پاکستان میں دیوبندی طاقت کے ظہور اور ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ (1)
تحریک پاکستان ایک عوامی (Polpular) تحریک تھی، جبکہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے دور میں وہابی ہونا یا کہلانا ایک گالی کے مترادف تھا۔ جذبہ عشق رسول متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔
محمد بن عبدالوہاب النجدی کے عقیدے سے متاثر ہونیوالے برصغیر کے وہابی علماء غیر مسلموں کیلئے معزز تھے لیکن عامة المسلمین کے دلوں میں انکے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اسوقت سب سے مقبول نعرہ تھا، اولیاء کا ہے فیضان، پاکستان پاکستان۔ دیوبندی مبلغین اصلاح کے نام پر مسلمانوں کو نئے عقیدے سکھا رہے تھے اور انکی رسوم کے سخت مخالف تھے۔ برصغیر میں اسلام کی دعوت اولیائے کرام کے ذریعے پہنچی تھی اور اسکا خاصہ عشق رسول اور محبت اہلبیت ہے۔ وہابیوں کیجانب سے تحریک پاکستان کی مخالفت کی بنیادیں سیاسی سے زیادہ ایک مسلکی تھیں۔ دیوبندی جن مسلمانوں کی، بقول انکے اصلاح کرنا چاہتے تھے، یہ کیسے ممکن تھا کہ انہی کی قیادت میں ایک نئی ریاست کیلئے جدوجہد میں شریک ہوجاتے۔ اللہ کے رسول اور آل رسول سے برصغیر کے مسلمانوں کی محبت کیوجہ سے دیوبندی جماعت نے نظریہ پاکستان کو ماننے سے انکار کیا۔ وہابی اور دیوبندی اکابرین، قائد اعظم اور علامہ اقبال کیساتھ نہیں تھے بلکہ وہ گانگریس کیساتھ تھے۔ دیوبندی جماعت بھارت کو اپنی جنم بھومی سمجھتے ہوئے، انڈیا کی تقسیم کو اپنے ایمان کے منافی سمجھتی تھی۔
کل کے دشمن، آج کے ٹھیکیدار:
پاکستان میں دیوبندیوں کی سب سے منظم مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، دیوبندیوں کی طاقتور ترین عسکری قوت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے تمام دھڑے، کالعدم سپاہ صحابہ, دوسرے درجے کی سیاسی جماعتیں اور لشکر جھنگوی، جیش محمد، پنجابی طالبان عسکری گروہ ہیں۔ ان دونوں دیوبندی سیاسی اور عسکری قوتوں کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں ان کی مرضی کا نظام رائج ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ بتا چکے ہیں کہ وزیرستان کی طرح، جہاں ممکن ہوا شریعت کا نفاذ ممکن بنائیں گے۔ جماعت اسلامی کے احباب جب بھی پاکستانی طالبان کو دباو میں محسوس کرتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ نہ جیٹ طیاروں کی بمباری سے امن قائم ہوسکتا اور نہ ہی بندوق کے زور پر شریعت کا نفاذ ممکن ہے۔ البتہ پاکستان کی تمام دیوبندی قوتیں پاکستانی طالبان کو own کرچکی ہیں۔ انکا بیان کردہ نظام انوکھا نہیں بہت پرانا ہے۔ قیام پاکستان میں تمام مسالک نے اہم کردار کیا، دیوبندیوں نے اسلام کے نام پر بننے والی نئی ریاست کی مخالفت کی۔ تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے اقلیتی مذہبی سنی حنفی دیوبندی طبقے کو معلوم تھا کہ پاکستان بن کے رہے گا، وہ اسکی حمایت اس لیے نہیں کر رہے تھے کہ تحریک پاکستان کی قیادت انکے ہاتھ میں نہیں تھی، بلکہ دیوبندیوں کے مقابلے میں 98 فیصد شیعہ سنی اکثریت کا کنٹرول تھا۔ تحریک پاکستان ایک عوامی (Polpular) تحریک تھی، جبکہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے دور میں وہابی ہونا یا کہلانا ایک گالی کے مترادف تھا۔ جذبہ عشق رسول ؑ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔
محمد بن عبدالوہاب النجدی کے عقیدے سے متاثر ہونے والے برصغیر کے وہابی علماء غیر مسلموں کے لیے معزز تھے لیکن عامة المسلمین کے دلوں میں انکے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اسوقت سب سے مقبول نعرہ تھا، اولیاء کا ہے فیضان، پاکستان پاکستان۔ دیوبندی مبلغین اصلاح کے نام پر مسلمانوں کو نئے عقیدے سکھا رہے تھے اور انکی رسوم کے سخت مخالف تھے۔ برصغیر میں اسلام کی دعوت اولیائے کرام کے ذریعے پہنچی تھی اور اسکا خاصہ عشق رسول اور محبت اہلبیت ہے۔ وہابیوں کی جانب سے تحریک پاکستان کی مخالفت کی بنیادیں سیاسی سے زیادہ ایک مسلکی تھیں۔ دیوبندی جن مسلمانوں کی، بقول انکے اصلاح کرنا چاہتے تھے، یہ کیسے ممکن تھا کہ انہی کی قیادت میں ایک نئی ریاست کے لیے جدوجہد میں شریک ہوجاتے۔ اللہ کے رسول اور آل رسول سے برصغیر کے مسلمانوں کی محبت کی وجہ سے دیوبندی جماعت نے نظریہ پاکستان کو ماننے سے انکار کیا۔ وہابی اور دیوبندی اکابرین، قائداعظم اور علامہ اقبال کے ساتھ نہیں تھے، بلکہ وہ گانگریس کے ساتھ تھے۔ دیوبندی جماعت بھارت کو اپنی جنم بھومی سمجھتے ہوئے، انڈیا کی تقسیم کو اپنے ایمان کے منافی سمجھتی تھی۔ لیکن قائداعظم کو اسوقت کے اولیاء کرام کی مکمل سرپرستی اور تائید حاصل تھی۔ یہ نقطہ نظر کہ پاکستان کو بنانے والے مفاد پرست تھے اور جاگیردارانہ پس منظر رکھتے تھے، دراصل لادین کیمونسٹون اور محبت رسول سے عاری گانگریس کے حامی دیوبندیوں نے مشترکہ طور پر پیش کیا۔ کیمونسٹ بھی دیوبندیوں کی طرح اسلامی مملکت کے مخالف تھے۔ یہ موقف اسوقت کی لادین قوتوں اور دیوبندیوں کا نقطہ اتصال تھا۔ آج بھی عالمی استعمار اور تحریک طالبان پاکستان کا نقطہ اتصال یہی کہ پاکستان توڑ دیا جائے۔ علی پور شریف کے پیر سید جماعت علی شاہ جیسی پاکیزہ ہستیاں قائداعظم کے ساتھ تھیں، گانگریس میں بیٹھے دیوبندی قلم، کمان کے وارث محمد علی جناح کو کافر قرار دے رہے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد، نئی اسلامی ریاست کے مذکورہ مخالفین کی حالت بالکل وہی تھی جو فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں کی تھی۔ وہ پاکستان آئے لیکن انہوں نے پاکستان کے ایجنڈے کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ میلادالنبی اور محرم الحرام کے مراسم سب مسلمان مل کر مناتے۔ عشق رسول کی حامل عوامی طاقت سے معرض وجود میں آنے والی ریاست کے سارے سرکاری پرٹوکولز اسی مقبول اسلامی ثقافت کے تابع تھے۔ کچھ عرصہ گو مگو کا شکار رہنے کے بعد، دیوبندیوں نے اپنا نعرہ بدل لیا۔ نئے انداز کے ساتھ، اپنے سابقہ مشن پہ قائم رہتے ہوئے کہا جانے لگا کہ پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ انکا مطالبہ تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام رائج کیا جائے۔ قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کو مشرک قرار دینے والے، اب انہی سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ اسلامی نظام نافذ کریں۔ وہابی حلقے، پاکستان بننے کے بعد بھی، پاکستانی مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے تھے۔ انکا یہ الزام آج بھی برقرار ہے۔ اہل تشیع اور اہلسنت علماء نے مسکراتے ہوئے اس چیلنج کا جواب دیا اور دیوبندی جماعت کے نمائندہ افراد کی موجودگی میں مل بیٹھ کر بائیس نکات تیار کئے، جو قراداد مقاصد کی صورت میں پاکستان کے آئین کا حصہ ہیں۔
خطے میں امریکی مفادات، پہلا مارشل لاء اور دیوبندی شدت پسندی کا ریاستی سرپرستی میں آغاز:
پاکستان میں پہلے مارشل لاء کے وقت اسٹیبلشمنٹ نے ناروا طور پر عوامی امنگوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، وہابی گروہوں کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی ابتدا کی۔ روسی کمیونزم کے مقابلے کے نام پر پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کا ساتھ دیا، اسکے بدلے میں پیسے لیے، اسی دوران وہابی طبقات، دین کے احیاء کے نام پر امریکہ نواز حکمرانوں کے ساتھ ملکر امریکی بلاک کا حصہ بن گئے۔ برطانوی استعمار کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی وہابی تحریک کو نیا سرپرست مل گیا۔ بھٹو دور میں قادیانیوں کیخلاف آئینی ترمیم بریلوی اور اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء کی علمی اور فکری تگ و دو کا نتیجہ تھی۔ یہ وہابی گروہوں کا سیاسی حربہ تھا کہ انہوں نے ختم نبوت کو بنیاد بنا کر ایک احتجاجی محاذ بنا دیا۔ عام مسلمانوں کی نگاہ میں قادیانی ختم نبوت کے منکر تھے تو اسی طرح دیوبندیوں کو گستاخ رسول سمجھا جاتا تھا۔ امت مسلمہ میں تفریق کے موجد، وہابی طبقات خود ہمیشہ منظم جتھوں کی صورت میں اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ تحریک پاکستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ ہی تھی، جسے تمام مسلمانوں کی حمایت حاصل تھی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلمانوں کی یہ نمائندہ جماعت، فوجی اور سیاسی طالع آزماوں کے ذاتی مفادات کا شکار ہوگئی۔ پاکستان میں سیاسی طور پر گھٹن کی فضا بن گئی اور اسی سیاسی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیوبندی سیاسی جماعتوں نے ریاست اور حکومت میں اپنی جگہ بنانا شروع کر دی۔ امریکی بلاک میں شمولیت کی وجہ سے انٹرنیشنل سپورٹ کے ساتھ ساتھ انہیں داخلی طور پر بھی نادیدہ ریاستی طاقت کی پشت پناہی ملتی رہی، جسکی وجہ سے انکی سیاسی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
جب امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹم بم سے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں عبرتناک انجام کی دھمکی دی، اسی وقت وہابی گروہوں کی قیادت میں امریکی وزیر کے اس بیان کی گونج پاکستان کی سڑکوں پر سنائی دینے لگی۔ یہی وہ وقت تھا جب سی آئی اے نے خطے کے حالات کے پیش نظر اس منصوبے کی بنیاد رکھی کہ پاکستان میں عشق رسول اور محبت اہلبیت کی بنیاد پہ مقبول اسلامی ثقافت کو مغلوب کرنے کے لیے وہابی طاقت کو مضبوط بنایا جائے۔ جیسا کہ قیام پاکستان کے وقت گانگریس اور برطانوی خفیہ اداروں نے کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بہترین قائدانہ صلاحیتوں کے باوجود، ذاتی کردار اور نظریات کے اعتبار سے آئیڈیل رہنما نہیں تھے، لیکن وہ کسی بیرونی طاقت کے آلہ کار ہرگز نہیں رہے۔ بھٹو کو امریکہ دشمنی کی سزا دی گئی۔ اس میں سب سے اہم کردار وہابی لابی نے ادا کیا۔ ضیاءالحق فلسطینیوں پر زوردار بمباری کروا کے اسرائیل اور امریکہ کے لیے اپنی وفاداری ثابت کرچکے تھے۔ بھٹو کی مقبولیت کی وجہ بھی عام پاکستانیوں کیطرف سے مذہب کے نام پر دیوبندی سیاسی رجحانات سے بیزاری کا اعلان تھا۔ ایک بار پھر وہابی سیاسی گروہوں نے اسلام کا ایسا چہرہ پیش کیا تھا کہ پاکستان میں لادین طاقتیں بھرپور انداز میں رونما ہوئیں، سوشلزم کی بنیاد پہ پروان چڑھنے والی پی پی پی کی عوامی طاقت اسکی ایک واضح مثال تھی۔ اسکے کئی مظاہر آج بھی موجود ہیں، پاکستان میں سیکولر افکار کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی بڑی وجہ وہابی مسلح گروہوں کی اسلام کے نام پر انجام دی جانے والی متشدد کارروائیاں ہیں۔
جنگ افغانستان،مسئلہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لیے صہیونی لابی کا کامیاب منصوبہ:
روس نے افغانستان میں مداخلت کی، جنرل ضیاء نے روس کیخلاف جہاد کی اپیل کی۔ پاکستانی فوج مغربی بارڈر پر نہیں گئی بلکہ وہابی جماعتوں کے دستے تشکیل دیئے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی وہابی، دیوبندی جماعتوں کے رابطے امریکی سی آئی اے اور سعودی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مضبوط ہوئے۔ موساد کا سی آئی اے میں اثر و رسوخ اس کا باعث بنا کہ شاہ فیصل کے قتل کے بعد سے آل سعود کی شاہی حکومت مکمل طور پر اسرائیل نواز طاقت میں ڈھل گئی۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ ضیاءالحق موساد کے ایجنٹ تھے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کی اسرائیل نواز شاہی حکومت کا خاتمہ اسرائیل کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کی شخصیت نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ امام خمینی کی عالمی استعمار کے مقابلے میں لازوال استقامت کی بدولت فلسطین سمیت میں دنیا بھر میں استعماری طاقتوں کیخلاف آزادی کی تحریکوں کو زبردست تقویت ملی۔ عالم اسلام کے عوام پہلے ہی فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے تھے، لیکن عالمی استعماری طاقتوں نے ایک ایک کرکے تمام عرب اور مسلمانوں ملکوں کے حکمرانوں کو مفادات کا لالچ دیکر اسرائیل کے حق میں رام کر لیا تھا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی عوامی طاقت اور مسلمان رائے عامہ کی توجہ اسرائیل سے ہٹانے کے لیے افغانستان میں جنگ کی آگ بھڑکائی گئی تھی۔ اسرائیل کی بقا کے لیے جدوجہد کرنے والی امریکی لابی نے اس مقصد کے لیے سعودی شاہی حکومت کو اپنے ساتھ ملایا، ضیاءالحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سی آئی اے کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ دیوبندی سیاسی طاقتوں نے اپنے عسکری گروپ بنائے اور اپنے تبلیغی، تعلیمی اور معاشی پہلووں کو مضبوط کیا۔ جس طرح قیام پاکستان سے قبل وہابی برصغیر میں غیر مقبول ہونے کی وجہ سے ایک اقلیت تھے، جہاد افغانستان کے آغاز میں بھی انکی تعداد نہایت قلیل تھی۔ افغانستان میں ہونے والی جنگ ایک طویل اور مہنگی جنگ تھی، عالمی طاقتوں کے بین الاقوامی مفادات میں اسرائیل کی بقا، اس جنگ کا مقصد اولین تھا۔ اس جنگ کا بجٹ بہت بڑا تھا۔ اس بجٹ کا خطیر حصہ پاکستان میں پلنے والی وہابی، دیوبندی قوت کی تقویت اور وسعت کا ذریعہ بنا۔
پاکستانی مسلمانوں میں وہابی نظریات غیر مقبول تھے۔ دیوبندی اور وہابی گروہوں کو مساجد اور مدارس بنانے کی کہیں اجازت نہیں تھی۔ امریکی اور سعودی لابی نے روس کیخلاف جنگ کے نام پر وہابیوں کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔ پاکستانی ریاست عملی طور پر وہابی دہشت گردوں کو پروان چڑھا رہی تھی۔ عراق کے صدر صدام، لیبیا کے صدر قذافی اور خلیجی بادشاہتوں نے پاکستان کے چپے چپے میں مدرسوں اور مراکز کا جال بچھا دیا۔ برصغیر کے دینی مدرسے شروع سے ہی یتیم پرور تھے۔ پاکستان کے دوردراز علاقوں کی طرح تمام صوبوں کے بڑے شہروں میں تبلیغی اور مذہبی تعلیم کے اداروں کا سلسلہ بنتے ہی، پاکستان کی پرامن فرقہ وارانہ فضا میں، اہلسنت اور شیعہ مسلک کے مراسم کیخلاف تشدد پر مبنی حربے آزمائے جانے لگے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک ایسا موڑ تھا، جسکی وجہ سے برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ مردود رہنے والے وہابی نظریات کو بالجبر پاکستان میں رسوخ عطا ہوا۔ جہاد کے نام پہ مسلح جتھوں کی تیاری، پاکستان بھر میں مدرسوں کا وسیع انفراسٹرکچر، بیش بہا بیرونی امداد، پاکستان کی شیعہ سنی اکثریت کے مقابلے میں وہابی، دیوبندی اقلیت کی سرکاری سرپرستی اور قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے طبقات کی پاکستانی سیاست سے بے اعتناہی کی حد تک، دوری نے پاکستان کو منشیات، اسلحہ اور تشدد کی دلدل میں دھکیل دیا۔
سلطنت عثمانیہ کے سقوط کی طرح عالمی صہیونی لابی اس بار پھر اسرائیلی مظالم کا شکار بننے والے فلسطینیوں کو تنہائی کا شکار کرنے میں کامیاب رہی، فلسطینیوں کی حمایت کے لیے بے پناہ شعوری اور جذباتی قوت کی حامل ملت پاکستان کی توجہ کا رخ کہیں اور موڑ دیا گیا۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے وجود میں آنے سے قبل استعماری طاقتیں اچھی طرح جانتی تھیں کہ جب تک ترکی میں موجود مسلمانوں کی علامتی مرکزیت کو توڑ نہیں دیا جاتا، اسوقت تک مشرق وسطٰی میں صہیونی سلطنت کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ اب انہیں صہیونی ریاست کو بچانا تھا۔ جس طرح برطانوی سامراج نے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہابی مذہب کے بانی کو اسلام کے نام پر مسلمانوں کیخلاف استعمال کیا، اسی طرح امریکی منصوبہ سازوں نے بھی جہاد کے نام پر ایسا دنگل لگایا کہ جسکے باعث پورے عالم اسلام کی عوامی، سیاسی اور دماغی قوت مسلمانوں کے حقیقی مسائل کو سلجھانے کے لیے استعمال ہونے کی بجائے، امریکی مفادات کے لیے استعمال ہونے لگی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ شمالی علاقہ جات میں اہل تشیع کی آبادی کو تہس نہس کر دیا گیا۔ انکا جرم امام خمینی کے فرمان پر یوم القدس کا انعقاد تھا۔ حملہ آور افغان مجاہدین تھے، جو امریکی سفیر کی نگرانی میں پیش قدمی کر رہے تھے۔ اسوقت سے لیکر اب تک اہل تشیع کی انقلابی قوت کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔ حزب اللہ لبنان، اسلامی انقلاب کی نظریاتی حمایت کرنے والی سرگرم پاکستانی تنظیمیں شروع دن سے، خطے میں کام کرنے والی وہابی اور صہیونی لابی کے عتاب کا شکار رہی ہیں۔ کوئٹہ میں یوم القدس کے جلوس میں ہونے والا دھماکہ اس کی ایک اور مثال تھا ۔
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید