تازہ ترین

اہل بیت علیہم السلام نہج البلاغۃ کی روشنی میں/تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

کائنات میں اس عصر میں تین ایسی کتابیں ہیں جن کی کوئی مثل نہیں اور جن کا کوئی دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان میں  سے ایک قرآن کریم دوسرا صحیفہ سجادیہ اور تیسرا نہج البلاغہ ہے جو مدینۃ العلم کے ان خطبات و مکتوبات اور حکمت کے گوہر پاروں پر مشتمل ہے جسے سید رضی نے فصاحت و بلاغت کے شہ پارے اور صراط مستقیم کے طور پر انتخاب کیا ہے۔

شئیر
21 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3859

اسی لئے ہر عصر اور ہر دور  کے نامور ادیب اور عالم کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ یہ مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہیں ۔کیوں نہ ہو چونکہ یہ ایک ہستی کا کلام ہے جس نے ببانگ دھل یہ اعلان کر دیا جو پوچھنا ہو پوچھ لو  علی ان سب کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔

اہل بیت پیغمبرعلیہم السلامسے مراد وہ لوگ ہیں جن کا تعارف آیت تطہیر اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث میں آیاہے اور جنہیں ہر قسم کی خطاوٴں اور جملہ گناہوں سے پاک قرار دیاگیاہے ۔

ہم یہاں حضرت علی علیہ السلام کے فرامین اور افکار سے آشنا ہوتے ہیں جو در علم نبی اور حق و باطل کی شناخت کا معیار ہے۔آپؑ اہل بیت علیہم السلام کے مقام و منزلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:{هم عیش العلم و موت الجهل.. …لا یخالفون الحق ولا یختلفون فیه هم دعائم الاسلام و ولائج الاعتصام ، بهم عاد الحق فی نصابه و انزح الباطل عن مقامه …….}۱ یہ لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں ۔یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ حق کے بارے میں کوئی اختلاف کرتے ہیں ۔یہ اسلام کے ستون اور حفاظت کے مراکز ہیں۔انہی کے ذریعے حق اپنے مرکز کی طرف واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔۔انہوں نے دین کو اس طرح پہچانا ہے جو سمجھ اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔یہ صرف سننے اور روایت کا نتیجہ نہیں ہے اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اور اس کا خیال رکھنے والے بہت کم ہیں ۔۲

ایک اور مقام پر آپ ؑفرماتے ہیں :{ فاین یتاه بکم و کیف تعمهون و بینکم عترة نبیکم و هم أزمة الحق و اعلام الدین وألسنة الصدق فانزلوهم باحسن منازل القرآن وردوهم ورود الهیم العطاش}۳تمہیں بھٹکایا جا رہا ہے اور تم بھٹکتے جا رہے ہو ۔دیکھو تمہارے درمیان تمہارے نبی کی عترت موجود ہے ۔یہ سب حق کے زمام دار ،دین کے پرچم اور صداقت کے ترجمان ہیں۔انہیں قرآن کریم کی بہترین منازل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح سے وارد ہو جس طرح سے پیاسے اونٹ چشمے پر وارد ہوتے ہیں ۔۴

ابن ابی الحدید حضرت علی علیہ السلام کےکلام کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر کہا جائے کہ امام کا یہ کلام اہل بیت علیہم السلام کی عصمت پر دلالت کرتاہے تو آپ کی اس بارے میں کیا راےٴ ہے ؟ اس کے بعدجواب دیتے ہیں کہ ابو محمد بن متوبہ نے الکفایۃ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام معصوم ہیں اگرچہ ہم امام کی حیثیت سے ان کی عصمت کو واجب نہیں سمجھتے کیونکہ عصمت امامت کی شرائط میں شامل نہیں ہےجبکہ نصوص آپ ؑ کے معصوم ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے مقابلےمیں یہ صفت آپ ؑکی ذاتی خصوصیت شمار ہوتی ہے ۔۵

اسی طرح ایک اور مقام پرآپؑ ا رشاد فرماتے ہیں :{انْظُرُوا أَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ وَ اتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ فَلَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ یُعِیدُوکُمْ فِی رَدًى، فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَاتَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِکُوا.}۶اہل بیت پیغمبرعلیہم السلامپرنگاہ مرکوزرکھو اور ان  کے راستےکو اختیار کرو۔ان کے نقش قدم پر چلتے رہو کہ وہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے جائیں گے اور نہ ہلاکت میں پلٹ کر جانے دیں گے۔ وہ ٹھہر جائیں توٹھہر جاوٴ اوراٹھ کھڑے ہوں تو کھڑے ہو جاوٴ ۔خبردار ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہو جاوٴ گے اور ان سےپیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہو جاوٴگے۔

امام علی علیہ السلام  ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:{آل النبي عليه الصلاة و السلام هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَأُ أَمْرِهِ وَ عَيْبَةُ عِلْمِهِ وَ مَوْئِلُ حُكْمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ وَ جِبَالُ دِينِهِ بِهِمْ أَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهْرِهِ وَ أَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَا یُقَاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ(ص) مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَحَدٌ وَ لَا یُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَیْهِ أَبَدا،ً هُمْ أَسَاسُ الدِّینِ وَ عِمَادُ الْیَقِینِ، إِلَیْهِمْ یَفِی‏ءُ الْغَالِی وَ بِهِمْ یُلْحَقُ التَّالِی وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَایَةِ وَ فِیهِمُ الْوَصِیَّةُ وَ الْوِرَاثَةُ، الْآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِهِ وَ نُقِلَ إِلَى مُنْتَقَلِهِ}۷

وہ سر خداکے امین اوراس دین کے پناہ ہیں علم الٰہی کے محزن اورحکمتوں کے مرجع ہیں ،کتب آسمانی کی گھاٹیاں اوردین کے پہاڑ ہیں،انہی کے ذریعہ اللہ نے اس کی پشت کا خم سیدھا کیا اوراس کے پہلووں سے ضعف کی گھبراہٹ کو دورکی۔۔۔اس امت میں کسی کو آل محمدؐپر قیاس نہیں کیاجاسکتا،جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہیں وہ ان کے برابرنہیں ہوسکتے ۔وہ دین کی بنیاداوریقین کے ستون ہیں آگے بڑ ھ جانے والے کوان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اورپیچھے رہ جانے والےکو ان سے آکر ملنا ہے۔حق ولایت کی خصوصیات انہی کیلئے ہیں اورانہیں کے بارےمیں پیغمبرؐکی وصیت اورانہی کےلئے نبی کی وراثت ہے۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :{بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وَ تَسَنَّمْتُمْ ذُرْوَةَ الْعَلْيَاءِ وَ بِنَا أَفْجَرْتُمْ عَنِ السِّرَارِ} ۸ہماری وجہ سے تم نے گمراہی کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی ،اوررفعت وبلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھااورہمارےسبب سےاندھیری راتوں کی اندھیاریوں سے صبح (ہدایت )کے اجالوں میں آگئے ۔

وحی الہی اس گھرانے میں نازل ہوئی  اور انہوں نے دین کی تعلیمات خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کی ہیں۔ اسی لئے اہل بیت علیہم السلام دین کی بنیاد اور علم و حکمت کا دروازہ ہے۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{تَاللَّهِ لَقَدْ عُلِّمْتُ تَبْلِيغَ الرِّسَالَاتِ وَ إِتْمَامَ الْعِدَاتِ وَ تَمَامَ الْکلِمَاتِ وَ عِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُکمِ وَ ضِيَاءُ الْأَمْرِ }۹  خدا  کی قسم مجھے پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے اور ہم اہل بیت{نبوت} کے پاس علم و معرفت کے دروازے اورشریعت کی روشن راہیں ہیں۔

اہل بیت  عصمت و طہارت علیہم السلام تمام لغزشوں سے پاک و منزہ اور فتنوں سے دور ہیں ۔اس بارے میں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: {نَحْنُ أَهْلَ الْبَیْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ وَ لَسْنَا فِیهَا بِدُعَاةٍ.}۱۰ ہم {اہل بیت رسول} ان فتنہ انگیزیوں کے {گناہ} سے بچے ہوں گے اور انکی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

ایک اورمقام پر اہلبیت علیہم السلام کو علم کا معدن اورحکمت کا سر چشمہ قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :{نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ وَ يَنَابِيعُ الْحُكْمِ نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَة}۱۱   ہم نبوت کاشجرہ،رسالت کی منزل ،ملائکہ کی فرودگاہ ،علم کا معدن اورحکمت کاسرچشمہ ہیں۔ہماری نصرت کرنے والااورہم سے محبت کرنے والارحمت کے لئے چشم براہ ہے۔اورہم سے دشمنی وعنادرکھنے والے کو قہرالٰہی کامنتظررہناچاہیے۔

اہل بیت علیہ السلام علم کی زندگی اورجہالت کی موت ہیں۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:{۔۔۔۔۔فَإنّهم عيش العلم ، وموت الجهل ، هم الذين يُخبركم حُكمُهم عن علمهم ، وصَمتُهم عن منطقهم ، وظاهرهُم عن باطنهم ، لا يخالفون الدين ، ولا يختلفون فيه ، فهو بينهم شاهدُ صادق ، وصامت ناطق}۱۲جوہدایت والے ہیں انہی(اہل بیت علیہ السلام )سے ہدایت طلب کرو وہی علم کی زندگی اورجہالت کی موت ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا{دیا ہوا} ہرحکم ان کے علم کا اوران کی خاموشی ان کی گویائی کاپتہ دےگی اوران کا ظاہر ان کے باطن کاآئینہ دارہے وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اورنہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں دین ان کے سامنے ایک سچاگواہ ہے اورایک ایسابے زبان ہے جوبول رہاہے۔

اہل بیت علیہم السلام آسمان امامت و ولایت کے درخشان ستارے ہیں جن کی عالمانہ وحکیمانہ رہنمائی اورہدایت کی وجہ سے ہی انسان دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{أَلَا إِنَّ مَثَلَ آلِ مُحَمَّدٍ (صلی الله علیه وآله) كَمَثَلِ نُجُومِ السَّمَاءِ، إِذَا خَوَى نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ، فَكَأَنَّكُمْ قَدْ تَكَامَلَتْ مِنَ اللَّهِ فِيكُمُ الصَّنَائِعُ وَ أَرَاكُمْ مَا كُنْتُمْ تَأْمُلُون}۱۳ تمہیں معلوم ہونا چائیے کہ آل محمد ع آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں جب ایک ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھر آتا ہے۔گویا تم پر اللہ کی نعمتیں مکمل ہو گئی ہیں اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے وہ اللہ نے تمہیں دکھا دیا ہے۔

اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہی قرآن کی نفیس آیتیں نازل ہوئی ہیں۔اس بارے میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:{نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الأصْحَابُ وَ الْخَزَنَهُ وَ الأبوَابُ وَ لا تُؤْتَى الْبُیُوتُ إِلّا مِنْ أَبْوَابهَا فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَیْرِ أَبْوَابهَا سُمِّیَ سَارِقاً فِیهمْ کَرَائِمُ الْقُرْآنِ وَ هُمْ کُنُوزُ الرَّحْمَنِ إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وَ إِنْ صَمَتُوا لَمْ یُسْبَقُوا}    ۱۴ہم قریبی تعلق رکھنے والے اورخاص ساتھی اور خزانہ دار اوردروازے ہیں اورگھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھور کر کسی اورطرف سے آئے اس کانام چور ہوتا ہے۔{آل محمد ع} انہیں کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں۔اگر بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اوراگرخاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حق نہیں ۔

ائمہ اہلبیت علیہم السلام راسخون فی العلم ہیں ۔ہدایت کی طلب اور گمراہی سے نجات کی خواہش صرف انہیں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ امامت ان کے علاوہ کسی اور کو زیب   نہیں دیتا اور نہ  ہی ان کے علاوہ کوئی اس عظیم منصب کا  اہل ہو سکتا ہے۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :{اَیْنَ الَّذِینَ زَعَمُوا اَنَّهُمُ الرّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ دُونَنا کَذِباً وَ بَغْیاً عَلَیْنا، اَنْرَفَعَنَا اللهُ وَ وَضَعَهُمْ وَ اَعْطانا وَ حَرَمَهُمْ وَ اَدْخَلَنا وَ اَخْرَجَهُمْ، بِنا یُسْتَعْطَى الْهُدى وَ یُسْتَجْلَى الْعَمى، اِنَّ الاَئِمَّهَ مِنْ قُرَیْش غُرِسُوا فِی هذَا الْبَطْنِ مِنْ هاشِم، لا تَصْلُحُ عَلى سِواهُمْ وَ لا تَصْلُحُ الْوُلاهُ مِنْ غَیْرِهِمْ}۱۵ کہاں ہے وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اورہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم۔چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اورانہیں گرایا ہے اورہمیں منصب امامت دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے اورہمیں {منزل علم میں}داخل کیا ہے اورانہیں دور کر دیا ہے ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جاسکتی ہے۔بلا شبہ امام قریش  میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے۔نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ اس کا  اہل ہو سکتا ہے۔

کائنات  میں امام کی مثال جسم کے لئے قلب و دل کی مثال جیسی ہے۔اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک فرد قیامت تک اس زمین پر حجت الہی ہیں اور زمین ابتدائے خلقت سےقیامت تک کبھی بھی حجت  الہی سے خالی نہیں ہو گی اوراگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندردھنسا لے گی۔اس بارے میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: {اَللّهُمَ بَلي لاتَخْلُو الاَرْضُ مِنْ قائِمٍ لِلّه بِحُجَهٍ ، اِمّا ظاهِراً مَشْهوراً وَ اِمّا خائِفاً مَغْمُوراً ، لِئَلاً تَبْطُلَ حُجَجُ اللّهِ وَ بَيِناتُهُ}۱۶ہاں مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر وہ مشہور یاخائف وہ پنہان تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام حقیقت میں قرآن کریم اور سنت نبوی کے ترجمان تھے۔ انہوں نے جوکچھ فرمایا  ہےوہ قرآن و سنت کی تفسیر ہے ۔جیساکہ قرآن و سنت کے بارے میں ذکر ہواہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جس کا ذکر قرآن کریم اور سنت نبوی میں موجود نہ ہو۔قرآن کریم اور سنت نبوی میں موجود علوم اور دینی احکام کو راسخون  فی العلم اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے علوم کے وارثوں  کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا جیساکہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :{ذلک القرآن فاستنطقوه،و لن ینطق و لکن اخبرکم عنه ،الا ان فیه علم ما یاتی والحدیث عن الماضی ودواء دائکم، و نظم ما بینکم}۱۷اور وہ یہی قرآن ہے۔اسے بلوا کر دیکھو۔ یہ خود نہیں بولے گالیکن میں اس کی ترجمانی کروں گا {یعنی حقایق اور معارف کو بیان کروں گا}یاد رکھو کہ اس میں مستقبل کا علم ہے اور ماضی کی داستان ہے۔تمہارے درد کی دوا اور تمہارے امور کی تنظیم کا سامان ہے ۔اسی طرح امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{کتاب الله،فیه نبا ما قبلکم و خبرمابعدکم و فصل ما بینکم و نحن نعلمه}۱۸           کتاب خدا میں تم سے پہلے اور جو تم سے بعد کی باتیں مذکور ہیں۔اس میں تمہارے باہمی نزاعات کا فیصلہ بھی ہےاور ہم ان سب باتوں کو جانتے ہیں ۔اسی طرح ایک اورمقام پرآپ ؑفرماتےہیں:{نحن راسخون فی العلم و نحن نعلم تاویله}۱۹    ہم ہی راسخون فی العلم اور ہم ہی تاویل قرآن کےجاننے والے ہیں۔نیز آپ ؑفرماتےہیں:{والله انی لاعلم کتاب الله من اوله الی آخره کانه فی کفی فیه خبر السماء و خبر الارض،و خبر ما کان و خبر ما هو کائن قال الله عزوجل :فیه تبیان کل شی}۲۰میں کتاب خدا کا اول سے آخر تک جاننے والا ہوں۔ گویا وہ میری مٹھی میں ہے۔ اس میں آسمان وزمین کی خبر ہے۔ جوکچھ ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ اس میں مذکورہیں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے :اس میں ہر شئے کا بیان ہے ،اس بارےمیں ائمہ اطہار علیہم السلام سےاور بھی بے شماراحادیث نقل ہوئی ہیں۔

 

 

 

حوالہ جات:

۱۔نہج البلاغۃ،خطبہ 239،ص825۔

۲۔ ترجمہ نہج البلاغۃ ،علامہ ذیشان حیدر جوادی ۔

۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ، 87۔

۴۔ترجمہ نہج البلاغۃ ،علامہ ذیشان حیدر جوادی۔

۵۔شرح نہج البلاغۃ ،ابن ابی الحدید، ج4 ،ص 131۔

۶۔نہج البلاغۃ،97۔

۷۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ، ۲۔

۸۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ، ۴۔

۹۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ ۱۲۰

۱۰۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۹۳۔

۱۱۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۰۸

۱۲۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۴۵۔

۱۳۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۹۸۔

۱۴۔ایضا ً،خطبہ 157۔

۱۵۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۴۲۔

۱۶۔ نہج البلاغۃ ،حکمت،۱۴۷۔

۱۷۔ نہج البلاغۃ ،خطبہ،۱۵۲۔

۱۸۔اصول کافی ،ج1،باب الرد الی الکتاب و السنۃ ،حدیث 9۔

۱۹۔ایضا ً،کتاب الحجۃ ،باب راسخین فی العلم ،حدیث4،ص 178۔

۲۰۔ایضا ً،باب ، انہم علمون الکتاب علم الکتاب کلہ،حدیث4،ص178۔

 

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *