تازہ ترین

پیغمبر کی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ/ انصاریان

اس نوشتہ کا اصلی مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آپ کی ازواج کے ساتھ ساز گاری موافقت کو بیان کرنا ھے تاکہ روشن ھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے ساتھ کس طرح رھتے تھے کہ وہ آپ سے راضی تھیں اور آپ کا زیادہ وقت نہیں لیتی تھیں، تاکہ آپ عبادت و تہجد، تبلیغ دین، رسالت الٰھی کی ادائیگی اور لوگوں پر حکومت و نظارت کے فرائض کو باحسن وجہ انجام دے سکیں۔

مبادا کوئی تصور کرے کہ پیغمبر کی ساری بیبیاں اچھی تھیں اور ان کے درمیان آپس میں کوئی نزاع نہیں تھا بلکہ دست بدست فرائض کی تکمیل اور وظائف کی انجام دھی میں آپ کی مدد کرتی تھیں، پہلی اور دوسری فصل میں ازواج پیغمبر کی ناسازگاری کے واقعات بیان ھوئے اور معلوم ھوا کہ اچھی بیوبیاں جیسے زینب بنت جحش جو پیغمبر کے لئے شھد کا شربت تیار کرتی تھیں اور دوسری بیویوں پر افتخار کرتی تھیں کہ خدا نے ان کا عقد پڑھا ھے جب کسی سفر میں جناب صفیہ کا اونٹ چلنے سے انکار کردیتا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب سے درخواست کرتے ھیں کہ وہ جناب صفیہ کو اپنے اونٹ پر سوار کرلیں تو جواب دیتی ھیں کہ کیا میں آپ کی یہودی بیوی کو اپنے اونٹ پر سوار کرلوں؟ ایسا ھرگز نہیں ھوگا۔ 1

شئیر
53 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3142

 

البتہ یہ ایک نمونہ وہ بھی پیغمبر کی اچھی بیویوں میں سے ایک کی جانب سے سامنے آیا ھم اس فصل میں دوسروں کے ساتھ پیغمبر کے طرز معاشرت اور سلوک کا جائزہ لیں گے تاکہ اس سے اپنی روز مرہ کی زندگی میں درس عبرت لیں۔

دوسروں کے ساتھ سلوک پیغمبر(ص) کے نمونے

 

افراد کی شخصیت کو جاننے اور پہچاننے کی ایک راہ اس کے تربیت یافتہ لوگوں کی شناسائی ھے۔ اگر ھم پیغمبر(ص) کی شخصیت اور آپ کی شرافت و بزرگی کا اس زاویے سے جائزہ لیں، تو ھمیں بہت اچھے نتائج ھاتھ آئیں گے۔

1۔ پیغمبر کے آرام کی خاطر اپنی جان قربان کرنا

 

پیغمبر کے پروردہ اور عاشق افراد میں ایک نام ابو رافع ھیں۔ وہ پیغمبر کے چچا عباس بن عبد المطلب کے غلام تھے۔ عباس نے انھیں پیغمبر کو بخش دیا اور وہ اسلام لے آئے۔ اس کے بعد پہلے آپ نے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ھجرت کی۔ نیز پیغمبر کی بیعتوں میں موجود تھے اور آپ سے عہد کیا اور بالآخر جب جناب عباس کے اسلام لانے کی خبر پیغمبر کے گوش گزار کی تو آپ(ص) نے ان کو آزاد کردیا۔

ابو رافع جو کہ پیغمبر کے اخلاق و عادات کے عاشق تھے آپ سے جدا نہ ھوئے اور مسلسل گھر میں آپ کی خدمت گزاری میں مشغول رھتے تھے اور اس کو آزادی پر ترجیح دیا۔ ایک روز وہ پیغمبر کے پاس آئے کیا دیکھا کہ آپ استراحت فرما رھے ھیں اور ایک سانپ آپ کی جانب چلا آرھا ھے۔ سوچنے لگے کہ اگر سانپ کو ماریں تو ممکن ھے پیغمبر خواب سے بیدار ھوجائیں اور اگر کوئی اقدام نہ کریں تو ممکن ھے سانپ پیغمبر کو ڈس لے۔ اس لئے پیغمبر کی جان کی حفاظت اور آپ کے خواب میں خلل نہ پڑنے کی خاطر پیغمبر اور سانپ کے درمیان لیٹ گئے تاکہ آنحضرت کی سپر ھوجائیں۔ کچھ دیر بعد پیغمبر خواب سے بیدا ھوئے اس حال میں کہ آپ آیہ(انَّما وَلِیُّكُمُ الله وَرَسُوله) کی تلاوت فرما رھے تھے اور ابو رافع کو اپنی بغل میں دیکھا۔

سوال کیا اے ابو رافع یہاں پر کیا کر رھے ھو؟ کیوں یہاں پر لیٹے ھو۔ ابو رافع نے ماجرا بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا: اٹھو اور سانپ کو مار دو 2 شایان ذکر ھے کہ آیہ انّما وَلِیُّكُمُ الله وَرَسُوله حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں ھے اور سورہ مایدہ کی آیات میں سے ھے اور پیغمبر کی عمر کے آخری ایام میں نازل ھوئی ھے۔ اور جناب عباس کا اسلام لانے کا قصہ حتما اس سے پہلے کا ھے بنا بر این ابو رافع اس وقت غلام نہ تھے بلکہ آزاد تھے۔ بدیھی ھے کہ ایسا انسان اپنی حیات اور زندگی کو ھر چیز پر مقدم رکھے کیونکہ استقلال و آزادی کا مزہ پہلی بات منھ کو لگ رھا ھے۔ لیکن ابو رافع نہ صرف یہ کہ پیغمبر کی جان کی حفاظت کو اپنی زندگی پر ترجیح دیتے ھیں بلکہ اس فکر میں ھیں کہ اپنی جان کو پیغمبر کے آرام پر فدا کردیں، اس وجہ سے پیغمبر اور سانپ کے درمیان فاصلہ ھوجاتے ھیں تاکہ خود موت کی آغوش میں میٹھی نیند سوجائیں اور پیغمبر اسلام کے آرام اور نیند میں کوئی خلل واقع نہ ھو۔

پیغمبر اسلام کا طرز رفتار اور سلوک کیسا تھا کہ آپ کا غلام یا بہر حال ایک انسان آپ کا اس طرح عاشق ھوجاتا ھے اور آپ کے تھوڑی دیر کے آرام کے لئے اپنی جان کی قربانی دیتا ھوا نظر آتا ھے در آنحالیکہ کسی رخ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دنیاوی امور یا انعام کی لالچ وغیرہ نے ابو رافع کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ھے یہاں پر ھم آپ کی ایک خصوصیت کی طرف جو اس داستان میں سرسری طور پر نظر آتی ھے اشارہ کر رھے ھیں۔

اچھے کام کے عوض بڑی جزا کا بڑا بدلا

جیسا کہ گزر چکا ھے ابو رافع جناب عباس کے غلام تھے اور آپ نے انھیں پیغمبر(ص) کو بخش دیا تھا اور جب ابو رافع نے جناب عباس کے مسلمان ھونے کی خبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہونچائی تو آپ(ص) نے انھیں آزاد کردیا اس سے پتہ چلتا ھے کہ پیغمبر(ص) اچھے کام کو ھر چند چھوٹا ھو نظر انداز نہیں فرماتے تھے اور اس کے مقابلے میں زیادہ اجر و پاداش ادا کرتے تھے۔

جب ایک انسان کے اسلام لانے کی خبر کی اتنی بڑی جزا ھو اور یہ بھی روشن ھے کہ انسان احسان کا بندہ ھے اس سے ابو رافع کے پیغمبر(ص) سے عشق کا راز معلوم ھوتا ھے۔

البتہ یہ تنہا ایک علت ھے جو اس ماجرا میں منظر عام پر آئی ھے اور ھم تک پہونچتی ھے؛ یقینا آپ بے شمار خصوصیات کے مالک تھے جنھوں نے ابو رافع کو آپ کا عاشق اور گرویدہ بنا رکھا تھا کہ شاید ھم اس نوشتہ میں آپ کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرسکیں۔

چنانچہ ھر شخص خود سے سوال کرتا ھے کہ اگر جناب عباس کے اسلام لانے کی خبر کی ایسی جزا ھے تو پھر سانپ کے اور آپ کے درمیان حائل ھونے اور سانپ کو مارنے کی کیا جزا ھوگی؟ ابو رافع اس طرح نقل کرتے ھیں:

 

جب میں نے سانپ کو مارا تو آنحضرت(ص) نے میرا ھاتھ پکڑا اور فرمایا: اے ابو رافع! جس وقت ایک گروہ علی(ع) سے جنگ کرے گا جنکہ وہ حق پر ھونگے اور وہ گروہ باطل پر ھوگا تمھاری کیا حالت ھوگی اور تمھارا موقف کیا ھوگا؟ میں نے آنحضرت(ص) سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا فرمائیے کہ اگر میں امام کے دشمنوں کو دیکھوں تو خدا مجھکو ان سے لڑنے کی قوت عطا کرے اور آنحضرت(ص) نے دعا فرمائی اس کے بعد میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے لیکر لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا: جو شخص چاھتا ھے کہ میری جان اور میرے اھلبیت کے سلسلے میں میرے مورد اعتماد شخص کی طرف دیکھے تو ابو رافع کی طرف دیکھے کہ وہ میری جان کا امین ھے۔ 3

 

ابو رافع کے دو عمل (پیغمبر کے اور سانپ کے درمیان حائل ھونا اور سانپ کا مارنا) اور پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی جزا حضرت علی(ع) اور مخالفین کے درمیان ھونے والی جنگ کی پیشین گوئی اور حضرت علی(ع) کا حق پر ھونا اور آپ کی نصرت کا واجب ھونا اور ابو رافع کے حق میں پیغمبر کا دعا کرنا) اس روایت کا مضمون ھے یہی وجہ ھے کہ ابو رافع جنگوں میں حضرت علی(ع) کی خدمت میں تھے اور حضرت علی علیہ السلام کی شھادت کے بعد کوفے میں اپنے گھر کو فروخت کرکے حضرت امام حسن علیہ السلام کے ھمراہ مدینہ چلے آئے اور آپ کی خدمت میں رھے۔ 4

اگر اس نکتہ کی طرف توجہ مرکوز رھے کہ لوگ ھر زمانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ھیں اور اس بات کی کوشش کرتے ھیں کہ کسی عالی رتبہ مقام کے حامل شخص سے اپنے بارے میں کوئی تائید حاصل کریں تو روشن ھوگا کہ پیغمبر(ص) نے ابو رافع کے سلسلے میں کیا لطف و عنایت کی ھے۔ آپ اپنی عمر کے آخری ایام میں درانحالیکہ تمام جزیرۂ نمائے عرب پر آپ کی حکومت تھی اور آپ لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رھے تھے ابو رافع کو کتنی اھم سند عطا فرماتے ھیں اور ان کو مجمع عام میں اپنے اور اپنے اھلبیت کے امین کی حیثیت سے متعارف کراتے ھیں اور وہ بھی اس سے مادی اور دنیاوی فائدہ اٹھانے کے بجائے صحیح اور درست راہ کا انتخاب کرتے ھیں اور اس کی پیروی کرتے ھیں۔

2۔ زید بن حارثہ، قیدی سے منھ بولا بیٹا بننے تک

 

زید، حارثہ کے بیٹے شراحیل کے پوتے اور اپنے خانوادے میں بہت محبوب شخص تھے وہ اپنی ماں “سُعدیٰ” کے ھمراہ قبیلۂ طی کی ایک شاخ بنی لعن(جو ان کی ماں کا قبیلہ تھا) کی زیارت کو جارھے تھے کہ بنی القین کے لشکر نے بنی معن پر حملہ کردیا اور اسیروں کے درمیان زید کو بھی اسیر کرلیا اور بازار عکاظ میں ان کو فروخت کرنے کے لئے لائے، حکیم بن حزام نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لئے خرید لیا اور حضرت خدیجہ نے ان کو پیغمبر کی بعثت سے پہلے جب کہ وہ ابھی آٹھ سال کے تھے آپ(ص) کو بخش دیا۔ باپ نے بیٹے کی جدائی میں بہت غمناک اشعار کہے جن سے بیٹے کے تئیں ان کی گہری محبت کا پتہ چلتا ھے۔

بَکیتُ علی زَیدٍ وَلَمۡ أدۡرِ ما فَعَل أحَیٌّ یُرجٰی أم أَتیٰ دونه الأجَل فَوَالله ما ادری واِن کنتُ سائلاً أغالَكَ سَهلُ الأرضِ أمۡ غالَكَ الجَبَل فیالیتَ شعری هلۡ لَكَ الدَّهر رَجعة فَحَسبی مِنَ الدُّنیا رُجوعَكَ لی مَجَل۔ 5

“میں نے زید پر آنسو بہائے اور مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا کیا ھوا، آیا زندہ ھے جس سے ملنے کی امید ھے یا موت کی آغوش میں میٹھی نیند سوگیا ھے۔

بخدا نہیں معلوم اگر چہ میں نے اس کے بارے میں سب سے پوچھا اس کو زمین کھا گئی یا آسمان نکل گیا۔

اے کاش مجھے معلوم ھوتا کہ زمانے میں تیرے پلٹنے کی امید ھے دنیا سے تیرا تنہا پلٹنا ھی میرے لئے کافی ھے”۔

زمانہ گذرا یہاں تک کہ قبیلۂ نبی کلب کے ایک گروہ نے فریضۂ حج انجام دیا اور وھاں پر زید کو دیکھا اور پہچان لیا اور زید نے بھی ان لوگوں کو پہچان لیا اور کہا: میں جانتا ھوں انھوں(ماں باپ) نے میری جدائی میں بہت جزع و فزع کیا ھے” اور چند اشعار کے ضمن میں اپنی سلامتی اور اپنے راضی ھونے کی خبر دی اور خدا کی حمد و ثنا کی کہ اس نے مجھے ایسے پیغمبر کے گھر میں جگہ دی ھے جو اھل کرم و بزرگی ھے۔

فَانّی بحَمدِ الله فی خَیرِ اُسرَة کرامٍ مَعَدٍّ کابراً بَعد کابرٍ۔ 6

طائفہ بنی کلب نے زید کے زندہ ھونے اور ان کے حالات کی خبر ان کے باپ تک پہونچائی زید کے باپ اور چچا فدیہ دینے اور زید کو آزاد کرانے کے لئے پیغمبر کی خدمت میں آئے اور عرض کیا “اے عبد المطلب کے فرزند! اے ھاشم کے فرزند! اے اپنی قوم کے سردار کے بیٹے! ھم اس لئے آئے ھیں تاکہ آپ سے اپنے بیٹے کے سلسلے میں گفتگو کریں۔ ھم پر منت و احسان کیجئے اور فدیہ لے کر ھمارے بیٹے کو آزاد کردیجئے”۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس کو؟

انھوں نے کہا: زید بن حارثہ کو۔

فرمایا: کوئی دوسری تجویز کیوں نہیں پیش کرتے؟

انھوں نے کہا کونسی تجویز؟

پیغمبر نے فرمایا: “اس کو بلاؤ اور اسے اختیار دے دو۔ اگر اس نے تمھارا انتخاب کیا تو تمھارا ھے اسے لے جاؤ(میں کوئی فدیہ نہیں لوں گا) اور اگر مجھے انتخاب کیا، تو خدا کی قسم جو مجھ کو ترجیح دے میں اس کو کسی صورت کسی چیز سے معاملہ نہیں کروں گا”۔

انھوں نے کہا۔ “آپ نے بڑے انصاف سے گفتگو کی اور ھم پر احسان کیا”

پیغمبر نے زید کو آواز دی اور فرمایا: ان لوگوں کو پہچان رھے ھو؟

کہا: ھاں یہ میرے والد اور یہ میرے چچا ھیں۔

پیغمبر نے فرمایا: “میں وھی ھوں جسے تم پہچانتے ھو اور میری ھم نشینی تمھاری نگاھوں کے سامنے ھے ھم میں سے کس کو انتخاب و اختیار کرتے ھو جسے انتخاب کرنا چاھو انتخاب کرلو”۔

زید نے کہا: میں ان لوگوں کو آپ پر ترجیح نہیں دوں گا آپ ھی میرے لئے باپ اور چچا ھیں زید کے باپ اور چچا نے کہا: اے زید تجھ پر وائے ھو کیا تو غلامی کو آزادی پر، باپ، چچا اور اپنے گھر والوں پر ترجیح دے گا؟

زید نے جواب دیا: ھاں آپ(ص) میں ایسے خصوصیات اور خوبیاں ھیں کہ میں کسی کو بھی آپ(ص) پر ترجیح نہیں دوں گا

جب رسول اسلام(ص) نے یہ مشاھدہ کیا تو زید کو حجر اسماعیل پر لے کر گئے اور اعلان کیا اے حاضرین گواہ رھنا کہ زید میرا بیٹا ھے وہ میری میراث پائے گا اور میں اس کی میراث پاؤں گا”

جب زید کے باپ اور چچا نے یہ مشاھدہ کیا تو خوش ھوگئے اور آسودہ خاطر ھوکر خوشی خوشی اپنے وطن لوٹ گئے۔ 7

زید کی داستان سے پتہ چلتا ھے کہ زید اپنے خاندان میں کافی محبوب تھے تبھی تو ان کے فقدان اور جدائی میں اشعار لکھے اور ان کو ڈھونڈھنے کے لئے چاروں طرف افراد روانہ کئے اور فدیہ دے کر ان کو آزاد کرانے کے لئے تضرع و زاری اور التماس کیا۔

عرب میں نسب کی اھمیت

 

اگر زید کے کام اور اس کام کے درمیان جو زیاد بن عبید اور اس کے بیٹے عبید اللہ بن زیاد نے حسب و نسب کے حصول کے لئے انجام دیا موازنہ کیا جائے تو حسب و نسب کی قدر و قیمت روشن ھوجائے گی اور اس وقت صراحت کے ساتھ یہ اعلان کیا جاسکتا ھے کہ ھم ابھی تک پیغمبر کے اخلاق اور آپ کے افکار و نظریات کے ادراک سے عاجز ھیں اور یہ نہیں سمجھ سکتے کہ آپ نے کس طرح ایسے عاشقوں اور چاھنے والوں کی تربیت کی۔

زیاد سمیہ نامی عورت کا بیٹا تھا جو زنا اور بدکاری میں شھرت یافتہ تھی اور اپنی مثال آپ، اسی وجہ سے معلوم نہ ھوسکا کہ زیاد کس کا بیٹا ھے

آیا اس کا نام عبید ھے یا کوئی دوسرا نام رکھتا ھے؟

زیاد مرد مسلمان اور حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں گورنر کے عھدہ پر فائز تھا لیکن چونکہ خامل النسب تھا اس لئے ھمیشہ اپنی گمنامی کی آگ میں جھلستا رھتا تھا۔

معاویہ نے اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اس سے کہا: اگر اپنی راہ و روش کو چھوڑ کر میری طرف چلے آؤ تو تم کو اپنے باپ ابوسفیان سے ملحق کرلوں گا۔ زیاد ابوسفیان سے ملحق ھونے اور حسب پیدا کرنے کے لئے حق کو اپنے پیروں تلے روندنے پر تیار ھوگیا اور حق کو چھوڑ کر معاویہ سے ملنے کے عوض زیاد بن ابی سفیان پکارا جانے لگا۔ 8

حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کربلا کے وقت یزید بن معاویہ نے عبید اللہ بن زیاد کے نام خط لکھا کہ یا اس بلا کو دور کرو یا یہ کہ میں تمھیں اپنے اصلی حسب و نسب(عبید) سے ملحق کردوں۔

ابن زیاد نے ابو سفیان کے حسب و نسب پر باقی رھنے کے لئے اتنا سنگین اور بھیانک جرم کیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و انصار با وفا کو کربلا کے تپتے صحرا میں تین دن کا بھوکا پیاسا شھید کردیا اور یہ صرف اس لئے کیا کہ ابو سفیان کے نسب پر باقی رھے مبادا یزید اس کو ابوسفیان کے نسب سے خارج کردے۔

بہر حال اس زمانے کے لوگوں کی نظر میں حسب و نسب کی اتنی اھمیت اور قدر و قیمت تھی کہ اپنے اعتقادات کو بھی اس پر قربان کردیتے تھے چنانچہ فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کرنے کی ذلت و رسوائی مول لی۔

آباء و اجداد کے نام کا یاد رکھنا اور جنگوں میں اشعار کے ضمن میں ان کا نام لیکر مبارز طلبی کرنا اس سے نسب کی اھمیت کی عکاسی اور ترجمانی ھوتی ھے۔

پیغمبر کا اخلاق اور زید جیسے غلام کے تئیں آپ کی محبت کتنی اور کیسی تھی کہ وہ ان کے نزدیک غلامی کی زندگی گزارنے اور بے حسب و نسب ھونے کو آزادی اور حسب نسب پر ترجیح دیتے ھیں۔ یہ اسلامی تعلیمات کا اثر تھا یا پیغمبر کے اخلاق حسنہ کا کرشمہ یا کوئی دوسری چیز؟ بہر حال بانی اسلام کردار و صفات اور خصوصیات قابل غور ھیں۔

زید نے جو اشعار اپنے والدین کے پاس بھیجے ھیں اس سے پتہ چلتا ھے کہ وہ کتنے سمجھ دار عقلمند اور قوی ادراک کے مالک تھے۔ اس وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) کا انتخاب کرنا اور آپ کے پاس ٹھرنا احساسات یا سادگی کی بناء پر نہیں تھا۔

اسی طرح ان جملوں سے جو انھوں نے باپ اور چچا کے سامنے اپنی زبان سے ادا کئے پتہ چلتا ھے کہ واقعاً انھوں نے پیغمبر میں ایسے خصائل محمودہ اور اخلاق پسندیدہ دیکھے تھے جس کو ھر چیز پر ترجیح حاصل ھے اور کوئی چیز اس کا بدل نہیں قرار پاسکتی۔

رسول گرامی اسلام کی شرافت و بزرگی کا ایک نمونہ یہاں پر اور زید کے لئے فدیہ لینے کے ضمن میں مشخص ھوتا ھے جس کی طرف اشارہ کرنا لطف سے خالی نہیں ھے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “زید کو آزاد چھوڑدو، اگر زید نے تمھارا انتخاب کیا تو زید تمھارا، اور اگر میرا انتخاب کیا تو میرے پاس رھے اس جملہ سے روشن ھوتا ھے کہ اگر زید اپنے باپ اور قبیلہ کو منتخب کرتے تو پیغمبر ان لوگوں سے فدیہ نہ لیتے اور بغیر ان سے کچھ لئے ھوئے زید کو ان کے حوالے کردیتے، اسی وجہ سے وہ لوگ بہت خوشحال ھوئے اور عرض کیا: “آپ نے بے حد انصاف کا ھمارے ساتھ سلوک کیا ھے اور ھم پر احسان کیا ھے”۔

جب زید نے پیغمبر کے پاس رھنے کو انتخاب کیا تو پیغمبر نے زید کی اچھی تشخیص کو بے جواب نہیں رکھا اور اس کے مقابلے میں زید کے اوپر چند احسان اور کئے۔ زید کو آزاد کردیا، مجمع عام میں اپنا بیٹا کہا اس طرح سے کہ اس کے بعد ان کو زید بن محمد کہا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ھجرت کے آٹھویں سال آیۂ(اُدۡعُوهمۡ لآبائِهمۡ) 9 نے حکم دیا کہ “لوگوں کو ان کے اصلی باپ کے نام سے پکارو”۔

اسی طرح پیغمبر نے زید کو اپنا وارث اور خود کو زید کا وارث قرار دیا تاکہ منھ بولا بیٹا ھونا فقط رسم ادائیگی نہ ھو اور یہ حکم باقی تھا یہاں تک کہ آیۂ(وَ اوُلُوا الأرۡحامِ بَعضُهمۡ اَوۡلَی ببَعۡضٍ فِی كِتَابِ الله) 10 نازل ھوئی

حضرت زینب کی جناب زید سے شادی

 

زید کے ساتھ پیغمبر کی شفقت و محبت کو دوسرے نمونے کے عنوان سے حضرت زینب کے ساتھ ان کی شادی کو کہا جاسکتا ھے۔ زینب، آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپ نے ان کی زید سے شادی کرنے کی درخواست کی لیکن زینب مائل نہ تھیں یہاں تک کہ (وَما کانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مؤمِنَة اذا قَضَی الله ورَسُولُه أمۡراً أنۡ یَكُونَ لَهمُ الخِیَرَة مِنۡ أمرِهمۡ وَمَنۡ یَعصِ الله وَرَسُولَه فَقَدۡ ضَلَّ ضَلالاً مُبیناً) 11 “کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں ھے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی چیز کے بارے میں کوئی فیصلہ کردیں تو وہ اس سلسلے میں اپنے اختیار کا استعمال کرے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ھوئی گمراھی میں مبتلا ھوگا” نازل ھوئی اور زینب نے اس شادی پر رضایت دیدی۔ اس سے پتہ چلتا ھے کہ پیغمبر اسلام اس شادی پر زور دے رھے تھے اور اس کی دلیل قرآنی آیت لفظ میں “قضیٰ” کی تعبیر ھے۔ اس سے پتہ چلتا ھے کہ پیغمبر زید کو بہت زیادہ چاھتے تھے تبھی اس شادی پر بہت زیادہ زور دے رھے تھے البتہ یہ اصرار فرمان خدا کے تحت تھا اور اس میں کچھ مصلحتیں تھیں جن کی طرف پیغمبر کی زینب سے شادی کے ذیل میں اشارہ کیا جاچکا ھے۔

زید سے پیغمبر کی محبت ایک اور کا نمونہ یہ ھے کہ آپ نے زید کے لئے ام ایمن کو بعنوان زوجہ منتخب کیا ام ایمن کنیز تھیں آپ کے والد ماجد جناب عبد اللہ نے ان کو آزاد کیا تھا۔ ان کا نام برکہ تھا۔ انھوں نے پیغمبر کی حصانت اور پرورش کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ابتداء ھی میں اسلام کی طرف مائل ھوئے اور دونوں ھجرت حبشہ اور مدینہ میں شریک تھیں۔ ام ایمن ایسی خاتون تھیں پیغمبر جن سے ملنے اور ان کی عیادت کرنے ان کے گھر جایا کرتے تھے آنحضرت نے ایسی محبوب اور بلند شخصیت کی مالک عورت سے زید کی شادی کی جس کے نتیجے میں اسامہ بن زید کی ولادت ھوئی جو پیغمبر کی وفات کے وقت اٹھارہ سال کے تھے اور آپ نے اس کو شام کی طرف جانے والے لشکر کا امیر مقرر کیا تھا جبکہ ابوبکر اور عمر جیسی بزرگ ھستیاں اس لشکر میں شامل تھیں 12 تاکہ دوسروں پر ان کی برتری و بلندی کا پتہ چلے۔

پیغمبر کی محبتیں

 

یہاں پر اگر چہ زید کے سلسلے میں گفتگو ھورھی ھے لیکن ام ایمن کے ساتھ آپ کا سلوک اور طرز عمل بھی بہت راہ گشا ھے، کیونکہ یہ نکتہ سامنے آتا ھے کہ آپ ھر شخص کا احترام کرتے تھے اور ان کے اوپر اپنی گوناگوں محبتوں کے موتی نثار کرتے تھے۔ آنحضرت(ص) نے ام ایمن کے بارے میں فرمایا: ام ایمن میری ماں کے بعد میری ماں ھیں۔ 13 اس طرح کے طرز عمل کا سبب آپ کا تواضع خود گذشتگی اور آپ کی جملہ امور میں تواضع و انکساری کی دلیل ھے۔

لوگوں کے دلوں میں الفت و محبت پیدا کرنا بذل و بخشش اور داد و دھش سے مخصوص نہیں ھے بلکہ اس کے لئے وہ دل چاھئے جو لوگوں کے عشق و محبت کے جذبے سے سرشار اور مالا مال ھو اور نامناسب اوقات میں قول و عمل میں اور ھر شخص کی شخصیت کی مناسبت سے ظھور کرے۔

جب پیغمبر ام ایمن جیسی عورت کے ساتھ جو عمر میں آپ سے بڑی ھیں ایسا سلوک کریں ان کی عیادت کو جائیں، ان کو اپنی ماں کہیں اور جب زید کے ساتھ آپ کا طرز عمل ایسا ھو اور آپ کو زید کی شادی کی فکر ھو اور جب زید کے باپ اور چچا کا سامنا ھو تو زید کو مخیر کرنے کی تجویز پیش کریں اور جب اسامہ بن زید کی لیاقت کو دیکھیں تو سردار لشکر مقرر کریں وغیرہ یہ سب پیغمبر کے اخلاق حسنہ اور بزرگواری کے نمونے ھیں۔

3۔ انس بن مالک

 

اخلاق پیغمبر کا دوسرا نمونہ انس بن مالک کے ساتھ آپ کا طرز عمل ھے وہ تقریبا نو سال پیغمبر کی خدمت میں تھے۔ ان کی کوئی خاص خصوصیت یا پیغمبر کی تعریف و توصیف ھم تک نہیں پہونچی، 14 بلکہ شیعہ کتابوں میں ان کی بہت زیادہ مذمت وارد ھوئی ھے مثلا یہ کہ وہ کتمان شھادت کرتے تھے اور اسی وجہ سے امیر المومنین حضرت علی(ع) کی نفریں کے مستحق قرار پائے اور برص کے مرض میں مبتلا ھوئے۔ 15

وہ پیغمبر کے اخلاق کے سلسلے میں کہتا ھے کہ نو سال پیغمبر کی خدمت میں رھا اس مدت میں کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا: کہ کیوں ایسا کیا؟ اور کبھی میری عیب جوئی نہیں کی 16 وہ نقل کرتا ھے:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قسم کی غذا رکھتے تھے، ایک سے افطار کرتے تھے اور ایک کو سحر میں تناول فرماتے تھے اور کبھی ایک ھی غذا ھوتی تھی کہ دودھ ھوتا تھا اور پانی میں بھگوئی ھوئی روٹی۔

ایک رات میں نے پیغمبر کے لئے افطار تیار کیا لیکن آنحضرت(ص) کو کسی سبب سے آنے میں دیر ھوئی، میں نے گمان کیا کہ آنحضرت کے کسی صحابی نے آپ کی دعوت کی ھے چنانچہ آپ کے تاخیر سے آنے کے سبب میں نے وہ غذا کھالی۔ آنحضرت(ص) عشاء کے کچھ دیر بعد تشریف لائے میں نے آپ کے ھمراہ آنے والوں میں سے ایک سے پوچھا: کیا پیغمبر کی کسی کے یہاں افطار پر دعوت تھی؟ ان لوگوں نے کہا نہیں یہ سنکر میں غم و اندوہ میں ڈوب گیا کہ اگر پیغمبر نے اپنی غذا مانگی تو میں کیا جواب دوں؟ پیغمبر رات بھر بھوکے رھے اور دوسرے دن بھی آپ نے روزہ رکھا اور اس دن سے لیکر آج تک مجھ سے اس شب کی غذا کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ 17

سامنے کی بات ھے کھانا پانی انسان کی ضروریات میں شامل ھے اور مدینے کی گرم ھوا پر اگر روزہ کا اضافہ کرلیا جائے تو یہ ضرورت دو چند ھوجاتی ھے لیکن اس کے باوجود آپ نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ غذا کیا ھوئی؟

دوسرے لفظوں میں نہ صرف یہ کہ حضرت نے انس کو توبیخ نہیں کی بلکہ اپنی بھوک اور پیاس کو بھی چھپایا اور یہ اس زمانے میں ھے جب آپ مدینے میں حاکم ھیں کیونکہ انس کی خدمت گزاری مدینہ میں تھی۔

یہاں پر رسول گرامی اسلام کی دوسری خصوصیت نمایاں ھوتی ھے اور وہ حیاء دار ھونے اور عیب جوئی نہ کرنے کے ساتھ ساتھ راز کی پردہ پوشی ھے جو انس کے استعجاب و حیرت کا باعث بنی جو نکتہ ھمارے لئے قابل توجہ ھے وہ پیغمبر کی غذا کا سادہ اور معمولی ھونا ھے کہ وہ غذا، یا دودھ تھا یا پانی میں بھگوئی ھوئی چور روٹی کہ حضرت ان دو میں سے کسی ایک پر اکتفاء کرتے تھے پیغمبر کی اخلاقی خصوصیات اور آپ کے طرز عمل میں گفتگو بہت زیادہ ھے لیکن جیسا کہ پہلے بیان ھوا جو چیز نقل ھو رھی ھے صرف بعنوان نمونہ ھے

4۔ مرد یہودی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

 

حضرت علی علیہ السلام اس طرح نقل فرماتے ھیں کہ ایک یہودی حضرت سے چند دینار کا طلبگار تھا اور اس نے وہ دنیار حضرت سے طلب کئے۔ آنحضرت نے فرمایا: اے مرد یہودی اس وقت تجھے دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ھے۔ یہودی نے کہا: جب ایسا ھے تو میں بھی آپ کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ آپ میرا قرض واپس نہ کریں۔ پیغمبر نے فرمایا: کوئی حرج نہیں تیرے پاس بیٹھتا ھوں۔ حضرت وھیں بیٹھ گئے اور اسی جگہ نماز ظھر و عصر و مغرب و عشاء اور دوسرے دن کی صبح کی نماز ادا کی۔ اصحاب نے یہودی کو ڈرایا دھمکایا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ اصحاب پر پڑی اور آپ نے فرمایا: کیا کر رھے ھو؟ اصحاب نے فرمایا: اے اللہ کے رسول اس یہودی نے آپ کو قید کر رکھا ھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھے اس لئے مبعوث نہیں کیا کہ میں کسی ذمی یا غیر ذمی پر ظلم ڈھاؤں”

ابھی دن کاکچھ ھی حصہ گزرا تھا کہ وہ یہودی اقرار شھادتین کرکے مسلمان ھوگیا اس کے بعد کہا: میرا آدھا مال راہ خدا میں خرچ کیا جائے ۔ 18

اگر اخلاق پیغمبر کو ایک جملے میں خلاصہ کرنا چاھیں تو اس کلام قرآنی سے بہتر اور کچھ نہیں ھوسکتا (فبما رحمة من الله لنت لهم ولو کنت فظا غلیظا القلب لا نفضوا من حولک فاعف عنهم واستغفر لھم وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی الله ان الله یحب المتوکلین) 19 “اے پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے مہربان اور نرم خو ھو۔ اور اگر تم ان کے لئے تند خو اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس نہ رکتے اور ادھر ادھر منتشر ھوجاتے” لھذا انھیں معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو اور (جنگی امور میں) ان سے مشورہ کیا کرو اور جب پختہ ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ رکھو یقیناً اللہ توکل (بھروسہ) کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے”۔

“فبما رحمۃ من اللہ” میں جو فاء ھے اس سے معلوم ھوتا ھے کہ اس آیت کا تعلق ما قبل کی آیات سے ھے جو جنگ احد میں بعض کی بد نظمی، بعض کے فرار اور تیسرے گروہ کی کار شکنی سے مربوط اور پیغمبر کی خوش اخلاقی اور نرم خوئی اور ان کے ساتھ پیغمبر کی مہربانی کو رحمت الہی کا نتیجہ قرار دیا ھے اس کے بعد (حرف شرط امتناعی) کے ذریعے جو کہ امتناع کے لئے استعمال ھوتا ھے فرماتا ھے: “بفرض محال اگر تم تند خو اور بد مزاج ھوتے تو سب تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ھوتے”

پیغمبر اسلام نے اس آیت سے سمجھ لیا کہ انھیں سبھی کے ساتھ حتی کہ ضعیف الایمان، منافقین، جنگ سے فرار کرنے والوں سے نرم خوئی اور مہربانی سے پیش آنا ھے حضرت رسول خدا(ص) کی مرد یہودی کے ساتھ مہربانی اس آیت کریمہ کا مفاد ھے بہر حال یہ آیت گھر کے لوگوں یا کنیز و غلام سے سلوک کے سلسلہ میں نہیں ھے بلکہ ھر چیز سے پہلے اپنے دشمنوں سے بھی محبت آمیز روابط کی سفارش کرتی ھے اور پھر اس کے بعد ارشاد ھوتا ھے کہ اپنے دیگر کاموں میں بھی ان سے مشورہ کریں اور ان کے نظریات معلوم کریں۔

5۔ پیغمبر اور زن یہودی کا قصد سوء(ارادۂ قتل)

 

سب سے زیادہ اھم اس یہودی عورت کی داستان ھے جس نے پیغمبر کو زھر دینے کا پختہ ارادہ کیا: چنانچہ اس نے گوسفند ذبح کیا اور اس کو زھر سے آلودہ کیا اور چونکہ جانتی تھی کہ پیغمبر اگلا دست زیادہ پسند کرتے ھیں اس لئے اس حصے کو زیادہ زھر سے آلودہ کیا اور گوشت لیکر پیغمبر کی خدمت میں آئی ۔

پیغمبر نے ایک لقمہ منھ میں رکھا اور فورا ھی اس کو باھر تھوک دیا اور فرمایا: “یہ گوشت کہتا ھے کہ میں مسموم ھوں” بشر بن براء نے اس گوشت سے ایک لقمہ کھایا اور ان کی موت واقع ھوگئی۔ یہودی عورت کو حاضر کیا گیا۔ پیغمبر نے اس سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا: “میں نے سوچا اگر پیغمبر خدا ھونگے تو ان کو زھر کوئی نقصان نہیں پہونچائے گا اور اگر بادشاہ ھوئے تو لوگوں کو نجات مل جائے گی”۔ پیغمبر نے اس زن یہودیہ کو معاف کردیا 20

یہ خبر(حدیث) گوناں گوں اسناد کی مالک ھے اور اس پر ادعاء تواتر کیا جاسکتا ھے۔ لیکن جو چیز یہاں پر اور اخلاقی پہلو سے اھمیت کی حامل ھے وہ یہ ھے کہ پیغمبر اوج قدرت اور خیبر کے یہودیوں پر غلبہ و پیروزی پانے کے بعد ایسی عورت کو معاف کردیتے ھیں جو آنحضرت کے قتل پر کمر بستہ تھی اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تھا باوجودیکہ حسب ظاھر شرع جواز بلکہ اس عورت کے قتل کے وجوب پر ساری دلیلیں دلالت کرتی ھیں۔

لوگوں کے ساتھ ملاقات اور ملنے جلنے میں یہ پیغمبر کی کرامت و بزرگواری کے نمونے ھیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ مہر و محبت اور عطوفت و مہربانی میں سب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ چنانچہ خداوند عالم نے خود اپنے اوصاف میں سے دو وصف کے ساتھ آپ کو یاد کیا ھے۔ (لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم) 21 “یقینا تمھارے پاس وہ پیغمبر آیا جو تمھیں میں سے ھے۔ اس پر تمھاری ھر مصیبت شاق اور دشوار ھے تمہاری ھدایت کے بارے میں حریص ھے اور مومنین کے لئے دلسوز اور مہربان ھے

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں فرماتے ھیں:

بعض قدماء نے کہا ھے: خدا نے اپنے اولیاء اور انبیاء میں سے کسی کے لئے اپنے اسماء میں سے دو اسم کے درمیان جمع نہیں کیا مگر یہ شرف اور فضیلت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی ھے چنانچہ فرمایا “بالمومنین رؤوف رحیم” اور خدا نے اپنے بارے میں فرمایا: “ان الله بالناس لرؤوف رحیم” 22۔23

وہ ھمیشہ لوگوں کے درمیان تھے اور انھیں میں سے تھے۔ ان کی مشکلات، پریشانیوں اور جہالت سے آشنا تھے ۔ آپ پر بہت شاق اور دشوار تھا کہ لوگ سختیوں اور مشکلات میں گرفتار ھوں۔ اسی وجہ سے اپنا تمام وقت تمام امکانات کے ساتھ لوگوں کی ھدایت میں صرف کرتے تھے اور ان کی چھوٹی اور بڑی لغزشوں سے در گزر فرماتے تھے۔ لوگوں نے متعدد بار آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس کو اپنی طرف سے عملی جامہ بھی پہنایا لیکن آپ نے سب کو معاف کردیا نہ صرف یہ کہ یہودی عورت کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ نے اپنے قتل کا منصوبہ بنانے والوں کے ناموں کو جو بھی صیفۂ راز میں رکھا جو پہاڑ کے دامن میں آپ کے اونٹ کو بھڑکا کر آپ کی شمع حیات کو گل کردینا چاھتے تھے

آج دنیا کی رسم ھے اطلاعاتی اور جاسوسی ادارے وزیر اعظم یا صدر مملکت کے خلاف احتمالی سازش کے پیش نظر بھی حرکت میں آجاتے ھیں اور بہت سارے افراد کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتے ھیں اور ان پر مختلف قسم کی سختیاں کرتے ھیں اگر ھم آج کی صورتحال کو پیغمبر کے حالات و اخلاق سے موازنہ کریں تو پیغمبر کے کام کی عظمت ھمارے سامنے اجاگر ھوجائے گی جب ھم فقہ میں پڑھتے ھیں کہ جو پیغمبر کو دشنام دے واجب القتل ھے بطریق اولیٰ پیغمبر کو مسموم کرنے والا اور آپ کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کرنے والا واجب القتل ھے اس کے باوجود پیغمبر ان لوگوں کو معاف کردیتے ھیں تاکہ اجراء قانون پر عفو و بخشش کی برتری منظر عام پر آئے، خاص طور پر جب حق شخصی ھو اور صاحب حق منصب دار اور اجتماعی پوسٹ کا مالک ھو جس کا عمل دوسروں کے لئے نمونہ عمل ھو

پیغمبر کی جانب سے اس طرح کے عملی نمونے حقیقی اسلامی رھبروں کی تشخیص کے لئے بہترین معیار ھے

المختصر پیغمبر کے عملی نمونوں کا (جس کے اخلاق کے کچھ گوشے سابق میں بیان ھوئے) اندرون خانہ اپنی بیویوں کے ساتھ جائزہ لیں تاکہ اس سے درس زندگی حاصل کریں اور بہ لطف خدا اپنی اور خانوادے کی بہت ساری مشکلات کو حل و فصل کریں۔

پیغمبر نے اپنے اخلاق حسنہ کے بل پر اپنی بیویوں کے ساتھ کہ بعض سن و سال کے لحاظ سے پیغمبر سے مختلف تھیں یا بہ اعتبار استعداد و صلاحیت یا بہ اعتبار فہم و ادراک امور شخصی و اجتماعی پیغمبر کے ساتھ میل نہیں کھاتی تھیں بلکہ مختلف جہات سے بہت زیادہ فرق رکھتی تھیں مسالمت آمیز زندگی گزاری اور پیغمبر کے ساتھ رھنے کو ھر چیز پر ترجیح دیتی تھیں جبکہ خانۂ پیغمبر میں مادی مسائل و امکانات، دنیوی مال و متاع پر نعمتوں سے سرشار مستقبل کی کوئی امید نہیں تھی۔ کیونکہ وہ پابند تھیں کہ گھر کی چہار دیواری میں زندگی گزاریں اور پیغمبر کی وفات کے بعد دوسری شادی نہ کریں

اور ایسا بھی نہیں تھا کہ اپنا زیادہ وقت ازواج میں گزارتے تھے کیونکہ تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ مسلمانوں کی رھبری کی ذمہ داری بھی آپ کے کاندھوں پر تھی اور مدینہ جیسے شھر کی حاکمیت میں جہاں طبقاتی نظام رائج تھا زیادہ وقت صرف ھوتا تھا۔ علاوہ بر ایں پیغمبر کا بہت زیادہ وقت عبادت میں بھی گزرتا تھا۔

المختصر جان کلام یہ ھے کہ پیغمبر نے محدود امکانات اور کم وقت میں بھی اخلاق حسنہ کے سایے میں بہت ساری مشکلات پر غلبہ پایا۔ لیکن آج آپ کے بہتیرے پیرو گھریلو مشکلات کا شکار ھیں باوجودیکہ اس زمانے میں امکانات وسیع ھیں اور گھر میں بیٹھ کر گفت و شنید کرنے کے لئے وقت کافی ھے تنہا مشکل جو ھے وہ یہ ھے کہ ھماری رفتار و گفتار اور کردار میں اخلاق پیغمبر کا عکس نمایاں نہیں ھے۔

 

 

________________________________________

 

1.دیکھئے: مسند احمد، ج۶ ص۳۳۷؛ و اسد الغابۃ، ج۷، ص۱۶۹۔

2.معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۵۔ ۱۷۶۔

3.معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۶۔

4.معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۶۔ ۱۷۷۔

5.استیعاب، ترجمہ، رقم ۸۴۸، الاصابہ، ترجمہ، رقم ۲۸۹۷؛ سیرۂ ابن ھشام، ج۱، ص۲۴۸؛ طبقات، ج۳، ص۲۸۔

6.اصابہ، ص۲۸۹۷؛ استیعاب، ص۸۴۸؛ طبقات، ج۳، ص۲۸۔

7.اسد الغابۃ، ص۲۵۰۔ ۲۵۲۔

8.اسد الغابۃ، ج۲، ص۳۳۶۔ ۳۳۷۔

9.احزاب(۳۳) آیت ۵۔

10.احزاب(۳۳) آیت ۶۔

11.احزاب(۳۳) آیت ۳۶۔

12.اسد الغابۃ، ج۱، ص۱۹۴ و ج۷، ص۲۹۱۔

13.اسد الغابۃ، ج۷، ص۲۹۱۔

14.اسد الغابۃ، ج۷، ص۲۹۱۔

15.معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۲۴۰ و ۲۴۱۔

16.بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۳۰۔

17.بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۴۷۔

18.بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۱۶۔

19.آل عمران(۳) ، آیہ ۱۵۹۔

20.بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۶۵، مجمع البیان، ج۹، ص۱۲۲۔

21.توبہ(۹) ، آیۂ ۱۲۸۔

22.حج(۲۲) ، آیۂ ۶۵۔ بقرہ(۲) ، آیۂ ۱۴۳۔

23.مجمع البیان، ج۵ ص۸۶، ذیل آیہ ۱۲۸ سورہ توبہ، بحار الانوار، ج۱۶، ص

بشکریہ http://erfan.ir/urdu

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *