلاحیت سے مالامال ہے، ایجادات اور نئی دریافتوں کی صلاحیت رکھتی ہے، سیاسی شعور رکھتی ہے، سماجی کاموں کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اسے اس کی استعداد کو استعمال کرنے اور اس پر نکھار لانے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔
http://urdu.khamenei.ir/index.php?option=com_content&task=view&id=670
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید