میں: آپ کیوں مسجد نبوی کی طرف جا رہے ہیں؟
شخص: جی کیوں کہ اپنی بیعت کا اظہار کرنا لازمی ہے، شریعی وظیفہ ہے۔
میں: لیکن جانشین کا اعلان تو ہو چکا تھا مقام غدیر پر؟
شخص: جی جانتا ہوں، لیکن کیا کر سکتے ہیں، جو اکثریت کا فیصلہ ہو گا وہی قابل عمل ہو گا۔
میں: کیا آپ حضرت علیؑ کی ولایت کے قائل نہیں ہیں؟
شخص: جی ہاں میں ہوں، الحمدللہ، انہی کو دوست رکھتا ہوں۔
میں: تو جانشینی کے لیے آپ کو آواز اٹھانی نہیں چاہیئے؟
شخص: دیکھیں صورتحال ویسی نہیں ہے، بہت کم افراد اس نظریے کے قائل ہیں، فی الحال ایسا ممکن نہیں، نہ ہی سب سے الگ رہا جا سکتا ہے، ان کے ساتھ رہ کر ہی ہم اس نظریے کی ترویج کر سکتے ہیں، اب حضرت علیؑ کی حکومت سب پر زبردستی تھوپ تو نہیں سکتے، اسلام میں جبر تھوڑی نہ ہے۔
میں: تو کیا حضرت علیؑ کی حکومت قائم نہیں ہو سکتی؟
شخص: جی فی الحال تو ممکن نہیں، اکثریت حضرت علیؑ کی ولایت کی قائل نہیں ہے۔ پہلے تمام افراد کو علیؑ کی ولایت کا قائل کرنا ہو گا، دوسری جانب علویوں کی مشکلات کے حل کے لیے حکومت سے بغاوت بھی مول نہیں لے سکتے اس لیے علویوں کی فلاح کے لیے اقدام بھی ضروری ہیں۔
میں: جبر بیشک نہیں ہے مگر رسول اللہ کے جانشین قرآن و عترت ہیں، اگر عترت کو چھوڑ دیا تو قرآن بھی ہاتھ سے نکل جائے گا، قرآن بھی نکل گیا تو اسلام ہی نہیں رہے گا۔ خدا نے سختی سے منع فرمایا ہے کہ خدا کے منتخب کردہ حاکم کے علاوہ کسی کو حاکم ماننا طاغوت کو حاکم ماننے کے مترادف ہے اور حرام ہے۔
شخص: دیکھو بھائی، مجتہد بننے کی اور زیادہ فتوے دینے کی ضرورت نہیں ہے، اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ صرف کچھ لوگ ٹھیک کہہ رہے ہوں، باقی جید صحابی، علماء سب غلط ہوں۔ تم شخصیت پرستی سے نکلو اور حقائق کو دیکھو، اللہ تمہیں ہدایت دے، واسلام
جی یہی صورتحال ہے۔ ابھی ابھی معلوم پڑا ہے کہ دختر رسول خدا جناب فاطمہ الزہراؑ تن تنہا مدینہ کی گلیوں میں تمام مہاجرین و انصار کے گھروں میں جا رہی ہیں تاکہ انکی خواتین سے کہہ کر ان کے مردوں کو اعلان غدیر کے احیاء کے لیے راضی کر سکیں باوجود اسکے کہ تعداد میں کم نہیں بلکہ بالکل اکیلی ہیں۔ اور دوسری جانب اطلاع ملی ہے کہ پانچ افراد کو رسیوں میں جکڑ کر لایا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان میں سے چار وہ ہیں جو الہی حاکم کے علاوہ کسی کو حاکم تصور نہیں کرتے اور انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے، اس لیے ان سے زبردستی بیعت لی جا رہی ہے۔ اور پانچویں ہستی وہی حاکم الہی، جانشین رسول اللہ جناب علیؑ ابن ابی طالب خود ْہیں جن کی میراث انکی کی آنکھوں کے سامنے لوٹی جا رہی ہے لیکن زمینی حقائق نے سب مسلمانوں کی زبانوں پر تالے لگا دیئے ہیں۔
