امام علی(ع)اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل
اس حقیقت سے انکار نھیں کیا جا سکتا ھے کہ ان مسلمانوں کا درخشاں دور ختم ھوگیا۔ کل یورپ کے گھٹتے ھوئے ماحول میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرنے والے آج اپنے گھروں سے تاریکی کو دور کرنے کے لئے دیئے کے محتاج ھیں۔
کل جنھوں نے اپنے کرشماتی ذھنوں کو بروئے کار لاکر مغربی ممالک کو نور کی لھروں سے نھلا دیا تھا۔ آج وھی اپنے سماج کی تاریکیوں کو ختم کرنے کے لئے انھیں ممالک کے محتاج ھیں۔
ایک زمانہ تھا جب اھل یورپ جھل و ظلمت بھرے معاشروں میں حیران و سرگرداں تھے اور مسلمانوں کو لالچ بھری نظروں سے دیکھتے تھے، وہ مسلمانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے جو ان کی درسگاھوں کی زینت بنتی لیکن آج مسلم معاشرے کی ثقافتی و تعلیمی پسماندگی، اخلاقی بدحالی اور معاشی استحصال کو فراموش نھیں کیا جاسکتا اور نہ ھی اغیار کی طرف سے سیاسی اور فوجی یلغار کو نظر انداز کیا جاسکتا ھے۔ بقول علاّمہ اقبال
دیروز مسلم از شرف علم سر بلند
امروز پشت مسلم و اسلامیاں خم است
اب سوال یہ ھے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ھوا؟ اس کا علاج کیوں کر ممکن ھے؟
اس لئے کہ جو ھوا سو ھوا، اس کی وجہ ھماری غفلت رھی ھو یا اسلام سے دوری رھی ھو یا آپسی اختلافات لیکن اب اس کا علاج کیا ھے؟ آج کل کے دور میں جو حالات ھیں وہ بھت ھی سنگین صورت حال اختیار کر چکے ھیں۔ آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای آج کل کے حالات کا تقابل حضرت علی (ع) کی حکومت سے کرتے ھوئے فرماتے ھیں: آج کے دور کے حالات وھی ھیں جو حضرت علی (ع) کے دور میں موجود تھے ھم موجودہ دور میں آپ کی نظر سے دنیا کی حقیقت اور سماج کی واقعیت کو دیکھتے ھوئے بے شمار مسائل کا حل کر سکتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ میں سمجھتا ھوں اس زمانے میں ھم ھر وقت سے زیادہ نھج البلاغہ کے محتاج ھیں۔ (1)
حضرت آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی اس فرمائش کو مدنظر رکھتے ھوئے کوشش کی گئی ھے کہ مسلمانوں کو درپیش بنیادی مسائل کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے اور پھر نھج البلاغہ اور سیرت امیر الموٴمنین (ع) کی روشنی میں ان مسائل کا قابل قبول حل پیش کیا جاسکے جو آج کے مسلمانوں کو درپیش ھیں۔
مسلمانوں کے موجودہ مسائل
(1) تعلیمی پس ماندگی اور جھالت
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ھے کہ قوموں کے عروج و زوال میں جو چیز کلیدی حیثیت کی حامل ھے وہ ان کی تعلیم ھے۔ اور ھمارا مشاھدہ یہ بتاتا ھے کہ جس قوم نے تعلیمی میدان میں قدم آگے بڑھائے ھیں اس نے اپنی تعلیم کی روشنی میں ترقی کی منزلوں کو بھی یکے بعد دیگرے طے کیا ھے اور جو قوم جھالت کا شکار رھی ھے وہ ھمیشہ ماندہ رھی ھے، تعلیم کی کس قدر اھمیت ھے؟ اور تعلیم قوموں کے لئے کون سا سرمایہ حیات ھے؟ اس کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں اس لئے کہ خود قرآن مجید کی بے شمار آیات اس کے والا مقام کا پتہ دے رھی ھیں، تعلیم کی اھمیت اور اس کی افادیت کو جس قدر مکتب اسلام نے بیان کیا ھے شاید ھی کوئی ایسا دین ھو جس نے تعلیم کے سلسلے میں اس قدر تاکید کی ھو(2) لیکن افسوس جس قدر تعلیم کی تاکید اسلام کے اندر ھے اسی قدر مسلمان تعلیم سے بیگانہ ھیں۔
(2)فقر و ناداری
تعلیمی پسماندگی اور جھالت کے علاوہ دوسرا مسلمانوں کا سب سے اھم مسئلہ فقر و ناداری ھے۔ یہ ایک ایسا مرض ھے جو دھیرے دھیرے پورے مسلم معاشرہ کے بدن میں سرایت کر رھا ھے اور اگر جلد اس کا علاج نھیں کیا گیا تو اس کے نتائج بھت ھی زیادہ سنگین ھونگے اس لئے کہ علم اقتصاد کے ماھرین کا خیال ھے کہ جس معاشرہ کی اکثریت ھو وہ معاشرہ کبھی ترقی نھیں کرسکتا۔ (3)
(3) اختلاف و افتراق
کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ھوسکتا ھے کہ ایک طرف تو وہ جھالت اور غربت و افلاس سے جوجہ رھی ھو اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ھو، وہ چیز جس نے آج مسلمانوں کو بالکل بے بس بنا دیا ھے وہ آپس کا اختلاف ھے، سچ ھے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ھے: ”اگر تمھارے اندر اختلاف رھا تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ھوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رھو گے۔“ (4) مگر آج ھمارا حال یہ ھے کہ ھم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ھوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ھے کہ ھمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رھا ھے اور ھمیں دکھا دکھا کر کھا رھا ھے اور ھم فقر و ناداری میں میں تڑپ رھے ھیں اور یہ نھیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ھورھا ھے۔ بقول سید جمال الدین اسدآبادی: ”اسلامی ممالک کو جو مرض لاحق ھے اس کی تشخیص کے لئے میں نے بھت فکر کی اور بھت سوچا آخر انجام میں نے پایا کہ مھلک ترین مرض تفرقہ ھے لیکن گویا مسلمانوں نے تنھا اس سلسلہ میں اتحاد کیا ھے کہ متحد نہ ھوں۔“( 5)
امام خمینیۺ اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں: ”تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ھے چاھے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ھو۔ “(6)
(4)قرآنی تعلیمات سے دوری
قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ھی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ انھیںخود بھی نھیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ھے چنانچہ امام خمینیۺ مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ھے۔“ (7)
(5) بدعتوں کا رواج
مسلم معاشرہ آج جن انگنت مسائل سے دوچار ھے ان میں ایک اھم مسئلہ یہ ھے کہ بدعتوں کو ھم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ھے گویا ھمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ھی نھیں ھوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو، جو ھمارے لئے مشعل راہ ھو بلکہ جو کچھ ھے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ھیں جنھیں ھمارا تقلیدی ذھن ھمیں انجام دینے پر اکساتا ھے اور ھم دین سے بے خبر بنا ساچے سمجھے انھیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رھے ھیں چنانچہ شھید مطھری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرھٴ پیمبر (ص) میں تحریف ھے۔ “)8(
لیکن ھمارا حال یہ ھے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ھوتا ھے جو ھمیں اچھا لگتا ھو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ھیں حتیٰ دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نھیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رھتے ھیں کہ یہ چیز تو پھلے سے ھی اسلام میں موجود تھی کوئی نئی چیز نھیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ھے۔) 9(
ان تمام مسائل کو دیکھنے کے بعد ھر احساس رکھنے والا انسان جو ایسے سماج اور معاشرہ سے تعلق رکھتا ھے کہ جس کے اندر لاتعداد ایسے مسائل ھیں جو سماج کو آگے بڑھنے سے روک رھے ھیں لیکن ان کا کوئی حل کھیں نظر نھیں آرھا، حیران و سرگرداں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ھے کہ کل کیا ھوگا؟ اور ھمارا یہ معاشرہ اور سماج یوں افسردہ و ساکت ھے جیسے فرشتھٴ موت کے گھرے گھرے سانسوں نے اسے کھر آلود بنا دیا ھو، کسی جنگ کے دیوتا نے بڑہ کر اپنی خونخوار انگلیوں سے اس کی نبض تھام لی ھو، دور دور تک سناٹا چھایا ھوا ھے! ظلمت و تاریکی کے امنڈتے ھوئے بادل ماحول کو خوفناک بنانے پر تلے ھیں ساتھ ھی ظلم و استبداد کی آندھیاں گو کہ ھر شیٴ کو متلاشی کر دینے کے در پئے ھیں ایسے میں کھیں کوئی ٹمٹماتا دیا بھی تو نھیں جس کی روشنی میں اپنی منزل کا پتہ لگایا جاسکے لیکن اسی تاریکی و ظلمت کے مھیب سناٹے میں ایک آواز ھے جو بار بار ھمیں اپنی طرف متوجہ کررھی ھے گوکہ کوئی چراغ تاریخ اور زمانے کے دبیز پردوں کے پیچھے سے ھماری حالت دیکھ رھا ھو اور اپنے نور سے ھمیں ھدایت کا راستہ دکھانا چاھتا ھو۔۔۔۔“ میں تمھارے درمیان اس چراغ کی مانند ھوں کہ تاریکی میں بھی اگر کوئی اس سے قریب ھوتا ھے تو اس کے نور سے استفادہ کرتا ھے اے لوگو! میری باتوں کو سنو اور یاد رکھو اور دل کے کانوں کو کھول کر سامنے لاوٴ تاکہ سمجہ سکو۔ )10(“ یہ آواز کسی اور کی نھیں بلکہ اس چراغ ھدایت کی ھے کہ ظلمتوں نے مل کر جس کا گلا گھوٹنا چاھا لیکن ناکام رھیں لیکن افسوس کا مقام اس وقت ھوگا جب اس چراغ ھدایت سے ھم کچھ حاصل نہ کرسکیں تو آئیے چلتے ھیں در باب العلم پر اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے ھیں۔
ھمارے مسائل کا حل
1۔ تحصیل علم
یھی وہ راہ ھے جس پر عمل پیرا ھوکر ھم اپنی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرسکتے ھیںاور معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتے ھیں حضرت علی(ع) فرماتے ھیں:
العلم اصل کل خیر )11( علم ھر اچھائی کی بنیاد ھے
اکتسبوا العلم یکسبکم الحیات )12( تم علم حاصل کرو علم تمھیں زندگی عطا کرے گا
ایها الناس اعلموا انّ کمال الدین طلب العلم و العمل به )13( اے لوگو! جان لو کہ دین کا کمال یہ ھے کہ علم حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے
الحکمة ضالة الموٴمن فخذ الحکمة و لو من اهل النفاق )14( حکمت مومن کی گمشدہ چیز ھے پس حکمت کو لے لو چاھے اھل نفاق سے ھی کیوں نہ ھو۔
اور خود حضرت علی (ع) کی سیرت یہ رھی ھے کہ آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی۔ بقول ابن ابی الحدید: ”علوم کے سارے سرچشمہ آپ ھی کی ذات پر منتھی ھوتے ھیں۔“ )15( آپ تعلیم و تعلم کے اس قدر شیدا تھے کہ تاریخی کتب میں ملتا ھے کہ میدان جنگ میں بھی اگر کوئی سپاھی آپ سے کوئی سوال کرتا تو آپ اسے فوراً جواب دیتے اور اس کے فکری شبھات کا ازالہ کرتے)16( حتی اگر ایک ھی سوال آپ سے کئی بار بھی ھوتا تو بھی آپ جواب دینے میں کوئی تامل نھیں کرتے اور جس حالت میں ھوتے اسی حالت میں جواب دیتے چنانچہ جنگ جمل میں ایک سپاھی نے آپ سے خدا کی وحدانیت کے بارے میں سوال کیا تو لشکریوں نے اسے ٹوکا اور کھا یہ کون سی سوال کرنے کی جگہ ھے؟ تو امام نے جواب دیا: ”دعوه فانّ الّذی یریده الا عرابی هو الّذی نریده من القوم“)17(
”سلونی سلونی قبل ان تفقدونی“ یہ وہ جملہ ھے جسے تاریخ کبھی بھلا نھیں پائے گی، آپ کی نظر میں تعلیم کس قدر اھمیت ھے اس کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ھے۔
(الف) اے لوگو! ایک حق میرا تمھارے اوپر ھے اور ایک حق تمھارا میرے اوپر ھے۔ تمھارا حق جو میرے اوپر ھے وہ یہ کہ میں تمھیں نصیحت کروں اور تمھاری معیشت کو نظم بخشوں اور تمھیں تعلیم دوں تاکہ تم جاھل نہ رہ جاوٴ )19(ان روایات سے بخوبی اس بات کا اندازہ ھوجاتا ھے کہ علی کی زندگی میں تعلیم اولین درجہ کی اھمیت رکھتی ھے نیز یہ بات بھی ثابت ھو جاتی ھے کہ حاکم کا جس طرح اپنی رعیت پر حق ھوتا ھے اسی طرح رعیت کا حاکم پر بھی حق ھوتا ھے، جس میں ایک تعلیم ھے، علم کی اس قدر تاکید کی وجہ شاید یہ رھی ھو کہ ایک عالم انسان کا علم اسے افراط و تفریط کا شکار ھونے سے روکتا ھے کیونکہ افراط و تفریط دو ایسی آفات ھیں جو دین کو اس کی اصلی راہ سے ھٹاکر دین کی نابودی کا باعث بنتی ھیں اور افراط و تفریط وھیں ھوتی ھے جھاں جھل ھوتا ھے لاتری الجاهل الّا مفرطاً اٴو مفرّطا )20(
تعلیم کے لئے سب سے مفید وقت
نہ صرف یہ کہ مولائے کائنات (ع) نے تعلیم کی افادیت کے پیش نظر اپنے حکیمانہ اقوال سے بنی نوع بشر کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا ھے بلکہ بتایا ھے کہ تعلیم و تربیت کے لئے سب سے اچھا وقت کون سا ھوسکتا ھے چنانچہ آپ فرماتے ھیں: ”جوان کا دل ایک خالی زمین کی مانند ھے جو دانہ بھی اس میں ڈالیں وہ اسے قبول کر لیگا۔“ )21(
امام حسن مجتبیٰ (ع) سے خطاب کرتے ھوئے آپ فرماتے ھیں:” میں نے تمھاری تعلیم و تربیت میں جلدی کی اس سے قبل کہ تمھارا قلب سخت ھوجائے تمھاری عقل فکر کو دوسرے امور میں مشغول کردے۔۔“ )22( حضرت علی (ع) کے دھان مبارک سے نکلے ھوئے یہ کلمات ان تمام افراد کے لئے مشعل راہ ھیں جو اپنے بچوں کے لئے ایک خوشگوار مستقبل کا خواب دیکھ رھے ھیں اس سے قبل کہ ان کے بچوں کے دل سخت ھوجائیں دینی معارف اور تمام وہ باتیں جو ان کے مستقبل کے لئے مفید ثابت ھوسکتی ھیں انھیں تعلیم دے دینی چاھئیں۔
2۔ سالم اور بھتر معیشت کے لئے جد و جھد
آج ھمارے سماج اور معاشرے میں کچھ ایسے افراد بھی ھیں کہ جو معیشت کو بھتر بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کو دنیاداری سے تشبیہ دیتے ھیں اور ان کا خیال یہ ے کہ اس چند روزہ زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کا کیا مطلب ھے؟ جبکہ ھم جانتے ھیں کہ یہ دنیا فانی ھے تو جو کچھ بھی روکھی سوکھی ملے اسی پر گزر بسر کرلینا بھتر ھے اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ھیں کہ یھی زھد ھے جبکہ ان کے لئے بھترین ذریعھٴ معاش کا فراھم ھے اگر وہ چاھیں تو ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ھیں لیکن وہ اسے دنیاداری سے تعبیر کرتے ھوئے فرار اختیار کرتے ھیں ایسے لوگوں کے لئے امام (ع) ارشاد فرماتے ھیں لیس منا من ترک الدنیا لآخرة ۔(23) اور حقیقی زھد کی تعریف کرتے ھوئے فرماتے ھیں: الزھد بین کلمتین من القرآن قال الله سبحنه لکی لاتاٴسوا علی مافاتکم و لا تفرحوا بما آتاکم و من لم یائس علی الماضی و لم یفرح بالآتی فقد اخذ الزهد بطرفیه )24( بلکہ ان افراد کی طرف اشارہ کرتے ھوئے جنھوں نے دنیا کی نعمتوں سے بھی استفادہ کیا اور اپنی آخرت بھی سنوار لی آپ فرماتے ھیں: ان المتقین ذهبوا بعاجل الدنیا آجل الاجل الآخره۔۔ سکنوا الدنیا فافضل ماسکنت و اکلوها مااکلت فحظوا من الدنیا بما حظی به المعترفون (25)
جھاں کچھ ایسے متدین افراد ھیں کہ جو زھد کے معنی کی غلط تفسیر کرتے ھوئے دنیا کی نعمتوں کو خود پر حرام کرلیتے ھیں اور نتیجةً فقر و ناداری میں زندگی بسر کرتے ھیں وھیں کچھ ایسے بھی لوگ ھیں کہ جو اپنے لئے بڑے بڑے افعال و امور کا تصور ذھن میں لئے بیٹھے رہ جاتے ھیں اور معیشت کی طرف توجہ نھیں دے پاتے کیونکہ وہ چھوٹے موٹے کاموںکو اپنے لئے بے عزتی کا سبب سمجھتے ھیں نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ بڑے کام کی تلاش میں یوں ھی بیٹھے بیٹھے عمر گزر جاتی ھے اور کوئی بھی کام ھاتہ نھیں آتا ھے جب کہ یھی افراد اگر حضرت علی (ع) کی سیرت کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ھوگا کہ آپ معیشت کو بھتر سے بھتر بنانے کے لئے کیا کچھ نھیں کرتے تھے۔
جب ھم حضرت علی (ع) کی زندگی کا مطالعہ کرتے ھیں تو ھمیں ملتا ھے:
علی (ع) بیلچہ چلاتے اور زمین کی نعمتوں کو آشکار کرتے تھے (26)
درخت کاری و زراعت کرتے تھے اور کنوئیں کھودتے تھے (27)
کسی نے آپ کے ھاتھوں ایک من خرمے کی گھٹلیاں دیکھیں تو سوال کیا کہ اے امیر المومنین!(ع) ان کا کیا مصرف ھے؟ آپ نے جواب دیا خداوند متعال کے اذن سے ان گھٹلیوں سے خرمے کے درخت تیار کرونگا اور پھر آپ نے ان سے ایک نخلستان بنایا اور اسے راہ خدا میں وقف کردیا۔“(28)
ایک بوڑھا شخص فقیری کر رھا تھا آپ نے پوچھا کون ھے؟ جواب ملا نصرانی ھے آپ نے حکم دیا اسے بیت المال سے کچھ خرچ کے لئے دے دو (29)
آپ کی حکومت کے دوران عمومی رفاہ کا یہ حال تھا کہ کوفے میں رھنے والا غریب سے غریب شخص بھی گیھوں کی روٹی کھاتا اور اس کے سر پر چھت کا سایہ رھتا تھا (30)
فقر و ناداری کے بارے میں آپ کے اقوال یقیناً ھمارے معاشرے کے لئے رہ گشا ثابت ھوسکتے ھیں۔ کھیں آپ نے فقیری کو موت سے تعبیر کیا ھے تو کھیں فقیری کو اپنے وطن میں غربت قرار دیا ھے۔ آپ کی نظروں میں معیشت اس قدر اھمیت کی حامل ھے کہ جھاں آپ نے اپنی وصیت میں اور دوسری باتوں کی طرف اپنے فرزندوں کو متوجہ کیا ھے وھیں اس طرف بھی ان کو متوجہ کیا ھے کہ ان کی معیشت کبھی خراب نہ ھو۔(31)
فقیری سے کیسے بچا جائے؟
آپ فرماتے ھیں کہ جو شخص بھی میانہ روی اختیار کرتا ھے میں اس کی ضمانت لیتا ھوں کہ وہ کبھی فقیر نھیں ھوسکتا
آپ فقیری سے بچنے کا علاج بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں کہ اتجروا بارک الله لکم )32(
تجارت کرو کہ تجارت تمھیں لوگوں سے بے نیاز کردیگی حتیٰ ذریعھٴ معاش کی اقسام کو بیان کرتے ھوئے آپ ذریعھٴ معاش کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ھیں(33)
علی (ع) کی نگاہ میں فقر کے عوامل
کوئی بھی فقیر اپنے معاش سے محروم نھیں ھوتا مگر یہ کہ ایک غنی اس کے مال میں تصرف کرلیتا ھے (34)
جو شخص اپنے کام کی زحمت کو نھیں برداشت کرسکتا وہ فقیری کو تحمل کرنے کے لئے آمادہ ھوجائے (35)
اوقات کو تنظیم نہ کرنا اور کسی وقت جو دل میں آئے وہ کام کرنا )36(
سوء تدبیر فقر پیدا کرتی ھے (37)
علی (ع) کی نگاہ میں غربت کے اثرات
حقارت ! لوگ فقیر کو فقیر کی بناپر حقیر سمجھتے ھیں (38)
فقیر کو بھت چھوٹا سمجھا جاتا ھے اور اس کی بات ان سنی کردی جاتی ھے۔ (39)
فقیری ایک انسان کو استدلال کے وقت گنگ بنا دیتی ھے (40)
جھاں حضرت علی (ع) کی پوری زندگی فقر و ناداری کے خلاف جھاد میں گزری وھیں آج مسلم معاشرے کی اکثریت فقر و ناداری کا شکار ھے جس کی ایک وجہ خود ھماری سستی اور کام سے فرار ھوسکتی ھے جب کہ حضرت علی (ع) معیشت کو سدھارنے کے لئے طاقت فرسا کام انجام دینے سے گریز نھیں کرتے تھے اور آپ لوگوں کی معیشت کو سنوارنا خود پر لوگوں کا حق سمجھتے تھے (41)
اب یہ ھمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کا کام ھے کہ آئے اور بیٹھ کر اپنے معاشرے میں فقیری کی وجوھات تلاش کرے اور انھیں حل کرنے کی کوشش کرے اس لئے کہ جب تک یہ مشکل حل نھیں ھوجاتی معاشرہ مزید فقر و ناداری کے دلدل میں پھنسا جائے گا۔ ماھرین اقتصادیات کے بقول فقر، فقر پیدا کرتا ھے (42) لھٰذا اس کا ایک حل ھونا چاھئے جب کہ فقیری ضعف ایمان کا باعث بھی ھے (43) اس لئے کہ اگر اس کا حل خود قوم کے افراد نھیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ خدا نہ کرے علی (ع) کی آواز صدا بہ صحرا ھو کر رہ جائے جس میں انھوں نے فقراء کی دسترسی اور ان کی دیکھ بھال کے لئے فرمایا: الله الله فی الطبقة السفلیٰ من الذین لا حیلة لهم (44)
3۔ اتحاد و ھم دلی
امام خمینیۺ فرماتے ھیں: ”اگر مسلمان خداوند متعال کے اس فرمان کے مطابق کہ جس میں کھا گیا ھے و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لاتفرقوا پر عمل کرے تو ان کی تمام مشکلات حل ھو جاتیں اور کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نھیں کر سکتی تھی (45) اپنی تمام صفوف کے اندر یک جھتی پیدا کرکے اور آپسی رواداری کو فروغ دے کر بھی ھم آپس کے اختلافات کو ختم کر سکتے ھیں اس لئے کہ افتراق و اختلافات کسی بھی طرح ھمارے فائدے میں نھیں ھیں اور اگر ھم حضرت علی (ع) کی سیرت کا اس زاویہ سے جائزہ لیں کہ آپ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے تو ھمیں آپ کی زندگی سراپا جھاد نظر آئے گی۔ آخر ھم کب تک تشنھٴ اتحاد عروس زندگی کو آپسی اختلافات کے نتیجے میں بھنے والے لھو کی سرخی و غازہ لگاتے رھیں گے؟ کیا ھماری زندگی یوں ھی اختلافات میں گزر جائے گی؟ اگر ھم علی (ع) کے ماننے والے ھیں تو ھمارا تعلق چاھے جس مسلک سے ھو اگر ھم آپ کی زندگی سے کچھ حاصل کرنا چاھتے ھیں تو ھمیں دشمن کی نیرنگی چالوں سے بچنے کے لئے اپنے اندر اتحاد پیدا ھی کرنا ھوگا ورنہ ھم اسی طرح دنیا کو متحرک رکھنے کے لئے اپنا قیمتی سرمایا لٹاتے رھیں گے اور دشمن ھمیں گروھوں اور فرقوں میں بانٹتا رھے گا اور ھمارے درمیان اپنے تخت و تاج کی خاطر بغض و عناد کی اونچی دیواریں چنتا رھے گا اور ھمیں اس قدر بے بس کردے گا کہ ھم اسی میں محصور ھوکر رہ جائیں اس لئے کہ اتحاد وہ طاقت ھے جس کے ذریعہ ھم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی ھر دھمکی کا جواب دے سکتے ھیں چنانچہ حضرت علی (ع) فرماتے ھیں: ”دیکھو وہ آپ میں متحد تھے تو ان کی حالت کتنی بھتر تھی مضبوط ارادے تھے آیا اس وقت وہ دنیا پر حاکم نھیں تھے؟“ (46)
گذشتہ امتوں کی عزت و شوکت کا راز بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: تم پر لازم ھے کہ تفرقہ و اختلاف سے دوری اور ایک دوسرے کو اتحاد کی ترغیب اور ان تمام امور سے اجتناب جن سے قدرت ضعیف ھو جائے و۔۔۔ (47) حتیٰ ایک جگہ آپ فرماتے ھیں: جو تفرقہ اندازی کرے وہ قتل کا سزاوار ھے چاھے یہ تفرقہ اندازی مجہ سے ھی کیوں نہ سرزد ھو 48 خود اپنی عملی زندگی میں اتحاد کی خاطر جو فداکاریں انجام دیں وہ کسی بھی صاحب بصیرت کے لئے پوشیدہ نھیں۔ آپ کا 52سال تلخ سکوت خود پکار پکار کر آواز دے رھا ھے کہ میری خاموشی کا راز اتحاد ھے۔ چنانچہ جب ابوسفیان نے آپ سے کھا کہ علی (ع) اپنے حق کے لئے کھڑے ھو کر کھو تو میں مدینہ کی گلیوں کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے تمھاری مدد کی کوئی ضرورت نھیں ھے)49( حضرت علی(ع) کی سیرت اور آپ کے اقوال کی روشنی میں یہ تو واضح ھوگیا کہ اتحاد کس قدر اھمیت کا حالم ھے اور یہ بھی معلوم ھوا کہ آپ نے اتحاد کے لئے کس قدر قربانیاں دیں ھیں اب یہ ھمارے اوپر موقوف ھے کہ ھم علی (ع) کی قربانیوں کو کس قدر محترم رکھتے ھیں؟ اگر ھمیں علی (ع) کی قربانیوں کا کچھ پاس و لحاظ ھے تو آج ھمیں ایک پرچم تلے جمع ھوکر علی (ع) سے وفاداری کا اعلان کرنا چاھئے اور اس کے لئے ضروری ھے کہ ھمارے پاس ایک مرکزیت ھو، امام(ع) فرماتے ھیں: ”امت میں حاکم کا مقام دھاگے کی طرح ھے جو سارے دانوں کو پروئے ھوئے اور متحد کئے ھوئے ھے لیکن جب یہ رشتھٴ اتحاد ٹوٹ جاتا ھے تو سارے دانے بکھر جاتے ھیں اور پھر کسی صورت جمع نھیں ھوسکتے۔“ (50) حضرت علی (ع) کے اس حکیمانہ قول سے یہ واضح ھوتا ھے کہ معاشرہ و سماج ایک سرپرست و رھبر کا محتاج ھے جو لوگوں کو نظریاتی و طبقاتی اختلاف اور تفرقہ و جدائی کے عوامل سے نجات دلاکر ایک مرکز پر جمع کرسکے اور افتراق و اختلاف کے شگافوں کو پر کرکے طبقاتی دیواروں کو تدبیر کے تیشوں سے ڈھاکر توحید کے پرتو میں اتحاد کا پرچم لھرا سکے۔ راہ حل مل گیا لیکن اب ھمیں یہ سوچنا چاھئے کہ ایسا شخص کون ھوسکتا ھے؟
