تازہ ترین

زیدی فرقہ کونسا ہے؟

سوال) زیدی فرقہ کونسا ہے؟ ان کے عقائد کے بارے میں بتائیں۔ نیز حضرت زید سے جو کتاب منسوب ہے اور جس کو زیدی مانتے ہیں اس کی ہمارے ہاں کیا حیثیت ہے؟
جواب) زیدی فرقہ تاریخ میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام زین العابدین(ع) کے بیٹے زید بن علی کو امام مانتے ہیں، اور ان کے بعد امام علی(ع) کی اولاد میں سے ہر اس شخص کو امام مانتے ہیں جو قیام کرے اور لوگوں کو اپنی بیعت کی طرف دعوت دے۔ یہ فرقہ آجکل یمن میں ایک بہت بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔

شئیر
67 بازدید
مطالب کا کوڈ: 339

البتہ ایک بات بہت شروع میں واضح کر دیں کہ جب ہم “زیدی فرقہ” کہتے ہیں تو اس سے مراد برّصغیر میں موجود زیدی سادات نہیں ہیں۔ زیدی سادات حضرت زید بن علی کی اولاد سے ضرور ہیں لیکن عقیدے کے لحاظ سے اثنا عشری ہیں اور ان کا زیدی فرقے سے تعلق نہیں۔

آمدم بر سر مطلب، کچھ زیدی دعوی کرتے ہیں کہ خود حضرت زید نے اپنی امامت کا دعوی کیا تھا، یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی کہ حضرت زید نے امام باقر(ع) کے مقابلے میں اپنی امامت کا دعوی کیا، کیونکہ جب آپ دونوں کے والد امام زین العابدین(ع) کا انتقال ہوا اس وقت حضرت زید کی عمر صرف چودہ سال تھی، اور اس عمر میں امامت کا دعوی بعید ہے۔ شیخ مفید علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں کہ زید بن علی نے اپنے لئے امامت نہیں چاہی تھی بلکہ اپنے بھائی کی طرفداری کی تھی (الارشاد)۔

جنہوں نے زید بن علی کے خروج میں ان کا ساتھ دیا وہ زیدیہ کہلائے جن کے بعد میں دو گروہ ہوئے؛ 1) بتریہ، 2) جارودیہ

ان دونوں گروہوں میں بنیادی فرق شیخین (حضرت ابوبکر و عمر) کی خلافت کا مسئلہ تھا۔ بتری فرقہ شیخین کی خلافت کو اور حضرت عثمان کی ابتدائی چھ سالوں کو قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ امام علی(ع) نے ان کی بیعت کی تھی۔ یہ لوگ امام علی(ع) کو رسول اللہ(ص) کے بعد پوری امّت سے افضل سمجھتے تھے لیکن کہتے تھے کہ چونکہ امام علی(ع) نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا لہذا ہمیں بھی تسلیم کر لینا چاھئے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) کی پیروی کرنے والی ابتدائی جماعت جو اصحاب پر مشتمل تھی، ان سے حضرت ابوبکر کو منتخب کرنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی (نوبختی، فرق الشیعہ)۔ اس طرح انہوں نے افضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت کو بھی جائز قرار دیا۔ اور امام علی(ع) کی اولاد میں سے کوئی قیام کرتا تو انہوں نے اس کو “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کے مترادف قرار دیا۔ بتری فرقہ علم کو محض اہلبیت(ع) تک محدود نہیں سمجھتا بلکہ باقی امّت سے بھی روایات لینے کو جائز سمجھتا ہے، اگر کوئی روایت نہ ملے تو ان کے ہاں انفرادی رائے پر بھی عمل کرنے کی اجازت ہے۔ اسی لئے ان کے ہاں اہلسنت کی طرح نبیذ (کھجور سے بننے والی شراب) اور بام مچھلی کی بھی اجازت ملتی ہے۔

ایک اور گروہ جس نے زید بن علی کا ساتھ دیا تھا، جارودیہ تھا جو ابی الجارود زیاد بن منذر سے منسوب ہے۔ ابی الجارود امام باقر(ع) کے اصحاب میں سے تھا اور ان سے کافی روایات نقل کی ہیں۔ بلکہ ایک تفسیر انہوں نے لکھی جو تفسیر ابی الجارود کے نام سے مشہور ہے، اس میں انہوں نے کثرت سے آئمہ(ع) سے نقل کیا ہے۔ موجودہ تفسیر قمّی کا ایک بڑا حصّہ تفسیر ابی الجارود پر ہی مشتمل ہے۔ جارودی اور بتریوں میں نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔

جارودی پہلے تین خلفاء کو تسلم نہیں کرتے۔ ان کا یہ دعوی تھا کہ اللہ کے رسول(ص) نے ہی امام علی(ع) کو اپنا وصی مقرّر کیا تھا، اس لئے صرف وہی امام تھے۔ البتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ زیدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے امام علی(ع) کو ان کا نام لے کر نہیں بلکہ ان کی صفات کا ذکر کر کے نامزد کیا تھا جس کو “نصّ خفی” کہہ سکتے ہیں۔ یعنی ان کی نامزدگی اس طرح سے ہوئی جس کو اہل ایمان نتیجہ اخذ کر کے سمجھ جائیں کہ آپ(ص) کے بعد آپ کا جانشین کون ہے۔ مشہور اسکالر “ماڈے لنگ” ذکر کرتا ہے کہ آگے چل کر یہ عقیدہ تمام زیدیوں میں راسخ ہو گیا۔

(Der Imam Al Qasim)

جارودیہ یہ مانتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) کے بعد اصحاب کی اکثریت نے شیخین کی پیروی کر کے غلطی کی، اور انہوں نے اہلبیت(ع) کے علاوہ کسی اور سے روایات لینے کو مسترد کر دیا۔ ان کے مطابق صرف اہلبیت(ع) کے در سے مروی احادیث ہی جائز ہیں۔ ان کے نزدیک امام حسن و حسین(ع) کی اولاد میں سے کسی کے لئے بھی امامت جائز ہے جو لوگوں کو بیعت کی طرف دعوت دے اور تلوار اٹھائے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ جو خروج نہیں کرتے وہ امام تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔

البتہ جارودیہ اپنی احادیث ہمارے آئمہ(ع) سے ہی لیتا ہے۔ گویا ان کے مطابق امامت تو انہی کا حق ہے جو تلوار اٹھا کر خروج کریں، لیکن علم کے اصل وارث آئمہ طاہرین(ع) ہیں۔ نوبختی فرق الشیعہ میں لکھتے ہیں کہ ان کے ہاں احادیث کا اہم حصّہ امام باقر و صادق(ع) سے مروی ہے، جبکہ احادیث کا ایک حصّہ حضرت زید بن علی اور عبداللہ بن حسن المحض سے بھی مروی ہے۔ جارودی راویوں نے ہمارے آئمہ(ع) سے احادیث بھی نقل کی، یہاں تک کہ مشہور راوی “ابن عقدہ” بھی زیدی تھے جن کی آراء حدیث و رجال میں سند کی حیثیت رکھتی ہیں اور ثقہ راوی تصوّر کئے جاتے ہیں۔ ان جارودیوں سے ہمارے علماء و اثناعشری راویوں نے بھی کثرت سے نقل کیا ہے۔

زیدی تاریخ میں ہر اس علوی کا ساتھ دیتے رہے جنہوں نے خروج کیا۔ ان لوگوں نے طبرستان، گیلان و دیلم (ایران کے مختلف علاقوں) میں اپنی حکومتیں بھی قائم کیں۔ گیلان و مازندران میں بہت عرصے تک زیدیوں کو حکومت رہی، یہاں تک کہ ایران میں جب صفویوں کو عروج حاصل ہوا تو انہوں نے گیلان و مازندران میں زیدی حکومتوں کا خاتمہ کیا۔ اب بھی زیدی اماموں کے مقبرے اور مزارات وہاں ہیں، اور سننے میں آیا ہے کہ یمن سے زیدی شیعہ ان مقابر کی زیارت کرنے وہاں جاتے بھی ہیں۔

گویا ایک عرصے تک ایران میں زیدی فرقہ موجود تھا لیکن صفوی دور کے آنے کے بعد زیدی فرقہ مکمّل طور پر ایران سے ختم ہو گیا۔ آجکل کے دور میں یمن ان زیدیوں کا ایک گڑھ تصوّر کیا جاتا ہے جہاں یہ ایک بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کی اغلب تعداد شمالی یمن میں ہے۔

مسند زید بن علی:

حضرت زید (ر) سے منسوب دو تصنیفات ہیں، ایک مسند زید بن علی اور دوسرا الجموع الحدیثی والفقہی کے نام سے ہے۔ زیدی فرقہ نے ان دونوں کتب پر بہت تکیہ کیا ہے اور کافی شروح لکھی ہیں۔ اس کتاب کا راوی عمرو بن خالد ہے جو ابو خالد واسطی کے نام سے مشہور ہے۔ ہمارے ہاں بھی حضرت زید (ر) سے جو روایات آئی ہیں ان کا راوی یہی عمرو بن خالد ہے۔ شیعہ علمائے رجال نے ابو خالد واسطی کا ذکر تو کیا ہے لیکن اس کی توثیق و تضعیف کے بارے میں کچھ نہیں کہا، تو متاخرین کی اصطلاح کے مطابق یہ راوی مجہول ٹھہرے گا۔

ہمارے ہاں شیخ کلینی نے عمرو بن خالد سے آٹھ روایتیں لی ہیں اور شیخ صدوق نے 26 احادیث اور شیخ طوسی نے تیس احادیث نقل کی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی حضرت زید (ر) کی کتاب مشہور تھی اور علماء میں رائج تھی۔ البتہ اس کتاب سے وہ روایتیں جو عامی مذہب کی موافقت میں ہیں ان کو شیخ طوسی نے آٹھ مقامات پر تقیہ پر محمول کیا اور متعدد مقامات پر شیخ طوسی نے کئ روایات کو شاذ ٹھہرایا جو اصول مذہب کے موافق نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شیخ صدوق اور کلینی نے ان ایسی کوئی روایت نقل نہیں کی اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زید بن علی کی کتاب سے انہوں نے انہی روایات کو لیا جو امامی مذہب کے موافق ہوں۔

شیعہ امامیوں نے حضرت زید سے کچھ ایسی احادیث بھی نقل کی ہیں جن میں امامی مذہب کی تائید ہوتی ہے اور زیدیوں نے اس کتاب میں وہ روایات بھی لکھی ہیں جن میں ہمارے آئمہ ع کی طرف سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے۔ بہرحال عمرو بن خالد کو علمائے اہل سنّت نے ضعیف کہا ہے، اور ہمارے ہاں بھی یہ مختلف فیہ ہیں، البتہ غالبا آقائے خوئی نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن طرق سے کلینی و صدوق و طوسی نے نقل کیا ہے ان کی اسناد میں اشکالات پائے جاتے ہیں۔ زیدیوں نے تو خیر ان روایات پر کافی تکیہ کیا ہے اور عمرو بن خالد کی ذات کو کافی بلند سمجھتے ہیں۔

خاکسار: ابوزین الہاشمی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *