تازہ ترین

عاشورا، درس و عبرت کا سرچشمہ/رہبر معظم

قربانی امام حسین علیہ السلام ، عاشور کا واقعہ، آپ کا چہلم اور دیگر مناسبتیں، تاریخ اسلام کا وہ اہم ترین موڑ ہے جہاں حق و باطل کا فرق پوری طرح نمایاں ہو گیا۔ اس قربانی سے اسلام محمدی کو نئی زندگی ملی اور اس دین الہی کو بازیجہ اطفال بنا دینے کے لئے کوشاں یزیدیت کی فیصلہ کن شسکت ہوگئی۔ اس واقعے میں بے شمار درس اور عبرتیں پنہاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر عاشورا اور قربانی امام حسین علیہ السلام سے ملنے والے درس اور عبرتوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ آپ کے خطابات کے متعلقہ اقتباسات ناظرین کے پیش خدمت ہیں؛

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2827

 

چہلم سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ دشمنوں کے تشہیراتی طوفان کے سامنے حقیقت اور شہادت کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے ۔ آپ دیکھیں انقلاب کے آغاز سے آج تک ، انقلاب ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ ، اسلام اور اس قوم کے خلاف پروپگنڈے کتنے وسیع رہے ہيں ۔ جنگ کے خلاف کیا کیا پروپگنڈے نہيں کئے گئے ۔ وہ بھی اس جنگ کے خلاف جو اسلام ، وطن اور عزت نفس کا دفاع تھی ۔ دیکھیں دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف کیا کیا جنہوں نے اپنی سب سے قیمتی شئے یعنی اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کر دی ۔ آپ دیکھیں کہ دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ، ریڈیو ، ٹی وی اخبارات رسالوں اور کتابوں کے ذریعے سادہ لوح افراد کے دل و دماغ میں کیسے کیسے خیالات بھر دئے ۔ 

یہاں تک تک کہ کچھ سادہ لوح اور نادان لوگ ہمارے ملک میں بھی ، جنگ کے ان ہنگامہ خیز حالات میں کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتے تھے جو در اصل نادانی اور حقیقت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہوتی تھی ۔ یہی سب باتیں امام خمینی کو آشفتہ خاطر کر دیتی تھیں اور آپ اپنی ملکوتی پکار کے ذریعے حقائق بیان کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔ 

اگر ان پروپگنڈوں کے مقابلے میں حقائق کو بیان نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے اور اگر ایرانی قوم ، مقررین ، رائٹروں اور فنکاروں کی آگاہی اس ملک کے حقائق کے لئے وقف نہ ہوگی تو دشمن پروپـگنڈوں کے میدان میں کامیاب ہو جائے گا ۔ پروپگنڈوں کا میدان بہت بڑا اور خطرناک ہے ۔ البتہ ، ہماری عوام کی بھاری اکثریت انقلاب کی برکتوں سے حاصل ہونے والی آگاہی کی وجہ سے ، دشمنوں کے پروپگنڈوں سے محفوظ ہے ۔ دشمن نے اتنے جھوٹ بولے اور عوام کے سامنے آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کے بارے میں ایسی غلط بیانی سے کام لیا کہ عوام میں عالمی تشہیراتی مشنری کی باتوں پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔ 

ظالم و جابر یزیدی تشہیراتی مشنری اپنے پروپگنڈوں میں امام حسین علیہ السلام کو قصور وار ٹھہراتی تھی اور یہ ظاہر کرتی تھی کہ حسین بن علی وہ تھے جنہوں نے عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کے خلاف ، حصول دنیا کے لئے قیام کیا تھا اور کچھ لوگوں کو اس پروپگنڈے پر یقین بھی آ گیا تھا! اس کے بعد بھی جب امام حسین علیہ السلام کو صحرائے کربلا میں اس مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیا گیا تو اسے فتح و کامیابی کا نام دیا گیا !! لیکن امامت کی صحیح تشہیرات نے ، اس قسم کے تمام پروپگنڈوں کا قلع قمع کر دیا۔

 

89-9-20

 

آپ بھائیوں اور بہنوں اور ایران قوم کے تمام لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ کربلا ہمارے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے ۔ کربلا ہمارا مثالیہ ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہيں ہونے چاہئے ۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے ۔ صحیح ہے کہ صدر اسلام میں ، حسین بن علی علیہ السلام بہتر لوگوں کے ساتھ شہید کر دئے گئے لیکن اس کا معنی یہ نہيں ہے کہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے یا جو بھی قیام و جد و جہد کرے اسے شہید ہو جانا چاہئے ، نہيں ۔ ملت ایران ، بحمد اللہ آج امام حسین علیہ السلام کے راستے کو آزما چکی ہے اور سر بلندی و عظمت کے ساتھ اقوام اسلام اور اقوام عالم کے درمیان موجود ہے ۔ وہ کارنامہ جو آپ لوگوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل انجام دیا وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ جنگ کے دوران بھی ایسا ہی تھا ۔ ہماری قوم سمجھتی تھی کہ اس کے مقابلے میں مغرب و مشرق کی طاقتیں اور پورا سامراج کھڑا ہوا ہے لیکن وہ ڈری نہيں ۔ البتہ ہماری پیارے شہید ہوئے ۔ کچھ لوگوں کے اعضائے بدن کٹ گئے اور کچھ لوگوں نے برسوں جیلوں میں گزارے اور کچھ لوگ اب بھی بعثیوں کی جیل میں ہیں لیکن قوم ان قربانیوں کی بدولت عزت و عظمت کے اوج پر پہنچ گئ ۔ اسلام ہر دل عزیز ہو گیا ہے ، اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے یہ سب کچھ مزاحمت کی برکت سے ہے _

 

92-7-1

 

 

محرم و صفر کے ایام میں ہماری قوم کو اپنے اندر جد و جہد ، عاشور ، دشمن سے نہ ڈرنے ، خدا پر توکل اور خدا کی راہ میں جہاد و قربانی کے جذبے کو استحکام بخشنا چاہئے اور اس کے لئے امام حسین علیہ السلام سے مدد مانگنی چاہئے ۔ مجالس عزا اس لئے ہے تاکہ ہمارے دل حسین ابن علی علیہ السلام اور ان کے اہداف سے قریب ہوں ۔ کچھ کج فہم یہ نہ کہيں کہ امام حسین علیہ السلام ہار گئے کچھ کج فہم یہ نہ کہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی راہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام ایرانی قوم کو قتل ہو جانا چاہئے ۔ کون نادان اس قسم کی باتیں کر سکتا ہے ؟ قوموں کو امام حسین علیہ السلام سے درس حاصل کرنا چاہئے یعنی دشمن سے نہيں ڈرنا چاہئے ، خود پر بھروسہ رکھنا چاہئے ، اپنے خدا پر توکل کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر دشمن طاقتور ہے تو اس کی یہ طاقت زیادہ دنوں تک باقی نہيں رہنے والی ہے ۔ اسے یہ جاننا چاہئے کہ اگرچہ دشمن کا محاذ بظاہر وسیع اور مضبوط ہے لیکن اس کی حقیقی طاقت کم ہے کیا آپ دیکھ نہيں رہے ہیں کہ تقریبا چودہ برسوں سے دشمن اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کامیاب نہيں ہو پائے ہیں ! یہ ان کی کمزوری اور ہماری طاقت کے علاوہ اور کیا ہے ؟ ہم طاقتور ہیں ہم اسلام کی برکت سے طاقتور ہیں ۔ ہم اپنے عظیم خدا پر توکل اور بھروسہ کرتے ہيں یعنی ہمارے ساتھ الہی طاقت ہے اور دنیا اس طاقت کے سامنے ٹک نہيں سکتی۔

 

92-7-1

 

یہ اہم نکتہ یہ درس ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام ، تاریخ اسلام کے ایک حساس دور میں مختلف فرائض میں اصلی فریضہ کی شناخت کی اور اس پر عمل در آمد کیا – انہوں اس چیز کی شناخت میں جس کی اس دور میں ضرورت تھی کسی قسم کا وہم و تذبذب نہيں کیا جبکہ یہ چیز مختلف زمانوں میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کا ایک کمزور پہلو ہے یعنی یہ کہ عالم اسلام کے عوام اور ان کے اہم رہنما کسی خاص دور میں اصل فریضے کے بارے میں غلطی کریں اور انہيں یہ نہ پتہ ہو کہ کون سا کام اصل ہے اور اسے کرنا چاہئے اور دوسرے کاموں کو اگر ضرورت ہو تو اس پر قربان کر دیا جائے انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ کون سا کام اہم اور کون سا کام دوسرے درجے کی اہمیت کا حامل ہے اور کس کام کو کتنی اہمیت دینی چاہئے اور کس کام کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے ۔ 

حسین ابن علی علیہ السلام کے تحریک کے زمانے میں ہی بہت سے ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ اب قیام کا وقت ہے اور اگر وہ سمجھ جاتے کہ اس قیام کے اپنے مسائل ہیں تو وہ دوسرے درجے کے اپنے فرائض سے چپکے رہتے جیسا کہ ہم نے دیکھا کچھ لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ تحریک میں شامل نہ ہونے والوں میں مومن و پابند شرع افراد بھی تھے ۔ ایسا نہيں تھا کہ سب کے سب اہل دنیا تھے ۔ اس دور میں عالم اسلام کے برگزیدہ افراد اور اہم شخصیات میں مومن اور ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہتے تھے لیکن فریض کی شناخت نہيں کر پاتے تھے ، زمانے کے حالات کی سمجھ نہيں رکھتے تھے ، اصل دشمن کو نہيں پہچانتے تھے اور اہم اور پہلے درجے کی اہمیت کے حامل کاموں کے بجاۓ دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں کو اختیار کرتے تھے یہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت رہی ہے ۔ آج بھی ہم اس مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہيں اور زیادہ اہم چیز کے بدلے کم اہم کام کر سکتے ہیں ۔ اصل کام کو جس پر سماج ٹکا ہوا ہو ، تلاش کرنا چاہئے ۔ کبھی اسی ہمارے ملک میں سامراج و کفر و ظلم و جور کے خلاف جد و جہد کی باتیں ہوتی تھیں لیکن کچھ لوگ اسے فرض نہيں سمجھتے تھے اور دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کو‏ئی درس دیتا تھا یا کتاب لکھتا تھا یا چھوٹا موٹا مدرسہ چلاتا تھا اگر کچھ لوگوں کے بیچ تبلیغ کا کام انجام دیتا تھا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر جد و جہد میں مصروف ہو جائے گا تو یہ کام بند ہو جائيں گے ! اتنی عظیم جد و جہد کو چھوڑ دیتا تھا کہ ان کاموں کو پورا کر سکے ! یعنی ضروری اور اہم کام کی شناخت میں غلطی کرتا تھا ۔ 

حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے خطبوں سے یہ سمجھا دیا کہ عالم اسلام کے لئے ان حالات میں ظالم و جابر طافت کے خلاف جد و جہد اور شیطانی طاقتوں سے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے لڑائی سب سے زیادہ ضروری کام ہے ۔ ظاہر ہے حسین ابن علی علیہ السلام اگر مدینے میں ہی رہ جاتے اور عوام کے درمیان احکام اسلام اور علوم اہل بیت پھیلاتے تو کچھ لوگوں کی تربیت ہو جاتی لیکن جب اپنے مشن پر وہ عراق کی سمت بڑھے تو یہ سارے کام رہ گئے وہ لوگوں کو نماز کی تعلیم نہيں دے سکتے تھے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث لوگوں کے سامنے بیان نہیں ہو سکتی تھیں ، درس گاہ اہل بیت بند ہو جاتی اور مدینہ کے یتیموں اور بے نواؤں کی امداد بھی ممکن نہیں ہوتی ۔ یہ سب ایسے کام تھے جنہيں آپ انجام دیتے تھے لیکن آپ نے ان تمام کاموں کو ایک زيادہ اہم کام پر قربان کر دیا ۔ یہاں تک کہ حج جیسے فریضے کو بھی جس کے بارے میں تمام مبلغین بات کرتے ہيں اس فریضے پر قربان کر دیا وہ فریضہ کیا تھا ؟ جیسا کہ آپ نے فرمایا اس نظام کے خلاف جد و جہد جو بد عنوانی کی کی جڑ تھا ۔ آپ نے فرمایا : «اُریدُ اَن اَمُرَ بالْمَعْروف وَاَنْهى‏ عَنِ الْمُنْكَر وَ اَسیرَ بِسیرة جَدّى.» میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور اپنے جد کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں اسی طرح آپ نے ایک دوسرے خطبے میں فرمایا کہ «اَیهاالنّاس! اِنَّ رَسول‏اللَّه، صلّى‏اللَّه‏علیه‏وآله، قال مَنْ رأى‏ سُلطاناً جائراً مُسْتَحِلّاً لِحُرَمِ اللَّه، ناكِثاً لِعَهْداللَّه [تا آخر] فَلَمْ یُغَیِّر عَلَیْهِ بِفِعْلٍ و َلا قَولٍ كانَ حَقاً عَلَى‏اللَّه اَنْ یَدخل یُدْخِلَهُ مُدْخِلَه.» یعنی ظالم و جابر سلطان کے مقابلے میں تبدیلی ، یعنی وہ طاقت بدعنوانی پھیلاتی ہے اور جو نظام انسانوں کو تباہی اور مادی و معنوی فنا کی سمت لے جاتی ہے ۔ یہ حسین ابن علی علیہ السلام کی تحریک کی وجہ ہے البتہ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی مصداق سمجھا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضے کی طرف رجحان میں ان نکتوں پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے آپ زیادہ اہم فریضے کے لئے آگے بڑھتے ہيں اور دوسرے فرائض کو بھلے ہی وہ بھی اہم ہوں ، اس زیادہ اہم فریضے پر قربان کر دیا۔ آج یہ واضح ہونا چاہئے کہ اہم کام کیا ہے ؟ ہر زمانے میں اسلامی سماج کے لئے ایک تحریک معین ہے ، ایک دشمن ، دشمن کا ایک محاذ عالم اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرے پیدا کرتا ہے اسے پہچاننا چاہئے اگر ہم دشمن کی شناخت میں غلطی کریں گے ، جس سمت سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچ رہا ہے اور ان پر حملہ ہو رہا ہے اگر اس کی شناخت میں ہم غلطی کر رہے ہيں تو اس سے نا قابل تلافی نقصان ہوں گے اور بڑے بڑے مواقع ہاتھ سے نکل جائيں گے _

 

92-7-1

 

ایک معروف جملہ جو جو امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہے – البتہ مجھے نہيں معلوم یہ نسبت صحیح ہے یہ نہیں – نہایت حکیمانہ جملہ ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے انما الحیاۃ عقیدۃ و جہاد یعنی کسی ہدف سے لو لگانا اور کسی مقصد کو متعین کرنا پھر اس کے لئے جد و جہد کرنا ۔ اسلام انسانوں کو مقصد عطا کرنے اور انہیں اعلی و خوبصورت انسانی مقاصد کی طرف بڑھانے کے لئے آیا ہے ایسے راستے پر اگر انسان ایک قدم بھی آگے بڑھتا ہے ، خلوص کے ساتھ کوشش کرتا ہے اور قربانی پیش کرتا ہے تو اگر اسے پریشانیوں ، دکھوں اور بظاہر ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے تو بھی وہ دلی طور پر اور اللہ کے نزدیک خوش ہوتا ہے کیونکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے فرض کے مطابق اعلی مقاصد کی سمت حرکت اور اس کے لئے کوشش کی ہے خود یہ کوشش بھی اہم ہے حالانکہ یہ کوشش ہمیشہ انسان کو اس کے ہدف سے نزدیک کرتی ہے یہ وہی چیز ہے جس نے ایرانی قوم کی جد و جہد کو شکل عطا کی اور آج بھی یہ جد و جہد بدستور جاری ہے ۔ اس انقلاب اور اس جد و جہد نے جس ہدف کا تعین کیا تھا وہ ایسا ہدف تھا جس کا فائدہ پوری انسانیت کو حاصل ہوتا ہے وہ ہدف عالمی سطح اور چھوٹے علاقے میں ایک ملک کی سطح پر ظلم و جور و امتیاز کے خلاف جد و جہد تھا اور اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ انسانیت کے

 

سامنے اعلی اہداف پیش کئے جائيں_ فضائیہ کے جوانوں سے ملاقات میں93-2-8

 

 

امام حسین علیہ السلام کا واقعہ ایک سبق ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت بھی ہے اس کا درس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے کیسا کارنامہ انجام دیا اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ امام حسین علیہ السلام نے تمام عالم انسانیت کو بہت عظیم درس دیا ہے جس کی عظمت سب پر عیاں اور واضح ہے _

 

سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں سے ملاقات میں95-1-5

 

 

 

بڑی عجیب بات ہے کہ ہماری پوری زندگی امام حسین علیہ السلام کی یاد سے لبریز ہے خدا کا شکر ہے ۔ اس عظیم ہستی کی تحریک کے بارے میں بھی بہت باتیں کہی جا چکی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انسان اس بارے میں جتنا بھی سوچتا ہے اسے غور و فکر و تحقیق و مطالعہ کا میدان اتنا ہی وسیع نظر آتا ہے ۔ اس عظیم و تعجب خیز واقعے کے بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیں کہ جن پر ہمیں غور کرنا چاہئے اور اس پر بات کرنی چاہئے ۔ اگر باریک بینی سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید یہ کہا جا سکے کہ انسان امام حسین علیہ السلام کی چند مہینوں پر محیط تحریک سے ، جس کی شروعات مدینے سے مکہ کی سمت سفر سے ہوئی اور اختتام کربلا میں جام شہادت نوش کرنے پر ہوا ، سو سے زیادہ اہم درس حاصل کر سکتا ہے میں ہزاروں درس کہہ سکتا ہوں اس تحریک سے ہزاروں درس حاصل کئے جا سکتے ہيں ۔ ممکن ہے ان کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی ایک درس ہو لیکن یہ جو میں کہتا ہوں کہ سو درس سے زیادہ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ان کے کاموں کو باریک بینی سے دیکھیں تو اس سے سو باب اور سو عنوان نکل سکتے ہيں جن میں سے ہر عنوان اور ہر باب ایک قوم ، ایک تاریخ اور ایک ملک کے لئے ، نظام چلانے اور خدا کی قربت کے حصول کا درس ہو سکتا ہے ۔ 

یہی وجہ ہے کہ حسین ابن علی ارواحنا فداہ و اسمہ و ذکرہ دینا میں مقدس ہستیوں کے درمیان سورج کی طرح چمک رہے ہيں ۔ انبیاء ، اولیا ، ائمہ شہدا اور صالحین پر نظر ڈالیں ! اگر وہ لوگ چاند و ستاروں کی مانند ہیں تو امام حسین ان کے بیچ سورج کی طرح چمک رہے ہيں البتہ ان سو درسوں کے ساتھ ہی جن کی سمت میں نے اشارہ کیا ہے امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں ایک اہم و اصلی سبق بھی ہے جس کے بارے میں میں آج گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا اس کے علاوہ سب کچھ حاشیہ کی باتیں ہیں یہ اصل متن ہے اور وہ یہ ہے کہ امام حسین نے قیام کیوں کیا ؟ یہ ایک سبق ہے ۔ 

امام حسین علیہ السلام سے کہا گیا :مدینہ اور مکے میں آّپ کی بہت عزت کی جاتی ہے اور یمن میں شیعوں کی بڑی تعداد ہے کسی ایسی جگہ چلے جائيں جہاں آپ یزيد سے کوئی مطلب نہ رکھیں اور یزید بھی آپ سے کوئی مطلب نہ رکھے ! اتنے مرید ہیں آپ کے اتنے شیعہ ہیں ، جائيں زندگی گزاریں ، عبادت کریں تبلیغ کریں ! آپ نے قیام کیوں کیا ؟ معاملہ کیا ہے ؟ 

یہ وہی اصلی سوال ہے ۔ یہ وہی اصلی سبق ہے ۔ میں یہ نہيں کہتا کہ کسی نے اب تک یہ بات نہيں کہی ، کیوں نہيں انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں بہت محنت و کوشش کی گئ ہے بہت سی باتیں کہی گئ ہیں تاہم آج جو بات ہم کہہ رہے ہيں وہ خود ہماری نظر میں اس معاملے میں ایک نئ سوچ اور نظریہ ہے ۔ 

کچھ لوگ یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ امام یزید کی فاسد و بد عنوان حکومت کو گرا کر خود ایک حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔یہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا ہدف تھا۔ یہ بات ، آدھی صحیح ہے۔ 

میں یہ نہيں کہہ رہا ہوں کہ یہ بات غلط ہے اگر اس بات کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے حکومت کی تشکیل کے لئے قیام کیا وہ بھی اس طرح سے اگر یہ سمجھ میں آ جائے کہ نہيں یہ کام نہيں ہوگا اور انسان واپس ہو جائے تو یہ غلط ہے ۔ 

جی جو حکومت کی تشکیل کی غرض سے آگے بڑھتا ہے وہ وہیں تک جاتا ہے جہاں تک وہ یہ سمجھتا ہے کہ کام ہو جانے والا ہے ۔ جیسے ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کام کی انجام دہی کے امکان نہيں ہے تو اس کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ واپس لوٹ جائے اگر ہدف حکومت کی تشکیل ہو تو وہاں تک انسان کے لئے آگے بڑھنا جائز ہے اور جہاں سے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو وہیں وہيں سے واپس لوٹ جانا چاہئے ۔ اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام کے قیام کا مقصد حق پر مبنی علوی حکومت کا قیام تھا اگر ان کی مراد یہ ہے تو یہ صحیح نہيں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی پوری تحریک میں یہ چیز دکھائي نہيں دیتی ۔ 

دوسری طرف کہا جاتا ہے نہيں جناب ، حکومت کیا ہے ، امام کو علم تھا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں کامیاب نہيں ہوں گے بلکہ وہ تو قتل اور شہید ہونے کے لئے آئے تھے ! یہ بات بھی کافی مدت تک بہت سے لوگوں کی زبان پر جاری تھی ! کچھ لوگ شاعرانہ انداز میں بھی اسے بیان کرتے تھے بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے کچھ بڑے علماء نے بھی یہ بات کہی ہے ۔یہ بات کہ امام نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔انہوں نے سوچا کہ اب رک کر کچھ نہيں کیا جا سکتا تو چلو شہید ہوکر ہی کچھ کر دیا جائے ! 

یہ بات بھی ہماری اسلامی کتب و مدارک میں نہيں ہے کہ جاؤ خود کو موت کے منہ میں ڈال دو ۔ ہماری یہاں ایسا کچھ نہيں ہے ۔ مقدس شریعت میں ہم جس قسم کی شہادت سے آشنا ہیں اور جس کی نشاندہی قرآن مجید اور روایتوں میں کی گئ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کسی واجب یا اہم مقصد کے لئے نکلے اور اس راہ میں موت کے لئے بھی تیار رہے ۔ یہ وہی صحیح اسلامی شہادت ہے لیکن یہ صورت کہ آدمی نکل پڑے تاکہ مارا جائے اور شاعرانہ لفظوں میں اس کا خون رنگ لائے اور اس کے چھیٹے قاتل کے دامن پر پڑیں تو یہ ایسی باتیں نہيں ہیں جن کا تعلق اس عظیم واقعے سے ہو ۔ اس میں بھی کچھ حقائق ہيں لیکن امام حسین علیہ السلام کا یہ مقصد نہيں ہے ۔ 

مختصر یہ کہ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے تشکیل حکومت کے لئے قیام کیا تھا اور ان کا مقصد حکومت کی تشکیل تھا اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہ امام نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا تھا بلکہ بات کچھ اور ہے جسے میں پہلے خطبے میں انشاء اللہ بیان کروں گا اور آج میرے پہلے خطبے کا اصل موضوع یہی ہے ۔ 

مجھے ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مقصد حکومت تھا یا مقصد شہادت تھا تو ان لوگوں نے مقصد اور نتیجہ کو خلط ملط کر دیا ہے ۔ جی نہیں ، مقصد یہ سب نہیں تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کا دوسرا مقصد تھا لیکن اس دوسرے مقصد تک رسائی کے لئے ایک ایسے کام کی ضرورت تھی جس کا شہادت یا حکومت میں سے کوئی ایک نتیجہ سامنے آتا ۔ البتہ آپ دونوں کے لئے تیار تھے ۔ انہوں نے حکومت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے اور اسی طرح شہادت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے ۔ اس کے لئے تیار ہو رہے تھے اور اس کے لئے بھی ۔ جو بھی ہوتا صحیح ہوتا اور کوئی مسئلہ نہ ہوتا لیکن ان میں سے کوئی بھی ، مقصد نہيں تھا بلکہ دو نتائج تھے ۔ مقصد کچھ اور تھا ۔

مقصد کیا تھا ؟پہلے تو میں اس مقصد کو مختصر طور پر ایک جملے میں بیان کرتا ہوں پھر تھوڑی سی وضاحت کروں گا ۔ 

اہم ہم امام حسین علیہ السلام علیہ السلام کے مقصد کو بیان کرنا چاہیں تو ہمیں اس طرح سے کہنا چاہئے کہ آپ کا مقصد تھا دینی واجبات میں سے ایک عظیم واجب پر عمل تھا اور وہ ایسا واجب عمل تھا جسے امام حسین علیہ السلام سے قبل کسی نے بھی _ یہاں تک کہ خود پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی _ انجام نہيں دیا تھا ۔ نہ پیغمبر اسلام نے اس واجب کو انجام دیا تھا ، نہ امیر المومنین نے اور نہ ہی امام حسن مجتبی نے ۔ 

یہ ایک ایسا واجب تھا جس کا اسلام کے اقدار ، افکار اور علم کے ڈھانچے میں نہایت اہم کردار ہے ۔ حالانکہ یہ واجب ، نہایت اہم اور بنیادی ہے لیکن پھر بھی امام حسین علیہ السلام کے زمانے تک اس واجب پر عمل نہيں ہوا تھا – میں عرض کروں گا کہ کیوں عمل نہیں ہوا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کو اس واجب پر عمل کرنا تھا تاکہ پوری تاریخ کے لئے ایک سبق ہو جائے ۔ مثال کے طور پر پیغمبر اعظم نے حکومت کی تشکیل کی اور تشکیل حکومت پوری تاریخ اسلام کے لئے درس بن گئ صرف اس کا حکم ہی صادر نہيں کیا یا پیغمبر نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور یہ تاریخ اسلام اور بشریت کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک درس بن گيا ۔ اس واجب پر بھی امام حسین علیہ السلام کے ذریعے عمل ہونا تھا تاکہ مسلمانوں اور پوری تاریخ کے لئے عملی سبق ہو جائے ۔ 

اب سوال یہ ہے کہ کیوں امام حسین علیہ السلام یہ کام کریں ؟ کیونکہ اس واجب پر عمل کے حالات ، امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہی فراہم ہوئے تھے اگر یہ حالات امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پیش نہيں آتے مثال کے طور پر امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں یہ حالات پیش آتے ۔ اگر امام حسن مجتبی یا امام صادق علیھما السلام کے زمانے میں بھی پیش آتے تو یہ لوگ اس واجب پر عمل کرتے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے سے قبل یہ حالات پیش نہیں آئے اور امام حسین علیہ السلام کے بعد بھی تمام ديگر ائمہ کے دور میں غیبت تک یہ حالات پیش نہيں آئے ! 

تو ہدف کا مطلب ہوا اس واجب پر عمل در آمد اب میں اس بات کی وضاحت کروں کا کہ یہ واجب کیا ہے ۔ اس وقت فطری طور پر اس واجب پر عمل در آمد کا ان دو میں سے کوئي ایک نتیجہ ہوتا : یا اس کا یہ نتیجہ ہوتا کہ وہ اقتدار و حکومت تک پہنچ جاتے ۔ خوش آمدید امام حسین علیہ السلام تیار تھے ۔ اگر آپ کو اقتدار حاصل بھی ہو جاتا تو آپ اسے مضبوطی سے تھام لیتے اور سماج کی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین کی طرح رہنمائی کرتے لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس واجب پر عمل در آمد سے حکومت حاصل نہيں ہوتی ، شہادت ملتی ، اس کے لئے بھی امام حسین علیہ السلام تیار تھے ۔

خداوند عالم نے امام حسین علیہ السلام اور ديگر ائمہ کو کچھ اس طرح سے خلق کیا تھا کہ اس راہ میں شہادت جیسے سنگین بوجھ کو بھی اٹھانے پر قادر ہوں اور انہوں نے ایسا کرکے دکھایا بھی ۔ البتہ کربلا کے مصائب کا ذکر ایک مختلف قسم کا واقعہ ہے جس کی میں یہاں تھوڑی سی وضاحت کروں گا ۔ بھائیو اور بہنو! اور نمازیو! پیغمبر اکرم اور کوئي دوسرا پیغمبربھی جب آتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ احکام ہوتے ہیں ۔ یہ جو احکام پیغمبر لاتا ہے ان میں سے کچھ انفرادی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح کر سکے اور کچھ احکام اجتماعی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے انسانوں کی دنیا کو آباد کرے اور اسے چلائے اور انسانی سماجوں کو پائدار رکھے ۔ یہ وہ احکام ہیں جنہيں اسلامی نظام کہا جاتا ہے ۔ 

جی تو اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلب مقدس پر نازل ہوا ۔ وہ نماز لآئے ، روزہ ، زکات ، انفاق ، حج ، گھرانے کے قوانین ، ذاتی تعلقات کے اصول ، اللہ کی راہ میں جہاد ، حکومت کی تشکیل ، اسلامی معیشت ، عوام اور حکام کے تعلقات اور حکومت کے سلسلے میں عوام کے فرائض جیسے احکامات لے آئے ، اسلام نے یہ سب چیزیں بشریت کے سامنے پیش کیں اور یہ سب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا ۔ «ما من شى‏ء یقربكم من الجنّة و یباعدكم من النّار الّا و قد نهیتكم عند و امرتكم به»؛ پیغبمر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تمام چیزوں کو بیان کیا جو ایک ایک اور ایک انسانی سماج کو سعادت و کامیابی سے ہمکنار کر سکتی تھیں ، صرف بیان ہی نہيں کیا بلکہ اس پر عمل بھی کیا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اسلامی حکومت اور اسلامی سماج کو تشکیل عمل میں آئي ، اسلامی معیشت کے اصولوں پر عمل ہوا ، جہاد کیا گيا اور اسلامی زکات لی گئ ۔ ایک اسلام ملک اور ایک اسلام نظام بنا ۔ اس نظام کا ناظم اور اس قافلے کا رہنما نبی اکرم اور وہ ہے جو ان کی جگہ پر بیٹھتا ہے ۔ راستہ بھی واضح ہے ۔ اسلامی سماج کو اور اسلامی فرد کو اس راستے پر اسی سمت میں حرکت کرنا چاہئے کہ اگر ایسا ہو جائے تو اس وقت انسان کمال کی منزل تک پہنچ جائے گا ، انسان صالح اور فرشتہ صفت ہو جائيں گے ، لوگوں کے درمیان سے ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا ، برائی ، فساد ، اختلافات ، فقر و جہالت کا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ انسان حقیقی خوشحالی میں زندگی گزارے گا اور خدا کا کامل بندہ بن جائے گا ۔ 

اسلام یہ نظام نبی اکرم کے ذریعے لایا اور اس دور کے انسانی سماج میں اس پر عمل در آمد کیا ۔ کہاں ؟ ایک ایسے گوشے میں جسے مدینہ کہا جاتا تھا اور پھر مکے اور کچھ دیگر شہروں میں یہ نظام پھیل گيا ۔

یہاں پر ایک سوال باقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : اگر یہ گاڑی جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پٹری پر لگایا ہے ، عمدا یا حادثاتی طور پر پٹری سے اتر گئ تو کیا ہوگا ؟ اگر اسلامی سماج منحرف ہو گیا ، اگر یہ انحراف اتنا بڑھ گیا کہ پورے اسلام و اسلامی تعلیمات میں انحراف کا خوف پیدا ہو جائے تو کیا کیا جائے ؟ 

انحراف کی دو قسمیں ہیں : کبھی عوام منحرف ہوتے ہيں _ یہ بہت زیادہ ہوتا ہے _ لیکن اسلامی احکام کا خاتمہ نہيں ہوتا ، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام جب منحرف ہو جاتے ہیں تو حکومتیں بھی بد عنوان ہو جاتی ہیں اور علماء اور دینی مقررین بھی گمراہ ہو جاتے ہیں ! گمراہ آدمی سے ، صحیح دین حاصل نہيں کیا جا سکتا ۔ قرآن و حقائق میں تحریف کر دی جاتی ہے ، اچھائی کو برائی ، برائی کو اچھائی ، اچھوں کو برا اور بروں کو اچھا بنا دیا جاتا ہے ! اسلام نے مثال کے طور پر اگر کوئي لکیر اس طرف کھینچی ہے تو اسے ایک سو اسی درجے بدل کر اس طرف کھینچ دیا جاتا ہے ، اگر اسلامی نظام اور سماج اس قسم کے مسئلے میں پھنس جائے تو کیا کیا جائے ؟ 

البتہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ کیا کیا جائے ، قرآن مجید نے بھی فرمایا ہے : «من یرتد منكم عن دینه فسوف یأتى اللَّه بقوم یحبّهم و یحبّونه» _ آخر تک_ اور اسی طرح بہت سی آیتیں اور روایتیں بھی ہيں یا یہی روایت جو امام حسین سے نقل ہے اور میں آپ کو سنا رہا ہوں ۔ امام حسین علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس روایت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا ، لیکن کیا آنحضرت اس الہی حکم پر عمل کر سکتے تھے ؟ نہيں ، کیونکہ یہ الہی حکم اس وقت قابل عمل ہے جب سماج منحرف ہو چکا ہو ۔ اگر سماج منحرف ہو گیا ، تو کچھ کرنا چاہئے یہاں پر خدا کا حکم ہے ۔ جن سماجوں میں انحراف اس حد تک بڑھ جائے کہ اصل اسلام کے منحرف ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائےتو اس موقع کے لئے خدا نے کچھ فرائض عائد کئے ہيں ۔ خدا نے انسان کو کسی بھی معاملے میں یونہی نہيں چھوڑ تا ۔ 

پیغمبر اسلام نے اس فریضے کو بیان کیا ہے ۔ قرآن و حدیث میں بھی موجود ہے لیکن پیغمبر اسلام اس فریضے پر عمل نہيں کر سکتے تھے ۔ کیوں نہيں کر سکتے تھے ؟ کیوں کہ اس فریضے پر اس وقت عمل کیا جاتا ہے جب سماج منحرف ہو جائے ۔ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے دور میں اس طرح سے منحرف نہيں ہواتھا ۔ امام حسن علیہ السلام کے دور میں بھی کہ جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت تھی ، حالانکہ اس انحراف کی بہت سی علامتیں ظاہر ہو رہی تھی لیکن ابھی یہ انحراف اس حد تک نہيں پہنچا تھا کہ پورے اسلام کے لئے خطرہ لاحق ہو جاتا شاید کہا جا سکے کہ تھوڑے عرصے کے لئے یہ صورت حال بھی پیدا ہوگئ تھی لیکن اس وقت اس کام کو انجام دینے کا موقع نہيں تھا _ مناسب موقع نہيں تھا _ اس حکم کی اہمیت ، جو احکام الہی کا حصہ ہے ، خود حکومت سے کم نہیں ہے ۔ کیونکہ حکومت یعنی سماج کو چلانا ۔ اگر سماج دھیرے دھیرے پٹری سے اتر جائے ، منحرف ہو جائے بدعنوان ہو جائے اور خدا کے احکامات تبدیل کر دئے جائيں ، تو اگر حالات بدلنے اور تجدید حیات _ یا آج کے لفظوں میں انقلاب ، اگر انقلاب کا حکم _ نہ ہو تو یہ حکومت کس کام ہوگی ؟ 

تو سماج کو پٹری پر لانے سے متعلق جو حکم ہے اس کی اہمیت ، حکومت کی تشکیل کے حکم سے کم نہيں ہے ۔ شاید کہا جا سکتا ہو کہ اس کی اہمیت کفار سے جہاد سے کہیں زیادہ ہے ۔ شاید کہا جا سکے کہ اس کی اہمیت سماج میں عام سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زيادہ ہے بلکہ یہاں تک بھی شاید کہا جا سکے کہ اس حکم کی اہمیت بڑی عبادتوں اور حج سے بھی زیادہ ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کیونکہ در حقیقت یہ حکم ، موت کے دہانے پر پہنچنے یا مرنے کے بعد اسلام کی حیات نو کو یقینی بناتا ہے ۔ 

تو اب سوال یہ ہے کہ اس حکم پر عمل در آمد کون کرے گا ؟ اس واجب کی بجاآوری کس کی ذمہ داری ہے ؟ 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس جانشین پر جس کے زمانے میں یہ انحراف سامنے آیا ہو ۔ لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ حالات سازگار ہوں کیونکہ خداوند عالم نے ایسا کوئی کام واجب نہيں کیا ہے جس کا کوئي فائدہ نہ ہو ، اگر حالات سازگار نہ ہوں تو آپ جو کام بھی کریں اس کا کوئی فائدہ اور اثر نہيں ہوگا ۔ حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے ۔ 

البتہ حالات کے سازگار ہونے کے بھی دوسرے معانی ہيں ، نہ یہ کہ ہم کہيں چونکہ خطرات ہیں اس لئے حالات سازگار نہيں ہیں یہاں پر یہ مراد نہيں ہے ۔ حالات سازگار ہوں یعنی انسان کو علم ہو کہ یہ جو کام کر رہا ہے اس کے نتائج بھی بر آمد ہوں گے یعنی عوام تک اس کا پیغام پہنچے گا ، لوگوں کی سمجھ میں بات آ جائے گی اور وہ غلط فہمی میں نہيں رہيں گے ۔ یہ ، وہی فرض ہے جسے کسی ایک کو بجا لانا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ، اس طرح کا انحراف بھی تھا اور حالات بھی سازگار تھے تو امام حسین کے لئے قیام ضروری ہو گیا تھا کیونکہ انحراف پیدا ہو چکا تھا ۔ کیونکہ معاویہ کے بعد اقتدار جس نے سنبھالا وہ ایسا شخص تھا جس ظاہری اسلام کا بھی خیال نہيں رکھتا تھا ! شراب پیتا تھا اور غلط کام انجام دیتا تھا ۔ علی الاعلان جنسی بد عنوانی کرتا تھا ، قرآن کے خلاف بات کرتا تھا قرآن اور دین کی رد میں اشعار پڑھتا تھا اور کھل کر اسلام کی مخالفت کرتا تھا لیکن چونکہ اس کا نام مسلمانوں کے سردار کے طور پر لیا جاتا تھا اس لئے اسلام کے نام کو ہٹانا نہيں چاہتا تھا ۔ وہ اسلام پر عمل کرنے والا تھا نہ اس کے دل میں اسلام سے ہمدردی تھی بلکہ وہ اپنے اعمال سے ، اس گڑھے کی طرح ، جس سے ہمیشہ گندہ پانی نکلے اور اطراف کے پانی کو آلودہ کرے ، اسلامی سماج کو گندہ کر رہا تھا اس کے وجود سے پورا اسلامی سماج گندگی سے پر ہو جاتا ! بد عنوان حاکم ایسا ہوتا ہے ۔ کیونکہ حاکم ، چوٹی پر ہوتا ہے اور اس سے جو کچھ نکلتا ہے ، وہیں پر نہيں ٹھہرتا _ عام لوگوں کے بر خلاف _ بلکہ نیچے گرتا ہے اور ہر جگہ چھا جاتا ہے ! 

عام لوگ ، اپنی جگہ پر ہوتے ہیں البتہ جس کا بالاتر مقام ہوتا ہے ، جس کی سماج میں زیادہ حیثیت ہوتی ہے اس کی بد عنوانی کا نقصان اتنا ہی زيادہ ہوتا ہے ۔ عام لوگوں کی بدعنوانی ، ممکن ہے خود ان کے لئے یا ان کے اطراف کے کچھ لوگوں پر موثر ہو لیکن جو آگے ہوتا ہے اگر وہ بدعنوان ہو جائے ، تو اس کی بدعنوانی پھیلتی اور پورے ماحول کو خراب کر دیتی ہے اسی طرح سے اگر وہ نیک ہوتا ہے تو اس کی نیکی پھیلتی ہے اور ہر جگہ اس کے اثرات دیکھے جاتے ہیں ۔ 

ایسا شخص اتنی بدعنوانیوں کے ساتھ ، معاویہ کے بعد پیغمبر اعظم کا خلیفہ بن بیٹھا ہے ! اس بڑا انحراف کیا ہو سکتا ہے ؟! ماحول بھی سازگار ہے ، ماحول سازگار اس کا کیا مطلب ؟ یعنی خطرہ نہيں ہے ؟ کیوں نہيں خطرہ ہے ۔ کیا یا ہو سکتا ہے کہ سماج کے سب سے بڑے عہدے پر جو شخص ہو ، وہ اپنے سامنے کھڑے ہونے والے کے لئے خطرہ نہ ہو ؟ یہ تو جنگ ہے ۔ آپ اسے تخت سلطنت سے نیچے کھینچنا چاہتے ہيں تو کیا وہ بیٹھا تماشا دیکھتا رہے گا ؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی آپ کو نقصان پہنچائے گا تو پھر خطرہ تو ہے ۔

اور یہ جو ہم کہتے ہيں کہ حالات سازگار ہيں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی سماج کا ماحول ایسا ہے کہ جس میں امام حسین علیہ السلام کا پیغام اس دور کے انسانوں کے کانوں تک پہنچ اور تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو سکتا ہے ۔ اگر معاویہ کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام قیام کرنا چاہتے تو ان کا پیغام دفن ہو جاتا ۔ یہ معاویہ کے زمانے میں حکومت کے حالات کی وجہ سے ہے ۔ پالیسیاں کچھ اس طرح تھیں کہ عوام سچی بات کی سچائی کو سننے کی صلاحیت نہيں رکھتے تھے ۔ اسی لئے آپ حالانکہ معاویہ کے زمانے میں دس برسوں تک امامت کے عہدے پر فائز رہے لیکن کچھ نہیں بولے ۔ کوئي کام ، کوئی اقدام کوئي قیام نہيں کیا کیونکہ اس وقت کے حالات مناسب نہيں تھے ۔ 

آپ سے پہلے بھی امام حسن علیہ السلام تھے ۔ انہوں نے بھی قیام نہيں کیا کیونکہ حالات مناسب نہيں تھے اس کا یہ مطلب قطعی نہيں ہے کہ امام حسین اور امام حسن یہ کام کرنے کی صلاحیت نہيں رکھتے تھے ۔ امام حسن اور امام حسین میں کوئی فرق نہيں ہے ، امام حسین اور امام زین العابدین میں کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسین اور امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام میں کوئی فرق نہيں ہے ۔ ہاں لیکن چونکہ امام حسین علیہ السلام نے یہ عظیم کام انجام دیا ہے اس لئے ان کا مقام ان سے بالاتر ہے جنہوں نے یہ کام انجام نہيں دیا لیکن سب کے سب امامت کے عہدے میں برابر ہیں اور ان عظیم شخصیات میں سے جس کے سامنے بھی ایسے حالات پیش آتے وہ یہی کام کرتا اور اسی مقام پر پہنچتا ۔ 

تو امام حسین علیہ السلام بھی اس قسم کے انحراف کو دیکھ رہے ہيں تو پھر فریضے پر عمل در آمد ضروری ہے ۔ حالات بھی سازگار ہیں اس لئے کوئي عذر بھی باقی نہيں بچتا اس لئے عبد اللہ بن جعفر ، محمد بن حنفیہ اور عبد اللہ بن عباس _ یہ لوگ عام افراد نہيں تھے بلکہ سب کے سب دین کا علم رکھنے والے ، صاحب عرفان ، عالم اور با فہم تھے _ جب امام سے کہتے تھے کہ مولا ! خطرہ ہے ، نہ جائيں ، تو در اصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب خطرہ ہو تو فرض ختم ہو جاتا ہے وہ یہ نہيں سمجھ رہے تھے کہ یہ ایسا فریضہ نہيں ہے جو خطرہ کی وجہ سے ساقط ہو جائے ۔ اس فريضے کے ساتھ ہمیشہ خطرہ ہوتا ہے ۔ کیا یہ ہو سکتا انسان ، ظاہری اعتبار سے ایسی طاقت کے خلاف قیام کرے اور کوئي خطرہ نہ ہو ؟! کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟! اس فریضے پر عمل میں ہمیشہ خطرہ ہے وہی فریضہ جس پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عمل کیا ۔ آپ سے بھی کہا گیا کہ آپ نے بادشاہ سے لڑائی مول لی ہے خطرناک ہے ۔ امام خمینی کو علم نہيں تھا کہ اس میں خطرہ ہے ؟! امام خمینی کو نہيں معلوم تھا کہ پہلوی سیکوریٹی فورس لوگوں کو گرفتار کرتی ہے ، قتل کرتی ہے ، ایذائيں دیتی ہے ، آدمی کے دوستوں کا قتل کرتی ہے انہيں جلا وطن کرتی ہے ؟! امام خمینی رضوان اللہ کو ان سب باتوں کا علم نہيں تھا ؟! 

جو کام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہوا اس کا چھوٹا سا نمونہ امام خمینی رحمت اللہ کے زمانے میں بھی پیش آیا بس اس فرق کے ساتھ کہ وہاں پر نتیجہ شہادت کی شکل میں سامنے آیا اور یہاں حکومت کی شکل میں ۔ یہ وہی چیز ہے ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کا مقصد اور امام خمینی رضوان اللہ کا مقصد ایک ہی تھا ۔ یہ بات امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کی بنیاد اور شیعی نظریات و علوم کا ایک بڑا حصہ ہے یہ ایک اہم ستون اور اسلام کا ایک رکن ہے ۔ 

تو ہدف کا معنی ، اسلامی سماج کو اس کی صحیح پٹری پر لانا ہے ۔ کب ؟ جب راہ ، بدل دی جائے اور جہالت و ظلم و استبداد اور کچھ لوگوں کی غداری ، مسلمانوں کو گمراہ کردے اور حالات بھی سازگار رہیں ۔ 

البتہ تاریخی حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی حالات سازگار ہوتے ہیں اور کبھی سازگار نہیں ہوتے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں حالات سازگار تھے ہمارے زمانے میں بھی حالات سازگار تھے ۔ امام خمینی رضوان اللہ نے بھی وہی کام کیا ۔ مقصد ایک ہی تھا لیکن بات یہ ہے کہ جب انسان اس مقصد کی تکمیل کی راہ پر آگے بڑھتا ہے اور باطل حکومت و مرکز کے خلاف قیام کرنا چاہتا ہے ، تاکہ اسلام اور اسلامی نظام کو اس کے صحیح محور پر لے آئے ، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ حکومت تک پہنچ جاتا ہے ایک شکل تو یہ ہے _ ہمارے زمانے میں خدا کے شکر سے ایسا ہی ہوا _ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قیام حکومت پر منتج نہیں ہوتا ، شہادت ملتی ہے ۔ 

کیا اس صورت میں واجب نہيں ہے ؟ کیوں نہیں ؟ شہادت پر منتج ہو تب بھی واجب ہے ، کیا اگر قیام کا نتیجہ شہادت ہو تو اس صورت میں قیام کا کوئي فائدہ نہيں ہے ؟ کیوں نہيں ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ اس قیام اور اس تحریک کا دونوں صورتوں میں مفید ہے ۔ چاہے شہادت پر منتج ہو چاہے حکومت پر ، لیکن ہر ایک کا مختلف قسم کا فائدہ ہے ۔ اسے انجام دینا چاہئے ، آگے بڑھنا چاہئے ۔

یہ وہی کام تھا جسے امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام وہ تھے جنہوں نے پہلی بار یہ کام کیا تھا ، ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہيں کیا تھا کیونکہ ان سے قبل _ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے زمانے میں _ نہ تو ایسا انحراف تھا اور نہ ہی مناسب حالات تھے ۔ یا اگر کچھ مقامات پر انحراف نظر بھی آتا تھا تو حالات مناسب نہيں تھے۔امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں دونوں چیزیں تھی امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں یہ بنیادی عنصر ہے۔

تو اس طرح سے ہم مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں : امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تاکہ اس عظیم فریضے پر عمل کریں جس کا معنی اسلامی سماج میں بڑی گمراہی کے مقابلے میں قیام کرے اسلامی نظام اور سماج کی تعمیر نو ہے ۔ یہ کام قیام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے ہوتا ہے بلکہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک بڑا مصداق ہے البتہ اس فریضے پر عمل در آمد کبھی حکومت پر منتج ہوتا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اس کے لئے تیار تھے ۔ کبھی یہ شہادت پر منتج ہوتا ہے امام حسین علیہ السلام اس کے لئے بھی تیار تھے ۔ 

ہم کس دلیل کی بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ یہ نتیجہ ہم نے خود امام حسین علیہ السلام کی باتوں سے اخذ کیا ہے ۔ میں نے امام حسین علیہ السلام کے کلمات میں کچھ جملوں کا انتخاب کیا ہے _ البتہ ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے جو سب کے سب اسی معنی کو بیان کرتے ہيں _ پہلے مدینے میں ، جب مدینے کے حاکم ولید نے آپ کو بلوا کر کہا : معاویہ دنیا سے چلا گیا ہے اور آپ کو یزید کی بیعت کرنی ہے! امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: صبح تک انتظار کرو ، «ننظر و تنظرون اینا احق بالبیعة و الخلافه» ہم جاکر سوچيں گے دیکھیں ہمیں خلیفہ بننا چاہئے یا یزید کو خلیفہ بننا چاہئے ! دوسرے دن مروان نے آپ کو گلی میں دیکھا اور کہا : اے ابو عبد اللہ آپ خود کو موت کے حوالے کر رہے ہيں ! خلیفہ کی بیعت کیوں نہيں کرتے ؟ چلیں بیعت کریں ، خود کو موت کے منہ میں نہ ڈالیں ، خود کو پریشانی میں نہ ڈالیں ! 

امام حسین علیہ السلام نے اس کے جواب میں یہ جملہ فرمایا: : «اناللَّه و انا الیه راجعون و على‏الاسلام السّلام، اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید»؛ اب اسلام کو رخصت کر دینا چاہئے جب یزید جیسا حاکم بر سر اقتدار ہو اور اسلام یزيد جیسے حاکم میں پھنس جائے ! معاملہ صرف یزید کا نہيں ہے ، جو بھی یزید کی طرح ہو ۔امام حسین علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں اب تک جو کچھ تھا قابل برداشت تھا لیکن اب دین اور اسلامی نظام کے اصولوں کی بات ہے جو یزید جیسے حاکم کی حکومت میں تباہ ہو جائے گا ۔ آپ اپنے اس قول سے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس انحراف کا خطرہ سنجیدہ ہے ۔ اسلام کی جڑوں کے لئے خطرہ ہے ۔ 

امام حسین علیہ السلام نے مدینے سے نکلتے وقت بھی اور مکے سے نکلتے وقت بھی محمد بن حنفیہ سے کچھ باتیں کی ہیں ۔ میرے خیال میں یہ باتیں اس وقت سے متعلق ہیں جب آپ مکے سے باہر نکلنا چاہ رہے تھے ۔ ذی الحجہ کے مہینے میں جب محمد بن حنفیہ بھی مکے گئے تھے اس وقت آپ نے ان سے کچھ باتیں کی تھیں ۔ آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کی شکل میں کچھ لکھ کر دیا تھا ۔

اس میں آپ نے خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی وغیرہ کے بعد لکھا ہے : «و انى لم اخرج اشرا ولا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً»؛ یعنی کچھ لوگ غلطی نہ کریں اور یہ مشہور نہ کریں کہ امام حسین بھی ادھر ادھر سے قیام کرنے والے کچھ دوسرے لوگوں کی طرح اقتدار کے لئے قیام کر رہے ہیں ۔ خود نمائی ، عیش و عشرت ظلم و بدعنوانی کے لئے جد و جہد شروع کر رہے ہیں ! ہمارا کام اس قسم کا نہیں ہے ۔ «و انّما خرجت لطلب‏الاصلاح فى امّة جدّى»ہمارے کام کا عنوان اصلاح ہے ۔ میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ وہی فریضہ ہے جس پر امام حسین علیہ السلام سے قبل عمل نہيں ہوا تھا ۔ 

یہ اصلاح قیام و خروج کے ذریعے ہے ۔ خروج یعنی قیام ، حضرت نے اس وصیتنامے میں ، اس بات کا ذکر کیا ہے _ تقریبا اس بات کی صراحت کی ہے _ یعنی پہلی بات تو یہ کہ ہم قیام کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہمارا قیام اصلاح کے لئے ہے نہ اس لئے کہ ہم ہر صورت میں حکومت کو حاصل کر لیں نہ ہی اس لئے ہے کہ ہر حال میں ہم جاکر شہید ہی ہو جائيں ۔ نہيں ، ہم اصلاح کرنا چاہتے ہيں ۔ البتہ اصلاح کوئی چھوٹا کام نہیں ہے ۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہيں انسان حکومت تک پہنچ جاتا ہے اور خود ہی زمام حکومت سنبھال لیتا ہے لیکن کبھی وہ یہ نہيں کر سکتا _ یعنی ایسا ہوتا نہيں _ بلکہ وہ شہید ہو جاتا ہے لیکن ہر دو حالت ، اصلاح کے لئے قیام ہے ۔ 

اس کے بعد آپ فرماتے ہيں : «ارید ان آمر بالمعروف و انهى‏ عن المنكر و اسیر بسیرة جدّى» یہ اصلاح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی مصداق ہے یہ بھی ایک مختلف بات ہے۔ 

حضرت نے مکے میں دو خطوط لکھے ہیں کہ جن میں ایک بصرہ کے سرداروں اور دوسرا کوفہ کے سرداروں کے نام تھا ۔ بصرہ کے سردارں کے نام آپ کے خط میں یہ لکھا ہے : «و قد بعث رسولى الیكم بهذا الكتاب و انا ادعوكم الى كتاب اللَّه و سنة نبّیه فان سنّة قد امیتت و البدعة قدا حییت فان تسمعوا قولى اهدیكم الى سبیل الرّشاد»؛ میں بدعت کو ختم اور ست کو حیات نو عطا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ سنت کو ختم اور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے! اگر میرے ساتھ آؤگے تو راہ راست میرے ساتھ ہے ۔ یعنی میں اسی عظیم فریضے پر عمل کرنا چاہتا ہو جو اسلام ، سنت پیغمبر اور نظام اسلامی کو حیات نو عطا کرنا ہے ۔ پھر آپ نے اہل کوفہ کے نام اپنے خط میں فرمایا : «فلعمرى ما الامام الا الحاكم بالكتاب والقائم بالقسط الدّائن بدین الحقّ الحابس نفسه على ذالك اللَّه والسلام»؛ اسلامی سماج کا پیشوا اور رہنما ایسا شخص نہيں ہو سکتا جو فسق و فجور و بدعنوانی و گناہ میں ڈوبا ہو بلکہ اس عہدے ایسے کے پاس ہونا چاہئے جو خدا کی کتاب پر عمل کرے ۔ یعنی سماج کے درمیان کتاب خدا پر عمل کرے نہ یہ کہ خود ہی اکیلے ایک کمرے میں نماز پڑھے بلکہ خدا کی کتاب پر عمل کو سماج میں رائج کرے ، عدل و انصاف سے کام لے اور حق کو سماج میں قانون بنائے ۔«الداّئن بدین الحق» یعنی سماج کے قوانین و ضوابط اور اصولوں کو حق قرار دے اور باطل کو دور کرے ۔«والحابس نفسه على ذالك للّه»؛ بظاہراس جملے کا معنی یہ ہے کہ خود ہر صورت میں اللہ کے حضور میں سمجھے اور شیطانی و مادی کششوں کے جال میں نہ پھنسے بس ، اس بنا پر آپ نے ہدف معین کر دیا ۔ 

امام حسین علیہ السلام مکے سے نکل گئے ، آپ نے راستے میں تمام منزلوں پر مختلف لہجوں میں کچھ باتیں کہیں ۔ بیضہ نامی منزل میں ایسے حالت میں کہ جب حر بن یزید بھی آپ کے ساتھ ہے ، آپ آگے چلتے ہيں تو وہ بھی آپ کے ساتھ چلتا ہے اس طرح سے آپ اس منزل پر پہنچتے ہيں اور قیام کرتے ہيں ۔ شاید آرام کرنے سے قبل یا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ کھڑے ہوتے ہيں اور دشمن کے لشکر کو مخاطب کرکے اس طرح سے فرماتے ہيں : «ایّهاالنّاس، انّ رسول‏اللَّه (صلّى‏اللَّه‏علیه‏وآله) قال: «من رأى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرام اللَّه، ناكثاً لعهداللَّه، مخالفاً لسنّة رسول‏اللَّه یعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول و لا فعل كان حقّاً على‏اللَّه ان یدخله مدخله»؛ یعنی اگر کوئي یہ دیکھے کہ سماج میں کوئي حاکم اقتدار میں ہے اور ظلم کرتا ہے ، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئي چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے ، الہی احکامات سے کنارہ کش ہوتا ہے یعنی ان پر عمل نہيں کرتا اور دوسروں کو بھی عمل کی جانب راغب نہيں کرتا یعنی عوام میں اس کی کارکردگی گناہ ، مخاصمت اور ظلم پر مشتمل ہوتی ہے ۔ حاکم فاسد اور جائر جس کا مکمل مصداق یزید تھا«و لم‏یغیّر بقول و لافعل»، اور زبان و عمل کے ذریعے اس کے خلاف اقدام نہ کیا جائے «كان حقّاً على اللَّه ان یدخله مدخله» قیامت کے دن خداوند عالم اس چپ رہنے والے لاپروا و بے عمل شخص کو بھی وہی سزا دے گا جو اس نے اس ظالم کو دی ہوگی یعنی ان دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرے گا ۔

یہ بات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی ہے یہ جو ہم نے بات کہی ہے اس کا حکم پیغمبر اسلام نے دیا ہے یہ مختلف بیانات کا ایک نمونہ ہے ۔ پیغمبر نے واضح کر دیا تھا کہ اگر اسلامی سماج انحراف کا شکار ہو جائے تو کیا کیا جائے ۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی پیغمبر اعظم کے اسی قول کو پیش کیا ہے ۔ 

تو پھر فریضہ کیا ہوا ؟ فریضہ قول و فعل کے ذریعے مخالفت ہوا ۔ اگر انسان ایسے حالات میں پہنچ جائے _ البتہ حالات مناسب ہوں _ تو اس پر واجب ہے کہ اس عمل کے خلاف قیام و اقدام کرے نتیجہ جو بھی ہو ، مار ڈالا جائے ، زندہ بچ جائے ، ظاہری اعتبار سے کامیاب ہو نا نہ ہو – ہر مسلمان کو اس صورت حال میں قیام و اقدام کرنا چاہئے یہ وہ فریضہ ہے جس کی وضاحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی ہے ۔ 

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «و انّى احق بهذا»؛ میں تمام مسلمانوں میں سب سے زيادہ مستحق ہوں اس بات کا کہ یہ اقدام کروں اس طرح سے قیام کروں کیونکہ میں فرزند رسول ہوں ۔ اگر پیغمبر اس تبدیلی کو ، یعنی اس اقدام کو مسلمانوں کے فرد فرد پر واجب کیا ہے تو ظاہر ہے کہ حسین ابن علی ، فرزند رسول ، پیغمبر اسلام کے علم و حکمت کے وارث پر دوسروں کے مقابل زیادہ واجب ہے کہ اقدام کریں اور میں نے اسی لئے اقدام کیا ۔ تو امام نے اس طرح سے اپنے قیام کا سبب واضح کر دیا ۔ 

ازید نامی منزل میں جہاں چار لوگ آپ سے ملحق ہوئے امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا ۔ آپ نے فرمایا : «اما واللَّه انّى لأرجو ان یكون خیراً ما اراد اللَّه بنا؛ قتلنا او ظفرنا». یہ اس بات کی دلیل ہے جو ہم نے کہی ہے کوئی فرق نہيں ہے کامیاب ہوں یا مار ڈالے جائيں ، کوئي فرق نہيں پڑتا ۔ فریضہ ، فریضہ ہے اسے انجام دیا جانا چاہئے آپ نے فرمایا : مجھے یہ امید ہے کہ خدا وند عالم نے ہمارے لئے جو فیصلہ کیا ہے وہ خیر ہے چاہے ہم مار ڈالے جائيں یا کامیاب ہوں ۔ کوئي فرق نہيں پڑتا ہم اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں ۔

کربلا پہنچے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا: «قد نزل من الامر ما قد ترون …» اس کے بعد فرمایا«الا ترون الحق لایعمل به و الى الباطل لایتناهى عنه لیرغب المؤمن فى لقاء ربه حقا» – اس خطبے کے آخر تک _ یہاں پر ہم اپنی گفتگو مختر کرتے ہيں ۔ تو یہ بات واضح ہو گئ کہ امام حسین علیہ السلام نے ایک فریضے پر عمل کے لئے قیام کیا تھا ۔ یہ فریضہ طول تاریخ میں تمام مسلمانوں پر ہے اس فریضے کا معنی یہ ہے کہ جب بھی آپ دیکھيں کہ اسلامی سماجی نظام میں ، بنیادی خرابی پیدا ہو گئ ہے اور اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ احکام اسلامی ممکل طور پر بدل دئے جائيں تو ہر مسلمان کو قیام کرنا چاہئے ۔ 

البتہ مناسب حالات میں ، جب اسے یہ علم ہو کہ اس قیام کا اثر ہوگا ۔ حالات میں ، زندہ بچ جانا ، مار ڈالا جانا یا تکلیف نہ اٹھانے جیسی چیزیں شامل نہیں ہیں ، ان کا شمار حالات میں نہيں ہوتا اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور اس واجب فریضے پر عمل کیا تاکہ سب سے لئے درس بن جائے ۔

اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طول تاریخ میں مناسب حالات میں کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دور کے بعد ، کسی بھی امام کے زمانے میں ایسے حالات پیش نہيں آئے خود اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ کیوں ایسے حالات پیش نہيں آئے ؟ کیونکہ ديگر اہم کام تھے جن کو کرنا ضروری تھا اور ایسے حالات ، اسلامی سماج میں ائمہ کی موجودگی کے آخری دور اور غیبت کے آغاز تک پیش نہيں آئے ۔ طول تاریخ میں اسلامی ممالک میں اس قسم کے حالات کئ بار در پیش ہوئے ۔ آج بھی شاید عالم اسلام میں ایسے بہت سے علاقے ہوں کہ جہاں ایسے حالات ہيں کہ جن میں مسلمانوں کو اپنے فريضے پر عمل کرنا چاہئے ، اگر وہ یہ کام کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا اور اسلام کو وسعت دی اور اس کی بقا کو یقینی بنا دیا ۔ اس قیام میں ایک دو لوگوں کو شکست بھی ہوگی ۔

جب اس تبدیلی و قیام و اصلاحی تحریک کا اعادہ ہوگا تو یقینی طور پر سماج سے انحراف و بدعنوانی جڑ سے ختم ہو جائے گی ۔ کسی کو بھی اس راستے کا علم نہيں تھا کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوا تھا ۔ خلیفہ اول کے زمانے میں بھی اس پر عمل نہيں ہوا ، امیر المومنین نے بھی جو معصوم تھے ، اس کام کو انجام نہیں دیا تھا اس لئے امام حسین علیہ السلام نے علمی لحاظ سے پوری تاریخ اسلام کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے اور در حقیقت اسلام کو اپنے اور دیگر تمام زمانوں میں محفوظ کر دیا۔ 

اب جہاں بھی اس قسم کی بدعنوانی ہوگی ، امام حسین وہاں زندہ ہیں اور اپنی روش اور عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ فریضہ یہ ہے ۔ اسی لئے امام حسین اور کربلا کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے کیونکہ کربلا کی یاد اس درس کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ دوسرے اسلامی ملکوں میں ، عاشور سے حاصل سبق کو اس طرح سے جیسا اس کا حق ہے ، پہچانا نہيں گیا ۔ یہ کام ہونا چاہئے ، ہمارے ملک میں اس کی معرفت تھی ۔ ہمارے ملک میں عوام ، امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے تھے اور انہیں امام حسین علیہ السلام کے قیام کی معرفت تھی اور ان میں حسینی جذبہ موجود تھا اسی لئے جب امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ محرم ایسا مہینہ ہے جس میں خون کو شمشیر پر فتح حاصل ہوتی ہے تو لوگوں کو تعجب نہيں ہوا ۔ اور ہوا بھی ایسا ہی خون کو تلوار پر فتح حاصل ہو گئ – 

میں نے کئ برسوں پہلے یہی بات ایک نشست میں کہی تھی _ البتہ انقلاب سے قبل _ ایک مثال میرے ذہن میں آئی جس کا ذکر میں نے اس نشست میں کیا تھا وہ مثال ، اس طوطے کی ہے جس کا ذکر مولوی نے اپنی مثنوی میں کیا ہے ۔ 

ایک آدمی کے گھر میں ایک طوطا تھا _ البتہ یہ ایک مثال ہے اور مثال حقیقت بیان کرنے کے لئے ہوتی ہے _ جب وہ ہندوستان جانے لگا تو اس نے اپنے گھر والوں سے رخصتی کے بعد طوطا کو بھی الوداع کہا ۔ اس نے طوطے سے کہا کہ میں ہندوستان جا رہا ہوں اور ہندوستان تمہاری سرزمین ہے ۔ طوطے نے کہا : فلاں جگہ جانا وہاں میرے دوست و رشتہ دار ملیں گے ۔ وہاں ان سے کہنا کہ تمہارے ایک ساتھی میرے گھر میں ہے ۔ ان سے میری حالت بیان کرنا اور کہنا کہ تمہارا ساتھی میرے گھر میں ایک پنجرے میں ہے ۔ بس تم سے مجھے اور کچھ نہيں چاہئے ۔

وہ سفر پر روانہ ہو گیا اور جب اس جگہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے طوطے درختوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے ہيں ۔ اس نے انہیں پکار کر کہا : اے بولنے والے پیار طوطو! میں تمہارے لئے پیغام لایا ہوں ۔ تمہارا ایک ساتھی ہمارے گھر میں ہے ۔وہ بہت اچھی حالت میں ہے ، پنجرے میں ہے مگر بڑی اچھی حالت میں رہتا ہے اور اچھے اچھے کھانے ملتے ہیں اس نے تمہیں سلام کہا ہے ۔

اس تاجر کی بات جیسے ہی ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ شاخوں پر بیٹھے تمام طوطے پھڑپھڑا کر زمین پر گر گئے ۔ جب وہ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ سب کے سب مر گئے ہيں ! اسے بڑا افسوس ہوا اور سوچنے لگا کہ میں نے آخر کیوں ایسی بات کہی یہ بیچارے سب کے سب مر گئے !! لیکن اب تو وقت گزر چکا تھا اور کچھ نہيں کیا جا سکتا تھا ۔ 

تاجر واپس چل پڑا اور جب اپنے گھر پہنچا تو فورا پنجرے کے پاس گیا اور طوطے سے کہا کہ میں نے تمہارا پیغام پہنچا دیا ۔ اس نے کہا : ان لوگوں نے کیا جواب دیا ؟ تاجر نے کہا : تمہارا پیغام سنتے ہی سارے طوطے پیڑوں پر پھڑاپھڑانے لگے اور پھر زمین پر گر کر مر گئے! 

جیسے ہی تاجر کی بات ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ اس کا طوطا بھی پھڑاپھڑا کر پنجرے میں گرا اور مر گیا ! اسے بہت دکھ ہوا ۔ پنجرہ کھولا تو دیکھا کہ طوطا مر چکا ہے ۔ اب اسے رکھنا ممکن نہيں تھا ۔ اس کا پیر پکڑ کر چھت پر پھینک دیا لیکن طوطے نے ہوا میں ہی پر پھڑپھڑانا شروع کر دیا اور اڑ کر دیوار پر بیٹھ گیا ! اس نے تاجر سے کہا : اے میرے پیارے دوست تمہارا بہت بہت شکریہ ، تم نے میری رہائی کی سبیل کی ۔ میں مرا نہيں تھا ، مرنے کا دکھاوا کر رہا تھا اور یہ وہ سبق تھا جو ان طوطوں نے مجھے سکھایا ! وہ سمجھ گئے کہ میں یہاں پنجرے میں قید ہوں لیکن وہ کس طرح سے مجھے بتاتے کہ میں رہائی کے لئے کیا کروں ؟ انہوں نے عملی طور پر مجھے بتا دیا کہ میں کیا کروں جس سے مجھے رہائی مل جائے ! _ مر جاؤ تاکہ زندگی مل جائے _ میں نے ان کا پیغام تہمارے ذریعے حاصل کیا اور یہ ایسا عملی سبق تھا جو اتنی دوری کے باوجود مجھ تک پہنچا اور ميں نے اس سبق سے فائدہ بھی اٹھایا ۔

میں نے اس وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کس زبان میں یہ بتاتے کہ آپ کا فریضہ کیا ہے ؟ حالات وہی ہیں ۔ زندگی کی نوعیت وہی ہے ، اسلام بھی وہی ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے عملی طور پر تمام نسلوں کو سبق دیا ۔ اگر امام حسین علیہ السلام کی ایک بات بھی ہم تک نہ پہنچتی تو بھی ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ہمارا فریضہ کیا ہے ۔

جو قوم قید میں ہو ، جس قوم کے رہنما بدعنوان ہوں ، جس قوم پر دین کے دشمن حکومت کر رہے ہوں اور اس کے مستقبل اور فیصلوں کے ذمہ دار ہوں تو اسے وقت کے ساتھ یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا فریضہ کیا ہے کیونکہ فرزند رسول ، ایک معصوم امام نے بتا دیا کہ ان حالات میں کیا کیا جانا چاہئے ۔

زبان کے ذریعے ممکن نہيں تھا اگر وہ ہی بات سو زبانوں میں کہتے لیکن خود آگے نہ بڑھتے تو ممکن نہيں تھا کہ یہ پیغام تاریخ کو پار کرتا ہوا یہاں تک پہنچے ۔ صرف نصیحت کرنا اور زبان سے کہی باتیں تاریخ کو عبور نہيں کرتیں ۔ ہزاروں تفسیر و تاویلیں کر دی جاتی ہيں عمل ہونا چاہئے ۔ وہ بھی ایسا عظیم عمل ، ایسے سخت اور ایثار و قربانی کا عمل اتنا عظیم عمل ہونا چاہیے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ! 

حقیقت تو یہ ہے کہ عاشو ر کے جو مناظر ہماری نظروں کے سامنے ہيں اس کے سلسلے میں تو بہتر ہوگا ہم یہ کہیں کہ انسانی المیہ کی تاریخ میں اس کی کوئي مثال نہيں ملتی ۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، جیسا کہ امیر المومنین اور امام حسن علیھم السلام نے فرمایا _ جیسا کہ روایتوں میں ہے _ – «لایوم كیومك یا اباعبداللَّه»؛ کوئي دن تمہارے دن ، تمہارے روز عاشورا ، کربلا کے اور تمہارے ساتھ ہوئے واقعے کی طرح نہيں ہے.

 

چودہ سو سولہ ہجری قمری کے عاشور کے دن جمعہ کا خطبہ 95-6-9

بشکریہ http://urdu.khamenei.ir/index.php?option=com_content&task=view&id=428&Itemid=172 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *