امت اسلامیہ کی بیداری
مصنف:محمد کامل حاتم
قرآن و سنت کی روشنی میں امت اسلامیہ کی بیداری
اسلامی امۃ کی سب سے بڑی مصیبت بعض مسلمانوں کا بعض مسلمانوں کو کافر قراردینا یا ان کی تکفیر ہے یہ مصیبت فرقوں میں اختلافات اور نظریات کے الگ ہونے اور اسلام کے مفاہیم کا غلط معنی کرنے نیز بے جا تعصب کی بنا پر وجود میں آئی ہے ۔
اس مضمون میں قرآنی آیات و احادیث اور علماء کے نظریات سے استفادہ کرکے ثابت کیا گيا ہے کہ مسلمان کی تکفیر جائز نہیں ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام تر ذرایع استعمال کرکے اسلامی ثقافت کو رائج کرنے میں کہ جس میں دوسروں کے احترام پر تاکید کی گئي ہے اور اتحاد قائم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے ۔
ہجرت نبوی کے پانچویں سال میں جنگ خندق پیش آئی اسے جنگ احزاب بھی کہتے ہیں اس جنگ میں مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ کرنے کے لۓ سلمان فارسی کی تجویز پر خندق کھودی تھی یہ خندق اسلام و کفر کے درمیان حائل تھی(1 )،کیا آج ہم کفر کی فوج اور اس کے آلہ کاروں کا مقابلہ کرنے کے لۓ خندق کھود سکتے ہیں؟
سورۃ احزاب کے آغاز میں دینی ،اجتماعی ،سیاسی ،اور اخلاقی لحاظ سے دوگانگی یا دو رخی رویے کی نفی کی گئي ہے ارشاد ہوتا ہے ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ خدا نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل پیدا نہیں کۓ یعنی خدا نے انسان کو بیک وقت دو طرح سے سوچنے کی صلاحیت نہیں دی ہے تاکہ وہ دوگانگی کا شکار ہوجاے اس سورہ میں مسلمان کو ایک پاک باز آلایشوں سے پاک اور عہد و پیمان پر باقی رہنے والا انسان قراردیا گیا ہے جس کا دین و ایمان مشکلات میں مزید مستحکم ہوجاتاہے
ہمیں اس سورہ میں رسول اسلام صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
بہت سی قرآنی آیات اور احادیث میں انسان کو رحمت ،وحدت اور اسلامی و انسانی اخوت ،انصاف ،اور حصول علم کی طرف دعوت دی گئی ہے ان امور کو اسلامی معاشرے کی تعمیر کے لۓ ضروری قراردیا گیا ہے۔
اسلام کی ان اعلی و ارفع تعلیمات کے باوجود اسلامی ملکوں میں جھل غربت اور بیماری کا منحوس مثلث دیکھنے کو ملتا ہے اسی طرح سے مسلم ملکوں میں ظلم ،عدم مساوات ،طبقاتی فاصلے ،اور اسلامی اور انسانی ذمہ داریوں کی طرف سے لاپرواہی دیکھی جاسکتی ہے جس کی وجھ سے ان ملکوں میں اکثریت کی زندگی درھم برھم ہوکر رہ گئی ہے۔
اسلامی امۃ میں تفرقہ اور تشتت کا سب سے بڑا سبب ایک دوسرے کی تکفیر کرنا ہے ہمیں قرآنی آیات احادیث اور اجتھادات اور ایسے لوگوں کی آرا جو امت کو اتحاد کی طرف بلاتے ہیں ان سے استفادہ کرکے اس بیماری کا علاج تلاش کرنا ہوگا اس طرح سے ہم ایک طرف تو اتحاد کے نظریات کو رائج کریں گے اور دوسری طرف سے بے جا تعصب اور انتہا پسندی پر مبنی نظریات کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جن سے اسلام کی بدنامی ہورہی ہے اس سلسلے میں قرآنی آیات اور احادیث اور ان کا مفہوم پیش کرنے سے پہلے جو امت کو بیدار کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں میں بعض علماء اور اسلامی تحریکوں اور عوام کے درمیان عدم اتحاد و انسجام کی طرف اشارہ کرنا چاھتا ہوں۔(2 )
عالم اسلام کے بزرگ علماء عام طور سے اتحاد پر زور دے رہے ہیں ایسے عالم میں کچھ ایسے عناصر بھی پاۓ جاتے ہیں جو الگ ذھنیت کے مالک ہیں اور مذھبی اختلافات و بعض آداب و رسوم کی بنا پر مسلمانوں کو کافر قراردیتے ہیں یہی نہیں بلکہ انہیں واجب القتل بھی قراردیدیتے ہیں (3) جبکہ اسلام میں انسان کی جان اور اس کے تحفظ پر تاکید کی گئي ہے ارشاد خداوندی ہے کہ من قتل نفسا بغیر نفس اور فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا (سورۃ مائدہ 32)جو شخص کسی کو نہ جان کے بدلے میں نہ ملک میں فساد پھیلانے کی سزامیں (بلکہ ناحق )قتل کردے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کرڈالا۔
اسی طرح سورہ نساء میں ارشاد ہوتاہے کہ وما کان لمومن ان یقتل مومنا الاّخطاء کسی ایمان دار کے لۓ یہ جائز نہیں کہ کسی مومن کو جان سے مار ڈالے مگر غلطی سے ۔
اس کی ایک آیت کے بعد ارشاد ہوتاہے کہ ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاؤہ جھنم خالدا فیھا و غضب اللہ علیہ و لعنہ و اعدلہ عذابا عظیما اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کے مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے اور ہمیشہ اس میں رہے گا اس پر خدا نے اپنا غضب ڈھایا ہے اور اس پر لعنت کی ہے اور اس کے لۓبڑا سخت عذاب تیار کررکھا ہے ۔
یہاں پر واضح ہے کہ قرآن نے مسلمان کے لۓ مومن کی تعبیراستعمال کی ہے جبکہ سورہ حجرات میں فرماتا ہے کہ قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا و لکن قولوا اسلمنا بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آۓ اے رسول کھ دو کہ تم ایمان نہیں لاے بلکہ کہو کہ اسلام لے آے ۔
اس آیۃ سے پتہ چلتاہے کہ اسلام میں تمام مسلمان شامل ہیں اور ان کے دل کا حال خدا جانتاہے اور وہی ان کے ایمان کی حقیقت سے بھی واقف ہے اور ان کے ایمان کا حساب روز قیامت کیا جاۓ گا ان آیات شریفہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینا اور اس کے قتل کا حکم دینا جائز نہیں ہے اور یہ امر خود ایک طرح سے اتحاد و یکجھتی کی دعوت دینا ہے ۔
شاطبی اپنی کتاب المواقفات میں لکھتے ہیں کہ امت اسلامی اور دیگر اہل کتاب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ شریعت کا مقصد ضروریات یعنی دین ، جان، مال، نسل و عقل کی حفاظت ہے(4 )، ان کا کہنا ہے کہ انسانی جان کے تحفط پر اس قدر تاکید کی گئي ہے کہ قتل نفس پر قصاص رکھا گیا ہے اور عذاب خدا سے ڈرایا گيا ہے یہی نہيں بلکہ قتل نفس گناہان کبیرہ میں شامل ہے جو شرک سے بہت نزدیک ہے جس طرح سے کہ نماز ایمان سے قریب تر ہے ۔(5)
سٹیلائٹ ٹی وی چینلوں کا شاید یہ ایک مثبت پہلو ہو کہ وہ تنگ نظر افراد کے نقطۂ نظر کو بھی بیان کرتے ہیں ،کچھ لوگوں نے سوال کیا تھا کہ وہ ملت عراق کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن اس وجہ سے وہ مدد نہیں بھیج رہے ہیں کہ انہيں خوف ہے کہ ان کی بھیجی ہوئي مدد کہیں دیگر مسلک اور فرقے کے لوگوں کو نہ مل جاۓ اس طرح کی سوچ ترجیحات کی نفی اور اتحاد کی مخالف ہے اس طرح کے دو رخی رویے ہمیں خوارج کی یاد دلاتے ہیں جنہوں نے رسول اسلام (ص) کے گرانقدر صحابی خباب بن ارت کو قتل کیا اور ان کی حاملہ زوجہ کا پیٹ چاک کرکے انہيں بھی قتل کردیا لیکن ایک یہودی کو جب تک اس کے خرموں کی قیمت نہ دیدی خرمے نہیں کھاۓ (یہ تنگ نظری اور شدت پسندی نہیں تو اور کیا ہے ) (6)
سورۂ احزاب میں خاص طور سے دودلی کی بات کی گئی ہے جس کا سرچشمہ نفاق ہے یہ نفاق مدینہ میں بھی اس وقت دیکھنے کو ملاتھا جب کفار نے مدینے کا محاصرہ کرلیا تھا ، منافقین کے دل میں کفر ہوتا ہے اور وہ صرف ظاہری طور پر اسلام کی بات کرتے ہیں قرآن میں منافقون نام کا ایک سورہ بھی ہے اس سورہ میں خدا نے انہیں دروغ گوئی کفر اور دشمنی کی صفتوں کا حامل قراردیا ہے اس کے بعد رسول اکرم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتاہے کہ
سواء علیہم استغفرت لھم ام لم تستغفر لھم لن یغفراللہ لھم تم ان کے لۓ مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو ان کے حق میں برابر ہے خدا تو انہیں ہرگز بخشے گا نہيں ۔
سورہ نساء میں بھی ارشاد ہوتاہے کہ ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار بے شک منافقین کی جگہ جھنم کے آخری طبقے میں ہے ۔
ان تمام امور کے پیش نظر اور جب کہ حضرت جبرائیل نے رسول اسلام (ص) کو منافقین کے ناموں سے آگاہ کردیا تھا اور مسلمانوں کو مدینے میں کافی طاقت بھی حاصل ہوچکی تھی لیکن رسول اسلام (ص) منافقین سے ان کی ظاہری حالت کے مطابق ہی پیش آتے تھے یعنی مسلمانوں کی طرح ہی پیش آتے تھے کیونکہ انہوں نے خواہ ظاہری طور پر ہی کیوں نہ ہو کلمہ شہادتین جاری کیا تھا رسول اسلام (ص) نے ان کے باطن کا حساب خدا کے حوالے کردیا تھا ،یہاں ہم خود سے سوال کرسکتے ہیں کہ کیا ہمیں امت میں ترجیحات کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہیے ؟
کیا ہمیں اس سلسلے میں بھی رسول اسلام (ص) کی سنت کی پیروی نہیں کرنا چاہیے رسول (ص) کی اس سیرت کے پیش نظر کیا ہم دوسرے فرقوں کے مسلمان بھائیوں کو منافق قرار دے سکتے ہیں؟ سیرت رسول (ص) تو یہی بتاتی ہے کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کرسکتے۔
رسول اسلام(ص) کی حدیث شریف کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بھی لاالہ الاللہ کو اپنی زبان پر جاری کرلے اس کے قتل کا حکم نہیں دیا جاسکتا صحیح مسلم میں یہ حدیث دیکھی جاسکتی ہے کہ سمعت اسا مۃبن زید بن حارثہ یحدث قال بعثنا رسول اللہ (ص) الی الحرقہ من جھنیۃ فصبحنا القوم فھزمناھم ،قال و لحقت انا و رجل من الانصار رجلا منھم فلماغشیناہ قال لاالہ الااللہ قال فکف عنہ الانصاری و طعنتہ برمحی حتی قتلتہ قال فلما قدمنا بلغ ذلک النبی فقال لی یا اسامۃ اء قتلتہ بعد ما قال لاالہ الااللہ ؟قال فمازال یکررھا علی حتی تمنیت انی لم اکن اسلمت قبل ذلک الیوم ۔(7)
اسامۃ بن حارثہ سے میں نے سنا کہ انہوں نے کہا ایک دن رسول اسلام (ص) نے ہمیں جھنیہ قبیلے کے حرقہ طائفہ کی طرف روانہ فرمایا علی الصباح ہم لوگ وہاں پہنچ گۓ اور نہیں شکست دیدی اسامۃ کہتے ہیں میں نے اور ایک انصاری نےحرقہ کے ایک شخص کو جالیا جب اسے زمین پر گراکر نزدیک تھا کہ قتل کردیں تو اس نے کہا لاالہ الااللہ انصاری نے فورا اپنی تلوار ہٹالی لیکن میں نے اسے نیزہ سے مار کر قتل کردیا ،اسامۃ کہتے ہیں اس کے بعد ہم لوگ مدینے لوٹ آۓ رسول اسلام (ص) کو یہ خبر پہنچ چکی تھی آپ نے مجھ سے فرمایا اے اسامۃ کیا تم نے اس شخص کو لاالہ الااللہ کہنے کے بعد بھی مار ڈالا ؟اسامۃ کہتے ہیں کہ رسول اسلام (ص) باربار اس جملے کی تکرار فرماتے رہے اور میں دل میں خود کو کوستا رہا کہ کاش اس دن سے قبل مسلمان نہ ہواہوتا ۔(8)
ایک اور روایت میں ہے فکیف تصنع ب لاالہ الااللہ اذاجاءت یوم القیامۃ ۔اگر روز قیامت لاالہ الااللہ تمہارادامن تھام لے تو کیا کروگے ؟
اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مشرک جس نے کئی مسلمانوں کو قتل کیاہے اگر وہ بھی اپنی زبان پر کلمہ توحید لاالہ الااللہ جاری کرلیتاہے تو رسول اسلام (ص) کے نزدیک اس کا قتل صحیح نہیں ہے اور اگر اسامۃ کی آرزو کو دیکھیں جو انہوں نے کہا تھا کہ اے کاش میں اس دن سے قبل مسلمان نہ ہوا ہوتا تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام جاھلیت کے دور کے گناہوں کو معاف کردیتاہے لھذا معلوم ہوا کہ مسلمان کی تکفیر اور اسے قتل کرنا گناہ عظیم ہے ۔
جب عمر ابن خطاب زخمی ہوگۓ تھے اور موت کے قریب تھے تو ابن عباس نے ان سے کہا کہ مدینے کے پست اور سرکش لوگوں کو قتل کردو (9 )تو انہوں نے کہا کہ رسول اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ انما الاعمال باالنیات و انما لکل امرء ما نوی اعمال کا انحصار نیت پر ہے اور انسان کو وہی ملے گا جو اس کی نیت ہو ۔(10)
سورہ عادیات میں ارشاد ہوتا ہے کہ افلا یعلم اذا بعثر ما فی القبور و حصل ما فی الصدورکیا انسان یہ نہیں جانتا کہ جب مردے قبروں سے نکالے جائیں گے اور دلوں کے بھید ظاہر کردۓ جائیں گے
یہ آیت و حدیث اعمال کو نیت پر تولتی ہے اور نیت سے سواے خدا کے کوئي واقف نہیں ہوتا لھذا ہم ظاہری حالت کو نظر انداز کرکے کسی مسلمان پر کفر اور اس کے قتل کا حکم جاری نہیں کرسکتے ۔
ہمارے مدعا کی تائید فتح مکہ کے دن رسول اسلام (ص) کی سیرت سے بھی ہوتی ہے مکہ فتح کرنے کے بعد آپ (ص) نے مشرکین سے فرمایا کہ اذھبوا انتم الطلقاء (11 )جاؤ تم سب آزاد شدہ ہو آپ (ص) نے انہيں قتل کرنے کی ممانعت کی اور ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ فورا مسلمان ہوجائيں ، اس کے علاوہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رسول اسلام (ص) نے جنگ حنین کے بعد مشرکین میں جنگي غنائم تقسیم کۓ تاکہ وہ اسلام کی طرف راغب ہوں ۔
سورہ نساء میں خدا فرماتا ہے کہ ان اللہ لا یغفران یشرک بہ و یغفرما دون ذلک لمن یشاء خدا البتہ اس جرم کو تو نہیں معاف کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جاۓ ہاں اس کے سوا جو گناہ ہو جسکو چاہے معاف کردے ،اس آیت مبارکہ سے پتہ چلتاہے کہ کسی مسلمان پر کفر و قتل کا حکم کیسے لگایا جاسکتا ہے جبکہ یہ امکان موجود ہے کہ خدا نے اسے معاف کردے یا معاف کردیا ہو ۔
س کے علاوہ ایک اور سوال درپیش ہے وہ یہ کہ بعض لوگ کس طرح سے ان مسلمانوں کے کفر وشرک کا فتوی جاری کردیتے ہیں جو کلمہ شہادتین جاری کرتے ہیں نماز پڑھتے ہیں حج کرتے ہیں ،روزہ رکھتے ہیں ، کیاصرف و صرف اس لۓ کہ وہ ان ھم مسلک اور ھم رائے نہیں ہیں ؟
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام خدا کی وحدانیت اور رسول اللہ (ص) کی نبوت کا اقرار کرنا ہے ان شہادتوں سے جانوں کی حفاظت ہوتی ہے ۔(12)
حضرت امام صادق (ع) نے اس طرح اسلامی امت میں کلمہ لاالہ الاللہ کی اھمیت واضح فرمائی ہے ۔
ابوالحسن اشعری نے بھی کہا ہے کہ وہ اھل قبلہ میں سے جو بھی شہادتین جاری کرلے اسے کافر نہیں قراردے سکتے ۔(13)
شاطبی نے الوافقات میں اس باب کے تحت کے منحرف گروہوں کی گمراہی انہیں دین سے خارج نہیں کرتی لکھا ہے کہ منحرف گروہ گمراہی کے سبب دین سے خارج نہیں ہوتے کیونکہ رسول اسلام (ص) نے ایسے گروہوں کے بارے میں فرمایا ہے تفترق امتی یعنی آپ (ص) نے یہ فرماکر کہ میری امت متفرق ہوجائے گي ان گروہوں کو اپنی امت سے نسبت دی ہے جبکہ اگر یہ گروہ اپنی بدعتوں کی بنا پر دین سے خارج ہوتے تو انہیں امت سے نسبت نہ دی جاتی ،اسی طرح اھل بدعت کو کافر قراردینے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نصوص شرعیہ میں اھل بدعت کے دین سے خارج ہونے کے سلسلے میں کوئي دلیل نہیں ہے اور اصل یہ ہے کہ وہ دین کے دائرے میں ہیں مگر یہ کہ کسی دلیل سے اس کے برخلاف ثابت ہوتاہو ۔(14)
اس مضمون میں جو کچھ آپ کے سامنے پیش کیا گیا وہ ان متون و نصوص کا ایک چھٹا سا نمونہ تھا جو مسلمانوں کی تکفیر و قتل کو حرام قراردیتی ہیں اور اگر علماء و دانشوروں کے علاوہ بھی معاشرے کے دوسرے طبقے ذرایع ابلاغ عامۃ سے علماء کے فتووں سے آگاہی حاصل کریں اور ہمارے علماء و دانشور اپنے قلم و زبان سے سنت نبوی (ص) کا دفاع کریں اور اتحاد اسلامی کے کوششیں کريں تو معاشرے میں نئي فکر رائج ہوگي اور وہ فکر ایک دوسرے کا احترام کرنے نیز ایک دوسرے کی بات سننے کی ہوگي اس طرح ہم آزادی فکر و بیان اور گفتگو کے سازگار ماحول میں قدم رکھیں گے اور نتیجہ میں ہماری امت کے درمیان تعاون و مفاھمت بڑھتی جاۓ گي اور آخر کار ہم ایک امت واحدہ بن جائيں گے
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید