تازہ ترین

آغا سيد جعفر شاه تهگس

تحریر : سید بشارت حسین تھگسوی

thagasvi1992@gmail.com

قَالَ الله تَعالی : يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ الَّذينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجاتٍ‏.( سورہ مجادلہ ،آیت ١١)

ترجمہ :خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ، ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔

علم انسان کے نفس میں تحول ایجاد کرکے نفسانی حالات کو مضطرب کرتا ہے ۔ علم و دانش کی وجہ سے نفس میں ایجاد ہونے والا تحول ، انسان کو کمال کے درجات تک پہنچاتا ہے ۔ علم و دانش اور اعلیٰ مراتب پر فائز ہونا ، دانشمندوں کو جاہلوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ خداوند متعال اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

شئیر
25 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4050

قُلْ هلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ۔( سورہ زمر، آیت ٩)

ترجمہ: کہہ دیجیے :کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ، ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ؟

ز دانش زنده ماني جاوداني ز ناداني نيابي زندگاني

بود پيدا بر اهل علم ،اسرار ولي پوشيده گشت از چشم اغيار

نه بهر خورد وخوايي همچون حيوان براي حکمت و علمي چوانسان

ترجمہ : تم علم و دانش ہی سے زندہ و جاوید رہ سکتے ہو نادانی و جہالت میں تمہیں زندگی نہیں ملے گی ، اہل علم پر وہ اسرار بھی کھل جاتے ہی کہ جو جاہلوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ حیوان ی طرح کھانے پینے اور سونے میں مصروف نہ رہو بلکہ انسان کی طرح علم وحکمت کے حصول کی کوشش کرو کیونکہ علم ہی انسان کو حیوان کو ممتاز کرتا ہے ۔

دین کی نظر میں علم و دانش کا حصول انتہائی اہم ہے جس کی اہمیت کی وجہ ہمارے اذہان سے بالاتر ہے ،البتہ کچھ شرائط کو مد نظر رکھیں کہ جنہیں خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے ۔ علم نہ صرف انسان کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے ، بلکہ یہ عبادات کی قسم بھی ہے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

تَذَكُّرُ الْعِلْمِ‏ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ قِيَامِ لَيْلَةٍ. ( علمی گفتگو میں گزارنے والا ایک گھنٹہ ایک رات کی عبادت سے بہتر ہے ۔)( بحار الانوار ،ج 1، ص ۲۰۴)

یہ بدیہی بات ہے کہ ایک گھنٹہ علمی گفتگو میں گزارنا ، اس صورت میں ایک رات عبادت میں گزارنے سے بہتر ہے کہ تعلیم و تعلم سے تقرب الہیٰ کے علاوہ کوئی قصد نہ ہو ۔ 

اسی طرح تعلیم حاصل کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے افراد کو بھی تعلیم دیں ۔ اس طرح سے اگرچہ علم کم ہو لیکن ایک دوسرے کو تعلیم دینے سے یہ ہزاروں افراد میں فروغ پائے گا ۔

علم و دانش کی اتنی اہمیت کی پیش نظر بہت سارے افراد اس راہ پر چل پڑتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس راہ میں کامیاب ہوتے ہیں ۔بلتستان میں شروع سے دینی علوم کے حصول کا جذبہ لوگوں میں موجود تھا جس کے نتیجے میں بہت سے افراد نے اس زمانے میں نجف اشرف اور دیگر حوزات علمیہ  کا رخ کیا اور کامیاب ہوئے انہیں افراد میں سے ایک سید جعفر شاہ مرحوم مقیم تھگس تھے۔

تھگس کا تعارف 

تھگس کا شمار ضلع گانچھے کے اہم علاقوں میں ہوتا ہے کیونکہ دنیا کے مشہور ترین پہاڑی سلسلے مشہ بروم اور گشہ بروم کے علاوہ پاکستان و ہندوستان کے اہم ترین بارڈر سیاچن  اسی علاقے میں ہے ،خپلو خاص سے تھگس کا فاصلہ ۳۵ کلومیٹر پر مشتمل ہے اور یہ سب ڈویژن مشہ بروم کا ہیڈکوارٹر ہے یہاں پر مقامی آفیسران اعلیٰ [اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار ، ڈی ایس پی ، ایس ڈی پی او، تھانہ ] کے دفاتر موجود ہیں ۔اس علاقے میں مشہور ولی اللہ اور مبلغ اسلام حضرت میر عارف قدس سرہ اور حضرت میر اسحاق رح کا آستانہ عالیہ بھی موجود ہیں ، جہاں پر بلتستان کے اکثر علاقوں سے عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد یہاں آتے ہیں۔

تھگس کی کل آبادی دقیقامعلوم نہیں تا ہم یہاں پر تین سو پچاس گھرانے موجود ہیں جن میں سے تین سو نوربخشیہ ،پینتالیس اہل تشیع ،دو اہل حدیث اور دو اہل سنت ہیں ۔تھگس کے اندر کل مندرجہ ذیل تیرہ محلے ہیں :۱۔خانقاہ گرونگ ۲۔فرول ۳۔ خراٹ ۴۔ الدے گرونگ ۵۔ بغماچو ۶۔ نیوٹی چن ۷۔ بندائی گرونگ ۸۔ سادات کالونی ۹۔ عارف آباد ۱۰۔چن سوق ۱۱۔ تھلدی ۱۲۔ڈھنگ ۱۳۔گربی گرونگ۔تھگس کے مشرق میں سینو اور مغرب میں ہلدی نامی گاوں ہے ۔

آغا سيد جعفر شاه

سید جعفر شاہ ضلع گانچھے خپلو کے علاقہ چھوربٹ کے گاؤں فرانو میں ۱۹۲۹  عیسوی کو سید جمال الدین کے ہاں  پیدا ہوئے ۔سیادت کے لحاظ سے آپ موسوی سید ہیں جن کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔ آپ بچپن سے ہی ذہین اور دیندار تھے ۔ آپ  نے ابتدائی تعلیم سید مختار مرحوم [خپلو خاص] سے حاصل کی ۔ مزید حصول علم کے لئے ۱۹۴۵ ءمیں نجف اشرف عراق کی طرف رخت سفر باندھ لیا اور مسلسل پندرہ سال یعنی ۱۹۶۰ تک در امیر المومنین علیہ السلام سے کسب فیض کرتے رہے ۔ ۱۹۶۰ ء میں واپس اپنے آبائی گاؤں فرانو چھوربٹ واپس تشریف لاکر تبلیغ دین اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔ 

نو سال اپنے آبائی گاؤں میں تبلیغ و تدریس کے بعد ۱۹۶۹ ءمیں تھگس کے مومنین کی جانب آپ کو یہاں آنے کی دعوت دی جسے آپ نے قبول کیا ۔ یوں آپ یہاں مستقل رہائش پذیر ہوئے اور آخری زندگی تک یہاں دینی خدمات میں مصروف رہے ۔ 

اساتید و شاگرد 

آغا سید جعفر شاہ نے مقدمات کی تعلیم مشہور استاد آیت اللہ محمد علی مدرس افغانی کے پاس حاصل کی ۔ فقہ و اصول کی تعلیم کے بعد اس وقت کے  مشہور مرجع آیت اللہ العظمیٰ ابو القاسم خویی کے درس خارج میں بھی شرکت کی ۔آپ نجف اشرف میں درس و تدریس بھی کیا کرتے تھے ۔ پاکستان میں آپ کے مشہور شاگردوں میں حجت السلام شیخ علی مدبری، شیخ حافظ کامونکی اور شیخ رحیم اللہ سکردو شامل ہیں ۔

آغا سيد جعفر شاه کي اولاد

آپ کی شادی خانہ آبادی چھوربٹ میں ہی ہوئی ،لیکن  پہلی زوجہ کی وفات کے بعد آپ نے دوسری شادی تھگس سے ہی کی ۔ دونوں ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔ آپ کا بڑا بیٹا سید ذوالفقار علی جامعہ منتظر لاہور کا فارغ التحصیل ہیں ۔ وہ اس وقت سرکاری ادارے میں مدرس کے علاوہ تھگس میں مسلک شیعہ کے پیروکاروں کا امام جمعہ و جماعت بھی ہیں ۔ جبکہ دوسرا بیٹا سید کاظم اس وقت جامعہ ولایت اسلام آباد میں زیر تعلیم ہیں۔

عبادت و ریاضت 

آغا سید جعفر شاہ مرحوم جہاں علمی حوالے سے باکمال شخصیت کے مالک تھے وہاں معنوی لحاظ سے بھی بے مثال عالم دین تھے ۔ آپ بچپن سے ہی دیندار اور نماز روزے کا پابند تھے۔آخری عمر تک نماز تہجد قضا نہیں کی ۔ ان کے  زہد و تقویٰ  اور پرہیز گاری کے حوالے سے تھگس اور گردو نواح کے تمام مسالک کے لوگ معترف ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ تھگس میں شیعہ و نوربخشیہ دونوں کے ہاں ہر دلعزیز اور قابل احترام تھے ۔ لوگ اپنے معاملات خصوصی دعا و حاجتوں کے لئے آپ سے رجوع کرتے کیونکہ آپ پورے سب ڈویژن مشہ بروم میں ایک مستجاب الدعوات عارف کے طور جانے جاتے تھے  ۔ 

خطابت 

آغا سید جعفر شاہ جہاں ایک بزرگ عالم دین کے طور پر جانے جاتے تھے وہاں ایک بہترین خطیب اور ذاکر ابا عبداللہ الحسین بھی تھے ۔ آپ مصائب آل محمد بیان کرنے کے لئے منبر پر تشریف لے جاتے تو حاضرین میں گریہ و زاری شروع ہوتی تھی۔ آپ واقعہ کربلا ایسے بیان فرماتے کہ گویا تمام مناظر کربلا آپ کے سامنے ہیں۔ اسی وجہ سے پورے مشہ برو م سے لوگ ایام محرم میں خصوصی طور آپ کی مجالس میں شرکت کے لئے جوق درجوق آتے تھے ۔

تواضع و انکساری

آپ حد درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے شاید اس تواضع اور انکساری کے صلہ میں پروردگار عالم نے آپ کو عظمت و رفعت کا مالک بنادیا تھا ۔نام ونمود کے جذبہ سے عاری خاموشی کے ساتھ تبلیغ دین اور خدمت خلق میں زندگی بسر کرنے والے شہرہ آفاق ہونا ہر جگہ عزت و احترام سے نام لیا جانا اسی خاکساری کا انعام ہے۔جو آپ سے ملاقات کرتا آپ کا گرویدہ ہو جاتاتھا اور تا آخر عمر آپ کی تعریفیں ہی کرتے رہتے۔

حلم و بردباری

حد درجہ متین ،حلیم الطبع اور بردبار تھے۔ کوئی بھی موضوع گفتگو ہو روئے سخن کسی کی جانب ہو متانت و بردباری کا عنصر آپ کے لہجے میں نمایاں نظر آتا ۔ کسی کے لئے بھی آپ درشت و طنزیہ یا ہتک آمیز لہجہ اختیار نہ کرتے اور نظریاتی اختلاف کے باوجود مقابل کا احترام ہمیشہ ملحوظ رکھتے۔ عام حالات میں متانت برقرار رکھنا آسان ہے مگر بحث و مباحثہ اور جواب الجواب کی منزل میں بہت دشوار ہوتا ہے مگر آپ حد ادب کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔

سفر حج و زیارت 

دوران طالب علمی میں عراق اور ایران کی زیارتوں کے علاوہ کئی بار بلتستان سے مقامات مقدسات کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اس کے علاوہ حج بیت اللہ شریف کا شرف بھی حاصل ہو ا۔  

آغا جعفر شاہ کی وفات 

آپ آخری عمر میں کمر درد کی بیماری میں مبتلا ہوئے جس کے علاج کے لئے آپ فرزند آغا سید ذوالفقار علی نے کراچی لایا یہاں پر آپ حجت السلام شیخ مدبری کے ہاں مقیم رہے  ۔ تمام تر کوششوں کے باجود مکمل علاج ممکن نہ ہوا اور آپ کے اصرار پر دوبارہ تھگس لایا گیا یوں بروز جمعہ ۱۶ مارچ ۲۰۰۷ کو ۷۸ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ آپ کو جامع مسجد اثنا عشری تھگس کے جنوب میں سپرد خاک کیا گیا ۔ 

خدا ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے ۔

نتیجہ 

بلتستان ایسی سرزمین ہے جہاں پر دینی لحاظ سے اہم شخصیات نے جنم لی ہیں ۔ تاریخ نگاری اور ان کی سوانح صفحہ قرطاس پر نہ آنے کی وجہ بہت سارے علمائے کرام کی زندگی اور ان کی خدمات کے لوگ کچھ نہیں جانتے ۔ انہی شخصیات میں سے ایک آغا سید جعفر شاہ موسوی المعروف “آغا” تھے۔ آپ کا اصل تعلق ضلع گانچھے کے آخری گاوں فرانو سے تھا مگر نجف اشرف سے واپسی کے بعد تھگس کے لوگوں کی دعوت پر تبلیغ کے خاطر وہیں آگئے اور تا دم مرگ خدمات دین میں مصروف رہے ۔ آپ انتہائی ملنسار، متواضع اور پرہیزگاری عالم دین ہونے کے ساتھ بہترین خطیب اور بحر المصائب ذاکر ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام بھی تھے ۔ آپ اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعیوں میں سے تھے اسی وجہ سے سب ڈویژن مشہ بروم میں بلا تفریق سب آپ کی عزت و احترام کے قائل تھے ، آپ کی اسی سیرت پر آپ کا فرزند آغا سید ذوالفقار علی بھی چل رہے ہیں ۔ دعا ہے کہ مرحوم کو جوار محمد و آل محمد میں اعلیٰ مقام نصیب فرما۔

نوٹ :

آپ کی زندگی کے احوال کے حوالے سے کوئی منابع میسر نہیں تھا اس لیے ہم نے ان کے فرزند ان آغا  سید ذوالفقار علی اورآغا  سید کاظم سے اس حوالے سے انٹرویو بھی کیاہے اور بعض باتوں کا راقم خود عینی شاہد بھی ہوں ۔

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *