اسلام اور سیکولرزم امام خميني كي نطر ميں/قمر عباس نانجي
مقدمہ:
اس موضوع کو انتخاب کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جتنا نقصان اس سیکولر طبقے نے اسلامی معاشروں کو پہنچایا ہے اتنا کسی اور چیز نے نہیں پہنچایا، اگر سیکولر اور تکفیری طرز تفکر کا موازنہ کریں تو بلامبالغہ سیکولرزم آج بھی زیادہ خطرناک ہے۔ بسا اوقات تکفیریوں کو چلانے والا اور انکی مکمل پشت پناھی کرنے والا یہی سیکولر طبقہ ہوتا ہے۔

بظاھر انکے نعرے پر امن اور دوسروں کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں جیسے روشن فکری کا مشھور نعرہ ۔لیکن درحقیقت اور پس پردہ یہ وہی طرز تفکر ہے جس نے اسلام کو معاشرے سے باہر نکال کر مسجد اور خانقاہوں کی چار دیواری میں محدود کردیا۔
بعض کے نزدیک بے دین افراد یا ایسے کلمہ پڑھنے والے لوگ سیکولر ہوتے ہیں جو اسلامی احکام کی پابندی نہیں کرتے، مثلاً جس آدمی نے بلکل داڑھی نہیں رکھی یا جس خاتون نے حجاب نہیں کیا وہ سیکولر ہے، جبکہ یہ سیکولر کی غلط تعریف ہے۔
سيكولرزم كي تعريف:
ممکن ہے ایک کلمہ گو جو نماز روزے کا پابند ہو اور اپنی شرعی ذمہ داریاں بھی پوری کرتا ہو اور تمام برے کاموں سے بھی خود کو بچاتا ہو اس کے باوجود ذہنی اور فکری طور پر مکمل سیکولر ہو۔ کیونکہ سیکولرزم کی مختصر تعریف یہ ہے کہ دین کا دائرہ فقط عبادت اور بعض رسومات تک محدود کردیا جائے اور دین کو معاشرے کے تعلیمی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر اہم اور حساس پھلووں سے بے دخل کردیا جائے۔
اگر سیکولرزم کی اس تعریف کو مد نظر رکھ کر معاشرے کی طرف نگاہ کی جائے تو بڑے بڑے دیندار بھی سیکولر دیکھائی دیتے ہیں جنھوں نے بظاھر دین کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے مگر سوچنے کا انداز وہی سیکولر ہے۔
آج ہم اسلامی جمھوریہ پاکستان کی مثال لے لیں، نام اسلام کا ہے، لیبل بہت خوبصورت ہے لیکن معاشرے کے کسی شعبے میں اسلام کا ذرہ برابر بھی عمل دخل نہیں ہے۔
لفظ سياست كا منفي تاثر
جب بھی معاشرتی مسائل یا سیاست پر بات کی جائے تو ایک خوف یہ ہوتا ہے کہ سننے والا فوراً ایک منفی تاثر اپنے ذہن میں بٹھا لے گا کیونکہ ہم میں سے اکثر کے ذہنوں میں سیاست کی منفی تصویر موجود ہے یعنی جب سیاست کا نام آئے تو فوراً ذہن میں دھوکہ، فریب، جھوٹ، بد عنوانی اور انہی جیسی اصطلاحات آجاتی ہیں۔اور جب کوئی دین سے وابسطہ فرد جیسے عالم اس بارے میں کوئی بات کردے تو پھر معاشرہ اس کے تقدس کا قائل نہیں رہتا۔
شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ آج اس دنیا کی سیاست اور خصوصاً ہمارے ملک کی سیاست انہی اصطلاحات کی رہین منت ہے۔
ہمارے استاد ایک خوبصورت مثال دیتے ہیں کے اگر کسی آدمی نے زندگی بھر کیڑہ لگا ہوا سیب دیکھا ہو اور اسی کو کھاتا رہا ہو، پھر اچانک اس کے سامنے ایک خالص اور بغیر کیڑے والا سیب رکھا جائے تو وہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگائے گا اور کہے گا کہ یہ سیب ابھی ٹھیک سے پکا ہی نہیں۔
بلکل یہی مشکل لفظ سیاست کی ہمارے ساتھ ہے۔
یہ مثبت سیاست ہی ہے جومعاشرے کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے جس کے بناء معاشرہ ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔
سیاست کی بہت سادہ تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ معاشرہ چلانے کے لئے تدبیر کرنا۔
انبياء اور آئمه اطهار ع كي زندگي سے سياست كے چند نمونے
اگر ہم خود اپنی اسلامی تاریخ کا جائزہ لیں تو باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ آیا اسلام معاشرے کے اندر سیکولرزم یا کوئی اور ازم کو برداشت کرتا ہے یا نہیں؟ اور یہ کے اسلام سیاست کو کس طرح دیکھتا ہے ؟سب کے علم میں ہے صرف یاد دھانی کے لئے چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
تمام انبیاء (ع) کی خلقت کا مقصد یہی تھا کہ لوگوں کو ظالموں سے نجات دلوا کر یکتا پرستی کی طرف بلایا جائے، حضرت موسیٰ (ع) نے فرعون کو اس کے دربار میں للکار کر یہی کہا تھا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردے یعنی یہ حکومت میرے حوالے کردے۔
پھر اسلام کی سرحدوں میں اضافہ ہوا، رسول خدا (ص) نے جنگیں کیں، جنگوں میں تدبیر سے کام لیا، خود شریک ہوتے، تلوار چلاتے، ماہرین جنگ سے مشورے لیتے مثلاً جنگ خندق میں حضرت سلمان فارسی کے مشورے پر خندق کھدوائی، بصیرت کے ساتھ کبھی صلاح کی تو کبھی جنگ۔
یہ مسجد تھی جھاں سے رسول خدا (ص) لوگوں کو جنگ کے لئے بلاتے، مسجد سے مال تقسیم فرماتے، مسجد میں ہی معاشرے کے تمام مسائل پر بات ہوتی، مسجد میں ہی پریس کانفرنس ہوتی، رسول خدا (ص) کا گورنر ہاوس دراصل مسجد تھی۔ تو یہ سب چیزیں سیاست کے زمرے میں آتی ہیں۔
پھر رسول خدا (ص) کا امام علی (ع) کو اپنا جانشین بنانا، اس کے اندر سیاسی پہلو بھی موجود ہے یعنی وہ تمام معاشرتی معاملات، اب آپ (ص) کے بعد امام علی (ع) کے حوالے ہوئے، وہ لوگ جو پیغمبر کی وفات کا انتظار کر رہے تھے انھیں پیغمبر نے خلافت کے لئے مایوس کردیا۔
پھر امام علی (ع) نے لوگوں کی فلاح و بھبود کے لئے کنویں کھودے۔ نہج البلاغہ کے حصہ مکتوب میں جو سب سے بڑا خط امام نے لکھا وہ حضرت مالک اشتر کو مصر کا حاکم مقرر کرتے ہوئےلکھا، انھیں سیاسی نصیحتیں کیں کہ کس طرح ٹیکس وصول کرنا مثلاً تمهارے سپاہیوں کو چاہیئے کہ جب وصول کرنے جائیں تو سلام کریں محبت سے پیش آئیں، اسی طرح نصیحت کی کہ عوام سے کس طرح پیش آنا، فوجی کمانڈر اور چیف سے تمھارا رویہ کیسا ہو، تاجروں سے برتائو کیسا ہو، تمهارے مشیر میں کون سی صفات ہوں اور کون سی نہ ہوں، کس طرح حد جاری کرنا، یہ سب سیاسی معملات ہیں۔
پھر امام حسن (ع) نے معاویہ کے خلاف جنگ کے لئے ایک بڑا لشکر ترتیب دیا، پھر حالات کی وجہ سے حکمت کے تحت صلح بھی کی یہ ایک سیاسی عمل تھا۔
امام حسین (ع) کا حاکم وقت یزید کے خلاف قیام اپنے اندر بہت سے سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ جو پہلے بیان ہو چکے ہیں۔
تمام آئمہ اطھار (ع) کی یہی کوشش رہی ہے حتی اس زمانے کی آخری حجت سے ہماری امیدیں بھی یہی ہیں کہ وہ دنیا میں ظالمین کو ان کے ظلم سمیت نابود کر کے پرچم عدالت قائم فرمائیں گے بلاخر یہ بھی ایک سیاسی عمل ہے جس کا ہمیں انتظار ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ایک ہی دین میں دو متضاد راستے تصور نہیں کیے جاسکتے، یعنی اسلام اور سیکولرزم ایک ساتھ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ اسلام معاشرے کے کسی پہلوسے کبھی بھی لاتعلق نہیں ہوسکتا نہ ماضی میں ایسا تھا، نہ آج یہ ممکن ہے اور تا قیامت یہ نہیں ہو سکتا۔
دين اور سياست از نگاه امام خميني ؒ
اگر سوال ہو کہ کون ہے جس نے آج کی صدی میں دنیا کے سامنے اسلام کی درست تصویر پیش کی، تو بلاتفریق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا نام سر فہرستہے۔
ممکن ہے بعض خیال کریں کے یہ سب شخصیت پرستی کی بنیاد پر کہا جارہا ہے ۔ اور بعض سوال بھی کرتے ہیں کہ اتنے مجتھدین اور مراجع ہیں صرف امام خمینی ہی کیوں ؟ تو ایک طالب علمانہ جواب یہ ہے کہ ہر ایک کا مقام اپنی جگہ مگر جو کام اس بزرگوار نے کیا اس کی مثال صدیوں کی تاریخ میں نہیں ملتی، وہ اسلامی معارف جو اسلامی دنیا فراموش کر چکی تھی امام نے انھیں زندہ کیا نہ فقط کتابوں اور رسالوں میں زندہ کیا بلکہ معاشرے کے اندر زندہ کیا۔ اسلام کے لبادے سے غلط افکار اور غلط نظریات کے گرد و غبار کو صاف کیا اسلام کو مسجد اور مدرسوں کی چار دیواری سے باہر نکال کر معاشرے میں نافظ کیا ۔
علامہ اقبال گو کہ امام خمینی کے زمانے میں رحلت فرما چکے تھے لیکن ایسی انقلابی شخصیت کی بشارت علامہ اقبال نے بہت پہلے ہی دے دی تھی، جوانان عجم (ایرانیوں) کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:
می رسد مردی کھ زنجیر غلامان بشکند
دیدھ ام از روزن دیوار زندان شما
تمهارے زندان کی دیواروں میں موجود سوراخ سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک مرد آرہا ہے جو غلاموں کی زنجیروں کو توڑ دے گا۔ (یہاں غلامی سے مراد ایرانیوں کی فکری غلامی ہے، مراد مغرب زدگی ہے)۔
علامہ اقبال ہوں یا امام خمینی دونوں کا نظریہ اس بارے میں ایک ہے کہ اسلام معاشرے کے تمام پہلووں میں راہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور ہم معاشرے کی تشکیل میں اسلام کے محتاج ہیں۔
آگے چل کر ہم دیکھیں گے کے امام خمینی کی اس موضوع سے متعلق کیا رائے ہے۔(بشرط زندگی)
بعض علماء کی علمی خدمت یہ ہوتی ہے کہ اپنی علمی مهارت سے اسلام کو سیکولرزم کے ساتھ سازگار بنایا جائے، یا دیگر طریقوں سے اسلام کو معاشرتی مسائل سے دور رکھا جائے ،قطع نظر اس سے کہ انکے احداف کیا ہیں ممکن ہے بعض قربتاً الا اللہ یہ کام انجام دیتے ہوں، لیکن اس کام کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اسلام سے اس کی قدرت و توانائی کو چھین لیا جاتا ہے۔
ہم امام خمینی کے کلام میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے علماء کی امام بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
ہر ایک کا احترام اور علمی مقام اپنی جگہ لیکن ہر کلمہ گو اور خصوصاً ایک شیعہ اثنا عشری کی امام خمینی سے آشنای بہت ضروری ہے۔
موضوع کے اندر رہتے ہوئے ادنیٰ سی کوشش کی جارہی ہے کہ امام خمینی (رح) کے کلام اور انکی افکار سے آشنای پیدا ہو۔
آیا خلیفہ کا تعین کرنا صرف اس لئے ہے کہ احکام بیان ہوں ؟ خود آنحضرت (ص) نے احکام کو بیان کیا تھا، احکام کو کتابوں میں لکھا جاچکا تھا لوگوں کے ہاتھ میں دیا جاچکا تھا تاکہ لوگ عمل کرلیں۔جبکہ یہ بلکل واضح ہے کہ خلیفہ کا تعین حکومت کے لئے تھا۔ ہمیں اس لئے خلیفہ کی ضرورت ہے تاکہ (اسلامی) قوانین کا اجراء ممکن ہو، قوانین کو نافذ کرنے کے لئے مجری(نافذ کرنے والے) کی ضرورت ہے، دنیا کے تمام ممالک میں اسی طرح ہوتا ہے، صرف قوانین کا ہاتھ میں ہونا فائدہ نہیں دیتا اور انسان کو سعادت تک نہیں پہنچا سکتا لہذا قوانین کے نفاذ کے لئے ایک قوت و طاقت کا ہونا ضروری ہے۔
اسلام برنامہ حکومت دارد اسلام قریب پانصد سال تقریباً یا بیشتر حکومت کردہ است، سلطنت کردہ است با اینکہ احکام اسلام در آن وقت باز آنطور اجرا نشدہ است کہ باید اجرا بشود لکن ھمان مقدار اجرا شدہ اش ممالک بزرگی را، وسیعی را، ادارہ کردہ است با عزت و شوکت از ھمہ جہات، از ھمہ کیفیات.
اسلام کے پاس حکومت کا مکمل پروگرام موجود ہے۔ اسلام نے کم و بیش پانچ سو سالوں تک حکومت کی ہے، اگرچہ اُس وقت احکام اسلامی اس طرح اجراء نہ ہوسکے جیسے ہونے چاہیئے تھے، اس کے باوجود (اسلام نے) اپنی شان و شوکت سے بڑے بڑے ممالک اور علاقوں کی سرپرستی کی ہے۔
’’اسلام مثل سایر ادیانی کہ حالا در دست ھست خصوصا مسیحیت کھ ھیچ ندارد جز چند کلمہ اخلاقی و راجع بہ تدبیر نظام و راجع بہ سیاست مدن و راجع بہ کشورھا و راجع بہ ادارہ کشورھا برنامہ ندارد، گمان نشود کہ اسلام ھم مثل آنھا برنامہ ندارد، در شرع مطھر، اینطور نیست کہ فقط دعا و زیارت است. فقط نماز و دعا و زیارت، احکام اسلام نیست، یک باب از احکام اسلام است. دعا و زیارت یک باب از ابواب اسلام است لکن سیاست دارد اسلام، ادارہ مملکتی دارد اسلام، ممالک بزرگ را ادارہ می کند ۔‘‘
’’یہ گمان نہیں کیا جائے کہ اسلام کے پاس دوسرے ادیان اور خصوصاً مسیحیت کی طرح سوائے چند اخلاقی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اور ملک کی سیاست اور ملک کا نظام چلانے کے لئے کوئی نقشہ نہیں ہے۔ شریعت مقدس اس طرح نہیں ہے۔ یوں نہیں کہا جاسکتا کہ فقط نماز، دعا اور زیارت ہی احکام کے زمرے میں آتے ہیں، نہیں بلکہ یہ اسلام کے مختلف ابواب میں سے صرف ایک باب ہے۔ جبکہ اسلام کے پاس سیاست ہے، ملک کو چلانے لئے ڈھانچہ ہے، اسلام بڑے بڑے ممالک کی سرپرستی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’پیغمبر (ص) اور امام علی (ع) نے حکومت تشکیل دی ہے، انکے منتخب گورنر ہوا کرتے تھے، ان کے پاس افواج کا نظام ہوتا تھا۔
تمام فرامین امام خمینی سے متعلق کتاب صحیفہ نور سے اقتباس ہیں۔‘‘
انفرادی مسائل ہوں یا اجتماعی، لوگوں کی فلاح و بہبود کے امور ہوں یا دشمن سے نبرد ، جنگ ہو یا صلح، فتنوں سے مقابلہ ہو یا اسلام کا دفاع، احکام دین کا بیان ہو یا تعلیم و تربیت ان تمام امور کی سرپرستی اسلام نے کی ہے اور یہی ہماری اسلامی تاریخ ہے۔
اور اگر ہم آج اپنے زمانے کو دیکھیں تو یہ مسائل ماضی سے زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں، ماضی کے مقابلے میں اسلام کا دشمن آج زیادہ طاقتور ہوچکا ہے، خالص اور ناب اسلام معاشرے سے تو کیا مسجد اور مدرسوں سے بھی گُم ہو چکا ہے، فتنوں میں کئی گُنا بڑھ کر شدت آئی ہے، ہر روز اسلامی سرحدوں پر کمر توڑ حملے ہو رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر مظلوموں کا قتل عام ہو رہا ہے، اسلام کی خوفناک تصویر پیش کی جارہی ہے۔
لہذا آج ہمیں خالص اسلام کی، ماضی سے زیادہ ضرورت ہے اور اسلام کا دامن تھامنے کے سواء ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ البتہ خالص اسلام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ آج جس اسلام پر ہم عمل پیرا ہیں یہ وہی اسلام ناب محمدی ہے یا بنی امیہ یا بنی عباس کا پھیلایا ہوا اسلام ہے۔ یا امام خمینی کی تعبیر کے مطابق اسلام امریکائی ہے۔
دین و سیاست کی جدائی کا آغاز کہاں سے ہوا
اگر ہم قبول کرتے ہیں کہ کسی بھی دور میں دین اسلام، سیاست اور معاشرے کے کسی چھوٹے بڑے مسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتا تو ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کی تاریخ یہ رہی ہے پھر ہمارا آج کیسے مختلف ہوگیا ؟ آخر مسلمان پر کونسی آفت آئی جس کے نتیجے میں وہ سکیولرزم کو قبول بھی کرتا ہےبلکہ اسکا داعی بھی بنا ہوا ہے ؟ یا دوسرے الفاظ میں اسلام کے لبادے میں سیکولرزم کا آغاز کہاں سے ہوا ؟
کس نے امت مسلمہ کے ٹریک کو اس مھارت سے بدل دیا ؟ اور مسلمانوں سے اتنی بڑی خیانت کی اور اسلام کی اس عظیم طاقت کو اسلام سے چھین لیا۔
اس طرز تفکر کا آغاز کب ہوا یہ ایک علمی موضوع ہے جس پر تاریخ دانوں کی مختلف آرائیں ہیں۔ ممکن ہے لفظی اعتبار سے سکیولرزم چند صدیوں سے زیادہ پرانہ لفظ نہ ہو۔
لیکن ایک بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بنو امیہ کے دور حکومت میں یہ سوچ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھی اور کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ اسکے بانیوں میں سے ہے۔
عرض ہوا کہ رسول خدا ص اور امام علی ؑ کے دور خلافت میں دین و سیاست میں کسی قسم کی جدائی نہ تھی۔ امام علی ؑ کی شھادت کے بعد معاویہ نے مکاری اور طاقت کے بلبوطے پر خلافت حاصل کی۔
خلیفہ بننے کے بعد اپنے قدم مضبوط کرنے کے لئے اور بغاوت سے بچنے کے لئے غلط افکار لوگوں میں عام کروائے، جس کے لئےمعاویہ نے کرائے کے خطیبوں اور راویوں کا سہارا لیا جنہوں نے مسجدوں اور مقدس منبروں سے غلط نظریات اور عقیدوں کو لوگوں میں عام کیا۔ مثلاً یہ عقیدہ عام کروایا کہ اسلام کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، جو کچھ انجام پاتا ہے خدا کی مرضی سے ہے لہذا اگر معاویہ خلیفہ ہے تو یہ بھی خدا کی مرضی سے ہے۔ اور خلیفہ جیسا بھی ہو اللہ کی طرف سے نعمت ہے۔ اسی طرح امام علی ع پر سب و شتم کروایا، تاکہ شامیوں کو دھوکہ دے سکے کے خلافت کے حقدار امام علی ع نہیں ہو سکتے۔
معاویہ نے کس طرح اسلام اور سیاست میں جدائی ڈالی اس کا ایک نمونہ یہ ہے۔
جب اپنے قدم جما لئے اور امام حسن ع سے مکاری کے ساتھ صلح میں کامیاب ہو گیا تو کوفہ آیا اور منبر پر جاکر کہنے لگا۔
Quote
اے کوفہ والوں میں نے نماز، زکات اور حج کے لئے تم سے جنگ نہیں کی، کیونکہ جانتا ہوں کے تم لوگ نماز پڑھتے ہو زکات دیتے ہو اور حج کے لئے جاتے ہو، میں نے تم سے جنگ کی تاکہ تم پر حکومت کرسکوں۔ وہ تمام شرائط جس پر میں نے حسن ابن علی ع سے صلح کی تھی میرے ان دو پائوں کے نیچے ہے اور میں ان شرائط کو پورا نہیں کروں گا۔
شرح نھج البلاغھ ابن ابی الحدید ج ۱۶ ص ۱۵
البدایھ و النھایھ ابن کثیر ج ۸ ص ۱۳۱
طرح مسالھ جدا بودن سياست از روحانيت، چيز تازھاى نيست. اين مسالھ در زمان بنى اميھ طرح شد و در زمان بنى عباس قوت گرفت. در اين زمانھاى اخير ھم كھ دستھاى بيگانھ در ممالك باز شد، آنھا ھم بھ اين مسالھ دامن زدند بھ طورى كھ مع الاسف بعضى از اشخاص متدين و روحانيون متعھد ھم باورشان آمدھ است كھ مثلاً اگر يك ملايى در مسائل سياسى وارد بشود، بھ او ضربھ مىخورد. اين يكى از نقشھھاى بزرگ استعمار است كھ بعضى باور كردند.
امام خمینی : صحيفہ نور ج 16 صفحھ 249
یہ مسئلہ(علماء کا سیاست سے غیرجانبدار رہنا) آج کا نہیں، یہ مسئلہ بنی امیہ کے زمانے میں ایجاد ہوا اور پھر بنی عباس کے دور میں اس میں شدت آئی اور آج کے دور میں بھی بیگانوں کے ہاتھوں سے اس میں وسعت ایجاد ہوئی۔ اُنھوں نے اس مسئلہ کو اس طرح ہوا دی کہ علماء اور متدین افراد نے بھی اس پر یقین کرلیا، اب اگر ایک عالم سیاسی مسائل میں وارد ہو تو اسے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ استعماری دشمن کا ایک بڑا منصوبہ تھا جس پر بعض لوگوں نے یقین کرلیا۔ (امام خمینی)۔
دین و سیاست کی جدائی دراصل بنو امیہ کا دیا ہوا تحفہ ہے، جنھوں نے اقتدار کی حوس میں اسلامی تعلیمات میں تحریف کیں ۔
ہمارے لئے انتھائی غور و فکر کا مقام ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم زبان سے اموی خلافاء سے اظہار برائت کریں اور ہمارے اعمال اور افکار ان کی تعلیمات سے ملتے جلتے دیکھائی دیں۔
ایک چیز فطری ہے کہ جب بھی ہمارے سامنے کوئی نظریہ رکھا جائے جس کی طرف تھوڑی بہت رغبت ہو، ہمارا ذہن فوراً مصادیق کی تلاش شروع کردیتا ہے مثلاً یہی نظریہ کہ اسلام اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں لہذا اب ہمارا ذہن اپنے زمانے میں اس نظریہ کی حامل جماعتوں، تحریکوں یا پرچموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ جہاں اکثر سادہ لوح افراد دھوکہ کھاتے ہیں، شیطان اور خناس عموماً انہی جگھوں پر اپنا جال بچھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ سب کو چاہیئے ہمارے پرچم کے نیچے جمع ہوں ہم ہی حق پر ہیں۔ ہر ایک دعویدار ہوتا ہےکہ ہم ہی اہل ولایت ہیں۔ حتی امام خمینی کا نام بھی بارہا ایسی جگہ اور ایسے مقصد کے لئے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جس کا امام خمینی کی افکار اور انکی راہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس مرحلے پر بہت ہوشیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ افکار کی درست شناخت ہو جائے تاکہ اس بازار سے صحیح جنس کو پہچاننے میں آسانی ہو۔
دیدگاهتان را بنویسید