معلم امام اعظم (ر)، امام جعفر الصادق (ع)
آنکھ میں نمک نہ ہوتا تو تو حدقہ چشم بہہ جاتا، کان میں تلخی نہ ہوتی تو کیڑے مکوڑے داخل ہو جاتے اور ناک میں رطوبت نہ ہوتی تو سانس کی آمد و رفت میں مشکل ہو جاتی اور خوشبو اور بدبو کا احساس نہ ہو سکتا،
لبوں میں شیرینی نہ ہوتی تو کسی شے کے ذائقہ کا احساس نہ ہوتا، وہ کلام جس کی ابتداء کفر اور انتہا اسلام ہے وہ کلمہ توحید ہے کہ اس میں ’’لاالہ‘‘ کفر ہے اور ’’الا اللہ‘‘ اسلام ہے۔ عورت کے یہاں حیض و حمل کا اجتماع اس لیے نہیں ہوتا کہ خون کا رخ بچہ کی طرف پھیر دیا جاتا ہے، اور اس طرح سے بچے کو غذا فراہم کی جاتی ہے۔
دین اسلام میں دو چیزوں کا ذکر ملتا ہے، ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد، حقوق اللہ میں وہ عبادت و معاملات ہیں جو اللہ کے ساتھ بلا واسط ہیں، جبکہ حقوق العباد میں تمام انسانوں کے حقوق مراد ہیں۔ دین اسلام نے جہاں والدین کے حقوق ذکر کیے ہیں، وہاں معلم کے حقوق کو بھی خاصی اہمیت دی ہے، چونکہ معلم کو معاشرے میں معمار کی سی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ استاد کسی بھی فرد کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ نہ فقط فرد بلکہ پورے معاشرے کو حقیقی معلم جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کی روشنی سے منور کرتا ہے، اسی لئے معلم کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ (ر)، جن کا نام نعمان ہے اور مشہور و معروف امام اعظم اور امام ابو حنیفہ کے ساتھ ہیں، برصغیر میں اکثر مسلمان ان کی فقہ پر عمل کرنے والے ہیں۔ آپ بھی استاد کا بہت احترام کرتے تھے، آپ کے اساتید میں ایک کا ذکر ہم کرتے ہے جن کا آپ بہت احترام کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ (ر) نے جن سے درس لیا ان میں سے ایک حضرت امام جعفر الصادق (ع) بھی ہیں۔ آپ کا نام جعفر جس کے معنٰی نہر کے ہیں اور جو جنت میں ایک وسیع نہر کا نام بھی ہے، جس سے قدرت کی طرف سے اشارہ مقصود تھا کہ آپ کے علوم و کمالات سے ایک عالم سیراب ہونے والا ہے، آپ کے علوم کی وسعتیں جنت کی نہروں جیسی ہیں، آپ سے واقعی فیض حاصل گویا اہل جنت میں ہے۔
آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور القاب صابر، فاضل اور صادق تھے، آپ کے والدہ گرامی جناب ام فروہ تھیں جو قاسم بن ابی بکر کی صاحبزادی تھیں، آپ کے والد گرامی کا نام محمد باقر بن علی بن حسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب ہے۔ آپ کی ولادت 17ربیع الاول 82ھ کو ہوئی اور عبدالملک بن مروان کا دور حکومت تھا جس کا سلسلہ تقریبا ۸۶ھ تک رہا اس کے بعد ۸۶ھ سے ۹۶ھ تک ولید بن عبد الملک کا دور رہا، ولید کے بعد سلیمان بن عبدالملک چند دنوں کے لیے حکمران بنا، پھر تھوڑے عرصہ تک عمر بن عبدالعزیر کی حکو مت رہی، 100ھ میں یزید بن عبدالملک برسر اقتدار آیا۔ چند دنوں کے بعد ابراہیم بن الولید کو حکومت مل گئی اور اس کے بعد مروان الحماد بر سر اقتدار آیا، جس کے خاتمہ سے بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ابو العباس سفاح کی چار سالہ حکومت کے بعد منصور دوانیقی کو اقتدار مل گیا۔
آپ کے مناقب و کرامات کے متعلق جو کچھ تحریر کیا جائے بہت کم ہے، کیونکہ آپ امت محمدی (ص) کے لیے روشن دلیل ہیں، بلکہ صدق و تحقیق پر عمل پیرا اولیاء کرام کے باغ کا ثمر، آل علی، سردار انبیاء کے جگر گوشہ اور صحیح معنوں میں وارث نبی (ص) بھی ہیں۔ آپ کے علوم کی طرف نظر ڈالی جائے آپ کے شاگردوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کتنے بڑے عالم تھے۔ جابر بن حیان بن عبداللہ جو کیمیا کے ماہر جانے جاتے ہیں، یہ آپ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔ انہوں نے امام جعفر الصادق(ع) کے پانچ سو رسائل (خطوط) کو جمع کرکے ایک ہزار صفحہ کی کتاب تالیف کی تھی۔
اس کے علاوہ امام اعظم حضرت ابو حنیفہ (ر) جیسی شخصیت نے بھی بہت کچھ آپ سے سیکھا۔ ایک مرتبہ آپ (ع) نے امام ابو حنیفہ (ر) سے سوال کیا کہ دانشمندی کی تعریف کیا ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا جو بھلائی اور برائی میں تمیز کرسکتا ہو، آپ نے فرمایا یہ تمیز تو جانور بھی کر لیتے ہیں، کیونکہ جو ان کی خدمت کرتا ہے، اس کو یہ ایذا نہیں پہنچاتے اور جو تکلیف دیتا ہے اسکو کاٹ کھاتے ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ (ر) نے پوچھا کہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی تعریف کیا ہے؟ جواب دیا کہ جو دو بھلائیوں میں سے بہتر کو اختیار کریں اور دو برائیوں میں مصلحتاً کم برائی پر عمل کرے۔ (تذکرۃ الاولیاء، حضرت خواجہ فرید الدین عطار )
اسی طرح آپ (ع) نے ایک مرتبہ حضرت ابو حنیفہ (ر) سے چند سوالات کیے کہ ذرا یہ تو بتاؤ کہ آنکھ میں نمک، کان میں تلخی، ناک میں رطوبت اور لبوں میں شیرینی کیوں ہے؟ کون سا کلام ہے جس کی ابتداء کفر اور انتہا اسلام ہے؟ عورت کے یہاں حیض اور حمل جمع کیوں نہیں ہوتے ہیں۔؟ حضرت ابو حنیفہ (ر) نے عاجزی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ ہی ان سوالات کے جوابات دے دیں۔ اسکے بعد آپ نے ان سوالات کے جوابات یوں دیئے۔
آنکھ میں نمک نہ ہوتا تو تو حدقہ چشم بہہ جاتا، کان میں تلخی نہ ہوتی تو کیڑے مکوڑے داخل ہو جاتے اور ناک میں رطوبت نہ ہوتی تو سانس کی آمد و رفت میں مشکل ہو جاتی اور خوشبو اور بدبو کا احساس نہ ہو سکتا، لبوں میں شیرینی نہ ہوتی تو کسی شے کے ذائقہ کا احساس نہ ہوتا، وہ کلام جس کی ابتداء کفر اور انتہا اسلام ہے وہ کلمہ توحید ہے کہ اس میں ’’لاالہ‘‘ کفر ہے اور ’’الا اللہ‘‘ اسلام ہے۔ عورت کے یہاں حیض و حمل کا اجتماع اس لیے نہیں ہوتا کہ خون کا رخ بچہ کی طرف پھیر دیا جاتا ہے، اور اس طرح سے بچے کو غذا فراہم کی جاتی ہے۔
آپ (ع) نہ صرف علم بلکہ اخلاقیات اور سخاوت میں بھی اعلٰی درجہ پر فائز تھے۔ جیسا کہ ایک شخص کی دینار کی تھیلی گر گئی تو اس نے آپ کے اوپر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ میری تھیلی تم نے ہی چرائی ہے۔ حضرت امام جعفرالصادق (ع) نے اس سے سوال کیا کہ اس تھیلی میں کتنی رقم تھی۔؟ اس نے کہا کہ دو ہزار دینار۔ چنانچہ گھر جا کر آپ (ع) نے اس کو دو ہزار دینار دے دیئے اور بعد میں جب اس کی کھوئی ہوئی تھیلی دوسری جگہ سے اسے مل گئی تو اس نے پورا واقعہ بیان کرکے معافی چاہتے ہوئے آپ سے رقم واپس لینے کی درخواست کی، لیکن آپ نے فرمایا کہ ہم کسی کو دے کر واپس نہیں لیتے، پھر جب لوگوں سے اس نے آپ کا اسم گرامی معلوم کیا تو اس نے بےحد ندامت کا اظہار کیا۔ ماہ شوال کی 25 تاریخ ۱۴۸ھ دو شنبہ کا دن تھا جب آپ اس عالم فانی سے رخصت ہوئے، آپ کی شہادت زہر دغا سے ہوئی ہے اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے، عمر مبارک ۶۵ سال تھی۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید