تازہ ترین

یمنی مسلمانوں کی مظلومیت پر پاکستانی مسلمان خاموش کیوں؟/تحریر :محمد حسن جمالی

 ظالم کوئی بھی ہو اس سے نفرت اور اس کی مزمت کرنا اسی طرح مظلوم کی حمایت کرنا پاک فطرت انسان کی نشانی ہےکیونکہ ظلم عقلا ایک قبيح عمل ہے جس سے حکم عقلی کی طرف ارشاد کرتے ہوئے دین مبین اسلام نے سختی سے بنی آدم کو منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ظالمین کا ٹھکانہ جہنم ہے-

شئیر
90 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3994

 دینی تعلیمات میں اس مطلب کی طرف بھی واضح اشارہ ہوا ہے کہ جس طرح دوسروں پر ستم کرنا گناہ ہے، مظلوم کی نصرت کرنے کے بجائے ظالم کی مدد کرنے والا بھی مجرم ہے-

 آج کرہ ارض پر یوں تو سارے مسلمان بالخصوص کشمیر، فلسطین اور یمن کے مسلمان امریکہ اسرائیل اور ان کے نمک خوار غلام آل سعود کی بربریت کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن پاکستانی مسلمان خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، خادم الحرمين کے دعویدار آل سعود یمن میں تین سال سے زیادہ عرصے سے مسلسل یمنی غریب عوام کا قتل عام کرکے امریکہ وإسرائيل کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن ہیں مگر پاکستانی مسلمان اس حوالے سے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کررہے ہیں کیوں آخر کیوں؟

 کیا آل سعود کے مظالم ظلم نہیں؟ کیا اسلامی تعلیمات میں آل سعود کو استثنائی طور پر اس قدر وحشت وبربریت کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے؟ کیا یمن کے باشندے مسلمان نہیں؟ کیا آل سعود نے کفار کے اشارے سے یمن پر جنگ مسلط نہیں کررکھی ہے؟

 حلب اور شام پر واویلا کرنے والے نام نہاد پاکستانی مسلمان آل سعود کے مظالم پر خاموش کیوں ہے؟ انہیں یمن میں جلتی انسانیت کیوں دکھائی نہیں دے رہے ہیں؟ ان کے دلوں میں یمنی بچوں اور عورتوں کے لئے نرم گوشہ کیوں نہیں؟ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ کھلا مزاق نہیں کہ جب حلب میں داعشی درندے مارے گئے تو وہ فریاد کریں احتجاج کریں اور احتجاجی ریلیوں میں مولوی حضرات گلے پھاڑ پھاڑ کر روتے ہوئے مسلمانوں کو حلب اور شام کی مدد کے لئے پکاریں مگر یمن کے بے یارومددگار مسلمانوں کی مظلومیت پر وہ خاموشی کے بت بن کر رہیں؟ کیا منافقت اسی رویے کا نام نہیں؟

 مسئلہ یمن کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی خاموشی کے اسباب وعلل تلاش کریں گے تو ہر انصاف پسند انسان یہ کہتا ہوا نظر آئے گا کہ اس کا نمایاں سبب آل سعود کے ريال سے پلنے والے مولویوں کے مفادات خطرے میں ہونا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کے اندر مسلمانوں کی اکثریت کے مذہبی پیشوا یہی مولوی حضرات ہیں جو سعودی عرب کے ريال کے زریعے اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں، انہوں نے اپنے مادی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر اقدار دینی اور تعلیمات دینی کو یکسر طور پر نظر انداز کرتے ہوئے وہ آل سعود کے سلفی غلط افکار اور اعتقادات کی ترویج واشاعت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں جن میں سرفہرست مسلمانوں کی تکفیریت کی فکر کو پروان چڑھا نا ہے-

اسی بے بنیاد تکفیری سوچ سے پاکستان کے اندر دہشتگردی عروج پاگئی، داعش اور طالبان وجود میں آگئے جنہوں نے لاتعداد محب وطن پاکستانیوں کو قتل کر دیا گیا، مستقبل کے بے شمار معماروں کو جوانی کے بہار میں ہی ابدی نیند سلادیا گیا، پھول جیسے بہت سارے نونہالوں کو قوم سے چھین لیا گیا، وطن عزیز میں افراتفری اور وحشت وبربربیت کی فضا حاکم کرکے پاکستانی پاشندوں کو امنیت کے لئے ترستے رہنے پر مجبور کر دیا گیا، سعودی ریال کو رازق سمجھنے والے مولویوں کے زریعے پاکستان کو اپنا مرکز بنانے میں وہ کامیاب ہوگئے، وہ پاکستان میں اس قدر مضبوط ہوگئے کہ آمر ضیاء الحق کے دور حکومت سے لیکر آج تک پاکستان کے حکمران آل‌سعود کے اشارے ہی سے ملک کے داخلی اور خارجی پالیسیاں مرتب کرتے آ رہے ہیں-

جب اس سال تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے موروثی سیاست کا تختہ الٹ کر پاکستان کے وزیراعظم بننے کی تاریخی کامیابی حاصل کی تو ساری قوم کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، قوم کو اس بات پر ظن غالب ہوا کہ ہمیں اغیار کی غلامی کے زندان سے رہائی دلانے کے لئے عمران خان صاحب مسیحا بن کر آگئے ہیں، جب انہوں نے پاکستانی قوم کا سرمایہ لوٹ کر بیرون ملک اپنے بچوں کے لئے بینک بیلنس اور جائداد بنائے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت مریم نواز کو جیل میں ڈالا گیا تو قوم کو یقین ہوگیا کہ پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہونے والا ہے، پاکستان میں تبدیلی آکر نیا پاکستان بننے میں دیر نہیں لگے گی….. لیکن قوم کی امید پھر مایوسی میں اس وقت تبدیل ہوئی جب وزیراعظم عمران نے اپنے خارجی دورے کے لئے سب سے پہلے سعودی عرب کا انتخاب کیا اور جیسے ہی ان کی ملاقات ریاض میں آل سعود کے سربراہان سے ہوئی ادھر پاکستان کے جیل میں قید نواز شریف اور ان کی بیٹی کو جیل سے آزاد کرنے کا حکم صادر ہوا، جس سے اس بات کو مزید تقویت ملی کہ پاکستان کے حکمران آل سعود کے اشارے سے سرمو اختلاف کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں –

ریاض میں سعودی حکمرانوں نے جہاں عمران خان سے نواز شریف ومريم نواز کی رہائی کا مطالبہ کیا وہیں شنید ہے عمران خان سے یمن کی جنگ میں اپنی مدد کے لیے پاکستان سے فوج  بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے اگر عمران خان نے اس غلط مطالبے کو قبول کرکے خدا نخواستہ فوج بھیجنے کی غلطی کی تو پاکستانی قوم اور خارجی ممالک کے نذدیک   اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی سب اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس کا انجام بھی دوسروں سے مختلف نہیں ہوگا لہذا تحریک انصاف کی حکومت کو تمام زاویوں سے سوچ کر اگر یمن کے مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کرسکتی تو کم از کم  ان کے لئے جلتی پر تیل کا کام کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے- پاکستانی قوم کے باشعور افراد کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو اسب بے مہار کی طرح چھوڑ کر نہ رکھیں بلکہ قومی اور ملکی مفاد سے ٹکرانے والی پالیسیوں پر اسے نظر ثانی کرنے پر مجبور کرائیں اور ہمیشہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی اپنے اندر اخلاقی جرات پیدا کریں ہمارے پیارے نبی نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان بھائیوں کو مدد کے لیے پکارے اور وہ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی نصرت نہ کریں تو وہ مسلمان نہیں-

 آج پوری دنیا دیکھ رہی ہےکہ یمن کے مسلمان آل سعود کے مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں اور دلسوز مسلمان ان کی ہر طرح سے مدد کررہے ہیں مگر یمن کے مسلمانوں کی مظلومیت پر پاکستانی مسلمان خاموش کیوں ؟

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *