وزیر اعظم  نے25پچیس اکتوبر2017ء کو اپنے سکردو کے طائرانہ دورے میں تمام ٹیکسز کے خاتمے کا اعلان کیا تھا لیکن کچھ دن بعد ہی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان جناب برجیس طاہر نے شہید اشرف نور کے گھر حاضری کے دوران برملا کہہ دیا کہ اب ٹیکسز کا خاتمہ ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ آخر یہاں سوال پیش آتا ہے کہ پھر کس کے ہاتھ میں ہے۔ آپ تو عرصہ دراز سے یہاں کے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ وزارت کے ساتھ ساتھ  گورنری پر بھی قبضہ جما چکے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ در اصل  گلگت بلتستان کا مکمل زمام اقتدارو انصرام وزیر امور کشمیر اور چیف سیکریٹری کے پاس ہےلیکن بدقسمتی سے ہمیشہ یہ دونوں غیر مقامی ہی ہوا کرتے ہیں۔ باقی سب ان کے دست نگر ہوتے ہیں۔ان کو ہمارے مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کو صرف اپنے اقتدار کی فکر ہے۔یہی ہماری بدبختی کی بنیادی وجہ ہے۔ گویا پورا گلگت بلتستان ایک نصف وزیر(امور کشمیر+گلگت بلتستان) کے زیر نگیں ہے۔  

 اب تو ڈپٹی کمشنر گلگت کی جانب سے آغا سید راحت حسین الحسینی سمیت کئی بزرگ علما کے نام نوٹس جاری کیا گیاہے، جس کے تحت ان سے کہا گیاہے کہ کسی بھی وقت دہشتگردی کا واقعہ رونماہوسکتا ہے لہذا  زیادہ غیر ضروری سرگرمیوں میں دلچسپی نہ لیں۔ آغا سید راحت حسین الحسینی نے دبنگ لہجے میں اس کا جواب دیا ہے اس کاہم یہاں ذکر نہیں کریں گے۔ یہ اینٹی ٹیکس مومنٹ کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش ہے۔لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ۔ یہ نوٹس دیکھتے ہی مجھے ڈیڑھ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا۔ میری ملاقات گلگت پریس کلب  کے سربراہ سے ہوئی تو فورا میں نے ان سے پوچھا سر جی! آج کل اچانک گلگت کے حالات کیسے سدھر گئے،جبکہ کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں کے حالات ناگفتہ بہ تھے، مسلکی بنیادیں بہت ہی مضبوط ہوگئی تھیں، یہاں تک کہ نو گو ایریاز  قائم ہوگئے تھے، ایک دوسرے کے قتل کے درپےہوتے تھے اور اب  اچانک لوگ آپس میں کیسےشیر و شکر ہوگئے؟ تب انھوں نے مسکراہٹ کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں کہا شاہ جی! میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ مزید دس سال تک گلگت میں ایک پرندہ بھی نہیں مرے گا۔میں نے تعجبانہ لہجے میں پوچھا آپ کیسے کہہ رہے ہیں اتنے بے باک ہوکر؟ تب انھوں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ  ہم سب عرصہ دراز سے بغیر کسی مسلکی تفریق کےایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ زندگی گزارتے آئے ہیں، ہمارے آپس کی رشتے داریاں ہیں لیکن دشمن ان باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے۔ اگر ہم متحد رہیں گے تو  آئینی حقوق کے لیے قدم بڑھائیں گے، حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں گے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے سب یک جاں ہوکر کوشش کریں گے، جس سے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گی۔ حساس ادارے بھی نہیں چاہتے کہ ہم ایک ہوکر رہیں، ورنہ ان کے مقاصد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ یہی لوگ ہمارے درمیان تفرقہ ڈال رہے ہیں۔ لیکن اب یہاں امن و امان کی بحالی ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ کثیر المقاصد اقتصادی راہداری منصوبہ طے پایا ہے، جس میں چین نے حکومتی سکیورٹی پر عدم اعتماد ظاہر کرنے کے باعث پاک فوج نے یہ  ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لہذا اب حالات بہتر ہی رہیں گے۔ ان کا یہ تجزیہ سوفیصد صحیح ثابت ہورہا ہے۔ اب جب  اینٹی ٹیکس مومنٹ زوروں پر ہے، دشمن پھر سے یہی کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے درمیان پھوٹ ڈالا جائے۔لہذا ایسے حالات میں یہاں  کی عوام کو بہت ہی محتاط انداز میں آگے بڑھنےکی ضرورت ہے۔ یقینا اس سخت سردی میں سڑکوں پر نکلنا بہت ہی مشکل کام ہے، بہت سارے بیمار بھی پڑ سکتے ہیں، کاروباری مراکز بند رہنے کے باعث بہت ساروں کا  نقصان بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ ایک الہی وعدہ ہے کہ مشکلات کے بعد ہی آسانیاں ہیں۔ ہم اب مشکلات برداشت کریں گے تو  کل کو ہماری  نسلیں ہمارے حق میں دعائیں دیتی رہیں گی اور ہمارا مستقبل تابناک ہوگا۔ آخر میں ہمارا  سلام ہو یہاں کے علمائے کرام، عمائدین ملت اور  اس اہم موڑ پر ان کا ساتھ دینے والے سیاسی نمائندوں  ، بالخصوص عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ جناب شاہ سلطان رئیس اور تاجر برادری سکردو کے سربراہ  جناب غلام حسین اطہر اور ان دونوں  کے ساتھیوں سمیت گلگت بلتستان کی عوام پر جو کسی بھی حکومتی دھمکیوں کو درخور اعتنا میں لائے بغیر میدان عمل  میں  کمربستہ ہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ان شاء اللہ آخر میں فتح حق کی اور شکست باطل کی مقدر ہے۔  

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے