سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اس دفعہ نئے وزیراعظم صاحب کے دل میں گلگت بلتستان کی عوام کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے؟ کیا سکردو کے اس دورے پر وزیراعظم صاحب کو درد دل نے کهینچ لایا تها؟ کیا جو وعدے انہوں نے اجتماع میں عوام سے کئے ہیں وہ پورے بھی ہوں گے؟ کیا اس دفعہ جن اہم منصوبوں کے افتتاح یا تکمیل کی خوشخبری انہوں نے جی بی عوام کو سنائی ہے ان کا افتتاح ہونا یا تکمیل ہونا قطعی ہے؟.
ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ سارے وعدہ وعید مثل سابق صرف قول کی حد تک ہی محدود رہیں گے۔ انہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جائے گا- ان کے اس دورے کا مقصد فقط اپنی پارٹی کے مفادات کی تکمیل تها- سکردو کا دورہ کرنے کا ہدف یہ تها کہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں عوام کو ایک بار پهر مختلف قسم کے سبز باغ دکهاکر ابهی سے ہی انہیں اپنی طرف جذب کرلیں اور ان کی ذہنیت کو اپنی پارٹی کی طرف مائل کریں- ہمارے حکمرانوں کا شروع سے ہی یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب بهی الیکشن کا وقت نزدیک آتا ہے تب انہیں عوام اور عوامی مسائل اچهی طرح یاد آجاتے ہیں- اس دوران میں وہ جگہ جگہ جاکر تقریبات میں عوام سے پوری دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، ان کی ضروریات پوری کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں، ان کے ہر مطالبے کو حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، ان کی مشکلات کو جلد از جلد دور کرنے کی امید دلاتے ہیں، لیکن جب عوامی ووٹ کے ذریعے وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ بے چارے عوام کے مسائل کو یکسر فراموش کر بیٹهتے ہیں- شعور کی کمی کے باعث بار بار کے ناکام تجربات حاصل ہونے کے باوجود ہماری عوام حکمرانوں کی عوام فریبی کی سیاست کے دام میں پهنسنے سے محفوظ نہیں رہتے-
اگر وزیراعظم صاحب واقعا گلگت بلتستان کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمارا سب سے اہم اور دیرینہ مطالبہ ہماری آئینی حیثیت کا تعین ہے۔ اسے پورا کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر ہمارے حکمرانوں کی نظر میں گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے تو الیکشن کے نزدیک وہ خطہ بے آئین کا دورہ کرنے کی زحمت کیوں اٹھاتے ہیں? کیوں مختلف قسم کے سبز باغ دکهاتے ہوتے یہاں کے عوام سے ووٹ مانگتے ہیں؟ کیا یہ کهلا تضاد نہیں ہے؟ الیکشن کے نزدیک سبز باغ دکهاکر عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ خطہ بےآئین میں شروع سے چلا آرہا ہے، حالیہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دورہ سکردو بهی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس میں دورائے نہیں ہوسکتی-
اب اہالیان گلگت بلتستان کے لئے آنے والا الیکشن ایک بڑا امتحان ہوگا۔ جس میں اپنی کامیابی اور ناکامی کا ایک بار پهر فیصلہ ان کا ووٹ کرے گا، انہیں چاہیے کہ ابهی سے ہی اپنے ووٹ کے لئے لائق‛ باصلاحیت اور قابل شخص کی تلاش میں رہیں- یہی وہ حساس وقت ہے جس میں عوام کی مرضی اور اختیار چلتا ہے- ووٹ دے کر اپنے لئے نمائندہ منتخب کرنے کے بعد پهر اگلے پانچ سال کے لئے عوام بے بس ہوتے ہیں- پانچ سال کے لئے اپنی تقدیر بنانے اور بھگاڑنے کا اصلی محرک عوامی ووٹ ہے، جس کا ایک بار پهر عوام کو موقع ملنے والا ہے- پس ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کے لئے شخص کا انتخاب کریں- سیاسی اثر و رسوخ رکهنے والوں کی غلط کنونسینگ سے متاثر ہوکر اندھی تقلید کا شکار نہ ہوجائیں- جذبات میں آکر اپنے قیمتی ووٹ کو ضائع کرکے بعد میں پشیمان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہذا ابهی سے ہی اپنی عقل سے رہنمائی لیتے ہوئے قومی مفادات کے لئے کام کرنے والے افراد کو اپنے لئے نمائندہ انتخاب کرنے پر مشورے اورگفتگو کرکے متفق رہیں – ابهی سے ہی آپ مختلف پارٹیوں اور ان کی قیادت کے سابقہ ریکارڈ چیک کریں اور دیکهئے کہ گلگت بلتستان کی عوام کے لئے کس کی کارکردگی اچهی رہی ہے- آپ ابهی سے ہی اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ ماضی میں کس نے گلگت بلتستان کی ترقی کے لئے کوشش کی ہے اور کون اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد گلگت بلتستان کے مسائل اور مشکلات سے لاتعلق رہے ہیں- اب تک کے تجربات کو سامنے رکھ کر اس پر غور و غوض کرنا ہرگز نہ بهولیں- اگر اچهے نمائندے کے انتخاب میں اہالیان گلگت وبلتستان کامیاب ہوئے تو یقین جانیے کہ گلگت بلتستان کے سارے مسائل ہوں گے- یونیورسٹی بهی بنے گی- روڈ بهی بنے گا اور دوسرے فلاحی وترقیاتی امور پر کام شروع ہونا بهی یقینی ہوگا- کیا گلگت بلتستان کے عوام اس کام کے لئے حاضر ہیں ذرا سوچیں لمحہ فکریہ ہے- کیونکہ زندہ قومیں اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرتی ہیں