4۔ قرآنی تعلیمات پر عمل
آج جس قرآن کو ھم نے غلافوں میں بند کرکے الماریوں اور طاقوں کی زینت بنا دیا ھے اس کے بارے میں ھمارے دشمن کا خیال یہ ھے: ”ھمارے اوپر واجب ھے کہ ھم اسلام کے مھلک ترین اسلحے، قرآن کی خدمات حاصل کرسکیں تاکہ اسلام کو مٹایا جاسکے۔“ (51) گلادسٹرون برطانیہ کا یھودی النسل سابق وزیر اعظم پالمینٹ میں یہ جملے کھتا نظر آتا ھے: اسلامی دنیا پر تسلط کے لئے ضروری ھے کہ ھم دو چیزوں کو نابود کریں 1۔ قرآن 2۔ کعبہ ۔“ (52) وہ کتاب جس کے لئے خداوند متعال فرما رھا ھے (53) آج دشمن اسی کتاب کو اسلام کو مٹانے کے لئے استعمال کررھا ھے اور ھم اسلام بچانے کے لئے اس کتاب کا صحیح استعمال نھیں کرپا رھے ھیں جب کہ اگر ھم اس کا صحیح استعمال کریں تو ھمارے معاشرے سے برائیاں خود بخود ختم ھوجائیں گی اس لئے کہ قرآن ھر درد کی دوا ھے۔ امام (ع) فرماتے ھیں: قرآن سے اپنی بیماریوں کے لئے شفا طلب کرو اور اس کی مدد سے اپنی مشکلات حل کرو اس لئے کہ قرآن بڑے بڑے دردوں کی دوا ھے قرآن درد کفر و ضلالت اور درد گمراھی کی دوا ھے (54) دوسری جگہ فرماتے ھیں: ( 55)
5۔ بدعتوں سے مقابلہ
آپ نے اس وقت بدعتوں سے مقابلہ کے لئے کمر ھمت باندگی جب عالم یہ تھا کہ دین اشرار کے ھاتھوں میں کٹھپتلی بنا ھوا تھا (56) آپ بدعت کے بارے میں فرماتے ھیں: کوئی بھی بدعت پیدا نھیں ھوتی مگر یہ کہ ایک سنت ترک کرنے کا باعث ھوتی ھے(57) حسن بصری کو حضرت علی (ع) نے بدعتوں کے رواج ھی کی بنیاد پر مسجد سے خارج کیا تھا اور اسی بنیاد پر آپ نے اسے اپنی امت کا سامری اور شیطان کا بھائی کھا تھا۔ (58)
بدعتوں کو کیسے ختم کیاجائے؟
امر بالمعروف و نھی از منکر اسلام کا ایسا حکم ھے جس پر اگر صحیح صورت میں عمل ھو تو ھمارے سماج سے بدعتوں کا رواج ختم ھوسکتا ھے اس لئے کہ یہ وہ فریضہ ھے جس کے بارے میں مولا فرماتے ھیں کہ امر بالمعروف و نھی از منکر کو ترک نہ کرو! اس لئے کہ یہ فریضہ اگر ترک ھوگیا تو اشرار تمھارے اوپر مسلط ھوجائیں گے اور پھر تمھاری دعائیں قبول نہ ھوں گی 49 ایک اور جگہ فرماتے ھیں کہ خداوند متعال نے گذشتہ قوم پر اس لئے ملامت کی کہ انھوں نے امر بالمعروف و نھی از منکر کو ترک کردیا تھا۔
یہ چند وہ بنیادہ مسائل تھے جن کا حل سیرت امیر المومنین (ع) اور ان کے اقوال کی روشنی میں پیش کیا گیا لیکن اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے مسائل اس سے کھیں زیادہ ھیں جنھیں بیان کیا جاسکے لیکن اگر مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل وجہ ڈھونڈی جائے تو شاید جستجو اور تحقیق کے بعد یھی وجہ کھل کر سامنے آئے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل وجہ مکتب اھل بیت علیھم السلام سے دوری ھے اسی لئے کسی اور کے پاس جانے کے بجائے ھم اپنے تمام مسائل کا حل اس ذات کی زندگی کے اندر تلاش کریں جس کی نمونہ عمل زندگی کی ھر سانس زندگی بخش ھے اور جس کا کلار رھتی دنیا تک بنی نوع بشر کے زخموں کے لئے مرھم بنتا رھے گا۔
اب تک جن مسائل کا تذکرہ کیا گیا وہ ایسے بنیادی مسائل تھے جن کا تدارک سیرت امیر المومنین (ع) کی روشنی میں خود باآسانی کیا جاسکتا ھے لیکن چند ایسے مسائل بھی ھیں جن کے تدارک کے لئے ضروری ھے کہ ھم اپنی صفوں کو آمادہ کریں ان ظالم حکام سے جھاد کے لئے جو اسلامی معاشروں کی زبوں حالی کے اصل ذمہ دار ھیں اگر ان کے سیاہ کرتوت نہ ھوتے تو شاید ھمارے مسائل اتنے زیادہ نہ ھوتے کچھ ایسے افراد کے بارے میںمولائے کائنات فرماتے ھیں:” ۔۔۔۔ لیکن مجھے افسوس ھے اس بات کا کہ اپنی املاک اور اس کے بندوں کو اپنا غلام بنالیں گے خدا کے صالح بندوں سے برسر پیکار رھیں گے اور بدکرداروں کے ساتھ اپنا گروہ تشکیل دیں گے“ (59)
مولا کے ان حکیمانہ کلمات سے واضح ھوتا ھے کہ خیانت کار حاکموں کی دو خصلتیں ھونگی، جھالت و سفاھت، فسق و فجور اور یہ افراد قوم کو تاراج کرنے کے بعد بیت المال کو اپنا مال سمجھیں گے اور بساط عیش طرب بچھا کر اپنے آقاوٴں کے حضور سجدہ ریز دنیا کی تباہ کاریوں کے ترانہ گائیں گے اور خدا کے ناتواں بندے ان کے غلام ھوں گے اب ھمیں سوچنا چاھئے کہ ایسے افراد کیوں کر مسند حکومت پر پھونچے؟ ! اور ھم ان کے خلاف کیا کرسکتے ھیں اس لئے کہ اگر ھم نے ایسے ظالموں کو خلاف کوئی ردّ عمل نھیں کیا تو اس کے کیا نتائج ھو سکتے ھیں کھیں ایسا نہ ھو کہ ایک بار پھر مولا کی یہ تعبیر عملی ھوجائے جس کے لئے آپ نے فرمایا:” اس زمانے کے لوگ بھیڑیے ھوجائیں گے اور بادشاہ و حکام درندے، متوطہ طبقہ شکم پرور ھوگا اور غریب و پست طبقہ کے افراد مردہ ھونگے، صداقت ناپید ھوجائے گی اور جھوٹ کا بول بالا ھوگا۔۔۔ اور لوگوں کے قلوب ایک دوسرے سے کشیدہ ھونگے۔“ (60)
راہ حل
جب ماحول اس قدر سنگین صورت حال اختیار کر جائے گا تو اس کا حل کیا ھوگا؟ امام (ع) راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:” دیکھو! ایسے بے غیرتوں کی اطاعت سے گریز کرو کہ اپنے صاف پانی کے ساتھ تم نے جن کا گندا پانی پیا اور ان کی خرابیوں کو اپنی اچھائیوں میں ملا دیا اور ان کے باطل کو اپنے حق کے ھمراہ شامل کرلیا یہ فسق و فجور کی بنادیں اور ان کا منبع ھیں اور عصیان و نافرمانی کے دلدادہ ھیں۔ ابلیس نے انھیں اپنی سواری اور گمراھی کا جانور بنا لیا ھے اور ان سے فوج درست کرلی ھے جن کے ذریعہ وہ لوگوں پر حملے کرتا ھے، ان کی زبانوں سے حملے کرتا ھے تاکہ تمھاری عقل اور تمھارے افکار تم سے چھین لے اور تمھاری آنکھوں میں اتر جائے اور تمھارے کانوں میں وسوسے پھونک دے اور اس کے بعد اپنے زھر آنگیں تیروں سے تمھیں نشانہ بنائے تمھارے سروں پر اپنے قدم رکھے اور آخر کار تمھیں اپنا آلہ کار بنالے۔“ (61)
طغیان پیشہ حاکموں کی ناھنجاریوں کے اثرات بیان کرتے ھوئے آپ فرماتے ھیں کہ یہ لوگ کس طرح انسانیت کو نابود کرسکتے ھیں لھذا آپ فرماتے ھیں کہ لوگوں کا فریضہ ھے کہ ذلت و خواری اختیار نہ کریں اور ایسے افراد کے آگے سرتسلیم خم نہ کریں بلکہ ایسے غاصبوں کے حلق میں اپنا ھاتہ ڈال کر اپنا حق نکال لیں۔ یھی اس مسئلہ کا حل ھے۔
نتیجہ
حضرت علی (ع) کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ھے جس میں ھم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ھیں لیکن صرف تلاش کرنا ھی کافی نھیں ھوگا جب تک ھم انھیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ھے اب اگر ھم متوجہ ھوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں تو پھر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ھم خود ھونگے۔ کھیں ایسا نہ ھو کہ ھم بھی انھیں افراد کی طرح ھوجائیں جن کے بارے میں مولا نے فرمایا:” جب میں نے تمھیں تمھارے بھائیوں کو دعوت کے لئے بلایا تو تم زخم خوردہ شتر کی طرح نالہ و شیون کرنے لگے اور مجروح اونٹ کی طرح حرکت سے باز آئے اور زمین سے چپک کر بیٹھ گئے اور پھر چند متزلزل و ناتواں افراد کہ گویا جنھیں موت کے منہ میں ڈھکیل دیا گیا ھو اس طرح انھوں نے حرکت کی (اور یہ بھی کیا حرکت تھی) کہ انھوں نے محض دیکھنے پر اکتفا کیا۔۔۔!“ (62) اس سے پھلے کہ سب کچھ دیکھنے اور کف افسوس ملنے میں ختم ھوجائے، اٹھیں اور کمر ھمت باندہ کر اپنے مولا کی سیرت کو اپنا آئینہ بناکر تمام مسائل کو خود ھی حل کریں۔ اس لئے کہ انّ اللہ لا یغیر ما بقومٍ حتّی یغیّروا ما بانفسھم (63)
حوالے و حواشی
1 ۔ کنگرہ بین المللی نھج البلاغہ مباحث و مقالات آیة اللہ خامنہ ای صفحہ 52
2۔ ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون۔۔ زمر 9
3۔ نگاھی بہ فقر و فقر زدائی از دیدگاہ اسلام نقل از انتھونی کربلا سٹر ظھور و سقوط لیبرالیزم صفحھ 374
4۔ و اطیعوا الله و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحکم۔۔۔ انفال 46
5۔ یادنامہ سید جمال الدین، ج1 مقالہ دکتر عثمان امین، ص 239
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 43
7 ۔ شناخت کشورھای اسلامی، غلام رضا، ص36
8۔ آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29
9 ۔ اذا ظهرت البدعة فی امتی فلیظهر العالم علمه و الاّ فعلیه لعنة الله و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63
10۔ انما مثلی بینکم مثل السراج فی الظلمة یستضیئی به من ولجها فاسمعوا ایها الناس و عوا و احضروا آذان قلوبکم تفهموا۔ شرح نھج البلاغہ علامہ محمد تقی جعفری ج9، نھج البلاغہ ترجمہ و حواشی علامہ مفتی جعفر حسین ص 514
11۔ 12۔ 13۔ غرر الحکم، باب علم
14۔ کافی ج1، ص 35
15۔ ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغھ
16۔ امام علی (ع) و مباحث اعتقادی، محمد دشتی ص 32
17۔ وھی مدرک
18۔ سئل عن الخیر ما هو فقال علیه السلام لیس الخیر ان یکثر مالک و ولدک و لکنّ الخیر ان یکثر علمک۔ نهج البلاغة، حکمت 94
19۔ ایها الناس انّ لی علیکم حقا و لکم علیّ حق فامّا حقکم علیّ فالنصیحة لکم و توفیر فیئکم علیکم و تعلیمکم کی لا تجهلوا و تاٴدیبکم کیما تعلموا۔ نهج البلاغة، خطبة 34
20۔ نھج البلاغھ، حکمت70
21۔ و انّما قلب الحدیث کالارض الخالیة ماالقی فیها من شیٴ قبلته۔ اما م علی(ع) و امور معنوی و عبادی، محمد دشتی ص 28
22۔ فبادرتک بالادب قبل ان یقسو قلبک و یشتغل لبّک لتستقبل بجدّ راٴیک من الاٴمر (وهی مدرک)
23۔ من لا یحضرہ الفقیہ ج3، ص156
24۔ نھج البلاغہ فیض الاسلام، حکم
25۔ نھج البلاغہ فیض الاسلام، مکتوب 27
26۔ کان اٴمیر الموٴمنین یضرب بالمرّ و یستخرج الاٴرضین، فروع کافی ج5، ص74
27۔ فروع کافی، ج5، ص 75
28۔ وسائل الشیعھ، ج13، ص 203
29۔ مناقب، ج1، ص 321
30۔ استعملتموه حتیّ اذا کبر و عجز منعتموه اٴنفقوا علیہ من بیت المال، تجلی امامت نقل از المصدر، ص 206
31۔ مااصبح بالکوفة اٴحد الاّ ناعما اٴنّ اٴدنی ھم منزلة لیاٴکل البرّ و یجلس فی الظلّ و یشرب من ماء الفرات، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص 99
32۔ الفقر موت الاٴکبر۔ نھج البلاغھ، کلمھ 163
33۔ وسائل الشیعة، ج12، ص4 (انّ معایش الخلق خمسة الامارة، و التجارة، الاجارة، و الصدقات۔۔۔)
34۔ مامنع فقیر الاّ متّع بہ غنی علامہ محمد تقی جعفری شرح نھج البلاغھ، ج10، ص 26
35۔ الحیات، ج4، ص 319
36۔ الحیات، ج4، ص 33
37۔ الحیات، ج4، ص 32
38۔ 39۔ 40۔ الحیات، ج4، ص 286
41۔ علامہ تقی جعفری، شرح نھج البلاغھ، ج9، ص 25
42۔ نگاھی بہ فقر زدائی از دیدگاہ اسلام ص 34
43۔ الحیات، ج4، ص 309
44۔ نھج البلاغہ مکتوب 53
45۔ شناخت کشور ھائے اسلامی ص36
46۔ فانظروا کیف کانوا حیث کانت الاٴملاء مجتمعة و الاٴهواء موٴتلفة و القلوب معتدلة۔۔ اٴ لم یکونوا اٴربابا فی اقطار الاٴرضین و ملوکا علیٰ رقاب العلمین؟ نهج البلاغة خطبة 192
47۔ (۔۔۔ من الاجتناب الفرقة و اللزوم الاٴلفة و التخاض علیها و التواصی بها و الجتنبوا کلّ اٴمر کسر فقرتهم ۔۔۔) وھی مدرک
48۔ (۔۔۔ فاقتلوه و لو کان تحت عما متی ھذہ ۔۔۔) نهج البلاغة خطبة127
49۔ طبری ج2 ص449، خلافت و ملوکیت، ابو العلاء مودودی ص104
50۔ نھج البلاغہ خطبہ 146
51۔ التبشیر و الاستعمار فی البلاد العربیہ ص40
52۔ شناخت قرآن، سید علی کمالی ص18
53۔ ابراھیم 1
54۔ (۔۔۔ فاستشفوه من عدوائکم و استعینوا به علیٰ الآوئکم فانّ فیہ شفاء من اکبر الداء و هو الکفر و النفاق الغیّ و الضلال۔۔۔) نهج البلاغةخطبة174
55۔ نھج البلاغہ خطبہ 174
56۔ (۔۔۔ فانّ هذا الدین کان اسیرا فی اٴیدی الاشرار یعمل فیه بالهواء و تطلب به الدنیا۔۔۔) نهج البلاغة خطبة 122
57۔ (۔۔۔ و ما اٴحدثت بدعة الاّ ترک بها السنّة ۔۔۔) علامة تقی جعفری نهج البلاغة ج24، ص166
58۔ الکتّانی التراتیب الاداریة۔ ص272۔ نگرشی بہ تصوّف محمد باقر لائینی
59۔ (۔۔۔ و لکن آسی اٴن یلی اٴمر هذہ الاٴمة سفهاء ها و فجّارها فیتخذوا مال الله دولا و عباده خولا و الصالحین حربا و الفاسقین حزبا فانّ منهم الذی قد شرب فیکم الحرام۔۔۔) نهج البلاغة مکتوب62
60۔ (۔۔۔ و کان اٴھل ذٰلک الزمان ذئابا و سلاطین سباعا و اٴوساب اٴکلالا و فقراء امواتا۔۔۔) خطبھ108
61۔ (۔۔۔ و لاتطیعوا الاٴدعاء الذین شربتم یصفوکم کدرھم و خلطتم بصحتکم مرضهم و اٴدخلتم فی حقّکم باطلهم و هم اساس الفسوق و احلاس العقوق اتّخذهم ابلیس مطایا ضلال۔۔۔) خطبة192
62۔ (۔۔۔ فما یدرک بکم ثار و لایبلغ مران دعوتکم الیٰ نصر اٴخوانکم فجررتم جرجرة الجمل الاٴسرّ و تثاقلتم۔۔۔) علامہ تقی جعفری شرح نهج البلاغة ج9، ص210
63۔ قرآن مجید رعد
دیدگاهتان را بنویسید