شیخ غلام رسول نجفی(کتی شو) کی حالات زندگی کا ایک جائزہ
مقدمہ:
الحمد الله الرب العالمين وصلوات واسلام على خير خلقه محمد وعلى اله طبيبين الطاهرين المعصومين اما بعد:قال امام علی عليه السلام “یا کمیل هلك خزان الأموال وهم أحياء والعلماء باقون ما بقي الدهر،اعيانهم مفقودة وامثالهم فى القلوب”[1] امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں “اے کمیل ؛ مال جمع کرنے والے ہلاگ ہوگئے اور علماء زندہ رہیں گے جب تک دنیا باقی ہے، ان کے اجسام موجود نہیں مگر ان کی امثال لوگوں کے دلوں میں ہیں”۔
علماء کسی بھی معاشرے کے لئے روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جس معاشرے میں بھی یہ چراغ روشن ہوں وہ معاشرہ صحیح راستے پر گامزن رہتا ہے۔علماءمعاشرے کےحقیقی پیشوا اور رہبر ہوا کرتےہیں۔ ان کی علمی اور دینی خدمات صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔ شیخ غلام رسول نجفی مرحوم بھی ایک عالم باعمل شخصیت تھے۔اس مختصر مقالہ میں ان کی شخصیت کے کچھ پہلوں پر روشنی ڈالیں گے۔
پیدائش:
شیخ غلام رسول نجفی 1936 کو بلتستان کے ایک پسماندہ گاوں کتی شو میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی غلام علی جو کتی شو کی ایک معروف شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ تین بھائیوں میں آپ سب سے بڑے تھے۔
ابتدائی تعلیم:
ابتدائی دینی تعلیم آپ نے جامعہ محمدیہ[2] مھدی آباد میں حاصل کی۔سرکاری تعلیم کا اصلا اس وقت رواج نہیں تھا، گاوں میں کوئی بھی سکول یا تعلیمی ادارہ موجود نہیں تھا، اس لئے اردو تعلیم حاصل نہیں کرسکے ۔ آپ کےوالد محترم حاجی غلام علی نے آپ کو جامعہ محمدیہ میں داخل کرایا، اور دو سال تک آپ اس جامعہ میں حصول علم میں مشغول رہے۔آپ کے ابتدائی اساتیذ شیخ علی نجفی اور آخوند غلام حیدر تھے جو اس وقت جامعہ محمدیہ میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ دو سال کے اس عرصے میں آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ عربی ادبیات (صرف،نحو) اور توضیح المسائل کے دروس میں شرکت کی۔آخوند غلام حیدر آپ کو ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے تھے کہ” تمہارے کاندھوں پرقوم کی ایک بہٹ بڑی ذمہ داری عائد ہے اور وہ یہ کہ ان کو صحیح راستے کی طرف لانا،جس کے لئے آپ کو مشکلات برداشت کرنا پڑے گی” اساتیذ کی ان نصائح اور کلمات حسنہ کو ذہن میں رکھتے ہوے تقریبا 1957 ءکی دہائی میں اعلی تعلیم کے حصول کےلئے ارض بلتستان کو خیرباد کہہ کرارض مقدس نجف اشرف کی طرف عازم سفر ہوے۔آپ کے ساتھ جناب شیخ غلام حسین مقدس (موجودہ سرپرست اعلیٰ جامعہ محمدیہ ٹرسٹ مھدی آباد) اور مولانا محمد علی لاہوری( خطیب وامام جمعہ جامع مسجد شاد باغ لاہور)تھے۔ آپ کو اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ایک سال تک لاہور میں رہنا پڑا، جس دوران لاہور کے ایک مدرسہ میں آپ نے قرآن حفظ کرنا شروع کردیا۔صرف ایک سال کے مختصر عرصے میں آپ نے قرآن مجید کے 12سپاروں کو حفظ کرلیا، شیخ محمد اسماعل (کواردو )آپ کے ہم کلاس تھے۔ لاہور قیام کے دورانایک موذن کی حیثیت سے ایک مسجد میں فرائض دینی انجام دیتے رہے۔
ایک سال بعد1960 میں آپ نجف الاشرف عراق کی طرف عازم سفر ہوے۔ لاہور سے بائی روڈ کوئٹہ پہنچے ، کچھ دنوں کے لئے کوئٹہ میں قیام پذیر ہوئے۔ کوئٹہ قیام کے دوران امام بارگاہ بلتستانیہ میں مجالس عزاٰ کی انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پھر وہاں سے مشھد مقدس ایران چلے گئے۔اس وقت ایران میں موجود ایک جلیل القدر مجتہد آیت اللہ سید حسین طباطبائی بروجردی کی رحلت ہوئی تھی۔نجف الاشرف عراق سے طلباء کا ایک نمائندہ وفد فاتحہ خوانی اور تعزیت کے سلسلے میں ایران پہنچا ہوا تھا ، اس وفد میں شیخ حسن علی چھٹپہ کتیشو (مرحوم) بھی موجود تھے، جو حوزہ علمیہ نجف میں زیر تعلیم تھے۔آپ ان کے ہمراہ نجف الاشرف چلے گئے جو آپ کی منزل مقصود تھی۔شیخ حسن علی (مرحوم) نے آپ کی بہت رہنمائی کی۔ نجف الاشراف میں اپ کو مدرسہ پاکستانیہ میں داخلہ ملا اور کچھ عرصہ وہاں پر زیرتعلیم رہے۔پھر مدرسہ آل کاشف الغطاء میں داخلہ لیا کچھ عرصہ اس مدرسہ میں حصول علم میں مشغول رہے ۔ اس دوران آپ نے عقائد، فلسفہ ، اور اصول فقہ ،شرح لمعہ کے دروس میں شرکت کی۔ تقریبا آپ نجف میں 12 سال رہے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی اور شھید صدر جیسی شخصیات کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔
اساتذ ہ کرام:
شیخ غلام رسول نجفی مرحوم نے جن اساتذہ کرام سے استفادہ کیا ، ان کے نام ہیں:
آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی
آیت اللہ العظمی سید روح اللہ خمینی رح
آیت اللہ العظمی سید محسن الحکم
شیخ محمد علی افغانی
حجۃ الاسلام سید مھدی روندی
حجۃ الاسلام شیخ محمد جو کواردو
حجۃ الاسلام شیخ علی شگری
آپ کے دینی خدمات:
دینی اور ملی خدمات کا جزبہ تقریبا تمام دینی علوم سے وابستہ علماء کرام اور طلاب میں موجود ہوتا ہے۔جب کسی مدرسہ یا دینی درسگاہ میں داخلہ ملتا ہے تو ابتدائی دروس میں ہی معرفت خدا وندی ، تزکیہ نفس اور خدمت خلق جیسے موضوعات پرگفتگو ہوتی ہے۔
شیخ غلام رسول نجفی زمانہ طالب علمی { عراق} میں بھی محافل و مجالس کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کرحصہ لتے تھے ،سنہ1972 کی دہائی میں آپ نجف سے واپس تشریف لائے، ارض بلتستان اس وقت دینی اور دنیاوی علوم سے بالکل محروم تھی۔ اس معاشرے کو معلم اور مبلغ کی اشدضرورت تھی ۔ خاص کر جس علاقہ (کتی شو) سے آپ کا تعلق تھا وہاں کے لوگ تعلیمی ، اقتصادی غرض ہر میدان میں زبوں حالی کا شکار تھے۔گاوں کے 95 فیصد لوگ دین کی بنیادی تعلیمات سے ناآشنا تھے۔ جب شیخ حسن مھدی آبادی (بانی محمدیہ ٹرسٹ) آپ کے ساتھ کتی شو میں آئے اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا” کتی شو پہلے اندیھرے میں تھا ،اب اللہ کے فضل سے روشنی آگئی ہے”
کتی شو میں آپ نے باقاعدہ نماز جماعت کا اہتمام کیا۔ بچوں کے لئے قرانی تعلیمات، عقائد اور توضیح المسائل کے دروس بھی شروع کروائے۔ گاوں کے ۸۰ فیصد لوگوں کو قران کی تعلیم دی۔اس کے ساتھ ساتھ “بوستان سعدی “جو کہ فارسی اشعار پر مشتمل ایک کتاب ہے کو پڑھانا شروع کیا، جو کہ اس دور کے باشعور افراد کو کتابو ں سے قریب کرنے کے لئے ایک قابل تعریف اقدام تھا۔ اس کے علاوہ آپ ایک مایہ ناز خطیب تھے ۔بلتستان کے لگ بھگ 50 سے زیادہ گاوں میں آپ نے مختلف مناسبتوں میں ،خاص کر ایام عزاء میں مجالس پڑھیں۔ یونین کونسل کتی شو کے تمام گاوں داپہ ، چھٹپہ، بلتی کھر ،بروق کھر، سندو، شمائل، کولتور اورقولی وا آ پ کے نورانی کلمات سے خاص طور پر مستفید ہوئے ۔ جبکہ کتی شو خاص{گمبہ راہ،گونگمہ راہ} کے آ پ مستقل خطیب تھے۔ اور آپ مھدی آباد ، سکیمدان سکردو، شگر چھورکا،اور گمبہ سکردو کے امام باگاہوں میں بھی مختلف مناسبتوں میں خطاب فرمایا کرتے تھے۔آپ تقریبا ۴۵ سال تک خدمت دین میں مصروف رہے۔
سیاسی خدمات:
علمائے نجف سیاست سے ہمیشہ دور رہتے تھے ۔ ان کا طرز فکر ہمیشہ مذہبی رہا ، خطابت ، درس و تدریس ان کے اولین ترجیہات میں سے تھے۔ اگر چہ علاقہ کے سیاسی نمائندوں نے ہمیشہ ان علماء کرام کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرنے کی پھر پور کوشش کی، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ان تمام سازشوں سے دور رکھا۔شیخ غلام رسول نجفی بھی ان علماء میں سے تھے، جنہوں نے کبھی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کی۔ جب سنہ ۱۹۹۷ میں تحریک جعفریہ پاکستان نے ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا ، تو ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ شیخ غلام رسول نجفی مرحوم کو ۵ سال کے لئے یونئن کونسل کتی شو کا صدر منتخب کیا گیا ۔ آپ تحریک جعفریہ پاکستان کے ایک کارکن کی حیثیت سے علاقے میں ہونے والے تمام پرگرامز میں شرکت کیاکرتے تھے۔اس کے علاوہ مرکزی سطح پر ہونے والے پرگراموں میں بھی آپ نے نمائندگی کی۔
زندگی میں پیش آنے والی مشکلات:
مشکلات انسانی زندگی کا حصہ ہیں ۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس نے مشکل کا سامنا نہ کیا ہو۔ چاہے ان کا تعلق امیر طبقے سے ہو یا غریب طبقے سے، ہاں مشکلات کی نوعیت میں فرق ہوسکتا ہے۔ خاص کردینی علوم سے وابستہ علماء کرام کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بلتستان میں نجفی علماء کرام کافی مشکلات میں رہے۔نجف سے واپسی پر ان علماء کرام کے پاس علو م آل محمد کا خزانہ مو جود تھا لیکن اقتصادی طو ر پر بد حالی کا شکار تھے۔لیکن انہوں نے جس مقصد اور ہدف کو سامنے رکھ کر علم دین حاصل کیا اس پر ثابت قدم رہتے ہوئےدین اسلام کی نشر و اشاعت ہر لحظہ اور ہر قدم پر جاری رکھی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ بلتستان کے عوام آج بھی ان علماء کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
شیخ غلام رسول نجفی مرحوم کو زندگی میں ایسی ہی مشکلات کا سامنا رہا۔آپ کا تعلق جس علاقے سے تھا وہاں کے لوگ غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ لوگ تعلیمی اور اقتصادی حوالے سےبد حالی کا شکار تھے۔آپ کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں تھے۔اور جسمانی طور پر معذور بھی تھے۔ اس عالم میں آپ نے اس معاشرے میں قدم رکھا۔آپ کے لئے سب سے مشکل کام جہالت سے مقابلہ تھا۔کیونکہ لوگ صدیوں سے جس فرسودہ تہذیب و ثقافت سے وابستہ رہے تھے، ان میں تبدیلی لانا اوراس معاشرے میں اسلامی اقدار کو زندہ کرنا بہت ہی سخت کام تھا۔جن میں بعض اوقات لوگوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا بھی ہوتاتھا۔ آپ نے ان تمام مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے خدمت دین جاری رکھی۔
وفات :
زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کی وجہ سے آپ ۶۵ سال کی عمر میں بیمارہوگئے اورعلاج و معالجہ کے لئےوسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے بروقت علاج بھی نہیں کراسکے۔ جب آپ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ کوسی ایم ایچ سکردو منتقل کیا گیا، وہاں پر آپ کا کامیاب آپریشن ہوا۔ لیکن اس کے ایک سال بعد ۲۵ نومبر ۲۰۱٠بمطابق ۱۸ ذی الحج۱۴۳۱ھ بروز جمعرا ت کو آپ جب دوبارہ سخت بیمار ہوگئے تو صبح عید غدیر کے پروگرام کے بعد آپ کو ڈی ایچ کیو ہسپتال سکردو منتقل کیا گیا ، لیکن منظور خداوندی کچھ اور ہی تھا لہذا اسی دن سہ پہر ۳ بجے آپ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔آپ کےجسد خاکی کو آبائی گاوں کتی شو منتقل کیا گیا اور وہاں پر آپ کو دفن کیا گیا۔اس وقت آپ کی عمر ۷۴ برس کی تھی ۔ آپ کی وفات پر قائد بلتستان علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے نماز جمعہ کے خطبہ میں اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا ” شیخ غلام رسول ایک عالم باعمل تھے اور ان کے دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں “۔مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی نے بھی آپ کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا اور فرمایا” شیخ رسول مرحوم نجف الاشرف میں ہمارے رفقاء میں سے تھے خدا ان کی مغفرت کرے” جبکہ آپ کے قریبی رفقاء میں سے شیخ محمد عیسی نجفى بھی تھے[3]، انہوں نے شیخ غلام رسول مرحوم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا” شیخ غلام رسول نجفی صاحب ایک انتہائی باعمل اور خوددار عالم دین تھے،اور انہوں نے سادگی میں زندگی گزاری، علاقہ کتی شو میں ان کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں ،انہوں نے پوری زندگی مجالس حسینی کی خدمت میں گزاری” آپ کے اولاد میں چھے بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں ان علماء کرام کی سیرت پر چلنے کو توفیق عطاء فرمائیں ۔۔۔آمین
الحقیر: محمد عسکری کریمی۔ جامعہ الکوثر اسلام آباد
حوالہ/وضاحت
[1] الکافی، للشیخ کلینی،ج۱،ص۳۴
[2] جامعہ محمدیہ مھدی آباد بلتستان کے قدیم دینی درسگاہ ہے۔جس کا بانی شیخ حسن مہدی آبادی ہے۔اس جامعہ اور اس سے منسلک دیگر اداروں سے اب تک سنکڑوں علماء ، اساتیذ، مفکرین اور دیگر شعبہ ہائےزندگی سے تعلق رکھنے وا لی ہزاروں شخصیات پیدا ہو چکی ہیں۔محمدیہ ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کی تعداد اس وقت 20 سے زیادہ ہے۔ابتدائی دینی تعلیم کے لئے والدین اپنے بچوںکو ان مدارس میں داخل کراتے ہیں۔
[3] شیخ محمد عیسی نجفی(دام ظلہ) مقیم بھٹو بازار سکیمدان سکردو۔ شیخ صاحب محکمہ شریعہ سکردو کے ممبر بھی رہے اور جامعہ منصوریہ سکردو میں ایک استاد کی حیثیت سے کافی عرصہ تدریسی فرائض بھی انجام دئے، اور ابھی پرانا بازار سکردو کی مسجد میں ایک پیش امام کی حیثیت سے فرائض دینی ادا فرما رہے ہیں۔خدا شیخ صاحب کو طویل عمر عطاء فرمائے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید