وزیر داخلہ پر حملہ… دہشتگردی ایک عمومی مسئلہ ہے! /تحریر : محمد حسن جمالی
پاکستان میں دہشتگردی کی تاریخ پرانی ہوچکی ہے، یہ بہت محدود پیمانے پر شروع ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردی ایک وبائی بیماری کی شکل اختیار کرچکی ہے، جس سے نہ عوام محفوظ ہیں اور نہ حکمران-

البتہ زیادہ عوام اور خاص طور پر گزشتہ چند سالوں سے ہزارہ برادری دہشتگردی کی آگ میں جل رہے ہیں، لیکن یہ ایک عمومی مسئلہ اور انسانی جان لیوا دشمن ہے جس کے نشانے پر وزراء بھی ہیں اور وکلا بھی، ڈاکٹرز بھی ہیں اور صحافی بھی، کیونکہ دہشتگردی پھیلانے والے انسانیت کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں-
اگرچہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے والے ذمہ دار افراد اور ادارے تواتر سے یہ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ ڈالی ہے، ہم دہشتگردوں کو ملک میں سرچھپانے کی جگہ نہیں دیں گے، ہم دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے وغیرہ مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، وقتا فوقتاً پاکستان کے مختلف مقامات پر پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعات اس بات پر بین ثبوت ہیں کہ وطن عزیز دہشتگردوں کے نجس وجود سے پاک نہیں ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج تک حکومتی سطح پر کوئی ایسا عملی اقدام سامنے نہیں آیا جو دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کرنے میں مؤثر ہو، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہماری حکومت دہشتگردی کی لعنت سے یکسر طور پر غافل ہے یا ہمارے ذمہ دار لوگ دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کررہے ہیں، کیونکہ ہماری فوج نے عملی طور پر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا اور کررہی ہے، جس سے پاکستان کے اندر وسیع پیمانے پر پھیلتی دہشتگردی میں کمی ضرور آئی مگر اس کا خاتمہ کرانے میں ابھی تک ہماری فوج کو کامیابی نہیں مل سکی، جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری فوج نے دہشتگردوں کے اصل مراکز پر پوری سنجیدگی سے ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی-
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی سرزمین پر سعودی عرب کی فنڈنگ سے چلنے والے ہزاروں کی تعداد میں ایسے مدارس ہیں کہ جن میں دہشتگردوں کی تربیت ہوتی ہے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو جہاد کے نام سے خودکش حملہ کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کے شاداب زہنوں کو شدت پسندی اور فرقہ واریت جیسی منفی سوچوں سے بھر دئیے جاتے ہیں، یوں کچھ عرصہ ایسے مدارس میں رہنے والے بچے خطرناک دہشتگرد بن کر معاشرے میں وارد ہوجاتے ہیں اور بم دھماکوں خودکش حملوں کے ذریعے ملک کے بے گناہ شہریوں کی جان سے کھیلتے ہیں-ہماری فوج نے آپریشن رد الفساد کے زریعے دہشتگردوں کے بہت سارے اڈوں کو نقصان ضرور پہنچایا، لیکن حکومت اور فوج نے اس ظریف نکتہ پر توجہ کرنا گوارا نہیں کیا کہ دہشتگردی کے پیچھے کونسا نظریہ کار فرما ہے؟
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک ہماری حکومت سمیت سیکورٹی ذمہ دار افراد دہشتگردی جنم دینے والے متشدد نظریات کا مقابلہ نہ کیا جائے پاکستان کی سرزمین سے دہشتگردوں کا مکمل صفایا کرنا ممکن نہیں ۔ جس کے لئے بہت ضروری ہے کہ شدت پسندی فرقہ واریت اور متشدد نظریات کی تعلیم وتربیت دینے والے مدارس کو بند کردیا جائے اور دیار غیر سے ایسے مدارس کو آنے والی فنڈنگ کو روک دیا جائے، پس دہشت گردی کا حل ذہنوں کو بدلنے اور شدت پسندی و تکفیریت کی تربیت گاہوں کو مسدود کرنے میں مضمر ہے۔
حالیہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر جو قاتلہ حملہ ہوا اس کے پیچھے بھی مزہبی جنونیت کا ہی عمل دخل تھا حملہ آور کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا اور اس سے حملہ کرنے کا سبب پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ مسئلہ ختم نبوت کی وجہ سے میں نے وزیر داخلہ پر حملہ کیا ہے اس سے پہلے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز کے گھر پر دو مرتبہ فائرنگ کرکے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی اس کے علاوہ بہت سارے وکلاء اور صحافی برادری بھی دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں تو یہ ساری کاروائیاں پکار پکار کر یہ اعلان کررہی ہیں کہ دہشتگرد امن اور انسانیت کے دشمن ہیں اگر دہشتگردی کا سنجیدگی سے مقابلہ نہ کیا جائے تو اس سے کوئی بچنے والا نہیں –
قاتلانہ حملے ہزارہ برادری پر بھی ہوتے رہتے ہیں بلکہ سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ہونے والی قوم ہزارہ ہے، جب 1980سے 1990 میں سابق سویت افغان جنگ کے دوران معاشرہ میں اسلحہ کلچر کو پروان چڑھایا گیا ، کلاشنکوف عام ہوئی،ہر طرف اسلحہ کی گھن گرج تھی۔ ایک خاص مائینڈ سیٹ کے لوگوں کو ٹریننگ دی گئی جو آگے جا کہ خود پاکستانیوں کےلیے زہر قاتل ثابت ہوئے۔ اور اسی دور سے ہزارہ کے قتل عام کا آغاز ہوا جولائی 1985 میں مجلس کے جلوس پر فائرنگ کی گئی جس سے 13 افراد شہید ہوئے۔2001 سے لیکر 2017 تک ہزارہ برادری پر 1400 سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں (وسعت اللہ خان) جس میں شہید ہونے والے ہزارہ کی تعداد 1000 سے زیادہ ہے۔جون 2003 کو کوئیٹہ سریاب روڈ پر پولیس کیڈیٹس کو نشانہ بنایا گیا جس میں تقریبا 13 ہزارہ کیڈیٹ شہید ہوئےجولائی 2003 کو مجلس میں 4 خود کش حملے ہوئے جس سے 50 افراد شہید ہوئے۔ستمبر 2010 کو القدس ریلی پر فائیرنگ کر کے 70 ہزارہ شیعہ کو شہید کیا گیا۔ستمبر 2011 کو مستونگ میں بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد 30 ہزراہ افراد کو شہید کیا گیا۔جنوری 2013 میں علمدار روڈ پر دو خود کش حملوں کے نتیجہ میں 200کے قریب ہزارہ برادری کے افراد شہید ہوئے۔ ان حملوں کی زمہ داری یا تو تحریک طالبان نے قبول کی ہے یا لشکر جھنگوی ، سپاہ صحابہ ملوث رہی ہے۔اکثر حملوں میں کالعدم جماعتیں باقاعدہ پمفلٹس کے ذریعے سے ہزارہ شیعہ برادری کو کوئٹہ سے نکلنے اور بات نہ ماننے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تو تمام ملکی اخبارات نے یہ بیان شائع کیا کہ وزیر داخلہ پر ہونے والا قاتلہ حملہ سیکیورٹی اداروں پر سوالیہ نشان ہے، مختلف سیاسی حلقوں نے بلاتاخیر اس کاروائی کی پوری تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا، بعض نے کہا کہ
نارووال سانحہ سے سبق لینے کے کئی ابواب کھلے ہیں، سیاسی، مذہبی اور دینی جماعتیں غیر قانونی اور انسان دشمنی پر مبنی رویوں کی حوصلہ شکنی کریں، ان پر لازم ہے کہ وہ سیاست میں در آنے والی سیمابیت، غضبناکی، جذباتیت اور عدم رواداری و برہمی کے جملہ عناصر کی اپنے جمہوری اور سیاسی طرز عمل سے روک تھام کریں، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے بہت مناسب بات کی کہ اسلام کسی انسان کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام میں تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے بلکہ کوئی بھی مذہب قتل وغارت اور تشدد و ایذارسانی کو جائز نہیں سمجھتا ہے…… یہ ساری باتیں بالکل حقیقت پر مبنی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہماری سیاسی اور مزہبی جماعتوں کو یہ باتیں وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ ہونے پر ہی کیوں یاد آئیں؟ جب ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ برادری کی لاشیں گررہی ہیں، تکفیری گروہ کھلے عام ہزارہ برادری کا قتل عام کیا جارہا ہے تو انہیں مزمتی دوجملے بیان کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟ کیا آئے روز ہزارہ برادری کو نشانہ بنانا سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں؟ کیا ہزارہ برادری پاکستان کے شہری نہیں؟ کیا انہیں تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ سیاسی اور مزہبی جماعتوں نے کہا کہ سانحہ نارووال سے سبق لینے کے کئی ابواب ہیں، تو کیا کوئٹہ کے سانحات سے سبق لینے کے ذیادہ ابواب کھلے نہیں؟ انہیں کوئٹہ سانحات دکھائی کیوں دیتے؟ بات یہ نہیں کہ ہم وزیر داخلہ پر ہونے والا قاتلہ حملہ سے متعلق سیاسی ومزہبی جماعتوں کے مزمتی بیانات کے مخالف ہیں، بلکہ ہم خود بھی نہایت افسوس کے ساتھ اس کی بھرپور مزمت کرتے ہیں، البتہ ہمیں ان جماعتوں کے تفکیکانہ رویے پر بھی افسوس ضرور ہوتا ہےجو ہزارہ برادری کے حوالے سے تو چپ کا روزہ رکھتے ہیں لیکن جب ایک وزیر پر حملہ ہوتا ہے تو ان کی زبان کھل جاتی ہے- اس روئیے سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ ان جماعتوں کا اظہار افسوس کرنا دلسوزی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے وزیر داخلہ پر ہونے والے حملے کی مزمت کررہے ہیں،
وزیر داخلہ تو خوش نصیب تھے کہ ان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم کو فوری گرفتار کیا گیا اور
انہیں فوری طور پر دسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال بھی منتقل کیا گیا نیز ان کے علاج کے لیے 5 رکنی میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیا گیا، پھر بہتر علاج کے لیے ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاہور کے سروسز اسپتال میں پہنچادیا گیا، جہاں وہ اعلی ڈاکٹروں کی نگرانی میں زیر علاج ہیں، لیکن ہزارہ برادری کے ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ شھید ہونے والوں کے قاتل نہ فقط گرفتار نہیں ہوئے بلکہ وہ ریاستی فل سکیورٹی میں دندناتے پھر رہے ہیں، ہزارہ برادری کے دہشتگردی میں زخمی ہونے والے بہت سارے مرد، عورت، بچے اور بوڑھے طبی سہولیات دستیاب نہ ہونے کے باعث داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں-
وزیر داخلہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی خبر، ملک کے تمام اخبارات کی شہ سرخیاں بنی لیکن ہزارہ برادری پر ہونے والے وسیع پیمانے کے دہشتگردانہ حملے کی خبر اخباروں میں شائع ہونا ممنوع قرار پائی، وزیر داخلہ پر ہونے والے حملے کی صدر ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، سیاسی رہنماؤں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف زرداری، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، امیرجماعت اسلامی سراج الحق وغیرہ نے شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ لیکن ہزارہ برادری پر جب حملے ہوتے ہیں تو پتہ نہیں یہ کہاں مرے ہوئے ہوتے ہیں ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ دہشتگردی ایک عمومی مسئلہ ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ضروری ہے
دیدگاهتان را بنویسید