جوانوں سے منسوب یوم ولادت علی اکبر علیہ السلام اور ہماری ذمہ داریاں
11 ، شعبان المعظم وہ تاریخ ہے جب امام حسین علیہ السلام کی آغوش مبارک میں علی اکبر جیسا فرزند آیا جس نے دنیا میں محض اٹھارہ بہاریں گزاریں اور اپنی پوری زندگی اپنے بابا کے مقصد پر یوں قربان کر دیں کہ آج کے جوانوں کا نمونہ بن گیا اور اسی بنیاد پر آج کی تاریخ کو اسلامی دنیا میں علی اکبر علیہ السلام سے منسوب کرتے ہوئے یوم جوان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یوں تو ہر دن ہی جوانوں کا ہے کہ ان کے وجود میں حرکت ہوتی ہے ، شادابی و فرحت سے انکا وجود سرشار ہوتا ہے اور ہر آنے والے دن کو وہ اپنی توانائیوں کی بنیاد پر یادگار بنا دیتے ہیں لیکن آج کی تاریخ اس لئے اہم ہے کہ انہیں سے مخصوص ہے ،روز جوان جہاں جوانوں کی اہمیت کو بیان کرتا ہے وہیں علی اکبر جیسے جوان کی یاد بھی دلاتا ہے جس نے اپنی جوانی دین پر لٹا دی اور ہر شریف النفس جوان کی دل کی دھڑکن بن گیا ،اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ شام میں حق و باطل کے درمیان سجے معرکہ میں جوانوں کا جوش و ولولہ کیا ہے؟ انکے عزم ، انکی ہمت کو ہمارا سلام ،ان علی اکبر علیہ السلام کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی جوانی کو راہ اسلام پر لٹا دینے والوں کو سلام جنہوں نے دنیا کی زرق برق کو ترک کر کے دفاع حرم زینب سلام اللہ علیہا کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا یہی وجہ ہے ، کہ شہداء حرم بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی ایک بڑی تعداد ہمیں ان جوانوں کی نظرآتی ہے جنکا سن جناب علی اکبر علیہ السلا م کے سن سے نزدیک ہوتا ہے ۔
یقینا کل اگر جناب علی اکبر علیہ السلام نے حقانیت کی راہ پر مر مٹ کر امر ہوجانے کا سبق نہ دیا ہوتا تو آج یہ روح پرور سماں نہ ہوتا جو ہم شام کے میدان جنگ میں دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارا کروڑوں سلام و درود حسین ابن علی علیہ السلام کے اس جوان بیٹے علی اکبر ع پر جسنے اولسنا علی الحق کہہ کر ہمارے جوانوں کو سمجھا دیا کہ تم اگر حق پر ہو تو پرواہ نہیں ہونا چاہیے کہ تم موت پر جا پڑو یا موت تم پر آ جائے ۔
آج جہاں ایک طرف جوانوں سے منسوب اس دن میں ذکر و یاد علی اکبر سزاوار ہے وہیں بہت مناسب ہے کہ ہم اپنے سماج اور معاشرہ میں غور کریں کہ جوانوں کے مسائل کیا ہیں اور انکی دشواریاں کیا ہیں ؟
جوانوں کے مسائل اور انکو در پیش چیلنجز
یقینا موجودہ دور میں ہمارے جوانوں کے ساتھ بڑی دشواریاں ہیں انہیں معلوم وہ کس طرف جائیں کہیں جھوٹے عرفان کا بازار سجا نظر آتا ہے تو کہیں تصوف و طریقت کی باتیں ہیں کیا ایسے میں ضروری نہیں کہ ہم اپنی جوان نسل پر ایک ذرا توجہ دیں کہ وہ کہاں جا رہی ہے ؟ کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ آج ہمارے جوان سرگردان وحیران ہہیں کہیں وہ کسی پیر سے اپنےمسائل کا حل ڈھونڈتے نظر آتے ہیں کہیں کسی خود ساختہ صوفی و عارف کے جال میں پھنسے نظر آتے ہیں اور ان سب سے بچ بھی جائیں تو مغربی تہذٰیب کا غول پیکر دیو انہیں نگل لیتا ہے وہ دور جو کامیابی کا دور ہوتا ہے اگر اس دور میں کوئی جوان منحرف ہو جائے تو پوری زندگی تباہ ہو جاتی ہے اس لئیے کہ جوانی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے کہ جس میں انسان کے پاس قوت، قدرت اور نشاط موجود ہوتی ہے، جوانی طاقت اور اُمید کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ جوان کے اندر جذبہ و ارادہ ہوتا ہے، سب کچھ کر گزرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، بھرپور توانائیوں اور جرات کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا سامنا کر رہا ہوتا ہے۔ اب ایسے میں تمام تر توانائیاں اگر صحیح سمت و صحیح ڈائریکشن نہ ملنے کی بنا پر تباہی کی طرف چلی جائیں اور جوانی کا جوش و جذبہ تعمیر کے بجائے تخریب پر لگ جائے تو انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ کتنی خرابی معاشرہ میں پھیل سکتی ہے ۔
مقام افسوس:
کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ جن جوانوں کا نمونہ عمل وآئیڈیل جناب علی اکبر و جناب قاسم کو ہونا چاہیے تھا وہ جوان آج اپنا آئیڈٰل مغرب کی سراب میں تلاش کر رہے ہیں یہ مغرب کی تقلید کو اپنے لئیے ٖباعث فخر سمجھتے ہیں جبکہ مغرب کی کھوکھلی تہذٰیب کا اژدھا جو سامنے آئے اسے نگل رہا ہے اقدار ہوں تو وہ نہیں بچتے رشتوں کا تقدس ہو تو وہ نہیں بچتا انسانی شرافت وکرامت کی تو بات ہی کیا آج ہماری نئی نسل جس مغرب کے پیچھے بھاگ رہی ہے وہاں کے سمجھدار باسی تو خود اپنے رہن سہن سے پریشان ہیں آج روز روشن کی طرح یہ بات بالکل واضح ہے کہ مغرب نے صرف اور صرف معاشي ترقي پر دھيان ديا اور اپني نوجوان نسل اور معاشرے کو معاشرتي اور اخلاقي لحاظ سے پوري طرح سے تباہ و برباد کرکے رکھ ديا – مغربي معاشرہ تمام اخلاقي اقدار اور انساني سعادت مندي کے آثارکھو چکا ہے- ماديت کے چکا چوند نے آنکھوں پر پردہ ڈال ديا ہے- ليکن افسوس ہماري نوجوان نسل اب اسي فرسودہ تہذيب و ثقافت کو روشن خيالي، ترقي پسندي اور عظمت سمجھنے لگي ہے- جبکہ مغربي تہذيب کا جس نے بھی ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو وہ اقبال کی صورت کہتا نظر آئگا
اٹھا کر پھينک دو باہر گلي ميں
نئي تہذيب کے انڈے ہيں گندے
یہ جو آپ روز مغرب کے سلسلہ سے سنتے رہتے ہیں فلاں جوان نے خود کشی کی اور اپنے خود کشی کے مناظر کو فیس بک پر لائو ٹلیکاسٹ کیا یا پھر ایک جوان نے اپنے سارے بہن بھائیوں کو ایک ہال میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا اور خود کو بھی مار لیا یا پھر کسی جوان نے اپنے اسلحے سے اپنے کلاس روم کے بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا یہ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کی وہ علامتیں ہیں جن کے لئیے اقبال بہت پہلے کہہ گئے تھے:
تمہاري تہذيب اپنے خنجر سے آپ ہي خود کشي کرے گي
جو شاخ نازک پر آشيانہ بنے گا ناپائدار ہو گا
کیا یہ حیف و افسوس کی جگہ نہیں کہ وہ تہذیب جو خود کشی کے دہانے پر ہو ہمارے یہاں اس کی تقلید ہو رہی ہے اور ہمارا جوان مغربی کلچر کے پیچھے پاگلوں کی طرح گھوم رہا ہے ۔آج ہمارے تعليمي نصاب، پرنٹ اور اليکٹرانک ميڈيا پر غير ديني عناصر اثر انداز ہيں- اور وہ غلط، فاسد اور اخلاق سوز مفاہيم اور مناظر کو اس قدر دلچسپ، جاذب النظر اور قابل تقليد بنا کر پيش کرتے ہيں کہ نئي نسل کو ان کي تقليد کے بارے ميں کہنے کي ضرورت ہي نہيں رہتي بلکہ وہ خود اس غير اسلامي مغربي ثقافت اور تہذيب کو پسند کرنے لگتي ہے اور اسي کو جديد، دلچسپ، قابل عمل اور اعليٰ تہذيب و ثقافت سمجھ کر تقليد کرتي ہے- نئي نسل کو اس ثقافتي يرغمالي سے بچانا يقينا تمام صاحبان دين ودانش اور وارثان انبياء عليہم السلام کي اولين ذمہ داري ہے- ان غير ديني عناصر کو جديد اور موثر ذرائع سے ہي شکست دے کر آئندہ نسل کو بچايا جا سکتا ہے- اس کے ليے ہر ايک کو اپني بساط کے مطابق قيام کرنا چاہيے-ضررت اس امر کي ہے کہ مسلم ممالک ميں حکومتي سطح پر ايسے اقدامات اٹھائے جائيں جو نہ صرف اسلامي معاشرے کو مغربي ثقافت کي يلغار سے محفوظ رکھيں بلکہ نوجوان نسل کي بہتري کے ليۓ صحت مند سرگرمياں فراہم کي جائيں اور اسلامي ماحول ميں رہتے ہوئے ايک مسلمان نوجوان کو تفريح کے تمام مواقع فراہم کيۓ جائيں آج جبکہ عریانیت چہار سو اپنے جالوں کو بچھائے ،جوان نسل کو کھوکھلا کرنے کے درپہ ہے اور مغربی کلچر بری طرح انہیں تباہ کر رہا ہے ہم سب کے لئیے ضروری ہے کہ اپنے جوانوں اور بچوں کی تربیّت قرآن و سنّت کے سائے میں کریں انہیں اسلامی معارف سکھائیں تاکہ ہماری یہ نئی نسل مستقبل میں کچھ کر سکنے کے قابل ہو سکے لہذا ملّت اسلامیہ کی فرد فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امّت مسلمہ کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی سب سے زیادہ توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیّت پر مرکوز کریں کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جوان کا دل خالی زمین کی مانند ہے۔آپ اس میں جو بات بھی ڈالیں وہ قبول کرے گا۔پس اُسے ادب سکھائیں،اس سے پہلے کہ اس کا دل سخت ہو جائے {نہج البلاغہ خط ۳۱}۔اس لئیے کہ ایک نیک ،صالح ، قرآنی معاشرے کا قیام پاکیزہ اور دیندار جوانوں کے بغیر ممکن نہیں۔ہمیں چاہیے کہ نکاح سے لے کر ولادت تک اور ولادت سے لے کر بلوغ تک کے مراحل میں لمحہ بہ لمحہ قرآن و سنّت کا دامن تھامے رکھیں تاکہ ہمارا مستقبل تیرہ و تار ہونے سے بچ سکے ایک نوجوان قلم کار نے کیا ہی خوب بات کہی ہے :
اسلام آباو اجداد کی اندھی تقلید سے پھیلنے والا جامد نظام حیات نہیں بلکہ تحقیق و تجربے کی بنیاد پر پھیلتی ہوئی ارتقاءِانسانیت کی علمی و فکری، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و اجتماعی تحریک کا نام ہے۔ اس ہمہ جہتی تحریک کی نشوونما میں جہاں انبیاء اکرام کے علم و فضل ، آئمہ اہلبیت {ع} کے عرفان امامت اور علماء کرام کی جدوجہد کا عمل دخل ہے وہیں پر اسلامی جوانوں کے خون کے نذرانے بھی تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ کار دنیا کو انجام دینے میں جوانی کو سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے ہی اور اسلام میں بھی جوانی ہی کی عبادت کو بہترین عبادت کہا گیا ہے۔
بقول معروف ” در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است”
جوانی میں توبہ و خدا کی طرف بازگشت پیغمبرانہ شیوہ ہے۔
منبع: جاثیہ
دیدگاهتان را بنویسید