بشارت عظمٰی کانفرنس، مشترکہ اعلامیہ
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی کی زیر صدارت جامعتہ المنتظر میں بشارت عظمیٰ کانفرنس کا اہتمام دو اگست کو کیا گیا۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد منبر حسینی (ع) کی عظمت اور مکتب اہل بیت (ع) کے مسلمات اور تقدس کا دفاع و تحفظ تھا۔ کانفرنس میں ملک بھر […]

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی کی زیر صدارت جامعتہ المنتظر میں بشارت عظمیٰ کانفرنس کا اہتمام دو اگست کو کیا گیا۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد منبر حسینی (ع) کی عظمت اور مکتب اہل بیت (ع) کے مسلمات اور تقدس کا دفاع و تحفظ تھا۔ کانفرنس میں ملک بھر سے علما و ذاکرین اور بانیان مجالس نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مقررین نے اپنے خطابات میں واضح کیا ہے کہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ اور شرک کرنے والا مرتد ہے۔ باطل عقیدہ تفویض (سپردگی) سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ہم شیعہ اثناعشریہ شرک کے ارتکاب کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں سے برائت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم ختم نبوت اور امامت پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہیں جبکہ ولایت علی علیہ السلام کو ایمان کی علامت اوران سے بغض کو نفاق کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ شیعہ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ فقہ اہل بیت کے ماہرین کی طرف رجوع کرکے ہی فقہ جعفریہ پر عمل ممکن اور نسبت درست ہوتی ہے۔
غیر مقلد (اگر خود مجتہد نہیں ہے) فقہ جعفریہ کا پیروکار نہیں ہو سکتا۔ اعلامیہ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ سید الشہدا کو ولایت اہل بیت کا اقرار اور ان کے دشمنون سے بیزاری کا اعلان سمجھتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ نماز دین کا ستون ہے، جس کے پاس نماز نہیں، اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہے اور جو اللہ کی بندگی نہیں کرتا وہ رسول کی امت اور علی (ع) کا شیعہ نہیں ہو سکتا۔ کانفرنس سے قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی، علامہ محمد تقی نقوی، علامہ افتخار نقوی، علامہ محمد افضل حیدری، علامہ سبطین سبزواری، علامہ محمد شفا نجفی، کرم علی حیدری، علامہ محمد امین شہیدی، مولانا ضمیر نقوی، ڈاکٹر شبیر حسن میثمی، شبیہہ رضا زیدی، نو بہار شاہ، اور ذاکرین ثقلین گھلو، مزمل شاہ، اقبال ناصر چانڈیہ، اعجاز جھنڈوی، مفتی عابد اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ سٹیج حسینی کا تحفظ کرنا ہوگا۔ شرک کا ارتکاب کرنے والے شیعہ نہیں ہوسکتے۔ یہ نصیری اور استعماری ایجنٹ ہیں، جو سازش کے تحت ملت جعفریہ کو تقسیم اور بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ آیت اللہ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ دعوت اسلام کے ساتھ ہی سب سے پہلے توحید اور پھر نما ز کا حکم آیا۔ پہلے نمازی خاتم الرسل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، حضرت علی علیہ السلام اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ جوان سے تعلق رکھتا ہے، نماز ترک نہ کرے۔
کانفرنس کے اختتام پر ذیل مشترکہ اعلامیہ جاری کیا:
ملت جعفریہ کے علماء و ذاکرین کا یہ مذہبی نمائندہ اجتماع اصول و فروع دین کے بارے میں اپنے متفقہ اور غیر متزلزل عقائد کا اظہار کرتا ہے۔
توحید: اللہ تعالٰی کی واحدانیت پر پختہ ایمان
(الف): اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ نہ ذات میں نہ عبادت میں نہ صفات میں نہ افعال میں (عبادت میں کوئی شریک نہیں) لا الہ الا اللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
(اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں)
اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَءِی (سورہ الزمر آیت نمبر 39)
اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔
(اللہ کے سوا کوئی رازق نہیں)
وَمَا مِنْ دَآبَۃِِفِیْ الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (سورہ ہود آیت نمبر ۶)۔ کوئی جنبش کرنے والا (ذی روح) ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔
(ب): کائنات پر اللہ ہی کی حاکمیت ہے۔ فَسُبْحَانَ الَّذِیْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلَّ شَیْ ءِِ وَاَلَیْہِ تُرْجَعُونَ (سورہ یسین آیت نمبر 36 ) ہر چیز کی حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
(ج): عقیدہ تفویض (سپردگی ) باطل عقیدہ ہے اور اپنے آئمہ علیہم السلام کی تاسی میں فرقہ مفوضہ سے برائت کا اعلان کرتے ہیں۔ مذہب شیعہ اثناعشریہ شرک کے ارتکاب کرنے والوں ،شرک کو پسند کرنے والوں اور شرک کے سہولت کاروں سے برائت کا اعلان کرتا ہے۔
یہ اعلان برائت اس اعلان برائت کا تسلسل اور تاسی ہے جو مولی الموحد ین قاتل المشرکین امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے بحکم خدا اور رسول (ص) حج اکبر کے دن سنہ ۹ ہجری میں مکہ میں کیا تھا۔
و اذان من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بری من المشرکین ورسولہ(سورہ برآئت آیت نمبر ۳)
اور اللہ اورا س کے رسول ؐ کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ص) مشرکین سے بیزار ہے۔
عدل: عدل الہٰی، اللہ تعالیٰ عادل ہے وہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے ان پر ظلم نہیں کرتا اور اس کا ہر حکم ہر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے چنانچہ اللہ نے دوسروں پر ظلم کرنے سے روکا ہے۔
نبوت: اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کی فلاح و نجات کے لئے پیغام لے کر آنے والے تمام انبیاء علیہم السلام برحق ہیں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی برحق اور خاتم الرسل ہیں۔ ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان ہے اور جو شریعت آپ نے پیش کی ہے وہ ناسخ الشرائع اور تاقیامت کے لئے نافذ العمل ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پیش کیا ہے اس پر عمل کرنا اور جس سے روکا اس سے رکنا واجب ہے۔
وَمَااٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا (سورہ الحشر آیت نمبر ۵۹)
اور اس بات پر بھی ہمارا پختہ ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شریعت کی حفاظت کے لئے قرآن و اہل بیت ؑ کو دوگراں قدر کے عنوان سے ہمارے درمیان چھوڑا ہے اور ان سے تمسک کرنے کو گمراہی سے نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
امامت: رسول اللہ (ص) کے بعد عقیدہ امامت پر ہمارا پختہ اور غیر متزلزل ایمان ہے اور یہ عقیدہ ہمارے اصول دین و ایمان میں شامل ہے۔ اس عقیدے کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ ہم بارہ اماموں کو منصوص من اللہ واجب الاطاعت ان کے قول و فعل کو حجت سمجھتے ہیں اور ان کی احادیث کو سنت رسول (ص) کا تسلسل سمجھتے ہیں اور قرآن کے ساتھ عترت کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محافظ سمجھتے ہیں۔ ہم ولایت علی علیہ السلام کو ایمان کی علامت اور علی علیہ السلام سے بغض کو نفاق کی علامت سمجھتے ہیں۔ ہم ولایت علی وآل علی (ع) کو شرط صحت و قبول عبادت سمجھتے ہیں۔ ہم دشمنان محمد وآل محمد علیہم السلام سے اسی طرح برائت کا اعلان کرتے ہیں جس طرح مشرکین سے برائت کا اعلان ہے ۔ہم اولیاء اللہ سے محبت اور اعداء اللہ سے عداوت کو ایمان کی علامت سمجھتے ہیں۔ ہم فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ہم احکام شریعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آئمہ اہل بیت کے ذریعہ اخذ کرتے ہیں اور آئمہ علیہم السلام کی احادیث) جو سنت رسول کا تسلسل ہے) کی صحت و سقم کو سمجھنے والوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ فقہ اہل بیت کے ماہرین کی طرف رجوع کرکے ہی فقہ جعفریہ پر عمل ممکن اور نسبت درست ہوتی ہے۔ غیر مقلد (اگر خود مجتہد نہیں ہے ) فقہ جعفریہ کا پیروکار نہیں ہو سکتا۔
عزاداری
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کا اقرار اور دشمنان اہل بیت سے بیزاری کا اعلان سمجھتے ہیں۔ ہم مظلوم کربلا کے مصائب پر گریہ کرنے اور اس کے لئے اہتمام کرنے کو سنت رسول ؐ سمجھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین ؑ کی شہادت سے پہلے اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے شہادت کے بعد گریہ فرمایا اور آئمہ علیہم السلام نے مجلس عزاداری قائم کرکے اس سنت کو جاری رکھا ہے۔ ہم آئمہ اہل بیت کی خوشی کو اپنے لئے خوشی اور ان کے غم کو اپنے لیے غم سمجھتے ہیں اور مظلوم کا غم منانا ظالم کے خلاف طاقتور دیوار ہے اور اس بات پر پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ دینی قدروں کو پامال کرنے سے رسول خدا و آل رسول کو سب سے زیادہ دکھ پہنچتا ہے۔ ہم اس بات پر پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت نے اسلامی قدروں کو پامال کرکے دین اسلام کی نمائندگی کرنے والے دعویداروں کے چہرے بے نقاب کرکے دین اسلام کو تحفظ دیا ہے ورنہ آج یزید اور بنی امیہ کے حکمرانوں کی سیرت کو حجت قرار دیا جاتا۔
معاد: ہم معاد پر پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو حساب کے لئے دوبارہ اٹھائے گا اور ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔
فروع دین کو دین اسلام کے اہم احکام سمجھتے ہیں۔
ان میں سے نماز کو دین کا ستون سمجھتے ہیں اور اس بات پر پختہ ایمان رکھتے ہیں جس کے پاس نماز نہیں ہے اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہے اور جو اللہ کی بندگی نہیں کرتا وہ رسول (ص) کی امت اورعلی ؑ کا شیعہ نہیں ہے۔
بشارت عظمیٰ کانفرنس کی اہمیت، حیثیت اور افادیت مسلمہ ہے۔ عصر حاضر میں ذاکری و مجالس کے نام پر منبر و سٹیج حسینی (ع) سے ایسا مواد پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جو دین اسلام اور تعلیمات اہل بیت (ع) سے کسی طور مطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس تناظر میں یہ اعلامیہ بانیان مجالس، اہل تشیع عوام، ذاکرین و علماء کیلئے رہنماء ہے کہ سٹیج حسینی سے جاری پیغام کو اسی کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں اور تشیع کے نام پر پنپتی ہوئی نصیریت کے سامنے بند باندھ سکتے ہیں
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید