تازہ ترین

بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں

تاریخی اور کلامی لحاظ سے رسول اللہ ۖ کی بعثت ،نبوت کی اہم ترین بحث ہے ۔ تاریخ انسانیت کایہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بناہے اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑے ہیں اور یہ واقعہ نہ فقط اپنے زمانے کے لحاظ سے اہم تھا بلکہ آئندہ زمانے کے لئے بھی اس کی اہمیت اپنے زمانے سے زیادہ اہم ہے ۔ چونکہ رسول اللہ ۖ کی بعثت ایک نبی خاتم ۖ کی بعثت تھی نہ ایک محدود زمانے اور محدودپیغام کے حامل نبی کی بعثت تھی ۔بعثت پیغمبر ۖ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کو جہاں تاریخی حیثیت سے دیکھا گیا ہے وہاں کلامی اور عرفانی نقطئہ نظر سے بھی اس پر بحث کی گئی ہے ۔

شئیر
52 بازدید
مطالب کا کوڈ: 375

چونکہ امام خمینی ایک فقیہ ،فیلسوف ،عارف ہونے کے لحاظ سے ایک ایسے صاحب نظر عالم دین ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ ۖ کی شریعت کو طریقت اور عملیت کے میدان میں پیش کیا ہے اور رسول اللہ ۖ کے پیغام کا عملی تجربہ کیا ہے اور اسے جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی جرائت کی ہے اور یہ رسول اللہ ۖ کی بعثت اور لائی ہوئی شریعت پر امام خمینی کے محکم ایمان اور یقین کی دلیل ہے ۔
امام خمینی رسول اللہ ۖکی بعثت کے پیغام یعنی؛ شریعت محمدیہ ۖ کو نہ فقط اعتقادی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اس کو عملی میدان میں پیش کرنے اور اس کو دنیا کے تمام نظام ہائے زندگی سے برتر سمجھتے تھے ،اور اسی یقین کامل کے ساتھ اُنہوں نے بعثت رسول ۖکے نتیجے میں قائم ہو نے والی اسلامی حکومت کے احیاء کی کوشش کی اور اسے اپنے یقین محکم کے ساتھ عصر حاضر کے پیچیدہ ترین نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور پوری دنیا پر بعثت پیغمبر ۖ کی حقانیت ثابت کر دی ۔اس لحاظ سے بعثت اور فلسفہ بعثت کے بارے میں امام خمینی کے افکار وبیانات اور نظریات خاصی اہمیت رکھتے ہیں ۔چونکہ یہ ایک ایسے عالم دین کے افکار ہیں جو فقط بعثت رسول ۖ پر علمی ونظریاتی بحث نہیں کرتا بلکہ اسے انسانی معاشرے میں عملی شکل میں پیش کرتا ہے ۔
یہ فقط امام خمینی کا امتیاز ہے کہ جنہوں نے پیغام رسالت اور فلسفہ بعثت کو عمل کے میدان میں پیش کیا ہے ۔لہٰذا بعثت رسول اللہ ۖکے بارے میں امام خمینی کے افکار فقط ایک عالم دین اور فقیہ کے افکار نہیں بلکہ ایک عارف کامل ، ایک فیلسوف اور ایک ماہر سیاستدان اور ایک طاقتوراسلامی حکمران کے افکار ہیں جس نے سیاست رسول ۖ اور پیغام بعثت کاتجربہ عملی طو ر پر کیا ہے ۔اسی خصوصیت کے ساتھ ہم سیرت رسول اللہ ۖ کے ایک اہم عنوان یعنی؛ ”بعثت رسول اللہ ۖ” کے بارے میں امام خمینی کے افکار پیش کرتے ہیں ۔
تاریخ کاعظیم واقعہ
رسول اکرم ۖ کی بعثت کا دن پورے زمانے ”مِن َ الازَل اِلی الابد”باشرف ترین دن ہے۔چونکہ اس سے بڑا اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے ۔دنیا میں بہت سے عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں ،عظیم انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات ہو گذرے ہیں لیکن رسول اکرم ۖ کی بعثت سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ اس عالم میںسوائے خداوند متعال کی ذات مقدس کے، رسول اکرم ۖ سے عظیم تر ہستی کوئی بھی نہیں ہے اورآپۖ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم ۖ کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔اور یہ واقعہ اس دن رونما ہوا ہے اسی نے اس دن کو عظمت اور شرافت عطا کی ہے ۔ اس طرح کا دن ہمارے پاس ازل وابد میں نہیں آیا اور نہ آئے گا۔لہذامیں اس دن کے موقعہ پر تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعف لوگوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ ١
عالم بشریت کا وحی کے فواہد اور تعلیمات سے بہرہ مند ہونا
بعثت کا ایک محرک یہ ہے کہ یہ قرآن کہ جو غیب میں تھا ،غیبی صورت میں تھا ،(فقط) علم خدا میںتھا اور غیب الغیوب میں تھا ،اس عظیم ہستی ۖ کے ذریعے ،وہ ہستی ۖ کہ جس نے بہت زیادہ مجاہدت و ریاضت کرنے اور حقیقی فطرت اور توحیدی فطرت پر ہونے کی وجہ سے اور غیب کے ساتھ رابطہ رکھنے کی وجہ سے اس مقدس کتاب کو مرتبہ غیب سے متنزل کیا ہے بلکہ (یہ مقدس کتاب ) مرحلہ بہ مرحلہ نازل ہوئی ہے اور آخر درجہ شہادت (ظاہر)پر پہنچ کر الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔اور اب ان الفاظ کو ہم اور آپ سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے معانی سے اپنی توان اور (استعداد ) کے مطابق فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔بعثت کا مقصد اس دسترخوان نعمت کو لوگوں کے درمیان نزول کے زمانے سے لے کر قیامت تک بچھانا ہے اور یہی بات کتاب خدا کے نزول کے اسباب میں سے ایک سبب اور رسول اکرم ۖ کی بعثت کی اصل وجہ ہے (بَعَثَہُ اِلَیْکُم) ( اس رسول ۖ کو تمہاری طرف بھیجا)، وہ رسولۖ تمہارے لیے قرآن اور ان آیات:
”وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة” (سورہ جمعہ ،آیت ٢)
” (وہ رسولۖ) ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے”
کی تلاوت کرتا ہے۔شاید ان آیات کی مقصودیا ہدف یہی ہوکہ رسول اکرم ۖتزکیہ اور تمام افراد کی تعلیم وتربیت اور اسی کتاب وحکمت کی تعلیم کیلئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ پس بعثت رسول اکرم ۖ کی وجہ وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں کیلئے تلاوت قرآن کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور ان کے نفوس گناہ کی اس ظلمت وتاریکی سے پاک ہوں جو ان کے اپنے اندر موجود ہے اور اس پاکیزگی اور تزکیہ کے بعد ان کی روحیں اور اذہان اس قابل ہوں کہ کتاب وحکمت کوسمجھ کرسکیں۔٢
نور ہدایت کے حصول کے لئے نفوس کا تزکیہ
جو لوگ بعثت کو ایک الہٰی بعثت سمجھتے ہیںاور بعثت کا محرک تمام مخلوق کی ہدایت جانتے ہیں؛اُنہیں بعثت کی غرض و غایت کی طرف متوجہ رہنا چاہیے ۔اور بعثت کے اس محرک کی طرف توجہ کرنی چاہیے ۔چونکہ خود خداوند متعال نے بعثت کا محرک بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
”یَتلوا عَلَیھم آیاتِہِ وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة”
”تاکہ وہ (رسولۖ) ان پر آیات کی تلاوت کرے اور ان کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب
و حکمت کی تعلیم دے” (سورہ جمعہ ،آیت ٢)
انسان میں ہدایت کی روشنی تزکیہ نفس سے پیدا ہوتی ہے ۔٣

عظیم ترین علمی و عرفانی انقلاب
بعثت کا مسئلہ اور اسکی ماہیت و برکات کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے ہماری لکنت زدہ زبانوں سے بیان کیا جاسکے ۔اس کے پہلو اس قدر وسیع ہیں اور اسکی معنوی اور مادی جہات اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کے بارے میں گفتگو کرنے کا میں گمان بھی نہیں کر سکتا ۔
رسول اکرم ۖ کی بعثت نے تمام عالم میں ایک علمی وعرفانی انقلاب برپا کیا ہے کہ جس نے یونانیوں کے خشک اور قدر وقیمت کے حامل فلسفے کو اہل شہود ومعرفت کیلئے ایک عرفان حقیقی اور شہود واقعی میں تبدیل کردیاہے۔کسی کے لئے بھی قرآن کے اس پہلو کا انکشاف نہیں ہوا سوائے اُن لوگوں کے لئے جو اسکے حقیقی مخاطب ہیں ۔حتیٰ بعض پہلو تو ”مَن خوطِبَ بِہ ” کے لئے بھی واضح نہیں ہوئے ہیں ۔جن سے فقط ذات ذی الجلال جل جالہ کے اور کوئی بھی آگا ہ نہیں ہے۔اگر کوئی قبل از اسلام کے فلسفے اور بعد از اسلام کے فلسفے کا مطالعہ کرے اور ہندوستان وغیرہ میں اس قسم کے مسائل سے سروکار رکھنے والوں کا بعداز اسلام کے عرفا سے (موازنہ کرے) کہ جو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان مسائل میں داخل ہوئے ہیں تو وہ جان لے گاکہ اس حوالے سے کتنا عظیم انقلاب آیا ہے۔حالانکہ اسلام کے عظیم عرفا بھی قرآنی حقائق کو کشف کرنے میں عاجز ہیں ۔ قرآن کی زبان کہ جو بعثت کی برکت اور رسول خدا ۖ کی بعثت کی عظیم برکات میں سے ہے۔٤
عظیم ترین علمی و عرفانی انقلاب
رسول اکرم ۖکی اس ولادت باسعادت کے مختلف پہلو آج تک کسی انسان کو معلوم نہیں ہوسکے۔ اس ولادت کی برکت سے فیوض وبرکات کے جاری ہونے والے چشمے رسول اکرم ۖ کے قلب مبارک پر وحی کے نزول کی صورت میں اپنے کمال کو پہنچے۔ قرآن مجید کا نزول بھی انہی سرچشموں میں سے ایک ہے کہ جس کا کامل فہم کسی ایک کیلئے یہاں تک کہ آخری زمانے کے عقلمند اور غور وخوص کرنے والے افراد کیلئے بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان عصمت سے قرآن کی بیان شدہ حقیقت سے زیادہ آج تک کسی نے قرآنی حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا ہے۔ جب آپ اسلام سے قبل معرفت وعلوم کی گہرائی، فلسفے اور اجتماعی عدل وانصاف کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کے انہی معلوم شدہ حقائق نے دنیا میںایک عظیم انقلاب برپاکیا ہے کہ جس کی نہ ماضی میں مثال ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے۔
تاریخ عرفان میں آپ دیکھیں کہ اسلام سے پہلے کیا تھا اور اسلام کے بعد اسلام ِمقدس اور قرآن کریم کی تعلیمات کے ذریعے کیا کچھ ہو گیا ہے ۔اسلام سے پہلے کی شخصیات کو دیکھیں مثلاً ارسطو وغیرہ کو دیکھیں ؛وہ عظیم شخصیات تھیں لیکن اس کے باوجود اُن کی کتابوں میں وہ چیز نہیں ملتی جو قرآن کریم میں ملتی ہے ۔
ہماری روایات میں یہ جوبعض آیات(کے بارے میں) نقل ہواہے کہ مثلاً سورہ توحید اور سورہ حدید کی آخری چھ آیات آخری زمانے کے گہرا سوچ وبچار رکھنے والے دور اندیش لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہیں ؛میر ے خیال میں اس کی واقعیت اس وقت تک یا اس کے بعد انسان کے لئے جس طرح ہونا چاہیے منکشف نہیں ہو سکے گی۔البتہ اس بارے میںبہت کچھ کہا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بہت ہی گرانقدر تحقیقات انجام پاچکی ہیں لیکن اُفق قرآن اس سے کہیں زیادہ بلند ہے ۔٥

انسان کے ادراک سے بالا معجزہ
بعثت کا واقعہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کے بارے میں ہم کوئی بات کر سکیں ہم فقط اسی قدر جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میںتدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم ۖ کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے کہ جس نے زمانۂ جاہلیت میںپرورش پائی اور ایک ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی کہ جس میں ان باتوں کا دور دور تک نام ونشان موجود نہیں تھا۔ اس زمانے کے لوگ دنیا کے مسائل، عرفانی حقائق، فلسفی نکات اور دیگر مسائل سے قطعی طورپر آشنا نہیں تھے۔ آنحضرت ۖ نے پوری زندگی اسی خطے میں گزاری صرف ایک مختصر مدت کیلئے آپ سفر پر تشریف لے گئے اور لوٹ آئے۔ جب ایک انسان اس وقت کو دیکھتا ہے کہ جب آپۖ رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپ نے ایسے مطالب پیش کیے کہ جن کا پیش کرنا اور ان کا فہم وادراک بشریت کی طاقت سے باہر ہے۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ جو اہل نظر افراد کیلئے پیغمبر ۖ کی نبوت پر دلیل ہے حالانکہ رسول اکرم ۖ بذات خود ان مطالب کو بیان نہیں کرسکتے تھے، نہ آپ ۖنے تحصیل علم کیا اور نہ ہی آپۖ لکھنا جانتے تھے۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ حقیقت کسی کیلئے کشف ہوئی ہے سوائے خود رسول اکرم ۖ کیلئے اور ان خاص الخاص افراد کیلئے جو آپ ۖسے مربوط ہیں۔
واقعہ بعثت کی عظمت پر پیغمبر ۖ کے اُمی ہونے کی دلالت
اسلام کے مختلف قسم کے عمیق اور گہرے اجتماعی مسائل ایسے شخص کے اپنے نہیں ہوسکتے جس نے تاریک اور علم سے بے بہرہ ماحول میں زندگی بسر کی ہو یا ہر ماحول ومعاشرے میںپرورش پانے والا انسان کیا اس طرح دنیا میں تمام چیزوں کے علم کو پاسکتا ہے جو موجودہ اور آئندہ زمانے کے عقلی تقاضوں اور معیارات پر پورا اترے یہ صرف ایک معجزہ ہے اور معجزے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔٦

شریعت اسلام کی جامعیت کااسلام کے وحیانی ہونے پردلالت کرنا
خاتم المرسلین ۖ کی نبوت کے اثبات کیلئے ہمارے دلائل کا نچوڑ یہ ہے کہ جس طرح تخلیق کائنات کی مضبوطی اور اس کی حسن ترتیب وبہترین نظم ہم کو یہ بتاتا ہے کہ ایک ایسا موجود ہے جو اس کی تنظیم کرتا ہے، جس کا علم تمام باریکیوں، خوبیوں اور کمالات پر محیط ہے۔ اسی طرح ایک شریعت کے احکام کا اتقان، حسن نظام، ترتیب کامل، تمام مادی ومعنوی، دنیوی واخروی، اجتماعی وفردی ضروریات کی مکمّل طورسے پر ذمہ داری قبول کرنا بھی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس کے منتظم اور چلانے والے کا علم بھی لامحدود ہوگا اور وہ افراد بشر کی ضرورتوں سے واقف ہوگا اور چونکہ یہ بات بدیہی ہے کہ یہ سارا کام ایک ایسے انسان کے عقلی قوتوں کا ہرگز مرہون نہیں ہوسکتا، جس نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہ کیا ہو، جس کی تاریخ حیات ہر قوم وملت کے مورخین نے لکھی ہو، جس نے ایک ایسے ماحول میں تربیت پائی ہو جو کمالات وتعلیمات سے عاری ہو، ایسا شخص اتنا کامل نظام نہیں بنا سکتا۔ اس لئے یقینا غیب اور ماوراء الطبیعہ سے اس شریعت کی تشریح ہوئی ہے اور وحی والہام کے ذریعے آنحضرتۖ تک پہنچائی گئی ہے:
”وَالحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ وُضُوحِ الحُجَّة”۔ ٧
عید سعید مبعث، ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای کی نظر میں
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای روز بعثت کو انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عید سعید مبعث قیامت تک انسان کی سعادت منشاء اور خیرات و برکات کا سرچشمہ ہے۔
27 رجب وہ مبارک دن ہے جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبوت کے درجے پر فائز ہوئے اور ان پر خداوند متعال کی جانب سے پہلی وحی نازل ہوئی۔ اس عظیم دن کو بہتر پہچاننے کیلئے عظیم شخصیات کے اقوال کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے مختلف مواقع پر اس مبارک اور نورانی دن کے بارے میں اظہار نظر فرمایا ہے۔ روز بعثت کی مناسبت سے اسلام ٹائمز اردو آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی فرمایشات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

تاریخ کا سب سے عظیم اور بابرکت دن:
روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اور اس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔ [17 نومبر 1998ء]۔
انسانی تاریخ کی عید:
عید سعید مبعث درحقیقت انسانی تاریخ کی عید ہے۔ روز مبعث حقیقت میں ایسے پیغام کا پرچم بلند کئے جانے کا دن ہے جو بنی نوع انسان کیلئے بے مثال اور عظیم ہے۔ بعثت نے علم و معرفت کا پرچم بلند کیا ہے۔ دوسری طرف روز بعثت عدل، رسالت اور اعلی اخلاق کیلئے جدوجہد کا نام ہے۔ “بعثت لاتمم مکارم الاخلاق”۔ [15 اکتوبر 2001ء]۔
انسان کی سعادت کی بنیاد:
عید سعید مبعث انسان کی سعادت کی بنیاد اور ہمیشہ کیلئے خیر و برکات کا سرچشمہ ہے۔ روز بعثت کے دن کو منانا صرف مسلمانوں کا ہی وظیفہ نہیں بلکہ مظلوم بشریت کو چاہئے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین کا احترام اور قدردانی کرے کیونکہ انسان کی نجات ان تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔ [8 فروری 1991ء]۔
بعثت کے اہداف:
وہ چیز جو عید سعید مبعث سے درس حاصل کرنے اور اس سے صحیح طور پر مستفید ہونے کیلئے ہمارے نزدیک اہمیت کی حامل ہونی چاہئے وہ اپنے فہم و درک کے مطابق بعثت کے پیغام کو سمجھنا ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے کچھ خاص اہداف و مقاصد مشخص کئے ہیں۔ یہ اہداف مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ انسان کی انفرادی زندگی کے اہداف:
اصلی ہدف بھی انسان کی انفرادی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم میں کئی آیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ آل عمران کی آیہ 164 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
“لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمہ”۔
یہ تزکیہ نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیم درحقیقت وہی انسان کی اندرونی تبدیلی اور انقلاب ہے۔ انسان کیلئے اپنی خلقت کے حقیقی مقصد تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی انفرادی زندگی کے بارے میں بعثت انبیاء کے اہداف کی تکمیل کرے۔ یعنی اپنے اندر بنیادی تبدیلی پیدا کرے۔ اپنے باطن کی اصلاح کرے اور خود کو تمام برائیوں اور پستیوں اور ان تمام خواہشات سے نجات دلائے جو انسان کے اندر موجود ہیں اور دنیا کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ ہدف انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہے۔
جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق”۔ یعنی میں اعلی اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث ہوا ہوں۔ انسان کا حقیقی مقصد اس اعلی اخلاق کی جانب پلٹنا ہے۔ یعنی تہذیب نفس انجام دینا ہے۔ انسان کو حکمت کی جانب لے جانا ہے۔ اسے جہالت سے نکال کر حکیمانہ زندگی اور فہم و فراست کی جانب لے جانا ہے۔ [8 فروری 1991ء]۔

۲۔ انسان کی اجتماعی زندگی کے اہداف:
انسان کی اجتماعی زندگی سے متعلق بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہدف اجتماعی عدالت و انصاف کا تحقق ہے۔ خداوند متعال فرماتا ہے:
“لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط”۔ [سورہ حدید، آیہ 25]۔
“قسط” اور “عدل” میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ عدل کا مفہوم عام ہے یعنی وہی اعلی اور برتر مفہوم جو انسان کی شخصی اور اجتماعی زندگی اور روزمرہ حوادث میں پایا جاتا ہے۔ عدل کا مطلب ہے صحیح طرز عمل، معتدل ہونا اور اعتدال کی حد کو پار نہ کرنا۔ لیکن قسط کا مطلب اسی عدالت کو اجتماعی روابط میں اجراء کرنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اجتماعی عدالت اور انصاف کا نام دیتے ہیں۔ یہ عدل کے عام مفہوم سے مختلف ہے۔ اگرچہ انبیای الہی کا بنیادی ہدف اسی عدل کے عام مفہوم کو تحقق بخشنا تھا کیونکہ “بالعدل قامت السموات و الارض”۔ آسمان اور زمین عدل کی برکت سے ہی استوار ہیں۔ لیکن وہ چیز جس کی وجہ سے انسانیت کو آج تمام مشکلات کا سامنا ہے اور بشریت اس کی پیاسی ہے اور اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں “قسط” ہے۔ قسط یعنی یہ عدل و انصاف انسانی کی اجتماعی زندگی میں جلوہ گر ہو جائے۔ انبیاء علیھم السلام اسی مقصد کیلئے مبعوث ہوئے ہیں۔ [8 فروری 1991ء]۔
انبیاء علیھم السلام کی نصیحت اور وصیت:
صرف یہ کہ بیٹھ کر یہ کہتے رہیں کہ آیہ نازل ہوئی اور جبرئیل آئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبوت پر فائز ہو گئے اور یہی کہ کہ کر خوش ہوتے رہیں کہ کون ایمان لایا اور کون ایمان نہیں لایا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہم اس عظیم واقعے سے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مبارک زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات کا پیش خیمہ اور اساس ہے درس حاصل کریں۔ کبھی بھی آسودگی اور رفاہ کی حالت میں حق کا پرچم بلند کرنے اور اس کے حق میں نعرے لگانے سے حق نہیں پھیلا کرتا۔ حق اس وقت پھیلتا ہے جب اس کے طرفدار حق کے راستے میں استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے باوفا ساتھیوں نے بعثت کے بعد بے مثال استقامت کا ثبوت دیا۔ شعب ابی طالب کا واقعہ سب کو یاد ہے۔ شعب ابی طالب مکہ کے قریب ایک درہ تھا جہاں نہ تو پانی تھا اور نہ ہی درخت اور سبزہ۔ اس درے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں نے تین سال محاصرے میں گزارے۔ رات سے لے کر صبح تک بچے بھوک کی وجہ سے بلک بلک کر روتے تھے۔ ان کا گریہ اس قدر شدید تھا کہ ان کے رونے کی آواز شعب ابی طالب سے مکہ میں رہنے والے مشرکین تک جا پہنچتی تھی۔ کفار میں موجود نرم دل انسانوں کو ان بچوں پر رحم آتا تھا لیکن اپنے بڑوں کے خوف سے مسلمانوں کی مدد کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے بھوک سے فوت ہو رہے تھے۔ ان تین سالوں میں کتنے ہی افراد فوت ہو گئے۔ کتنے افراد مریض ہو گئے۔ انہوں نے بھوک کو برداشت کیا لیکن اپنے ہدف سے پیچھے نہیں ہٹے۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے فرماتے ہیں: اگر پہاڑ اپنے جگہ سے ہل جائیں تم اپنے راستے سے منحرف نہ ہونا۔ یہ وہی نصیحت ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی ہے۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت ہے۔ یہی امت مسلمہ کے اٹھ کھڑے ہونے کا حقیقی راستہ ہے۔ یہ درحقیقت امت اسلامی کی بعثت ہے۔ یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہمارے لئے درس ہے۔ بعثت ہمیں استقامت اور پائداری کا درس دیتی ہے۔ [30 جولائی 2008ء]۔
اس “انما” کے اندر بہت معنا پوشیدہ ہیں:
آپ دیکھیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
“انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق”۔
اس حدیث کو اہلسنت اور اہل تشیع کے راویوں نے نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں لفظ “انما” اپنے اندر بہت زیادہ معانی لئے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا واحد ہدف مکارم اخلاق کی تکمیل ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام اہداف مقدمہ اور پیش خیمہ ہیں۔ اصل ہدف یہ ہے کہ انسان اور انسانی معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ ملے اور اس طرح سے یہ امت کمال کے درجات طے کرے۔ سب انسان اخلاقی اقدار سے لیس ہو کر انسانیت کی اعلی منازل تک پہنچیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر انسانی اخلاق کی تکمیل اور تقویت کریں۔ اگر ایک ایسے معاشرے میں جو اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے اور ایک ایسے نظام حکومت میں جس کی بنیاد اسلام پر ہے ہم الہی اخلاق سے دور ہو جائیں اور اپنی نفسانی خواہشات، خود پرستی اور خود خواہی کے پیچھے چل نکلیں، ہر کسی کی یہ کوشش ہو کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و متاع جمع کر لے، بہتر غذا کھائے اور بہتر انداز میں زندگی گزارے، دوسروں کا مال ہڑپ کرے، اپنے حق سے بڑھ کر حاصل کرے، نہ تو ایثار کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی بخشش کا، تو یہ کیسا معاشرہ اور کیسی حکومت ہو گی؟ یہ کس طرح اسلامی معاشرہ کہلایا جا سکتا ہے؟ [9 دسمبر 1996ء]۔
ہم مسلمان قصور وار ہیں:
ہر وہ چیز جو بنی نوع انسان کو ضرورت ہے، یہ انسان چاہے جس زمانے کا ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو، بعثت میں موجود ہے۔ یعنی علم و معرفت، حکمت و رحمت، عدل و بھائی چارہ اور مساوات۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر انسان کی صالح زندگی کی بنیادیں استوار ہیں۔ آج بشریت ان علوم کی محتاج ہے۔ ہم مسلمان قصور وار ہیں اور ہمیں اپنے قصور کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اول تو ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عالمی سطح پر متعارف کروانے میں کوتاہی کا ثبوت دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ عالمی سطح پر اسلام کا صحیح ماڈل بھی پیش نہیں کر پائے۔ اگر مسلمانان عالم اپنے عمل اور اجتماعی اور انفرادی رویئے اور حکومتی اور سیاسی نظام کو اسلام کی صحیح تعلیمات پر استوار کر لیں تو یہ اسلام کی بہترین اور اعلی ترین تبلیغ ہو گی۔ [15 اکتوبر 2001]۔

اسلام کی عظیم ترین تبلیغ:
قرون وسطائی کے بعد جب مسیحیت اور مغربی دنیا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ مہم شروع کی اور اسلام کے بدترین دشمن اس نتیجے پر پہنچے کہ دین مبین اسلام سے مقابلہ کرنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرے کو مخدوش کریں تو اس ضمن میں بڑی تعداد میں اقدامات انجام دیئے گئے۔ آج تک اسلام دشمن عناصر مسلسل مختلف طریقوں سے دنیا والوں کے ذہن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں موجود تصور کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اگر صرف اسی حد تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت سے آگاہ ہو جائیں جتنا مسلمان آگاہ ہیں یا حتی اس سے بھی کم حد تک آگاہ ہو جائیں تو فورا اسلام اور اسلامی روحانیت کی جانب جھکاو پیدا کر لیں گے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس شعبے میں موثر اقدامات انجام دیں۔
اسلام کی عظیم ترین تبلیغ شائد یہی ہو سکتی ہے کہ ہم دنیا والوں کے سامنے نبی اکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی چہرے کو روشن کریں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر مسلمان علمای دین اور فنکار حضرات اپنے خوبصورت انداز اور بیان سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری شخصیت کو دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے تاکہ اسلام دشمن عناصر اپنے انتہائی پیچیدہ ثقافتی اور فنی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کم آگاھی رکھنے والے افراد کے ذہن میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کو خراب کرنے کی جرات نہ کر سکتے۔ ہمیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں صحیح تصور کو پیش کرنے کیلئے کام کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کے تمام پہلووں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ ص کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ ایک اخلاقی پہلو ہے۔ دوسرا سیاسی پہلو ہے یعنی آپ ص کی روش حکومت ہے۔ اسی طرح آپ ص کی عبادت، جہاد اور مخصوص تعلیمات ہیں جن پر توجہ کرنی چاہئے۔ ہمیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں صرف کتابیں لکھنے تک ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ تبلیغ کے جدید طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ انہیں میں سے ایک طریقہ فنکاری کا طریقہ ہے۔ یعنی فلم اور ڈراموں کے ذریعے۔ [16 اکتوبر 1989]۔

www.razavi.aqr.ir

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *