حجت الاسلام والمسلمین شیخ علی محمد/تحریر: محمد یوسف کریمی
بلتستان کے نامور عالم دین شیخ علی محمد سن ۱۹۲۷ میں پیدا ہوئے۔آپ نے ناظرہ وتجوید اور قرآن کریم اپنے خاندان کے آخوند کاظم سے حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم صرف نحو جودی وغیرہ کھرمنگ یورنگوت کے آخوند امداد کے والد محترم آخوند حسین سے حاصل کی۔استاد محترم شیخ حافظ حسین نوری اپنے استاد شیخ علی محمد کا یہ واقعہ نقل کرتا تھا اس زمانہ میں صرف کی ایک کتاب کو ایک من ( چالیس کلو ) جو دے کر خریدا تھا کتابیں نایاب تھیں ۔ اساتید بہت کم تھے ۔
تعلیم کی اہمیت سے لوگ آگاہ نہیں تھے ۔ اس زمانے میں شیخ علی محمد بچپنے میں والدین ، رشتہ داروں اور وطن سے دور ، پردیس کی تمام تر مشکلات برداشت کر کے علوم ال محمد ﷺ حاصل کرتے رہے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین سلام کی ترویج و تبلیغ شروع کی ۔ اس کے بعد علاقے کے اس وقت کے سب سے عالم حجت الاسلام شیخ علی برولمو کی بارگاہ میں شرف یاب ہوئے۔ اوردوبرس شیخ علی برولمو سے کسب فیض کیا۔لیکن علمی پیاس اور شوق و جذبہ نے رہنے نہیں دیا اور آپ ۱۹۵۰ میں اعلی تعلیم کے لیے نجف اشرف روانہ ہوئے۔وہاں مدرسہ دوام میں اداخلہ لیا اور شیخ نوروز افغانی اور شیخ محمد علی افغانی سے فیض حاصل کیا ۔ اس کے علاوہ مسجد خضرا میں آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں شرکت کرتے تھے ۔کچھ عرصہ کے بعد حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ تدریس بھی کرنے لگے۔ آپ کا شمار نجف اشرف کے ممتاز اساتذہ میں ہوتا تھا ۔چودہ سال نجف اشرف میں گزرانے کے بعد واپس وطن آئے کچھ عرصہ گاوں میں گزارنے کے بعد دوبارہ نجف اشرف تشریف لے گئےاور چار سال کے بعد دوبارہ وطن واپس آئے۔ آپ طالب علمی کے دور میں بہت محنتی اور جدی تھے ۔ جب تک درس حل نہ ہوتا کلاس سے نہیں جا تا تھا اور جب تک درس یاد نہ ہو ہیں سوتا تھا اسی لیے اس تعلیمی پسمانہ علاقے میں پیدا ہونے کے باوجود حوزہ نجف اشرف میں استاد مقرر ہوے۔
علاقے میں دینی اور علمی خدمات
وطن واپسی کے بعد اینگوت میں تبلیغ شروع کی ۔لوگوں کو قرآن ، احکام اور ضروریات دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو صرف و نحو وغیرہ بھی پڑھانا شروع کیا ۔لوگ رات کو آپ کے گھر میں جمع ہوتے تھیں جہاں آپ احکام عملی اور تاریخ کا درس دیتے تھے بلخصوص حملہ حیدریہ سنایا کرتے تھیں لوگ بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھےباالخصوص شیر خدا کےدشمنوں سے معرکوں کا بیان ہوتا تو حاضرین جھوم اٹھتے نعروں اور صلوۃ کے ساتھ خوشی کا بھرپور اظہارکرتے۔ ایک دوسروں کو مبارک باددیتے تھے ۔کھرمنگ بھر سے تشنگان علم اینگوت آکر آپ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور آج بھی آپ کے ان شاگردوں کی ایک تعداد موجود ہیں۔ آپ کی علمی شخصیت سے متاثر ہو کر شیخ محمد حسن مہدی آبادی نے مہدی آباد بلایا اور جامعہ محمدیہ میں تدریس کرنے کی گذارش کی جسے آپ نے قبول کیا اور دس سال اینگوت میں خدمات انجام دینے کے بعد آپ مہدی آباد منتقل ہوئے ۔کچھ عرصہ مہدی آباد میں گزارنے کے بعد سکردو تشریف لائےاورکشمیری محلے میں رہائش اختیار کی۔۔تبلیغ کے ساتھ ساتھ مدرسہ محمدیہ اور محلے کی مسجد میں تدریس شروع کی۔ گھر میں قضاوت کرتے تھے ۔ محکمہ شرعیہ میں اگر کوئی مسئلہ حل نہ ہو تو آپ کو بلاتے تھے ۔ یا سائلین کو آپ کے گھر بھیجاجاتاتھا۔اگر چہ آپ نے محکمہ شرعیہ میں باقاعدہ طور پر فرائض انجام نہیں دیے لیکن اس وقت قضاوت میں آپ کا فیصلہ حتمی اور اٹل سمجھا جاتا تھا اور خود قائد بلتستان شیخ غلام محمد آپ سے رجوع فرماتے تھے۔آپ شیخ علی محمد اینگوتی کے نام سے مشہور تھے کل بلتستان سے لوگ مختلف مسائل لے کر اور بالخصوص اگر علما سے کوئی مسئلہ حل نہ ہو تو آپ سے رجوع کرتے تھے۔ آپ دین اسلام کی تبلیغ کے لیے بنگلہ دیش تک گئے اور ایک سال وہاں خدمات انجام دیں۔۔ علوم قرآن واہل بیت کی ترویج و تشویق کے لئے آپ مختلف علاقوں کے دورے کرتے تھے تا کہ علوم ال محمد کو لوگوں تک پہنچایا جا سکے ۔ دورہ بنگلہ دیش کے بعد دوبارہ وطن واپس آئے اور سکردو حاجی گام میں قیام فرمایا اور یہاں پر مسجد کی امامت کرنے کے ساتھ سینککڑوں تشنگان علم کو علوم قرآن و اہل بیت سے روشناس کرایا۔۔۲۰۰۱کو داعی الہی کو لبیک کہا اور قتل گاہ شریف سکردو میں مدفون ہیں ۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید