حجۃ الاسلام شیخ غلام محمد واعظی بگاردو سکردو بلتستان/تحریر: سید حامد علی شاہ رضوی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حجۃ الاسلام شیخ غلام محمد واعظی بگاردو سکردو بلتستان
مقدمہ:
دنیا ایک ایسی جگہ جہاں لوگ کچھ عرصہ کے لیے قیام کرتے ہیں اس کے بعد موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سوجاتے ہیں.
اس مختصر دنیوی مدت میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو دنیا سے جانے کے بعد مختلف طریقوں سے یہاں اپنا اثر چھوڑ کرجاتے ہیں کچھ افراد اپنا اثر اولاد کی شکل میں، نیکیوں کی روپ میں، یادوں کی صورت میں اور کردار کی ہیئت میں اپنا اثر اور وجود کو باقی رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں جن کو تاریخ اپنے اوراق کے صفحوں کی زینت بناتی ہے اور عقلمند زندہ انسان انہی شخصیتوں سے درس عبرت لیکر خود بھی زندہ و جاوید رکھنے کی انتہک کوشش کرتا ہے لیکن کچھ نادان انسان ان کو صرف قصہ و کہانی کے طور پر سنتے اور سناتے اپنے پیش بھا عمر کو گزارتے ہیں۔ شیخ غلام محمد کا تعلق ان کامیاب اور عقلمند ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے دنیا کی فانی اور بڑی ہستیوں کی زندگی سے درس عبرت لیکر اپنی پوری زندگی میں دنیا کے فانی ہونے کے اصول پر ایمان رکھ کر مقام عمل میں اپنا کردار اس انداز میں پیش کیا کہ وہ جس معاشرہ میں بھی زندگی گزار دی اس کو تحت تاثیر قرار دیا ہے اور اپنی ہستی کو نہ بھولانے والے کردار میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے اسی لیے ان کے وفات کے جوبیسوں سال گزرنے کے بعد بھی لوگ ان کا نام بڑئے احترام سے لیتے ہیں اور ان کی تبلیغی باتوں کو سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو نقل کرتے ہیں چونکہ انہوں نے کردار اور عمل سے لوگوں کو اسلام ناب محمدی ﷺ کی طرف دعوت دی مثلا جہاں لوگوں کو نماز کا حکم دیتے وہاں سب سے پہلے خود مسجد میں حاضری دیتے تھے۔۔۔ وغیرہ
تعارف
شیخ غلام محمد واعظی بلتستان کے تحصیل روندو کے گاؤں بگاردو کے ایک علمی خاندان میں ۱۹۳۵ عیسوی میں پیدا ہوئے اور آپ اپنے والد بزرگوار آخوند غلام حسین سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جس میں پہلے قرآن کریم کی روخوانی و روانخوانی اور اس کے بعد حکمتوں اور نصیحتوں سے بھری شیخ سعدی کی کتاب گلستان اور بوستان سے کسب فیض ہوئے ۔ آپ بچپن سے ہی پڑھنے اور پڑھانے کا بہت شوقین تھے اس لیے آپ عالم جوانی میں کہ تقریبا ۲۵ یا ۲۶ سال کے تھے ، اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کی جدائی تحمل کرتے ہوئے وطن عزیز چھوڑ کر علوم دینیہ کے حصول کے لیے سر زمین عراق شہر نجف اشرف روانہ ہوئے اور مسلسل سات سال وہاں مشغول تحصیل رہنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے وطن واپس آئے لیکن پھر اسی تشنہ علم کی سیرابی کے لیے دوبارہ نجف اشرف روانہ ہے اور تقریبا ۴ سال حوزہ علمیہ کےعلمی اور معنوی سمندر میں غوطہ غور رہے جو آپ کے علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آپ تحصیل علم کے بعد دینی تبلیغ کے فرائض کو پاکستان کے مختلف جگہوں میں انجام دینے مصروف رہے ۔
آخر میں آپ ۲۲ فروری ۱۹۹۳ء کی نماز مغربین کی ادائیگی کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا اور آپ کا آخری آرام گاہ جس مسجد میں آپ نماز جمعہ اور جماعت پڑھا کرتے تھے اس کے صحن میں موجود ہے۔
آپ کے اساتیذ
آپ کی ابتدائی تعلیم کے استاد آپ کے والد مرحوم آخوند غلام حسین کے علاوہ شیخ غلام محمد جو کواردو بھی تھے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ درجہ اجتہاد پر تھے۔ لیکن نجف اشرف میں علوم عالیہ جن اساتیذ سے شرفیاب ہوئے ہیں ان کی وافر اطلاعا ت تک دست یابی نہیں ہوئی تاہم شیخ علی شگری جو اس وقت عراق وادی السلام میں مدفون ہے ،آپ کےاستاد ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔ یقینا آپ ایک سے زیادہ اساتیذ سے کسب فیض ہوئے ہونگے لہذا ہم اس سلسلہ میں اپنی تحقیق جاری رکھیں گے۔
آپ کے ہم کلاسی اور شاگرد
آپ کےکلاس فیلوز میں قائد ملت بلتستان علامہ شیخ محمد حسن جعفری امام جمعہ والجماعت سکردو اور بلتستان کے معروف عالم الدین محکمہ شرعیہ بلتستان کے مسؤل شیخ محمد صادق کچوروی اور شیخ محمد طحہ قمراوی وغیرہ رہے ہیں یہ تینوں بزرگوار پورئے بلتستان کے محسنوں میں شمار ہوتے ہیں اور اب بھی بہ فضل خدا حیات ہیں۔
آپ کے سارئے شاگردوں کی مکمل اطلاعات نہیں ملی تاہم شیخ محمد حسین کمیلی ،مولانا محمد حسن ژہری، آخوند سیلمان مرحوم ،آخوند اکبر اور آخوند اسحاق وغیرہ آپ کے شاگردوں میں سے ہونا مسلم ہیں یہ افراد آپ کے وہ شاگر ہیں جن کو آپ نے اپنے دولت سرا میں تعلیم دی ہے لیکن آپ کے وہ شاگردیں جنہیں نجف اشرف اور دیگر جگہوں سے کسب فیض ہوئے ہیں ان کے بارئے میں ابھی تک قابل اعتماد خبر نہیں ملی ہی۔
مہارت زبان
آپ کا شمار ان نجفی علماء میں سے تھا جن کو کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھے آپ چار زبانوں میں افہام و تفہیم کرسکتے تھے جن میں سے بلتی زبان آپ کی محلی زبان تھی باقی اردو،عربی اور فارسی بھی جانتے تھے اور آپ اردو میں خطابت بھی کیا کرتے تھے ۔فارسی اور عربی کی کتابوں کا وسیع مطالعہ کے حامل بھی تھے اور آپ کی ساری کتابیں اب بھی آپ کے پوتا مولانا محمد باقر کے زیر تصرف میں ہیں جن سے مولانا استفادہ کرتے ہیں ۔
آپ کے فرزندان
آپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں بیٹوں کا نام بہ حسب عمر بالترتیب یہ ہیں ۔ محمد جمال ۔ منظور حسین ۔ طاہر حسین ۔ مرتضی حسین۔
اللہ کے فضل و کرم سے سارئے فرزندان اب بھی حیات ہیں آپ کے اکثر فرزندوں نے دینی علوم بھی حاصل کی ہےمگر ابھی کوئی بھی علماء کے فیلڈ میں نہیں ہیں لیکن آپ کے ایک پوتا محمد باقر فرزند محمد جمال جس نے علوم دنیویہ کے ساتھ علوم دینیہ بھی حاصل کی ہے اور ابھی لاہور میں فرائض امامت اور خطابت کی خدمت انجام دے رہے ہے اورانہیں آپ کے روحانی وارث بننے کا شرف حاصل ہوا ہے ۔
معاشرتی خدمات ۔
جب سے آپ نجف اشرف سے واپس آئے اس وقت سے لیکر وفات تک مسلسل قومی اور مذہبی خدمات کے لیے جدوجہد کی ہے اور آپ کی خدمات کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔ (۱) تدریسی خدمات ( ۲ ) تبلیغی خدمات۔
( الف ) تدریسی اور تعلیمی۔
آپ نے اپنی زندگی کو تعلیم و تعلم کے لیے وقف کئے ہوئے تھے اسی لیے پوری زندگی کو اسی راہ میں کہ یا علم سیکھنے یا علم سکھانے میں گزاردی ہے ہم آپ کی علمی خدمات کو دو حصوں میں بیان کرتے ہیں۔
۱ ) دینیات (ابتدائی تعلیم)
آپ نے بجف اشرف سے واپس آکر اپنے آبائی گاؤں بگاردو میں تعلیم و تعلم کا سسٹم شروع کیا جس میں مقامی لوگوں کو مبتلاء بہ مسائل کی تعلیم سے لیکر قرآن پاک، اور دیگر دینی کتابوں کی تدریس شامل ہے اگر چہ اس مقصد کے لیے کوئی دینی درسگاہ کا قیام عمل میں نہ آیا لیکن اپنے بیت سرا کو آپ نے درسگاہ کی حیثیت دے کر اسی میں تدریس بھی کیا کرتے تھے جس کا ثمر شیخ محمد حسین کمیلی جیسی شخصیت نمودار ہوئی کہ جس کے ابھی بہت سارے شاگرد حوزہ علمیہ قم اور نجف کے درس خارج میں مشغول ہیں ۔
آپ ہمیشہ دینی بحث و گفتگو میں اپنا وقت صرف کرتے تھے حتی عمومی محفلوں کے علاوہ نجی محفلوں میں بھی اخلاق اور عبادت کے مختلف پہلو کو اپنی گفتگو کا موضوع قرار دیتے تھے اور لوگوں کو بھی علمی بحث کی ترغیب دیکر لوگوں کو بی جا بحث کرنےسے بچاتے تھے تاکہ غیبت ،تہمت اور زبان کے دیگر گناہوں سے لوگوں کو غیر محسوس طریقہ سے بچ جائے جو ایک بہتریں مبلغ اور مربی کی خصوصیت ہے اوریہ خصوصیت آپ میں بہ صورت اتم پائی جاتی تھی اسی لیے لوگ بھی آپ سے ہر وقت کسی نہ کسی موضوع پر سؤالات کرتے تھے اور یہ طریقہ آج بھی رائج ہے کہ لوگ علماء کی صحبت میں دینی مسائل خاص کر احکام شرعیہ کے بارے میں پوچھنے کو ترستے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ روزمرہ کے دینی احکام سے بہ خوبی آشنائی رکھتے ہیں ۔
۲ ) مدرسہ علمیہ ۔( علوم رسمی )
جب آپ نجف اشرف میں تھےاس دوران تحصیل علم کے ساتھ تدریس بھی کیا کرتے تھے لیکن باقاعدگی سے مدارس میں پائی جانے والے نصابی کتب کی تدریس جب آپ پاکستان واپس آئے تو چنیوٹ کے مدرسہ آل البیت جو اس وقت جامعۃ المتظر لاہور سے منسلک ہے ، سے تدریس شروع کی جوکم وبیش دو سال کے عرصہ کے لیے رہی لیکن آپ کو ذاتی تبلیغ کی خدمت سے لگاؤ ہونے کے ساتھ اپنے گاؤں کی تبلیغی ذمہ داری بھی عائد ہوئی تو تدریس کو چھوڑ کر گاؤں کے تبلیغی فرائض انجام دینے کے لیے آبائی گاؤں تشریف لے گئے ۔
وجہ تسمیہ واعظی
آپ کو تبلیغ کا لگن بچپن سے ہی تھا اس لیے طالب علمی کے دوران ،خود اپنی نفس کی تہذیب کے ساتھ دوسروں کو بھی تبلیغ کیا کرتے تھے۔طلاب دینیہ اپنی تحصیل علم کے ساتھ تبلیغی تربیت کے لیے خصوصی خطابت کے پروگرام رکھتے ہیں جو ہر ہفتہ میں ایک بار ہوتا ہے جس میں طلاب باری باری سے خطابت کرتے ہیں اور طلبہ اپنے شوق اور ذوق علمی کے تحت کسی موضوع کو اپنا سرنامہ سخن قرار دیتے اس پروگرام میں آپ کی خطابت کا سرنامہ سخن وعظ و نصیحت ہوتی تھی جس میں طلاب معزز کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے اور دینی طلاب کو ہدایت کرنا یہ کام بہت مشکل کام ہے اس لیے چونکہ طلبہ عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ یہ سب خودباعمل اور پاکیزہ ہوتے ہیں اور وہ شخص جو اچھے لوگوں کو ہر وقت وعظ کرئے وہ خود کتنا پاکیزہ اور باعمل ہونا چاہیے اس وجہ سے علماء و طلباء کو وعظ و نصیحت کرنا ہر شخص کی بس کی بات نہیں ۔ جس کی بناء نجف اشرف کے طلباء آپ کو واعظی کہا کرتے تھے جو آپ کے لیے ایک بڑا اعزاز اور شرف کی بات ہے۔
(ب ) تبلیغی خدمات
آپ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بیست سال زندگی حیات رہے ہے جس میں تقریبا دو سال آپ نے تدریس کی ہے باقی پوری زندگی تبلیغی سرگرمی میں مصروف رہنے کیساتھ بھی تدریس سے منسلک رہے گاؤں میں تبلیغی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ دولت سرا کو مدرسہ کی حیثیت دیکر وہاں تدریس بھی کیا کرتے تھے آپ تبلیغ کرنے کے لیے فن خطابت اور فرائض امام جماعت و جمعہ سے سہارا لیتے تھے ۔فن خطابت میں آپ بی نظیر تھے آپ کی فصاحت و بلاغت ابھی تک زبوں حال ہے ۔آپ بگاردو ، سورداس ، ژھری ،بشو بسینگو اور سندھ بدین کے علاوہ دوسرے مختلف جگہوں میں بھی تبلیغی خدمات سرانجام دی ہے۔انہی علاقوں میں سے سب سے زیادہ اپنے گاؤں بگاردو اور سندھ کے بدین نامی جگہ میں خدمت دین انجام دی ہے لہذا ہم یہاں اختصار سے ان دو جگہوں میں آپ کی تبلیغی خدمات کا جائزہ لیں گے۔
بگاردو میں آپ کی دینی خدمات ۔
آپ بگاردو میں دینی خدمات نجف اشرف جانے سے پہلے سے ہی آغاز کرچکے تھے لیکن جب حوزہ علمیہ نجف اشرف کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا وہاں سے دینی خدمات کا سلسلہ باقاعدہ آغاز ہواجن ہم کو اختصار سے بیان کریں گے
۱ ) بگاردو میں تبلیغ کا آغاز کتاب خدا کی تدریس کے ساتھ ایک طرف مخصوص افراد کے لیے مقاتل اور ادبیات کی کتابیں پڑھانا شروع کیا تاکہ یہ افراد ایام ولادت اور شہادت میں مجالس پڑھ سکیں تو دوسری طرف عام لوگوں کو ہر روز مبتلاء ہونے والے مسائل شرعیہ سے آگاہ کرنے کا بھی بندوبست کیا ۔
۲) گمبہ کھور کے موجودہ مسجد کی توسیع کی ( جس کو ابھی مزید اور توسیع دی ہے)اور اس میں تین وقت کے نمازوں کو جماعت پڑھا نے کے علاوہ نماز جمعہ کی ادایئگی بھی کرنے لگا اس وقت بلتستان میں گنے چنے جگہوں میں نماز جمعہ ہوتی تھی ۔ اور یہ کہا جاتا ہے اس وقت صرف سکردو شہر اور بگاردو میں نماز ہوتی تھی ۔
۳ )حسب روایات منعقد ہونے والے مجالسوں اور میلاد وں کے پروگرامز میں آپ کی خطاب کا موضوع اگر چہ مخصوص ایام سے متعلق ہوتا تھا لیکن بیشر خطابت کا وقت تبلیغ اور وعظ و نصیحت پر دیتے تھے۔
سندھ بدین میں آپ کی تبلیغی خدمات
آپ دین اسلام کی تبلیغ کرنے میں کسی مذہب ، علاقہ،زبان اور دوسرے کسی جہات کے تفریق کے قائل نہیں تھے آپ کا اصل ہدف انسان اور اسلام کی خدمت کرنا تھا جو جس شکل اور انداز میں بھی ہو اور اسی طرح کسی لالچ ،طمع یا خواہشات کے تحت تاثیر میں بھی نہیں آتا تھا چاہیے کوئی آپ کی اقتصادی تعاون کرے یا نہ کرے آپ اپنی تبلیغی خدمات میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا اور تبلیغ کو اپنا ایک الہیٰ فریضہ سمجھ کر انجام دیتے تھے اسی لیے آپ صوبہ سندہ کے شہر بدیں میں بھی اپنا تبلیغی وظیفہ انجام دیا جہاں ایک دفعہ نہیں کئی بار جاچکے ہیں اور ان کے پوتے محمد باقر کا کہنا تھا کہ سندہ بدیں سے کسی ڈاکٹر کے نام ، دادجان کو تبلیغ کی دعوت کا لیٹر(خط ) آتا تھا اور داد جان وقت مقرر پر گاؤں چھوڑ کر وہاں تبلیغ کے لیے جایا کرتے تھے۔
تبلیغی انداز اور خصوصیت۔
1. اسی بات کی تبلیغ کرتے تھے جس پر خود عمل پیرا ہو۔
2. تبلیغ کو ایک وظیفہ الہیٰ سجھ کر انجام دیتے تھے۔
3. تبلیغ باتوں کو از تہہ دل دکھ درد اور پیار و محبت کے انداز میں بیاں کرتے تھے ۔
4. حق گوئی اور مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتے تھے ۔
5. مصیبت ابا عبد اللہ بیان کرتے ہوئے بی انتہا گریہ کرتے تھے ۔
6. آپ کی خطابت کا وقت طویل ہوتا تھا جو گھنٹہ سے دو گھنٹہ تک کا ہوتاتھا ۔
7. خطابت کے دوران امام بارگاہ کے در و دیوار اور خصوصا منبر سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے گواہ رہنا یہ باتیں وہ باتیں میں نے ان لوگوں تک پونچایا ہے الغرض انہیں اسلامی تعلیمات پونچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے ۔
دیدگاهتان را بنویسید