تازہ ترین

قائدشمالی علاقه جات علامه شیخ غلام محمد غروی اعلی اللہ مقامہ/تحریر : محمد حسین حیدری

تاریخ بلتستان کا ایک ناقابل فراموش شخصیت،قائدشمالی علاقه جات علامه شیخ غلام محمد غروی اعلی اللہ مقامہ

پیغمبرگرامی اسلامﷺ کا فرمان هے : میرے امت کا بهترین فرد وه هے جولوگوں کو خدا کی طرف بلائے اور بندگان خدا کو اپنا دوست بنائے انبیاء اور اولیای الهیٰ کےبعد علمائے با عمل بهترین افراد امت کے زمرے میں گنے جاسکتے هیں اور بلاشبه فرمان ، رسول اکرمﷺ کے مطابق بهترین امت میں شامل هیں . انهیں علماء با عمل میں سے ایک فرد علامه شیخ غلام محمد غروی کی ذات هے . علامه کی مقام شخصیت کو اجاگرکرنے کے لئے سب سے پهلے ان کے خاندانی پس منظر پر مختصر نظر ڈالنی پڑے گی ۔

شئیر
28 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4087

آپ کے دادا کانام غلامحمد هے اور والدبزرگوار کا نام حاجی هاشم هے آپ کے والد مرحوم اپنے وقت کے جیّد علما میں سے تھے آپ کا پورا نام علامه شیخ غلام محمد غروی هے اپنے داداکے انتقال کےبعد پیدا هوئے لهذ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کا نام اپنے دادا کے نام سے منسوب کرتے هوئے غلام محمد رکھا گیا ، آپ کاتعلق ارض بلتستان کے ایک مشهور اور علماء دوست علاقه ضلع کھرمنگ سے هے۔ آپ 1362هجری میں ضلع کھرمنگ کے سب سے بڑے گاؤں پاری کے ایک علمی گھرانے میں پیداهوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول کرگل سے شروع کیا ۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے دینی تعلیم کا بھی ابتداء کیا اور آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیا ۔

گیاره سال کی عمر میں آپ کے والد محترم مرحوم نے دینی تعلیم حاصل کرانیکی غرض سے کرگل کی جائیدا فروخت کرکے عراق لے گئے۔ پانچ سال تک آپ نے حوزه علمیه کربلای معلی میں تعلیم حاصل کی ، اور چھ سال نجف اشرف میں گیاره سال کی اس کم مدّت میں حوزه علمیه عراق سے فارغ التحصیل هو کر آپ 22 سال کی کم عمری میں واپس بلتستان آئے ، علامه مرحوم اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ارض بلتستان پهنچنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں پاری میں ایک سال تک تشریف فرمارهے ، ایک سال تک اپنے آبائی گاؤں پاری میں رهنے کے بعد آپ گول ، تشریف لائے اور وهیں سے آپ نے پهلی بار درس و تدریس کا سلسله شروع کیا مختصر عرصه گول میں قیام کرنے کے بعد آپ ارض بلتستان کے مرکزی شهر سکردو تشریف لائے ، مختصر سے عرصه میں آپ کی خداداد صلاحیتوں ، علم ،حلم ،برد باری، اور تقویٰ سے پورے بلتستان میں آپ کی شهرت هوئی ۔

آپ کے دانشمندانه فیصلے تاریخ میں سنهرے حروف میں لکھے جانے کے قابل هے خواه   وه فیصلے شرعی هو یا سیاسی ، آپ هر فیصلے میں قرآن و سنت اور علماء کی رائے کو فوقیت دیا کرتے تھے ، همیشه علاقے کا مفاد آپ کے فیصلوں کا محور هوتاتھا ، کوئی بھی فیصلے آپ نے اپنے طور پر نهیں کیا بسااوقات علماء کے علاوه معززین اور دانشور حضرات کوبھی رائے میں شامل کیا کرتے تھے، آزادی بلتستان سے لیکر ان کے آخری ایاّم تک جتنے سیاسی اقدامات انهوں نے اٹھائے قومی مفاد میں رهے ، جهان تک شرعی فیصلوں کا تعلق هے ، انهوں نے بلتستان میں محکمه شرعیه قائم کرکے شرعی عدالت قائم کی جس میں بلتستان کے غیور عوام کو بغیر کسی فیس کے قرآن و سنت کے مطابق انصاف فراهم هوتا تھا ، آپ هر فیصلے کو کمال تدبر ، فهم ، عقل اور دور اندیشی سے کام لیکر کیا ، اور کسی کا حق ضائع نه هونے دیا ، یهی وجه هے که آج تک ان کا کوئی شرعی فیصلہ کسی قانونی عدالت نے نه توڑ سکا نه کوئی تبدیلی آج تک هوئی۔ آپ کے پوری حیات میں ارض بلتستان کے عوام شریعت کے پابند تھے ، محکمه شرعیه کے علاوه گاؤں اور محلوّں کے سطح پر پورے بلتستان کے علاقوں میں لوگوں کی تنازعا ت کو حل کرتے تھے یه سلسله آج بھی جاری هے اور جو تنازعات ان زمه دار افراد سے حل نه هوتے تھے محکمه شرعیه بلاکر خود فیصله سنایاجاتا گویا ان کے هر قسم کے فیصلوں میں فهم و فراست ، عدل و انصاف ، قوی مفاد ، دینی مفاد اور تدبر کابڑا عمل دخل هے ، تاریخ گواه هے که ان کے هر فیصلے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نادر اور قیمتی بنتے گئے اور هر لحاظ سے قومی مفاد اورهرزاویے سےسود مند ثابت هوئے ۔

علامه کی زندگی کا جائزه لیں تو معلوم هوتاهے که آپ عرفان کی ان بلندیوں پر فائز تھے جن تک رسائی کی هر شخص تمنا کرتاهے ، ان کی پوری زندگی درد والم ، شعور و آگاهی سے بھرپور نظر آتی هے ، ذات خدا کے ساتھ آشنائی کے درد کے حوالے سے ان کے قریبی ساتھی بخوبی جانتے هیں ، که وه کتنے عبادت گزار تھے ، انهوں نے مشکل ترین وقت میں بھی نماز تهجد ترک نهیں کی ، اسکے ساتھ ساتھ ان کی پوری زندگی زکر حقیقی کی ترجمان نظر آتی هے ان کے بارے میں ارض بلتستان کے هر فرد جانتے هیے که هر معامله میں چاهے وه ذاتی هو ، یا گروهی عقلائی هو یا مملکتی سیاسی هو یا مذهبی صرف اور صرف رضائے الهیٰ کو مدّ نظر رکھا کرتے تھے .خدا پر ان کے توکل کا یه عالم تھا که آپ انتهائی بے سروسامانی کے عالم میں بھی کسی سے نهیں دبتے تھے ، نه کسی قسم کی لالچ میں آتے تھے اور وه خدا کے علاوه کسی بھی دیگر طاقت سے خائف نه هوتے تھے ، وه خدا کے صفت ( غنی ) سے اس حدتک متصف تھےکه آپنے لئے کسی چیزکی تمنا نه کی تو یه سب ان کی شخصیت کے عرفانی پھلوهی کے مظاهر هیں .

جرائت و بہادری کے حوالے سے علامه مرحوم میں باطل قوتوں سے ڈٹ کر مقابله کرنے کی صلاحیت موجود تھی ، آپ نے کبھی بھی کسی ظالم و جابر حکمران کے سامنے سر نهیں جکایا مظلوم کی حمایت اور ظالم و جابر کا مقاله آپ کے سرشت میں شامل تھا کبھی بھی بیروکریسی کے سامنے دب کر بات نهیں کی باطل حکمرانوں سے مقابے کا انداز بڑا عجیب تھا جب مقابلے میں آتے تو مخالف کو شکست کا سامنا کرنا هوتا تھا ، FCR کے زمانے میں پولٹیکل ایجنٹ بھرام گل خان سے مقابلے اور مراشل لا  درو میں ڈپٹی مارشل لاء ایڑ منسٹریٹر سے مقابله ان کی جرائت مندی و بھادری کا منھ بولتا ثبوت هے . کالے قانون FCR کے دور میں ظالم و جابر پولیٹکل ایجنٹوں نے راض بلتستان کے علاقوں میں فرقه واریت کی بنیاد ڈالنے کی مذموم کو ششیں شروع کئے جسمیں بھرام خان اور جبیب الرحمن جسیے کا نام آتے هیں اپنی تمام تر توانائی اور اختیارات کے باوجود علامه کا کچھ نهیں بگاڑ سکے اور حسرت دل میں لیکر گئے  که کاش هم تمام تر اختیارات کے باوجود علامه مرحوم کو جھکا نهیں سکے ، خداوند عالم نے علامه مرحوم کو وه صلاحیت عطا کی تهی که خدا کے علاوه کسی سے ڈرتے نهیں تھے  ضیاالحق جسیے جابر حکمران سے ملنے کیلئے علامه کی قیادت میں جب علماء کا وفد گئے تو علامه کو دیکھ کر جب ضیاءالحق کی آنکھیں خون آلوده هوگئے تو اس سے زیاده علامه کی آنکھیں خود بخود سرخ هونے لگے فرق اتنا تھا که وه سرخی باطل کی تھی یه سرخی حق کی تھی ، آپ اس سے اندازه کرسکتے هے جب علامه مرحوم نے ضیاء الحق سے مخاطب هوکر کھنے لگے که هم تم سے کچھ مطالبه کرنے نهیں آئے هیں بلکه صرف ایک بات پوچھنے آئے هیں که ایک هی کمشنری کے اندر ایک علاقه اسلحه سے لیس هزاروں ایکڑز جنگلات پر مرضی کا مالک اور اس کے ساتھ هی دوسرے علاقے میں هتیار پر پابندی اور جنگلات پر پابندی یه عوام کا سورں هے تم همیں جوار دین ، ضیاء الحق نے گھٹنے دباتے هوئے کها که آپ اپنے علاقه میں چار شعیوں اور چار سنیوں کو دیکھ کر بقول اس کے آپ کے آنکھیں کیوں سرخ هونے لگے تو علامه مرحوم نے فرمایا: تم پاکستان میں جھاں کهیں بھی چار شیعه دیکھتے هے تو آنکھیں خون آلوده کیوں هوجاتی هے ، یه انکی جرائت مند ی کا منھ بولتا ثبوت هے .

علامه کی شخصیت کو نکھارنے والا ایک اهم پهلو ان کا جذبه اتحادبین المسلمین هے جس کی وجه سے ارضی بلتستان کے غیور عوام امن و سکون کی زندگی بسر کررهے هیں علامه نے اپنی پوری زندگی میں اتحاد بین المسلمین کو اپنا شعار بنایا ، اور ایک لمحے کیلے بھی اس پر عمل سے غافل نه رهے یهی وجه هے که آپ هر مسلک هر فرقے اور هر طبقه زندگی میں هر دلعزیز تھے آپ نے هر طرح سے ارض بلتستان کے هر جگه امن و سکون کو بحال رکھنے کی کوشش کی ، جس کی مثال هم ضیاء الحق کے دور کا وه  واقعه لے سکتے هیں جب چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق نے قومی کاموں کی انجام دهی کیلے آپ سے کچھ ڈیمانڈ دینے کو کها تو آپ نے حکومت کا سیمنا گھر کو صفحه هستی سے مٹاکر اهلسنت والجماعت کو دینے اور باره لاکھ روپیئے کا مطالبه کیا تو اهلسنت اس سیمناگھر کے جگے پر دکانیں بنائیں اور مسجد کے لئے آمدن هو ،  اهلسنت، اهل حدیث اور اهل نوربخشی غرض جوبھی طبقه فکر هو آپ کے گردیده تھے اور آپ کے هر حکم پر بلاچون و چرا تسلیم خم هوتے تھے آپ کے نظر میں بھی ان کو بڑی عزت تھا ، 1988 کا هنگامه خیز واقعه جو که پورے گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاه ترین واقعه تھا اس هنگامه خیز واقعه میں بھی آپ نے اتحادبین المسلمین کے جذبه کو هاتھ سے جانے نه دیا نواجوانوں کو اتحاد کی تلقین کی اور خود آپ کی زات ان کی نگرانی فرماتے رهے آپ نے اپنی پوری زندگی میں هر موڑ پر نوجوان کو اتحاد اور شراکت عمل کی تلقین کرتے رهے جس کی بدولت آج ارض بلتستان امن کا گھواڑه نظرآتاهے اور انشاالله امن کا گهوراه رهے گا .

علامه مرحوم نے کھبی سیاست کرنے اعلان نهیں کیا لیکں اس کے باوجود شمالی علاقه جات کا هر سیاسی شعور رکھنے والا اس بات کی گواه هے که کوئی بھی سیاسی معامله چھوٹا هو یا بڑا   ان کے بغیر طے هی نهیں پاسکتا تھا ، علامه مرحوم نے اپنی پوری زندگی میں کھبی بھی اپنے آپ کو سیاست دان نهیں کها لیکن علاقے کے سیاست کے بارے میں علاقے کی سیاست دان اس وقت تک کوئی بھی سیاسی فیصله نهیں کیا جاسکتا تھا جب تک علامه کی رائی معلوم نهیں کرلیتا ، ایوب خان کی حکومت کا جب خاتمه هوا تو قائد عوام زوالفقار علی بھٹو پاکستان کی جمهوریت میں بر سراقتدار آیا تو انهوں نے اپنے سیاسی بصیرت کی بنیاد پر پیبلز پارتی ppp بنائی جب عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کا میاب هوگئی اور پورے پاکستان میں اس پارتی کو مقبولیت حاصل هوگئی تو زوالفقار علی بھٹومرحوم نے گلگت بلتستان میں بھی پارٹی کی قیام پر توجه دی تو شمالی علاقه جات کے مذهبی اور سیاسی اهمیت کے حامل شخصیت علامه شیخ غلام محمد غروی مرحوم سے رابطه کیلے اپنے دو معتمد ترین وزراء کو علامه کے پاس بھیج کر پیپلز پارٹی شمالی علاقه جات کی صدرات کی پیشکش کی مگر علامه مرحوم نے یه کهکر صدارتی پیشکش کو ٹھکرادیا که آپ کی پارٹی کمیونیزم کا پرچار کرتی هے جو اسلامی نظام شریعت سے متصادم هے ، جب بھٹو مرحوم کو یه پیغام ملا تو انهوں خورشید حسن میر کو دباره علامه مرحوم کے پاس بھیجا  اور پیشکش کی که آپ صرف پارتی کی صدارت قبول کریں یه همارے لئے اعزاز کی بات هوگی نظام آپ اپنا شرعی چلائیں اس میں پارٹی کی مداخلت نهیں هوگی ، علامه مرحوم نے نظام شریعت میں پارٹی کی مداخلت  نه کرنے شرط پر پیپلز پارٹی ppp شمالی علاقه جات کی صدارت کو قبول کیا ، اور شمالی علاقه جات کی سیاست میں پهلا سیاسی صدر هونے کابھی اعزاز حاصل کیا ، جو که علامه کا ایک حقیقی اور سچے سیاستمدار هونے کا منھ بولتا ثبوت هے . چند سال صدارت پر فائز رهنے کے بعد علامه نے اپنی شرعی زمه داریوں کی بنیاد پر پیپلز پارٹی شمال علاقه جات کے صدارتی عهدے سے استعفیٰ دیا ، اور اپنے شرعی اور دینی معاملات میں مشغول هوگئے اسکے بعد قائد ملت جعفریه علامه مفتی جعفر حسین اعلی الله مقامه شریف نے بلتستان کا پهلا دوره کیا تو علامه مفتی جعفر حسین مرحوم نے علامه شیخ غلام محمد غروی پر اپنی سابقه زمه داریوں کے علاوه تحریک جعفریه کی صدار ت کی زمه داری بھی سونپی گئی اس اهم زمه داری کو علامه مرحوم نے اپنی آخری حیات تک نھباتے رهے جب مسلم لیگ (ن ) کی ملک میں حکومت قائم هوئی تو مسلم لیگ (ن) کے وزیر امور کشمیر نے ایک مرتبه پھر گلگت بلتستان میں مذهبی منافرت پهلانے کی مذموم کوشش کی اور اپنے منصب و اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے هوئے الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد ایک حلقه کو فرقه واریت کی بنیاد پر تبدیل کیا جس کے نتیجے میں قائد شمال علاقه جات علامه شیخ غلام محمد غروی نے پورے شمالی علاقه جات میں الیکشن سے بائیکاٹ کا ا علان کیا اور پورے گلگت بلتستان میں اسی فیصد (80) لوگوں نے الیگشن سے بائیکاٹ کرتے هوئے قائد محبوب کے فرمان پر لبیک کها ، شمالی علاقه جات کے یونین کونسل سے لیکر ناردرن ایریاز کونسل تک کل 600 سیٹوں میں سے 400 سیٹوں پر مکمل بائیکاٹ هوا انتظامیه پوری طاقت استعمال کی گئی لیکن اس کے باوجود اتنی نشتوں کا بالکل خالی ره جانا علامه کی سیاسی قوت ، اور بصیرت کا واضح ثبوت هے ، مگر علامه کو زهنی تکلیف دینے کے لیئے وقت کے جابر حکومت کل چند کارندوں ، مهتاب عباسی اور وزیر امور کشمیر نے کچھ بے ضمیروں کو بلا مقابله منتخب قرار دیکر الیکشن کو درست قرار دینے کی نا پاک کوشش کی گئی ، مگر ان کے بلا مقابله منتخب کرائے هوئے لوگوں کو عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا اور مهتاب عباسی کو بھی رسوای نصیب هوئی جلد هی غبن کے الزام میں جیل جانا پڑا   اور کڑوروں روپیئے حکومت ادا کرنا پڑ ا، ادھر علامه کے بائیکاٹ کے فیصلے کو عوامی مقبولیت حاصل هوئی جس کے نتیجے میں ناردرن ایریاز کونسل کے ایلکشن میں تحریک جعفر یہ کے امیدواروں کو  واضح اکثریت سے کامبیابی حاصل کی، جو آج تک ایک بڑ ی مذهبی تحریک کی حیثیت سے مذهب حقه کی نشر و اشاعت کررهے هیں.

وفات

جمعه 26 جون 1992 مطابق 24 زی الحجه 1410 هجر کو 78 سال کی عمر میں علامه مرحوم اپنے لاکھوں چاهنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے . خدا وند عالم سے هماری دعا هے مرحوم کو جوار ائمه علیهم السلام جگہ عطافرما ( آمین ثم آمین)

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *